بوتل گلی: شیشے سے پلاسٹک تک کا سفر

January 20, 2021

ایم اے جناح روڈ پر واقع بلدیہ عظمیٰ کراچی کی عمارت کے بالمقابل ایک گلی ایسی ہے جس کی وجہِ شہرت یہاں فروخت ہونے والی طرح طرح کی بوتلیں ہیں۔ اسی مناسبت سے اس کا نام بوتل گلی پڑا۔ یہ ایک لمبی سی گلی ہے، جس میں دونوں جانب دکانیں ہیں۔ گلی کے نکڑ پر پہنچتے ہی دو چیزیں آپ کا استقبال کرتی ہیں، یعنی خوش بو اور طرح طرح کی بوتلیں۔کبھی یہاںبہت گہماگہمی ہوتی تھی اور خرید و فروخت کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ لیکن اب پہلے والی بات نظر نہیں آتی۔ آئیے! آج اس گلی کی سیر کرتے ہیں۔

پارسی گلی سے بوتل گلی تک

اس گلی میں 1947ء سے بوتلوں کے کاروبار سے منسلک عبدالغنی حبیب کے مطابق وہ 1947ء میں سترہ برس کی عمر میں ممبئی سےکراچی آئے تھے ۔ ان کے والد کا بمبئی میں شیشے کی اشیا کا کاروبار تھا، لہٰذا فطری طور پر انہیں اس کاروبار کے بارے میں معلومات تھیں۔چناں چہ کراچی آکر وہ اس کاروبار سے منسلک ہوگئے۔

اس زمانے میں یہاں سندھی زبان بولنے والے ہندوئوں کی دکانیں تھیں ۔جیٹھا مل، رام چند وغیرہ زیادہ مشہور تھے۔ اُس وقت بھی یہاں بوتلوں اورشیشے کا کاروبار ہوتا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر کی رہائش حیدرآباد (سندھ) میںتھی اور وہ کاروبارکی غرض سےکراچی میں رہتے تھے۔ ہفتے میں ایک دن وہ اپنے گھر والوں سے ملنے حیدرآباد جاتے تھے۔ اس وقت بھی اس گلی کی لمبائی چوڑائی آج جتنی ہی تھی۔

تاہم دکانیں کم تھیں اورکئی گودام تھے۔ اس زمانے میں اس گلی میں پارسی برادری سے تعلق رکھنے والے کئی خاندان رہتے تھے، لہٰذا اسے پارسی گلی بھی کہا جاتا تھا۔ لیکن اب بہت کم لوگوں کو یہ نام معلوم ہوگا ۔ ان کے مطابق بعد میں ہندوئوں کے خلاف تشدّد کی لہر اٹھی تو ہندو دکان دار اپنی دکانیں چھوڑ کر یا اونے پونے داموں فروخت کرکے چلے گئے۔ قیامِ پاکستان کے چھ سات ماہ بعد ان کے خاندان نے اس گلی میں واقع ایک دکان 3900 روپے میں خریدی، جس میں تقریباً اتنی ہی مالیت کےلوہےکےپیپے موجودتھے۔

یعنی وہ دکان انہیں مفت میں ملی تھی۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ گلی میں دکانوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ طویل عرصے تک یہاں شیشے کی نئی اورپرانی بوتلوں کا کاروبار ہوتا رہا۔ تاہم پندرہ ، بیس برسوں میں پلاسٹک نے کافی حد تک شیشے کی جگہ لے لی ہے۔ اس کے علاوہ بوتلوں کا کاروبار کرنے والے کئی افراد نے یہ کاروبار ترک کرکے خوش بویات کا کاروبار شروع کردیا ہے۔

تیسری اور چوتھی نسل

ایک دکان دار کے بہ قول یہ گلی پاکستان بننے سے پہلےکی ہے،لیکن کام تب بھی یہاں خالی بوتلوں کا ہی کام ہوتا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد اس گلی کا نام سرائے کوارٹرز ہوگیا۔ اس وقت یہاں کے پرانے رہائشی کوچ کر گئے اور ان کی جگہ ہندوستان سے ہجرت کرکےآنے والے یہاں رہایش پذیر ہو گئے اور کاروبار بھی کرنےلگے ۔ یہاں کاروبارکرنے والے بعض ایسے افراد بھی ہیں جن کی تیسری اور چوتھی نسل یہ کام اسی گلی میں کررہی ہے۔

