آئیے! آپ کا استقبال ہے

January 20, 2021

امریکا میں اقتدار کی منتقلی کبھی اس طرح نہیں ہوئی تھی جس طرح اب ہونے جارہی ہے۔نومنتخب صدرجو بائیڈن کی تقریب حلف برداری سے قبل تمام پچاس ریاستوںکے علاوہ وفاقی دارالحکومت، واشنگٹن ڈی سی میںہفتہ وار چھٹیوں کے دوران ممکنہ مسلح مظاہروں کا الرٹ جاری کیا گیاتھا،نیشنل گارڈ کے مزید فوجی دستوں کو فوراً واشنگٹن ڈی سی بھیجا گیاہے اور انہیں چوکنا رہنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ چھ جنوری جیسے خطرناک فسادات سے بچا جاسکے۔امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے متنبہ کیا ہے کہ تمام ریاستوں میں صدر ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے مسلح احتجاجی مظاہرے ہوسکتے ہیں۔

نیشنل گارڈ کے اہلکاروں کو جو بائیڈن کی حلف برداری کی تقریب کے لیے کیپٹل ہل کے اردگردکے علاقوں کے تحفظ کی ذمے داری سونپی گئی ہے۔امریکی حکومت نے واشنگٹن کے نیشنل مال سمیت کئی دنوں سے بڑے عوامی پارکس تک رسائی بند کررکھی ہے ،ورجینیا اور کولمبیا کے درمیان راستہ بند کیا گیاہے اور درجنوں سب وے اسٹیشنز بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ تقریبِ حلف برداری سے قبل واشنگٹن ڈی سی کا اکثر حصہ لاک ڈاؤن میں ہوگا اور یہاں نیشنل گارڈ کے دستوں کی صورت میں ہزاروں جوان تعینات کیے جائیں گے۔

٭…………٭

جوزف آربائیڈن 46ویں امریکی صدر کا عہدہ سنبھال رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ وائٹ ہائوس صدر بائیڈن کے لئے نیا نہیں ہے اور بائیڈن وائٹ ہائوس کے لئے نئے نہیں ہیں کیونکہ وہ صدر باراک اوباما کے ساتھ 2009ء سے 2017ء تک آٹھ سال امریکا کے 47ویں نائب صدر رہے جب وہ پہلی بار 1970ء میں سینیٹر منتخب ہوئے تو ان کی عمر29 برس تھی اور وہ چھٹے نوجوان امریکی سینیٹر تھے اور پھر 2020ء میں انہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار کے طور پر صدارتی انتخابات میں حصہ لیا اور صدر ٹرمپ کو شکست دے کر وہ امریکا کے سب سے معمر صدر منتخب ہوئے۔

صدر جوبائیڈن کا ایک اور ریکارڈ نمایاں ہے وہ چھ بار سینیٹر منتخب ہوئے اپنے طویل ترین سیاسی کیریئر میں نصف صدی پر محیط وہ خارجہ امور دفاعی، داخلی سیکورٹی، صحت عامہ، بجٹ مالیاتی معاملات و دیگر کمیٹیوں سمیت ایک درجن سے زائد کمیٹیوں کی سربراہی کی ،انہیں انسانی حقوق اور جمہوری روایات کا گہرا ادراک اور تجربہ ہے۔ اس لئے صدر جوبائیڈن نے اپنی کابینہ میں تجربہ کار جانے پہچانے اراکین کو نامزد کیا ہے،جس میں ان کی زیادہ توجہ خارجی معاملات، انسانی، بنیادی حقوق اور جمہوری عمل پر مرکوز نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر مطلق العنان حکومتیں اور سربراہان صدر بائیڈن کے منتخب ہونے پر فکر مند نظر آتے ہیں۔

