رتی بھر ضمیر!

January 21, 2021

اگر آپ نے ڈاکومنٹ آف شیم پڑھناہے تو نیب براڈشیٹ معاہدہ پڑھ لیں، اگر آپ نے ڈاکومنٹ آف بنانا ریپبلک دیکھنا ہے تو برطانوی عدالت کا پاکستان براڈ شیٹ فیصلہ دیکھ لیں، اگر آپ کلاسیکل چولوں سے لطف اندوز ہوناچاہتے ہیں تو براڈ شیٹ، نیب لین دین پر نظر مارلیں، توبہ توبہ، کیسے کیسے کوڈوراج کرتے رہے، توبہ توبہ، کوئی چمچ سے کھاتا رہا، کسی نے بیلچے سے کھایا، کوئی بے ایمان بن کر لوٹتا رہا، کسی نے اپنی ایمانداری کے تڑکوں سے ملک کی مت ماردی، آپ براڈ شیٹ کہانی سن چکے، بات آگے بڑھانے سے پہلے خلاصہ حاضرِ خدمت،تاکہ ایک بار پھر آپ کا ایمان تازہ ہو سکے، کہانی شروع ہوتی ہے، مشرف مارشل لا سے، مارشل لا لگا، آئین وقانون کے فل اسٹاپ، کامے آگے پیچھے کرکے بڑی بڑی گنجائش نکال لینے کے ماہر شریف الدین پیرزادہ اور پرویز مشرف کی ملاقات ہوئی، ضیاء الحق انہیں اپنا گرو،مرشد اور مشرف انہیں باس کہا کرتے تھے، انہی کے مشورے پرپرویز مشرف نے اپنی احتسابی مہم شروع کی، احتساب بیورونیب ہوا، جنرل امجد چیئرمین نیب لگے۔

اِدھر یہ ہوا اُدھر شریف الدین پیر زادہ کے دوستوں ڈاکٹر ڈبلیو ایف پیپر اور جیر ی جیمز کو اس کی بھنک پڑی، ان دونوں نے فوراً ایک براڈ شیٹ نامی کمپنی بنائی،شریف الدین پیر زادہ کے ذریعے جنرل مشرف سے ملے اور یہ آفر دے ڈالی ’’ہم آپ کے کرپٹ لوگوں کے اثاثے تلاش کر یں گے، آپ ہمیں ان اثاثوں کا 20فیصد دیجیے گا‘‘، آفراچھی تھی کیونکہ پاکستان کا ایک دھیلہ نہیں لگنا تھا، جو لٹا پیسہ ریکور ہونا تھا، اس میں سے 20فیصد براڈ شیٹ کو ملنا تھا، جنرل مشرف نے گرین سگنل دیا، چیئرمین جنرل امجد، پراسکیوٹر جنرل نیب فاروق آدم اور براڈ شیٹ میں معاہدہ ہو ا، نیب نے سیاستدانوں، برنس مینوں، بیوروکریٹوں پر مشتمل 200 افراد کی فہرست براڈ شیٹ کے حوالے کر دی، یہاں یہ یاد رہے، اس سے پہلے نواز شریف دور میں احتساب بیورو کے چیئرمین سیف الرحمن یہی کام کرچکے تھے، سیف الرحمٰن نے لندن اور جنیوامیں لیگل فرموں اور وکیلوں کو 31لاکھ ڈالر دے کر بی بی اور زرداری کے خلاف اچھے خاصے ثبوت ڈھونڈ نکالے تھے،خیر اسی دوران ایڈمرل منصورالحق، آفتاب شیر پاؤ،فوزی علی کاظمی سمیت کئی لوگوں کے غیر ملکی اکاؤنٹس میں پڑی چوری شدہ رقموں کا پتا چلا، لیکن اسی دوران مشرف حکومت کو کرپٹ افراد کی ضرورت پڑگئی، کیونکہ ق لیگ بننا تھی، پیٹریاٹ ضروری تھی، حکومت بنانا تھی، اب ایک طرف حالات بدلے، کرپٹ سیاستدان حکومت کا حصہ بننے لگے، جبکہ دوسر ی طرف کرپٹ بیوروکریٹس، برنس مینوں نے نیب کے ساتھ پلی بارگین شروع کردی، نیب کے اکاؤنٹ میں پیسے آئے تو براڈ شیٹ اپنا حصہ لینے پہنچ گئی، ایک تاثر یہ کہ نیب نے عالمِ حیرانی میں پوچھا، کون سا حصہ، دوسرا تاثر یہ کہ چور، چوکیدار مطلب نیب، براڈ شیٹ ملے ہوئے تھے، لہٰذا سب حیرانیاں پہلے سے طے شدہ تھیں، بہرحال ہم یونہی کر لیتے ہیں کہ نیب نے براڈ شیٹ سے حیران ہوکر پوچھا کون سا حصہ،تب براڈ شیٹ نے معاہدہ سامنے رکھ دیا، معاہدے میں لکھا تھا کہ نیب جو ریکوری بھی کرے گا اس میں سے 20فیصد براڈ شیٹ کو ادا کرے گا،یہی نہیں معاہدے میں یہ کلاز بھی تھی کہ براڈ شیٹ کو صرف اثاثوں کی نشاندہی کرنی تھی،ریکوری ان کی ذمہ داری نہیں، جبکہ ریکوری ہو نہ ہو مگر ہر نشاندہی کے بعد رقم کا 20فیصد براڈ شیٹ کو ملے گا، یہی نہیں نیب چاہ کر بھی براڈ شیٹ سے معاہدہ ختم نہیں کر سکتا ہاں البتہ براڈ شیٹ جب چاہے معاہدہ ختم کر سکتا ہے ۔