عبدالغنی کے مطابق پہلے بوتل گلی کی بات ہی کچھ اور تھی۔ یہاں طرح طرح کی بوتلیں لائی اور فروخت کی جاتی تھیں۔ دارالحکومت کراچی میں تھا تو یہاں مختلف ممالک کے سفارت خانوں میں استعمال کی جانے والی غیر ملکی شراب کی بوتلیں آتی تھیں جو ایک سے بڑھ کر ایک ہوتی تھیں۔ بہت سے لوگ گھروں میں سجاوٹ کے لیے وہ بوتلیں خریدکرلےجاتے تھے۔اب بھی قونصل خانوں سے مذکورہ بوتلیں کباڑیے لاتے ہیں، لیکن وہ بہت کم تعداد میں ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر،حکیم اور کاروباری

ایک دکان میں محسن علی نامی شخص سے ملاقات ہوئی۔ ان کے مطابق یہ دکان ان کے والد نے کافی عرصہ قبل قائم کی تھی۔ آج کی طرح پہلے بھی یہاں شیشے اور پلاسٹک کی بوتلوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ ان کے مطابق انہوں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ یہ گلی قیام پاکستان سے قبل کی ہے اور اُس وقت بھی یہاں بوتلوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔

یہاں آنے والے خریداروں کے ضمن میں ان کا کہنا تھا کہ اس گلی میں ڈاکٹرز، حکیم، ہومیوپیتھ اورمختلف کاروبارسے وابستہ افراد آتےہیں۔چوں کہ ان کی بوتلوں کی ضرورت اتنی نہیں ہوتی کہ وہ بوتلوں کی مولڈنگ اورکاسٹنگ کا خرچ برداشت کرسکیں لہٰذا وہ ہم سے بنی بنائی بوتلیں خریدکرلے جاتےہیں جوانہیں سستی پڑتی ہیں۔

بسوں میں منجن فروخت کرنے والے، دیسی نسخوں سےکاسمیٹک کا سامان بنانے والےسےلےکر چھوٹے اسپتالوں تک کا عملہ یہاں اپنی ضروریات کے تحت آتاہے۔ شیشے اور پلاسٹک کی بوتلیں بنانے والے یہاں اپنا مال لاکر ہمیں فروخت کرتے اور نئے آرڈر لے جاتے ہیں۔ آج کل پلاسٹک کی بوتلوں کی زیادہ طلب ہے۔ یہ فوڈ گریڈ کے پلاسٹک سے بنائی جاتی ہیں۔ شیشے کے مقابلے میں پلاسٹک کی بوتلیں منہگی ہوتی ہیں،لیکن کم وزن اورٹوٹ پھوٹ کے خطرات سے محفوظ ہونےکی وجہ سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ شیشے کی بوتلیں اندرون ملک کے علاوہ چین سے بھی بن کر آتی ہیں۔

عمران انصاری بھی اسی گلی میں واقع ایک دکان میں بوتلیں خریدتے اور فروخت کرتے ہیں ۔ انہوں نےکچھ عرصہ قبل یہ کاروبار شروع کیا تھا ۔وہ آبِ زم زم تحفے میں دینے کے لیے استعمال ہونے والی، معجون، مرہم، منجن، پرفیوم اسپرے وغیرہ کے لیے استعمال کی جانے والی بوتلیں اور ان کے ڈھکن فروخت کرتے ہیں۔ ان کے مطابق پہلے اس گلی میں کافی تعداد میں کباڑیے شیشے کی بوتلیں فروخت کرنے کے لیے آتے تھے، لیکن اب ان کی تعداد بہت کم ہوگئی ہے۔ عامر جمال نامی نوجوان دکان دارکے مطابق ان کے والد نے یہاں سترہ اٹھارہ برس قبل بوتلوں کا کاروبار شروع کیا تھا۔ اب پچاس فی صد شیشے کی اور اتنی ہی پلاسٹک کی فروخت ہوتی ہیں۔ حیدرآباد میں پانچ چھ بھٹّیوں میں شیشےکی بوتلیں بنتی اورکراچی آتی ہیں۔