جوزف آر بائیڈن ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ 1942ء میںعمومی طور پر امریکی معاشی مندی کا دور تھا۔ والد ایک دور میں خوشحال تھے مگر انہیں معاشی طور پر خاصے نقصانات برداشت کرنے پڑے، اس لئے بائیڈن کا بچپن قدرے تنگدستی میں گزرا۔ اسکول کا دور ایک طرح سے خوشگوار نہ تھا۔ ایک تو یہ کہ وہ تنگدست تھے دوسرے اپنے مضامین میں بھی کمزور تھے اور پھر ستم یہ کہ بیس سال کی عمر تک ہکلا کر یا توتلا کر بولتے تھے، جس کی وجہ سے اکثر انہیں شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا مگر اپنے قدوقامت کی وجہ سے اسکول کی فٹ بال ٹیم کے کپتان تھے۔ انہوں نے شاعری پڑھ کر اکیلے میں تقریریں کرکے ہکلانے کی کمزوری پر قابو پالیا، اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ وہ اچھے مقرر بن کر ابھرے ۔ساٹھ کے آخری عشرے میں انہوں نے قانون کی سند حاصل کر لی۔بعدازاں اپنے علاقے سے کونسلر کا انتخاب لڑ کر منتخب ہو گئے، پھر ان کا سیاسی سفر شروع ہوا۔

صدر جوبائیڈن نے 1970ء میں سینیٹر کے لئے انتخابات میں حصہ لیا اور خوش قسمتی سے وہ سینیٹر منتخب ہوئے۔ اس ایوان میں قدم رکھنے کے بعد جوبائیڈن نے اپنی تقریروں اور معروف شخصیات کے اقوال سناکر خوب داد وصول کرتے تھے۔ اس طرح انہوں نے مزید ریکارڈ قائم کئے جیسے بار سینیٹر منتخب ہوئے۔ ایک درجن سے زائد کمیٹیوں کے سربراہ رہے۔ صدر باراک اوباما کے ساتھ آٹھ سال نائب صدر رہے پھر ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر 2020 کے صدارتی انتخابات میں صدر ٹرمپ کو ہرا کر صدر بن گئے۔ امریکا کو ایک عرصے بعد نہایت تجربہ کار، نرم گو، اعتدال مزاج صدر نصیب ہوا ہے۔ یہ سچ ہے کہ امریکا کے صدر کو دنیا کا سب سے طاقتور ترین صدر شمار کیا جاتا ہے۔ ایک طرح سے اس کے اختیارات دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے۔

مگر دوسری طرف جہاں جہاں جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔ سیکورٹی اور پروٹوکول کی پابندیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اپنے ماتحت محافظ افسروں کی ہدایات پر عمل پیرا ہونا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ایک عالی شان، آرام دہ محل نما وائٹ ہائوس میں درجنوں اہلکاروں اور ملازمین کے ساتھ شاندار زندگی گزارتا نظر آتا ہے، مگر سیکڑوں کیمرے، درجنوں افسران اور اہلکاروں کی نظروں میں گھرا رہتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں امریکی صدر کو اپنی نجی زندگی کو سرکاری زندگی میں ڈھالنا پڑتا ہے اور سرکاری زندگی کو نجی زندگی تسلیم کرنا پڑتا ہے۔

صدر جوبائیڈن کے لئے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے وائٹ ہائوس میں بطور صدر امریکا قدم رکھنے سے پہلے ہی اپنا ہوم ورک مکمل کر لیا ہے۔ جس طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر منتخب ہونے پر کہا تھا کہ میں اپنے اولین سو دنوں میں فلاں فلاں معرکے سر کروں گا مگر وہ اپنے ماتحت اعلیٰ افسران اور سیکریٹریوں کو عہدوں سے الگ کرنے اور نئے نام نامزد کرتے کرتے ہی ہلکان ہو گئے تھے پھر رائے عامہ اور میڈیا نے بھی ان کی خبر لینی شروع کردی تھی،مگر جوبائیڈن جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سو فیصد تو نہیں مگر زیادہ تر باتوں کو پورا کرلیں گے ،یہ توقع اس لئے باندھی جا رہی ہے کہ وہ نہایت زیرک، تجربہ کار ، امریکی قوانین، مفادات اور سیاست سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ان کا پچاس سال کا سیاسی تجربہ ہے اب وہ اٹھہتر سال کے معمر بزرگ بن چکے ہیں۔

