براڈ شیٹ معاہدہ۔ ملکی بدنامی کا سبب؟

January 20, 2021

براڈشیٹ کیس میں پاکستان کے خلاف برطانوی عدالت کے فیصلے کی دستاویزات منظرعام پر آنے کے بعد پاکستان کا میڈیا اور سیاست براڈ شیٹ کے گرد گھوم رہی ہے اور کمپنی کا ایرانی نژاد مالک کاوے موسوی پاکستان کے قومی خزانے کو 28.7 ملین ڈالر (6.5 ارب روپے) کا ٹیکہ لگانے کے بعد پاکستانی ٹی وی چینلز کی زینت بنا ہوا ہے اور روزانہ نت نئے انکشافات کرکے پاکستانی سیاستدانوں اور قومی اداروں کو بدنام کررہا ہے۔

لندن میں مقیم میرے دوست سینئر صحافی مرتضیٰ علی شاہ حال ہی میں لندن ہائیکورٹ کی ایسی دستاویزات منظرعام پر لائے ہیں جن میں موجودہ حکومت کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کے براڈشیٹ کے مالک کاوے موسوی اور وکلاء کے ٹیکسٹ میسجز کی تفصیلات درج ہیں۔

اِن دستاویزات سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی انتقامی کارروائیوں کیلئے 2018میں براڈشیٹ سے ایک نیا معاہدہ کرنے کے قریب تر تھی لیکن یہ معاہدہ کک بیکس پر اختلافات کے باعث پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ پی ٹی آئی کے برسراقتدار آنے کے بعد موسوی نے اپنے آکسفورڈ یونیورسٹی کے روابط استعمال کرتے ہوئے اعلیٰ حکومتی شخصیات کو یہ کہانی باور کرائی کہ اُسے ایک ایسے اکائونٹ کی معلومات حاصل ہوئی ہیں جس میں سعودی عرب سے ایک ارب ڈالر سنگاپور منتقل کئے گئے ہیں اور اس اکائونٹ کا تعلق نواز شریف فیملی سے ہے جسے وہ حکومت پاکستان کو دلواسکتے ہیں۔

نواز شریف سے انتقام لینے کے خواہاں عمران حکومت نے موسوی کی خیالی باتوں پر یقین کرلیا اور اس سلسلے میں لندن میں مقیم بیرسٹر ظفر کیوسی نے موسوی سے ملاقات کی اور اُنہیں بتایا کہ وہ عمران خان کی ہدایت پر اُن سے ملاقات کررہے ہیں اور حکومت پاکستان ایک ارب ڈالر کی واپسی کیلئے اُن کی خدمات حاصل کرنا چاہتی ہے۔

بعد ازاں ظفر کیوسی نے پاکستان آکر وزیراعظم عمران خان، مشیر احتساب شہزاد اکبر، وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر حکومتی شخصیات سے کئی ملاقاتیں کیں جس کے بعد موسوی کو بتایا کہ حکومت، براڈشیٹ سے نئے معاہدے کیلئے تیار ہے اور اسے یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ پچھلے معاہدے کے جرمانے کی رقم بھی جلد سیٹل کردی جائے گی۔

موسوی کے بقول 2018ء میں ایک ارب ڈالر کے اکائونٹ کا پتہ بتانے کے سلسلے میں مشیر احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ لندن آنے والے سرکاری وفد میں شامل ایک شخص نے اُن سے نئے معاہدے پر کمیشن کا مطالبہ بھی کیا جو اس نے مسترد کردیا۔

اسی طرح کے ایک اور دعوے میں موسوی نے بتایا کہ ایک شخص نے خود کو ریاستی اعلیٰ افسر ظاہر کرتے ہوئے نئے معاہدے کی کاپی کے ساتھ لندن میں اُن سے ملاقات کی اور یقین دلایا کہ حکومت سنگاپور اکائونٹ سے ایک ارب ڈالر کی ریکوری کیلئے براڈشیٹ سے نیا معاہدہ کرنے کو تیار ہے مگر براڈشیٹ کو اس سلسلے میں کمیشن ادا کرنا ہوگا جسے موسوی نے مسترد کردیا اور اس طرح کک بیکس کے باعث یہ معاہدہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا تاہم اسی دوران براڈشیٹ کو 28.7 ملین ڈالر کی ادائیگی انتہائی ڈرامائی انداز میں کردی گئی جس کی وصولی کے بعد موسوی نے پہلے اپوزیشن اور بعد ازاں حکومت اور اداروں کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔

یہ امر لمحہ فکریہ ہے کہ مشرف نے اپنے اقتدار کو طول دینے اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانے کیلئے براڈشیٹ سے ایک ایسا معاہدہ کیا جو براڈشیٹ نے خود تیار کیا تھا جسے پڑھنے کے بعدمجھے حیرانی سے دوچار ہونا پڑا۔

اس وقت کے نیب سربراہ جنرل امجد کے دستخط شدہ معاہدے میں یہ قرار پایا تھا کہ پاکستانی سیاستدانوں کے برآمد ہونے والے اثاثوں میں سے براڈشیٹ کو 20 فیصد حصہ ملے گا جبکہ معاہدے کے تحت براڈشیٹ کو یہ اختیار بھی دیا گیا کہ وہ اثاثے ضبط کرنے کیلئے قانونی چارہ جوئی بھی کرسکتی ہے۔

اسی طرح نیب اور براڈشیٹ نے ایک بینک اکائونٹ کھولنے پر بھی اتفاق کیا جسے نیب اور براڈشیٹ کو مشترکہ طور پر کنٹرول کرنا تھا اور برآمد ہونے والے اثاثوں کی رقوم اکائونٹ میں جمع کی جانی تھی۔

قابل افسوس بات یہ تھی کہ حکومت مخالفین کو نشانہ بنانے کیلئے نیب نے براڈشیٹ سے ایک ایسا کمزور معاہدہ کیا جس میں بے شمار کمزوریاں موجود تھیں اور معاہدہ توڑنے کی صورت میں پاکستان کو 28.7 ملین ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑا۔

برطانیہ میں قائم پاکستانی سفارتخانے کے اکائونٹ میں موجود 30 ملین ڈالر کی پاکستان سے منتقلی، لندن کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہ کرنا، برطانیہ کی اعلیٰ عدالت سے رجوع نہ کرنا اور انتہائی ڈرامائی انداز میں براڈشیٹ کو بھاری جرمانے کی ادائیگی کرنا شکوک و شبہات کو جنم دے رہا ہے۔

ایف بی آر کے انکم ٹیکس قوانین کے مطابق ہر بڑی رقم کی ادائیگی پر15 فیصد ٹیکس کی کٹوتی لازمی ہوتی ہے مگر براڈشیٹ کو رقم کی ادائیگی کرتے وقت اِس طرح کی کوئی کٹوتی نہیں کی گئی۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب آنے والے وقت میں حکومت کو دینا پڑے گا۔

المیہ یہ ہے کہ ہم مخالفت میں اِس حد تک چلے جاتے ہیں جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یہی کچھ براڈشیٹ معاہدے کے نتیجے میں ہوا اور پاکستان کو ایک دھیلا بھی حاصل نہ ہوا مگر ایک بار پھر وہ شخص جس نے پاکستان کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگایا، اس کے جال میں پھنس کر موجودہ حکومت اس سے ایک اور معاہدہ کرنے کے درپے تھی۔ اگر یہ معاہدے طے پاجاتا تو مستقبل میں پاکستانی عوام کو ایک بار پھر اس کی بڑی قیمت چکانا پڑتی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)