ڈاکٹرز شیشے کی بوتل خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔کراچی اور لاہور میں واقع دو تین بڑے کارخانوں میں شیشے کی ذرا اچھی قسم کی بوتلیں بنتی ہیں۔ شیشے کی بوتلیں بنانے والوں کے نخرے بہت ہوتے ہیں۔ پہلے شیشے کی کوئی بھی بوتل دوچار روز سے زیادہ دکان میں نہیں ٹکتی تھی، لیکن اب بعض اوقات خوب صورت ترین بوتل بھی کئی ماہ تک کوئی خریدنے نہیں آتا۔

انہوں نے اپنی زندگی میں شیشے کی سب سے بڑی اورمنہگی بوتل کافی عرصہ قبل دیکھی تھی جو ان کے والد ہزار روپے میں ایک تجارتی ادارے سے خریدکر لائے تھے۔ اس میں تیزاب بیرون ملک سے پاکستان آیا تھا، آج بھی وہ مختلف کارخانوں وغیرہ سے شیشے کی بوتلیں خرید کر لاتے اور فروخت کرتے ہیں۔

پرفیوم گلی

ایم اے جناح روڈ کی جانب سے اس گلی میں داخل ہوں تو دائیں ہاتھ پر موجود پہلی دکان کیمیکل کی ہے۔ یہاں منصور احمد سےگفتگو کا موقع ملا۔ ان کے مطابق یہ دکان 1970ء سے قائم ہے اور یہاں دھوبیوں کے استعمال میں آنے والا سامان، مثلاً نیل، کاسٹک سوڈا، واشنگ پائوڈر وغیرہ فروخت کیا جاتا ہے۔

اس دکان پر پیپرمنٹ، کافور، پیرافین (مصنوعی موم)، تھائی مون، کھٹمل مارنے کی دوا، سفید تیل، پیٹرولیم جیلی، دیسی طورپر تیارشدہ شیمپو وغیرہ بھی فروخت کے لیے موجود پایا گیا۔ منصور احمد کے مطابق اب بوتل گلی دراصل پرفیوم گلی بن چکی ہے اور بوتلوں کاکاروبار صرف آٹھ دس دکانوں تک محدود ہوگیا ہے۔

بوتلوں کا چکّر

کراچی کے علاقے آرام باغ میں واقع اس بوتل گلی سے کئی طرح کے کاروبار منسلک ہیں۔ گھروںسے کاٹھ کباڑ جمع کرنے والے، شیشے کی بوتلوں کی چھانٹی کرنے والے، چھانٹی شدہ بوتلوں کی سائز ڈیزائن وغیرہ کے حساب سے مزید چھانٹی پھر ان کی صفائی اور پھر ان بوتلوں کی دوبارہ خریدوفروخت ۔ بوتلیں یہاں سے نئے سفر پرروانہ ہوجاتی ہیں۔اس طرح پھر ان سے کچھ لوگوں کا کاروبارجُڑجاتاہےاورپھریہی بوتلیں چکّر پورا کر کے واپس اسی گلی میں ایک نئے سفر کے انتظار میں آجاتی ہیں۔

گلی گلی گھومنے والےکباڑیے یہاں گھروں سے کباڑ لاتے ہیں، اسے خریدنے والے الگ کاروباری لوگ ہوتے ہیں۔ کباڑ کی چھانٹی بعض دکان دارخودبھی کرواتے ہیں اورچھوٹے پیمانے پر چھانٹی کے کاروبار سے منسلک افراد کوکباڑ فروخت بھی کرتے ہیں۔

ممبئی سے کراچی تک

چار نسلوں سےبوتلوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے محمد یوسف کی بھی اس گلی میں دکان ہے۔ان کے داداممبئی میں اس کاروبارسے منسلک تھے ۔ ان کے بیٹے بھی کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹاتےہیں۔ تاہم محمد یوسف نوجوان نسل کی کاروبار میں عدم دل چسپی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نوجوان اس کام میں زیادہ دل چسپی نہیں لے رہے۔ان کے بہ قول ان کے والدین نے انہیں تعلیم کے ساتھ یہ کام بھی سکھایا،انہوں نے زمانے کے دھکے کھائے،مگر کام نہ صرف جاری رکھا بلکہ اسے ترقی بھی دی۔ ان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ وہ کاروبار میں نفعے کے لیے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کا سہارا بھی لیتے ہیں۔