بیش تر سیاسی پنڈت اپنے تجزیوں اور جائزوں کے کاغذی گھوڑے دوڑا رہے ہیں بعض کا خیال ہے کہ صدر جوبائیڈن اپنے حصہ میں جہاں ضروری تصور کریں گے وہاں طاقت کے استعمال سے گریز نہیں کریں گے۔ سفارتی محاذ پر وہ مکالمہ اور مذاکرات کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ اس لئے پہلی ترجیح یہی ہو گی کہ بات چیت سے معاملہ حل کر لیا جائے۔

بصورت دیگر صدر بائیڈن بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ صدر بائیڈن اپنی متوقع سیاسی پالیسی میں کچھ ایسی باتوں کو بھی اہمیت دے سکتے ہیں، جس کا انہوں نے اپنی صدارتی مہم کے دوران ذکر نہ کیا ہو،جیسے میکسیکو، وینزویلا، ہانگ کانگ اور مشرق وسطیٰ صدر بائیڈن کے بارے میں زیادہ خیال آرائی یہ کی جا رہی ہے کہ وہ ایک ہاتھ میں انسانی حقوق کا پرچم اٹھائیں گے، دوسرے ہاتھ میں جمہوری اقدار کی پاسداری کا، اس طرح وہ امریکاکی ساکھ بھی بحال کرنے کی سعی کریں گے ۔ ساتھ ہی مطلق العنان اور عوامی خواہشات سے دور حکمرانوں کو آئینہ بھی دکھا سکیں گے۔

صدر جوبائیڈن کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ جنگ وجدل کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ انہوں نے عراق پر حملہ کرنے کے فیصلے کی شدید مخالفت کی تھی مگر صدر بش اور ان کے٭٭٭ نے عراق پرحملہ کر دیا۔ مسلمانوں کے بارے میں ان کا اعتدال پسند رویہ بھی خاصا مشہور ہے۔ مگر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سال دو ہزار میں نائن الیون کے ہولناک واقعہ کی وجہ سے ان کا ذہن تبدیل ہو گیا ہے اور وہ شدت پسند گروہوں کے خلاف سخت رویہ اپنانے پر یقین رکھنے لگے ہیں۔

اسرائیل کے حوالے سے بھی کہا جاتا ہے کہ صدر بائیڈن اسرائیل کو غالباً وہ نرم گوشہ نہ فراہم کریں جو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے چار سالہ دور میں فراہم کر رکھا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہو مشرق وسطیٰ میں اپنے حلیفوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ اسرائیل کو ایران کے جوہری پروگرام پر شدید تشویش ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں ایران امریکی جوہری معاہدہ یک طرفہ طور پر منسوخ کرکے اسرائیل کو خوش تو کر دیا مگر امریکا کے لئے نئے مسائل کھڑے کر دیئے ہیں۔

تاہم صدر جوبائیڈن نے یہ واضح طور پر کہا ہے کہ وہ منتخب ہونے کے بعد ایران امریکی جوہری معاہدہ کو دوبارہ بحال کریں گے۔ البتہ ایران کو یہ یقین دہانی کرانی ہو گی کہ وہ اپنے جوہری پروگرام سے دستبردار ہو جائے گا۔ مگر اسرائیل کا اب بھی یہ مؤقف ہے کہ ایران کسی بھی طور پر اپنے جوہری پروگرام سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اس حوالے سے مشرق وسطیٰ میں صدر بائیڈن کو اسرائیل، ایران اور سعودی عرب سے بہتر سے بہتر تعلقات استوار کرنے اور فریق کو اس کے نقطہ نظر کے مطابق پوری طرح مطمئن کرنے کے لئے بہت کچھ کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی طرح چین، شمالی کوریا اور ترکی کو مطمئن کرنے کے لئے بھی بہت کچھ کرنا ہو گا۔ واضح رہے کہ شمالی کوریا سے مذاکرات کرنے والے سابق امریکی صدور جن میں جارج بش جونیئر، بل کلنٹن ، باراک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ شامل ہیں، مذاکرات کی میز پر ناک آئوٹ ہو کر گھر واپس چلے گئے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر جوبائیڈن جیسا تجربہ کار، منجھا ہوا سیاستدان، زیرک سفارت کار اور اعتدال پسند مکالمہ گو شخصیت سے شمالی کوریا کے صدر، کم جونگ ان سے ملاقات ہو گی اور مذاکرات ہوں گے ۔یہ لمحات حقیقت میں صدر بائیڈن کے لئے کسی معرکہ سے کم نہیں ہوں گے۔ بیش تر سفارت کاروں کا خیال ہے کہ شمالی کوریا صدر بائیڈن کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ دوسری طرف شمالی کوریا کے لئے بھی یہ ایک امتحان ہو گا۔ گزشتہ دنوں مسلح افواج کی پریڈ کے دوران تقریر کرتے ہوئے شمالی کوریا کے صدر نے ٹرمپ اور صدر بائیڈن کو یہ پیغام دیا ہے کہ شمالی کوریا کو نظر انداز کرکے اس کی اہمیت کو گھٹا کر امریکا اپنا نقصان کر رہا رہے۔ کہا جاتا ہے کہ شمالی کوریا کے جوہری میزائلوں سے زیادہ خطرناک اس کی سفارت کاری اور مکالمہ رہے۔

