بھارت کا 34؍ سالہ شطرنج کا ماہر نوجوان کیسے ٹریڈنگ کے ذریعے ارب پتی بن گیا

January 16, 2021

کراچی (نیوز ڈیسک) ممکن ہے کہ نیٹ فلکس کی سیریز ’’کوئینز گیمبٹ‘‘ کی وجہ سے شطرنج کے کھیل میں ناظرین کی دلچسپی پیدا ہوئی یا بڑھی ہو لیکن بھارت سے تعلق رکھنے والے نوجوان ارب پتی نکھل کمات اس سے بہت پہلے ہی شطرنج کے ماہر تھے حتیٰ کہ 14؍ سال کی عمر میں اسکول چھوڑ کر کل وقتی طور پر یہ کھیل کھیلنا شروع کر دیا۔

امریکی ٹی وی سی این بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے نکھل کمات کا کہنا تھا کہ یہ کھیل انسان کو مشکل حالات میں منظم انداز سے، ایک نظام کے اندر رہتے ہوئے اور ساتھ ہی تخلیقی انداز سے کام کرنا سکھاتا ہے۔

نکھل کمات بھارت کے سب سے بڑے ٹریڈنگ بروکریج ’’زیرودھا‘‘ کے شریک بانی اور چیف انوسٹمنٹ افسر ہیں۔

آج، بھارت میں ریٹیل ٹریڈنگ کا 15؍ فیصد حصہ اسی پلیٹ فارم سے خریدا اور فروخت کیا جاتا ہے کیونکہ وبا کے دنوں میں بھارتی سرمایہ کاروں نے اسٹاکس کا رخ کیا تھا۔ لیکن جس وقت نکھل کمات نے 17؍ برس کی عمر میں اسکول چھوڑا اس وقت ان کی حکمت عملی یہ نہیں تھی کہ اسٹاکس کا کام شروع کیا جائے۔

عالمی سطح پر شطرنج کھیلنے کے باوجود پیشہ ورانہ کیریئر کا حصہ نہ بن پانے والے نکھل کو بیک اپ پلان چاہئے تھا۔ اپنے بڑے بھائی نیتن سے متاثر ہو کر انہوں نے اسٹاک ٹریڈنگ کا کام شروع کیا اور کم عمری سے ہی یہ کام سیکھنا شروع کیا۔

نکھل کا کہنا تھا کہ اسکول چھوڑنے کی وجہ سے میرے پاس کالج ڈگری نہیں تھی، اسلئے کوئی مجھے ملازمت پر رکھنا نہیں چاہتا تھا، اسلئے میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ مجھے کوئی ایسا کام کرنا چاہئے جس میں کالج ڈگری کی ضرورت نہ ہو۔

انہوں نے بتایا کہ شروع میں بہت مسائل کا سامنا کرنا پڑا، ایک دہائی قبل جب میں نے یہ کام شروع کیا اس وقت بھارت میں بروکریج کی فیس بہت زیادہ تھی، کل وقتی ٹریڈر کیلئے کئی مسائل اور مشکلات ہوتی تھیں اور منافع حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ مستقل مزاجی کے ساتھ ان مشکلات کا سامنا کیا جائے۔

اس طرح بینگلور سے تعلق رکھنے والے دونوں بھائیوں نے چھوٹی موٹی سرمایہ کاری کرنے والے لوگوں کیلئے سستا بروکریج پلیٹ فارم بنایا اور اس مقصد کیلئے انہوں نے اپنی تمام جمع پونجی لگا دی۔

اس طرح 2010ء میں سرمایہ کاروں کیلئے ایک پلیٹ فارم بنایا گیا جس کا نام زیرودھا رکھا گیا جو صفر کیلئے انگریزی لفظ ’’زیرو‘‘ اور رکاوٹ کیلئے سنسکرت لفظ ’’رودھا‘‘ کا مجموعہ ہے۔

آج دیکھیں تو کمپنی نے دیگر نئی سامنے آنے والی کمپنیوں کے برعکس، کوئی بیرونی قرضہ نہیں لیا۔ وینچر کیپیٹل کے ایم ڈی شیلیش لکھانی کا کہنا ہے کہ وبا سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کس طرح ملک میں سرمایہ کاری میں تیزی لائی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں میوچوئل فنڈز سست روی ظاہر کرتے تھے اور ان کی کارکردگی اچھی نہیں رہتی تھی لیکن اس مرتبہ وبا کے دنوں میں بالخصوص مارچ، اپریل اور مئی میں مارکیٹس نے زبردست کارکردگی دکھائی ہے۔ زیرودھا میں سرمایہ لگانے والوں کی اوسط عمر 30 سے 32 سال کے درمیان ہے۔