اس سے کاروبار میں مدد ملتی ہے۔بتایا گیا کہ تقریباً 18 خاندان اس ایک گلی سےوابستہ ہیں۔ گلی گنجان ہوجانے کی وجہ سے اب بوتلوں کی صفائی کا کام شیر شاہ کے علاقے میں منتقل کیا جاچکا ہے۔یہاں کاروبارکرے والےمحمد یوسف اور دیگربہت فخر سے کہتے ہیں کہ پوری دنیا میں بوتل گلی اپنی نوعیت کی واحد گلی ہے۔کباڑیہ تو فرانس میں بھی بیٹھا ہوا ہے، لیکن اسے اس طرح کی گلی نصیب نہیں ہے۔

بوتل اور توہّم

ہمارے معاشرے میں بوتل کا جنّات سے تعلق بتایا جاتاہے۔ قصّےکہانیوں میںجِن کوبوتل میں بندکرنےکا ذکرملتاہے۔ اس تعلق کے حوالے سے بوتل گلی میںکئی دل چسپ باتیں سننے کو ملیں، لیکن ایک تعلق ایسابھی سامنے آیا جس کاتعلق مغربی معاشرے سے جُڑتاہے۔ ایک دکان دار کے بہ قول ایک روز اس کے پاس ایک گاہک آیا اور کافی ہچکچاہٹ کے بعد اس نےکہاکہ’’جِن کی بوتل‘‘ چاہیے۔ اسےمطلوبہ بوتل نکال کر دی گئی تو وہ اسے پکڑنے سے بہت ڈر رہا تھا۔ پھر اس نے پوچھا: ’’کیا یہ بوتل جِنّات بناتے ہیں؟‘‘

تب معاملہ کھلا اور دکان دار نے اسے بتایاکہ جِن (GIN) انگریزی زبان میں ایک طرح کی شراب کو کہتے ہیں (واضح رہے کہ یہ الکوحل کا کشیدہ مشروب ہوتا ہےجو رائی یا دیگر اناج، غلّے اور اردج بیریوں کے ملغوبے سے بنتا ہے یا بازکشیدہ شرابوں میں خوش بویات شامل کرکے بنایا گیا ایسا مشروب ہوتا ہے) اورجس بوتل میں یہ آتی ہے، اسے عام طور سے ’’جِن کی بوتل‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس بوتل کا جِنّات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایک دکان دار نے جِن اور بوتل کے تعلق کے تناظر میں دل چسپ بات کی۔

اس کاکہنا تھا کہ سنا ہے جادوگراور عامل بوتلوں میں جِن بند کرتے ہیں،لیکن تیزی سے بڑھتی ہوئی منہگائی نے بوتلوں سے جِنّات آزاد کر دیے ہیں، کیوںکہ اب خوب صورت بوتلوں کے خریدار کم ہی بوتل گلی کا رخ کرتے ہیں ، ورنہ پہلے یہاں خوب صورت اور عجیب و غریب بوتلیں جمع کرنے والےکئی افراد وقتاً فوقتاً آتے اورمنہگے داموں ایسی بوتلیں خریدکر لے جاتے تھےخودان کی دکان پرکافی عرصےتک ایسی بوتلوں کا ایک عاشق آتا اور منہ مانگے داموں اپنی پسندکی بوتلیں خرید کر لےجاتاتھا۔

اس شخص کے بہ قول وہ جس ملک یا شہر جاتا، وہاں سے ایسی بوتلیں لاکر جمع کرتا تھا۔ مگر دوچار برس سے اس شخص کا آنا جانا بہت کم ہوگیا ہے، اس کی وجہ اس نے منہگائی بتائی ہے۔ اسی طرح ایک روز ایک شخص ان کے پاس آیا اور اس نے نقص والی بوتل طلب کی۔ پوچھنے پر اس نے بتایاکہ ایک عامل نے اس کے لیے ایک عمل کرنے کی غرض سے نقص والی بوتل لانے کو کہا ہے۔واضح رہے کہ نقص والی بوتل اسے کہتے ہیں جس میں بننے کے دوران ہوا کے بلبلے رہ گئے ہوں یا اس کی شکل بگڑ گئی ہویا اس میں کچھ ایسا ہو جو معمول سے ہٹ کر ہو۔