بعض سفارت کار یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر امریکا سیاسی طور پر شمالی کوریا سے اچھے تعلقات استوار کر لیتا ہے تو اس کو چین سے مکالمہ کرنے میں زیادہ سہولت ہو سکتی ہے ،بہرحال وقت کا انتظار کرو دیکھو کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ صدر بائیڈن کے لئے شمالی کوریا سمیت افغانستان بھی کسی معرکہ سے کم نہیں ہے، کیونکہ تاحال امریکا دو دہائیوں سے افغانستان میں برسرپیکار ہونے کے باوجود طالبان سے بہتر تعلقات استوار کرنے میں ناکام رہا ہے اور طالبان اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹتے نظر نہیں آئے۔ یہاں بائیڈن ڈپلومیسی کا امتحان ہو سکتا ہے۔

البتہ اصل میدان سیاست جنوبی بحیرہ چین اور بحرالکاہل یا ہند چینی کا علاقہ ہے ،جہاں امریکی صدر کو اپنی سیاسی تجربہ کاری کے جوہر دکھانے ہوں گے۔ یہ خطہ دن بدن بڑے خطروں سے ہمکنار ہوتا جا رہا ہے ،جبکہ چین اپنے مؤقف پر قائم ہے۔ بیس جنوری کے بعد تمام سیاسی پنڈت اس سول پر غور کرتے دکھائی دے سکتے ہیں کہ صدر جوبائیڈن کا امریکا اور اس کی دیگر ممالک کے لئے پالیسیاں کیا ہو سکتی ہیں؟

اس سوال کاسیدھا جواب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جو بائیڈن ایک امریکی سپوت ہیں وہ ایک متوسط گھرانے سے اُٹھ کر پچاس برسوں کی تپسیا کے بعد وائٹ ہائوس میں سب سے اونچی کرسی تک پہنچے ہیں۔ انہیں یہ خیال یقیناً ہوگا کہ یہاں تک لانے میں امریکی عوام کا کتنا اہم کردار شامل رہا ہے۔ یہی خیال ہے کہ جو ایک سیاستدان کو اپنے عوام، خواص اور ملکی مفادات سے جوڑتا ہے۔ صدر بائیڈن جن دشوار گزار راستوں سے گزر کر وائٹ ہائوس پہنچے ہیں۔ وہ ان راستوں اور ان مصائب کو بھول نہیں سکتے، پھر انہیں یہ بھی ادراک ہے کہ ان کے حریف ڈونلڈ ٹرمپ نے سات کروڑ چالیس لاکھ پاپولر ووٹ حاصل کئے ہیں۔

