مذہبی ہم آہنگی کیلئے حکومتی جدوجہد و اہداف

January 19, 2021

موجودہ حکومت کے دور میں اگرچہ روزِ اول سے واضح پالیسی اختیار کی گئی کہ پاکستان سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کو نہ صرف ختم کرنا ہے بلکہ پاکستان کو ایک امن، استحکام، رواداری، محبت اور اخوت والا پاکستان بنانا ہے اور اس کے لئے ریاستِ پاکستان نے بہت سے اہم فیصلے کیے جن میں تعلیمی نظام سے لے کر تمام مذاہب و مکاتب فکر کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مدارس عربیہ کے ساتھ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیراعظم عمران خان اور وزیر تعلیم شفقت محمود کی متعدد نشستوں کے بعد طے ہوا کہ مدارسِ عربیہ کی رجسٹریشن وزارتِ تعلیم کے ساتھ ہو گی۔ اِس سے قبل مدارسِ عربیہ کی رجسٹریشن وزارتِ صنعت کے ساتھ ہوتی تھی اگر یہ بات کہی جائے کہ ریاست پاکستان میں مدارس کی تعلیم کی سرکاری حیثیت ستر سال بعد باقاعدہ تسلیم کی گئی تو غلط نہ ہوگا۔ اِس سے قبل مدارس کے امتحانی بورڈز کی سند کو صرف ایک اعزازی حیثیت کے ساتھ ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی کے برابر قرار دیا گیا تھا جس کو حکومت کے بھی بعض محکمے تسلیم کرتے تھے اور بعض نہیں، لیکن ریاست کے ذمہ داران کے ساتھ مسلسل ہونے والے مذاکرات کے نتیجہ میں نہ صرف رجسٹریشن کے معاملات حل ہوئے بلکہ یہ بھی طے پایا کہ مدرسہ کی دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم ایف اے تک تمام مدارس میں دی جائے گی اور مدارس کے امور میں اور دینی نصاب میں حکومت بلاوجہ کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔ ان شاء ﷲ 2021پاکستان میں ایک نصاب تعلیم کا سال ہوگا، ریاست پاکستان کی کوششوں سے جہاں پر ہمیشہ کیلئے غیررجسٹرڈ مدارس کا معاملہ حل ہوا ہے اور وہاں پر اسکولز اور کالجز میں نصاب تعلیم میں پاکستان اور اسلام کے حوالہ سے بھی بہت سارے معاملات کو درست کیا گیا ہے اور مستقبل میں بین المذاہب و بین المسالک ہم آہنگی کے حوالے سے نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سر گرمیوں کا بھی اہتمام کیا جانا ہدف ہے جو ان شاء اللہ پورا ہوگا۔ اکتوبر کے مہینہ میں وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان محترم عمران خان نے مجھے بطور نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی و مشرق وسطیٰ مقرر کیا۔ ہمارے اہداف کیا ہیں وہ یہاں پیش کر رہا ہوں۔ سب سے اہم مسئلہ ملک میں مذہبی ہم آہنگی و مکالمہ کے فروغ کو تقویت دینا اور پاکستان کے حوالے سے پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔

الحمدللہ پاکستان اقلیتوں کے حوالے سے محفوظ ترین ملک ہے، اگر ہم ہندوستان کو دیکھتے ہیں تو وہاں پر جو کچھ اقلیتوں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔ دو ہزار سے زائد مسیحی چرچ، سینکڑوں سکھوں کے گردوارے اور مسلمانوں کی مساجد نشانہ بن چکی ہیں۔ اقلیتوں کا قتلِ عام اور جبری مذہب کی تبدیلی معمول بن چکا ہے، جبکہ الحمدللہ پاکستان میں ریاست پاکستان کی سطح پر اقلیتوں کو زندگی کے تمام شعبوں میںآئین اور قانون کے تحت دیے گئے حقوق کا تحفظ ہر ممکن طریقہ سے یقینی بنایا جا رہا ہے۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران جبری مذہب کی تبدیلی ہو یا جبری شادی توہین ناموسِ رسالتؐ کے قانون کے حوالہ سے اعتراضات ہوں سب کو بہت قریب سے دیکھا گیا ہے اور اگر کہیں سے کوئی شکایت موصول ہوئی ہے تو اس کو فوری حل کیا گیا۔ لاہور میں چھ مسیحی ورکرز پر توہین ناموسِ رسالتؐ کے غلط الزام لگانے پر جس طرح علمائے اسلام اور ختمِ نبوت وکلا فورم نے ردِعمل کا اظہار کیا وہ ایک درست سمت کی نشاندہی کرتا ہے اور علمائے اسلام اور وکلاء اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی جگہ پر کوئی قانون ناموسِ رسالتؐ کا غلط استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو نہ صرف روکا جائے بلکہ اس کے خلاف بھرپور ایکشن لیا جائے گا۔ کورونا وبا کے باوجود مسیحی برادری کے ایام بالخصوص کرسمس کی تقریبات کے حوالہ سے سیکورٹی سمیت تمام انتظامات کو حکومت نے نہ صرف آسان بنانے کی کوشش کی بلکہ ایوانِ صدر اسلام آباد میں ایک تقریب منعقد کرکے ایک خوبصورت اور واضح پیغام بھی دیا کہ تمام پاکستانیوں کے حقوق جو آئین اور قانون نے دیے ہیں ان کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ کرک میں مندر پر حملہ کرنے والے عناصر گرفتار ہو چکے ہیں اور ملک بھر سے کوئی ایک آواز بھی ان کی تائید میں نہیں آئی ہے۔

ہمیں فخر ہے کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران جتنی بھی شکایات ہمیں ملیں اُن کی تعداد انتہائی کم ہے اور ان کو حل کیا گیا ہے۔ یونین کونسلز کی سطح سے لے کر مرکز تک بین المسالک و بین المذاہب ہم آہنگی کونسلز کے قیام کے سلسلے میں پیش رفت ہو رہی ہے اور ان کونسلز کے ذریعے مکالمہ کا وہ باب کھلے گا جس سے معاملات مقامی سطح پر ہی حل ہو جائیں گے۔

آخر میں سانحہ مچھ بلوچستان کا ذکر نہ کروں تو یہ تحریر کامل نہیں ہو گی، ہزارہ برادری طویل عرصے سے دہشت گردی کا نشانہ بن رہی ہے اور اس میں پاکستان دشمن قوتوں کا کردار واضح ہے۔ اگرچہ بعض اندرونی اور بیرونی عناصر نے اس سانحہ پر پاکستان میں نفرتیں پھیلانے اور سیاست کرنے کی کوشش کی لیکن ہزارہ برادری کے قائدین، علماء و مشائخ اور حکومت پاکستان نے نہ صرف اس کو ناکام بنایا بلکہ پہلی مرتبہ حکومت نے ہزارہ برادری کے مسائل کے حل کیلئے ایک تحریری معاہدہ بھی کیا جس کا حکم وزیر اعظم پاکستان محترم عمران خان نے دیا اور اس معاہدہ سے اگلے روز ہی ہزارہ برادری کی سیکورٹی، مجرمین کی گرفتاری کے حوالہ سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید اور وزیراعظم کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد جو اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں وہ ان شاء اللہ پاکستان کو مستقبل میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے اثرات سے بچانے میں مددگار ہوں گے۔