باٹلی والا

میمن برادری کے بعض افرادکے ناموں کے آخر میں ’’باٹلی والا‘‘ کا لاحقہ لگا ہوتا ہے۔ بتایا گیا کہ دراصل یہ لاحقہ ان خاندانوںکے افراد کے ناموں کا حصہ بنا جن کے بزرگ یا وہ خود بوتلوں کی خرید و فروخت کے کاروبار سے وابستہ تھے یا ہیں۔ چوں کہ انگریزی میں بوتل کوباٹل کہتے ہیں، لہٰذا باٹل کاکاروبارکرنے والوں کو لوگوں نےآسانی سے پہچاننے کے لیے ان کےنام کےساتھ یہ اضافہ کردیا ہوگا۔

مثلاً کوئی شخص ایک جیسے ناموں والے دو افراد میں سے کسی ایسے شخص کی طرف اشارہ کرناچاہتا، جو اس کاروبار سے وابستہ ہوگا،تو وہ یوں کہہ دیتا ’’عبدالغفار بھائی باٹلی والانےکل پیسے دینے کا وعدہ کیا ہے‘‘۔ تو آگے چل کر یہ لاحقہ ان لوگوں کے ناموں کا حصہ بن جاتا۔

شیشہ ٹوٹا، خواب چکنا چُور ہوئے

بتایا گیا کہ پہلے کی نسبت بوتل گلی اب کافی تبدیل ہو چکی ہے۔ اب شیشے کی بوتلوں کا کام ختم ہوتا جا رہا ہے اور اس کی جگہ پلاسٹک کی بوتلوں نےلے لی ہے۔کم قیمت ہونے کی وجہ سے لوگوں میں پلاسٹک کے استعمال کا رجحان بڑھتا چلا گیا۔پہلے کی چہل پہل کی بات ہی الگ تھی۔اب تو یہاں زیادہ ترچھوٹے کاروباری لوگ آتے ہیں۔کبھی کبھارکوئی شخص ذاتی استعمال کے لیے بھی بوتلیں لینےآجاتاہے۔

ادہر پہلے خواتین کابھی آنا ہوتا تھا ۔ وہ سجاوٹ کے لیے بوتلیں لے جاتی تھیں،کیوں کہ یہ استعمال شدہ بوتلیں گل دانوں کے مقابلے میں سستی ہوتی ہیں، لیکن اب ان کا آنا کم ہو گیا ہے ۔ ایک دکان دار کے مطابق اب یہاں کاروبار کی صورت حال پہلے جیسی نہیں رہی اور زوال کا شکار ہے۔ اصل کمائی شیشے کی تھی ، پلاسٹک کی کمائی میں زیادہ فائدہ نہیں ہے۔

پلاسٹک کے غلبے کی بات کی تصدیق اس گلی میں موجود دکانوں پر پہلی نظر پڑتے ہی ہوجاتی ہے۔ ہر طرف پلاسٹک کی ہر سائز اور انداز کی بوتلوں کے انبار موجود ہیں، جن میں شیشے کی بوتلیں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔

ایک دکان دار کے بہ قول پہلے کے لوگ کھانے پینے کی اشیا رکھنے کے لیے شیشے کے مرتبان اور بوتل کو ترجیح دیتے تھے۔ وہ شیشے اور تانبے کا استعمال صحت کے لیے مفید سمجھتے تھے۔ لیکن جب سے شیشے کی جگہ پلاسٹک نے لی ہے، یوں لگتا ہے بوتل گلی کی کاروباری سرگرمیوں کو کسی کی نظر لگ گئی ہے۔ ہمارے دل کا شیشہ ٹوٹ گیا اور خواب چکنا چور ہوگئے ہیں، تاہم آج بھی شیشے کی بوتلوں اور مرتبانوں کے چاہنے والے ان کی تلاش میں یہاں آتے اور انہیں خرید کر لے جاتے ہیں۔