دوسرے لفظوں میں امریکی گلی کوچوں میں ٹرمپ کے حامی افراد کی بڑی تعداد موجود ہے،جن کا بیانیہ ان کے بیانیہ سے مختلف ہے۔ امریکا سب سے پہلے، امریکا کی عظمت واپس ملا دلائیں گے۔ چینی کو اپنا سرمایہ کار خانے اور ٹیکنالوجی دے کر امریکیوں کو بے روزگار مت کرو وغیرہ۔ایسے میں صدر بائیڈن کے لئے صدارت کی کرسی پھولوں سے سجی نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ امریکا کی اصل قوت امریکی آئین، جمہوری نظام اور جمہوریت پر عوام کا یقین ہے۔ امریکی تعلیمی نظام، سائنسی تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی میں پیش رفت اس کا محل و وقوع ہے۔ بعدازاں امریکا کی دفاعی طاقت اور خلائی ٹیکنالوجی بھی امریکا کے لئے باعث اطمینان ہے۔

درحقیقت امریکی سیاسی نظام میں خرابی نہیں ہے بلکہ خرابی معاشی نظام میں ہے جو امیروں اور غریبوں کے درمیان خلیج وسیع تر کرتا جا رہا ہے۔ امریکا سمیت دنیا کی دولت کا ساٹھ فیصد سے زائد حصہ صرف اور صرف دنیا کے ڈیڑھ سو امیر ترین خاندانوں کے ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گیا ہے۔ سماجی ناانصافی اور ناہمواری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

دنیا کو اب جاری ناگفتہ بہ حالات میں نئے سماجی معاہدہ کی ضرورت ہے۔ اس نئے سماجی معاہدہ کے لئے اگر چاہے تو امریکا اور امریکی سیاسی ادارے جدوجہد کر سکتے ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ اجارہ دار سرمایہ داری نظام کا سب سے توانا ستون خود امریکاہے۔ یہ مسئلہ بھی صدر بائیڈن کے کسی معرکہ سے کم نہیں ہے،کیوںکہ یہاں اہم سول یہ سر اٹھاتا ہے کہ ٹرمپ جذباتی، سطحی سوچ کے مالک، سیاسی طور پر ناتجربہ کار اور خود پسند شخصیت کے مالک ہیں تو یہ ایک فرد کا مسئلہ ہے مگر سات کروڑ افراد کو کس خانے میں ڈالا جائے گا۔ وہ تمام لوگ محض ٹرمپ کی تقریر پر وائٹ ہائوس پر نہیں چڑھ دوڑے، ان کے ذہن میں بہت کچھ پک رہا تھا۔

ان کے جذبات اور احساسات مجروح ہوتے رہے تھے انہیں اپنے معاشرے میں وہ سماجی اور معاشی انصاف میسر نہیں رہا تھا۔ جس کی وہ آج تک تمنا کرتے آئے تھے۔ محض ڈونلڈ ٹرمپ پر غصہ نکالنے ان کا محاسبہ کرنے ان پر پابندیاں عائد کرنے سے ایک فرد کو تو پابند کیا جا سکتا ہے مگر سات کروڑ کو بھی تو روکنا ہوگا تب کیا ہو سکتا ہے؟

یہ وہ سوال ہیں جو ذہنوں میں ابھرتے ہیں۔ مزید یہ کہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ کیا اس پر غور کر سکتی ہے کہ مستقبل قریب میں مصنوعی ذہانت کا استعمال عام ہوتا دکھائی دیتا ہے، جس سے سرمایہ دار مزید امیر ہو جائے گا۔ محنت کش، ہنر مند تعلیم یافتہ بھی بے روزگار ہو جائے گا ایسا خیال کیا جا رہا ہے،جس پر روس کے صدر دلادی میر پیوٹن نے ماسکو میں نوجوانوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یہی بات کی ہے۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر دنیا کے مسائل میں گوناگوں اضافہ ہو جائے گا۔ مصنوعی ذہانت نہ صرف غریبوں کے منہ سے نوالا چھین سکتی ہے بلکہ دنیا کے امن اور کرہ ارض کی سلامتی کو بھی خطرے سے دوچار کر سکتی ہے۔ تب ایسے میں صدر جوبائیڈن کو بھی مستقبل قریب کے ان ممکنہ خدشات پر غور کرنا ہو گا۔

ٹرمپ کی متنازع پالیسیاں

ٹرمپ نے چار سالہ اقتدارمیں اتنے متنازع امور انجام دیے کہ ان کا دور امریکی تاریخ کا سب سے زیادہ متنازع دور کہلائے گا۔انہوں نے انتخابی مہم کے دوران بعض معاملات پر اشتعال انگیز تقریریں کیں تھیں جس پر عوام کی ایک نمایاں تعداد ان کے خلاف ہوگئی تھی۔ جیسے ٹرمپ نے تارکین وطن پر پابندیوں کی بات کی۔ مسلمانوں کے حوالےسے اپنے تحفظات ظاہرکئے اور اسلامو فوبیا، اسلامی انتہا پسندی کے حوالے سے بھی باتیں کیں۔ سیاہ فام اور رنگدار نسل کے امریکیوں کو انتہا پسند، جھگڑالو اور مسائل پیدا کرنے والے تک کہا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے پڑوسی ملک میکسیکو کی سرحد پر تارکین وطن کو روکنے کے لیے باڑ لگانے کا حکم دیا۔ میکسیکو کے تارکین وطن کے حوالے سے بعض نازیبا الفاظ بھی استعمال کئے جس پر میکسیکو کی حکومت نے احتجاج کیا تھا اور دونوں ممالک کے تعلقات میں دراڑ آگئی۔ان کے مخالفین نے اس صورت حال سے پورا فائدہ اٹھایا۔

صدر ٹرمپ نے چین کے خلاف تجارتی محاذ کھولا، چینی مصنوعات پر محصول میں نمایاں اضافہ کیا اور چین کو برآمد کی جانے والی اشیاء اور خام مال کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا۔اس پرچینی حکومت کا بھرپور ردعمل سامنے آیا جس کی وجہ سے ان دونوں بڑی طاقتوں کے مابین نئی کشیدگی پیداہوئی۔ ٹرمپ نے سب سے زیادہ ناقابل یقین یہ کام کیا کہ یورپی یونین میں امریکا کے پرانے اتحادیوں پر تنقید کرکے انہیں ناراض کردیا۔

ان کا موقف تھا کہ یورپی ممالک اپنے معاملات سمیت دفاعی معاملات میں اب امریکاکی طرف دیکھنا چھوڑ دیں اور اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کرکے نیٹو کا بجٹ پورا کریں کیونکہ امریکا دوسروں کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔ صدر ٹرمپ کی اس پالیسی نے برطانیہ، فرانس اور جرمنی سمیت دیگر یورپی یونین کے ممالک کو بھی ناراض کردیا۔

ٹرمپ نے صدر کا منصب سنبھالنے کے بعدماحول کے تحفظ کے بارے میں پیرس معاہدے سے امریکا کی علیحدگی کا اعلان کرکے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیاتھا ۔انہوں نے مشرق وسطی میں کشیدگی میں اضافہ کیا۔ اسرائیل کی دیرینہ خواہش کی تکمیل کے لیےامریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کردیا۔ امریکا کے اس اقدام سے پھر خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوا۔

اسرائیل کی بہت زیادہ طرف داری کے ساتھ صدر ٹرمپ نے سعودی عرب کو بھی خاصا فیور کیا جس پر ایران سمیت چنددیگر ممالک بھی امریکی پالیسی سے شاکی رہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی میں بھارت کی زیادہ حمایت کی گئی،اس سے کئی دفاعی معاہدے بھی کئےگئےاور پاکستان کو نظرانداز کیا جاتا رہا۔ ایسے میں پاکستان اور چین نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھایاتوامریکا کویہ شکایت ہوئی کہ پاکستان اور چین ایک دوسرے کے زیادہ قریب آگئے ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہائوس میںقدم رکھتے ہی اپنے اعلیٰ عہدےداروں اور سیکریٹریز کے ساتھ معاندانہ رویہ اپنا یا،بیش تر اعلیٰ عہدےداروں کو تبدیل کردیا اور میڈیا سے بھی ان کے تعلقات خوشگوار نہ رہے بلکہ میڈیا کے جید افراد کا رویہ صدر ٹرمپ کے خلاف رہا۔ میڈیا نے ٹرمپ کی غیر لچک دارپالیسیوں اور ان کے ترش رویوں کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا۔ خاص طور پر کووڈ-19 کی پہلی لہر کے دوران صدر ٹرمپ نہ صرف بیمار ہوئے بلکہ بدحواس بھی نظر آئے اور ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ان کو کیا کرنا ہے۔