یہاں کے ایک دکان داراجمل صرف شیشے کا کاروبار ہی نہیں کرتے بلکہ وہ اس موضوع میں بھرپور دل چسپی بھی رکھتے ہیں۔ وہ اب بھی شیشے کے دوبارہ لوگوں کے استعمال میں آنے کے لیے پر امید ہیں۔ ان کے مطابق شیشہ دوبارہ سے آئے گا کیوں کہ اس کا متبادل کوئی نہیں ہو سکتا۔ ہم تو بھیڑ چال کا حصہ بن گئے ہیں۔حالاں کہ شیشے میں رکھی گئی شئےجلدخراب نہیں ہوتی ۔

ان کے مطابق شیشے کی بوتل یا گلاس میں رکھی ہوئی اشیا کی خراب ہونے کی تاریخ اور پیٹ بوتل یعنی پلاسٹک کی بوتل پر لکھی ہوئی میعادی تاریخ الگ الگ ہوتی ہے۔ بوتل یا مرتبان سےسورج کی شعاع پارہوگئی تو پراڈکٹ خراب ہو جاتی ہے۔شیشے کی بوتل میں دو سال تک چیز محفوظ رکھی جا سکتی ہے۔ اسی لیے اب کھانے پینے کی اشیا کو محفوظ رکھنے کے معیارات عالمی سطح پر تبدیل ہو رہے ہیں۔

بدلتے رنگ،ڈھنگ

جو افراد کم ازکم دو دہائیوں سے اس گلی کو جانتے اور پہچانتے ہیں وہ اب جوں ہی اس گلی میں داخل ہوتے ہیں،انہیں یہاں آنے والی تبدیلیاں واضح طور پر محسوس ہوجاتی ہیں۔ایک نظر ڈالتے ہی انہیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ اب یہ گلی صرف بوتل گلی نہیں رہی بلکہ یہاں کیمیکلز،عطریات اور دیگر خوشبویات (پرفیومز) کی دکانیں بھی کھل چکی ہیں ۔

یہاں پہلے شیشے کی بوتلوں کے کاروبار سے منسلک ایک دکان دار کے بہ قول بدلتے ہوئے کاروباری تقاضوں نےانہیں اپناکاروبار تبدیل کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ ان کے بہ قول یہاں کاروبار پہلے جیسا نہ ہونےکی وجہ سےکئی پرانے دکان داراس گلی سے رخصت ہوچکے ہیں۔لیکن انہیں اس گلی کی اتنی عادت ہو چکی تھی کہ وہ اپنی یہ عادت تبدیل نہیں کرسکے،البتہ اپنے کاروبارکی نوعیت تبدیل کر لی۔

بتایا گیا کہ بوتل گلی میں 1988ء کے بعد سے تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ پہلے شیشے کی بوتلوں کی خرید و فروخت کم ہوئی پھر بوتلوں کی جگہ بہت سی دکانوں میں خوش بویات کاکاروبار شروع ہوگیا اور اب اس گلی میں صرف آٹھ دس دکانوں میں بوتلوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔

ایک دکان دارکاکہناتھاکہ وہ اگرچہ پلاسٹک کی بوتلوں کا کاروبار کرتے ہیں، لیکن اس سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کے مطابق پلاسٹک کا مستقبل بھی پلاسٹک ہی ہے۔ لوگوں کوپلاسٹک کی ایسی لت پڑ چکی ہےکہ اب چاہے کتنا بھی شور مچے وہ پلٹ کر شیشے کی طرف نہیں آئیں گے۔

مختلف رنگ کی بوتلیں اور بیماریوں کا علاج

ایک دکان دار کے مطابق اکثر بوتل گلی میں ایسے گاہک آتے ہیں جو مخصوص رنگوں کی بوتلوں کے طلب گار ہوتے ہیں نیلی، پیلی، سبز، آسمانی بوتلوں کی زیادہ طلب ہے۔ یہ لوگ ان بوتلوں میں پانی بھر کر دھوپ میں رکھ دیتے ہیں اور کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ پانی مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ رنگ و روشنی سے علاج کا طریقہ کہلاتا ہے۔

فوڈ گریڈ پلاسٹک کا احساس

ماہرینِ طب پلاسٹک کے بڑھتے ہوئے استعمال پر مسلسل تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، ان کے مطابق اس سے بہت سی خطرناک بیماریاں لاحق ہونے کے خطرات ہمہ وقت رہتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ وہ بہ امر مجبوری فوڈ گریڈ کا پلاسٹک استعمال کرنے پر بہت زور دیتے ہیں۔ یہ پلاسٹک کی ایسی قسم ہوتی ہے جو حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق مواد سے سخت معیار کے مطابق تیار کی جاتی ہے۔

بوتل گلی میں کئی دکان داروں نے پلاسٹک کی بوتلیں دکھاتے ہوئے انہیں فوڈ گریڈ پلاسٹک کی بوتلیں بتایا۔ لیکن دوسری جانب اخبارات میں آئے روز ایسی خبریں شایع ہوتی رہتی ہیں کہ ملک میں استعمال ہونے والی پلاسٹک کی بہت سی اشیا غیر محفوظ ہیں۔ دکان داروں سے ہونے والی گفتگو سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ بعض گاہک اس بارے میں کافی حسّاس اور محتاط ہوتے ہیں۔

…بوتلیں بولتی ہیں…

ایک دکان دار سے سوال کیا گیا کہ اس نے کبھی کوئی بہت عجیب و غریب انداز کی بوتل دیکھی ہے جو اسے اب تک یاد ہو؟ تو اس نے جواب دیا کہ ہاں ایک مرتبہ اس کے پاس شراب کی ایک بہت عجیب و غریب بوتل آئی تھی۔ اس کا رنگ اور بناوٹ کا انداز بہت ہی دل کش تھا۔

وہ فرانس کی بنی ہوئی تھی۔ اس دکان دار کے مطابق بعض بوتلیں اتنی خوب صورت اور نازک ہوتی ہیں کہ انہیں دیکھنے کو بار بار دل چاہتا ہے اور جب انہیں دیکھا جاتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ہم سے باتیںکر رہی ہوں۔ اس دکان دارکےبہ قول دراصل شیشے اور انسان کے درمیان گہرا تعلق ہے ۔شیشہ ریت کے ایک جزوسلیکا (Silica) سے بنتا ہے اور انسان بھی خاک سے بنایاگیاہے۔ لہٰذا دونوں میں کشش ہونا فطری بات ہے۔

…شوقین اب بھی ہیں…

تنویرحسین کی دکان پر اب بھی پرانی شیشے کی بوتلیں پورے طمطراق کے ساتھ رکھی نظر آتی ہیں۔ انہوں نے بہت دل چسپی سے شیشے کے فواید پر روشنی ڈالی۔ کاروبارکے ماضی اور حال کے بارے میں گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے یہاں صرف پرانی بوتلیں ملتی تھیں،لیکن اب نئی بوتلیں زیادہ تعداد میں ملتی ہیں۔

گلی تک پہنچنے والی بوتلوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ پہلے یہاں لوگ خود بھی کسی نہ کسی مجبوری کےتحت خوب صورت اور منفرد بوتلیں بیچنے آجاتے تھے۔ خوبصورت بوتلیں چار ہزار روپے تک میں فروخت ہوجاتی تھیں۔وہ اب بھی کافی منہگے داموں فروخت ہوتی ہیں،لیکن سال میں محض ایک ،آدھ بارہی۔

ان کے بہ قول ایک بار یہاں آنے والی بوتلوں میں سونے کا لیبل لگی ایک بوتل بھی تھی۔ ان کا موقف ہے کہ پلاسٹک کے بہت زیادہ استعمال کی وجہ سے پاکستان میں شیشے کی صنعت بھی بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔

خوب صورت بوتلوں کے بارے میں تنویر حسین کاکہنا تھاکہ یہاں زیادہ تر بوتلیں مخصوص مشروب کی آتی ہیں۔ پینے والے پی کر یہاں دے جاتے ہیں۔ یہاں سے لوگ سجاوٹ کے لیے یا پودے لگانے کے لیے انہیں خرید کر لے جاتے ہیں۔ یہ بتانے کے بعد وہ گویا ہوئے کہ دیکھیے ایک ہی شے کے کیسے مختلف اور متضاد استعمالات ہوسکتے ہو سکتے ہیں۔ یعنی مثبت اور منفی،صحت کے لیے مضر اور مفید۔