ایسے میں امریکاکے زبردست جانی اور مالی نقصانات پر نہ صرف امریکا بلکہ بیرون امریکا بھی صدر ٹرمپ پر شدید تنقید چینی ہوتی رہی۔ سچ یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنی کم زور ترین پالیسیوں کی وجہ سے امریکی سیاست، معیشت، معاشرت اور جمہوریت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

ایران- امریکا تعلقات

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے منصب کے آخری ایام میں ایران پر مزید اقتصادی اور تجارتی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیونے اپنے بیان میں کہا کہ امریکا نے ایران سے تعاون کرنے پر سات کمپنیوں پر اقتصادی اور تجارتی پابندیاں عائد کر دی ہیں اورمزید چند کمپنیوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ مذکورہ کمپنیوں پر الزام ہے کہ وہ ایران کے دُور ماربیلسٹک میزائلوں کی تیاری میں سہولت فراہم کر رہی تھیں۔

کہا جاتا ہے کہ امریکانے صدر ٹرمپ کےدورِ اقتدار میں ایران پر مزید دبائو بڑھایا، اقتصادی اور تجارتی پابندیاں عائد کیں تا کہ ایران امریکہ سے بات چیت کر کے اپنا جوہری اوربیلسٹک میزائلوں کا پروگرام مؤخر کر دے۔تاہم جوبائیڈن نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ وہ ایران امریکا کا جوہری معاہدہ بحال کریں گے جسے ٹرمپ نے یک طرفہ طورپر ختم کر دیا تھا۔ تاہم ایران کو یقین دہانی کرانی ہوگی کہ وہ جوہری ہتھیارتیار نہیں کرے گا۔ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ امریکا ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ لڑ رہا ہے جس کی وجہ سے ایرانی عوام شدید مصائب کا شکار ہیں جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

ایران پر اقتصادی، تجارتی، سائنسی، دفاعی اور سماجی پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ 1979ء کے ایران کے اسلامی انقلاب کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ تقریباً پچاس برس قبل امریکی صدر جمی کارٹر نے ایران پر اقتصادی و دیگر پابندیاں عائد کی تھیں۔پھر ایران اور عراق کی جنگ بھڑک اُٹھی تھی جو آٹھ برس تک جاری رہی۔ اس جنگ کے دوران امریکانے دونوں ملکوں پر ہتھیاروں کی خریداری پر پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ایران پر اقتصادی، تجارتی اور ہتھیاروں کی خریداری و تیاری پر بھی پابندیاں مزید سخت کر دی تھیں۔ امریکا اور اقوام متحدہ کی عائدکردہ پابندیوں میں ایران کی درآمدات، برآمدات، سرکاری و نجی قرضے اور بینکنگ کی سہولیات بھی شامل تھیں۔

2005ء میں ایران کے منتخب صدر احمدی نژادنے اقتدار سنبھالنے کے بعد یورینیم کی افزودگی کا پروگرام شروع کیا۔ احمدی نژاد کے دور میں بھی ایران کے امریکااور بعض دیگر مغربی ممالک سے تعلقات زیادہ خوشگوار نہیں رہے۔ پابندیوں پر سختی کا سلسلہ اور ایران کا احتجاج جاری رہا۔2015ء میں ایران امریکاجوہری معاہدے کے بعد امریکی صدر باراک اوباما نے ایران پر عائد پابندیوں میں قدرے کمی کی تھی جس کے تحت ایران کے صدر حسن روحانی نے یورپی کمپنیوں سے بڑے تجارتی معاہدوں کے لئے دورے اور بات چیت کا آغاز کیا، مگر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد ان معاہدوں پر بھی پابندیوں کے کچھ اثرات نمایاں ہوئے۔

واضح رہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایران ایک بڑی طاقت ہے جو عسکری طاقت، قدرتی وسائل، افرادی قوت ،ہنرمندی اور تاریخی ورثے کےلحاظ سے سب سے نمایاں ہے۔