اب یہ ذہنوں میں رہے کہ ایک ماہ پہلے براڈ شیٹ بنی، ایک ماہ بعد حکومت پاکستان (نیب ) سے اتنا بڑا معاہدہ ہوا، معاہدے میں ایسی شقیں، براڈ شیٹ چوری شدہ مال کا بتاتا جائے گا اور مال کا 20فیصد وصول کرتا جائے گا، جو ریکوری نیب کرے گا، براڈ شیٹ اس کا بھی 20فیصد لے گا، نیب چاہے بھی تو معاہدہ ختم نہیں کر سکتا، اب یہ بھی اہم کہ جیمز جیری، ڈاکٹر ڈبلیو ایف پیپر، شریف الدین پیرزادہ، جنر ل مشرف، جنرل امجد، فاروق آدم اور براڈ شیٹ کے کنٹری ہیڈ طارق فواد ملک کس کا کتنا قصور، یہ بھی اہم کہ نیب براڈ شیٹ مضحکہ خیز معاہدے کے پیچھے کون تھا، آفتاب شیر پاؤ سے زاہد علی اکبر، ایڈ مرل منصور سے فوزی علی کاظمی اور آصف زرداری سے شریف خاندان تک کون کتنا بچا، یہاں پرویز مشرف کی شریفوں سے ڈیل شرمناک، پرویز مشرف کا پی پی و دیگر کو این آر او دینا شرمناک، پی پی کی جیمز جیری سے آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ شرمناک، لیگی حکومت کی سیٹلمنٹ کی کوششیں شرمناک اور فاروق آدم سے شہزاد اکبر تک بہت کچھ جو ہوا، جونہیں ہونا چاہیے تھا،وہ شرمناک، یہاں وہ کہانی بھی یاد آرہی جب ایک حادثے میں مرجانے والے جیمز جیری نے 515ملین ڈالر کا بل نیب کو تھمادیا، نیب نے آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کیلئے احمر بلال صوفی کو ڈالا، موصوف نے غلط کمپنی کو پے منٹ کردی، قصہ مختصر ہم تو یوں لٹے کہ ڈرامہ باز کاوے موسوی صرف یہ بتا کر شریفوں کے اثاثے 820ملین ڈالر ہیں، ایک دھیلہ ریکوری کے بنا 15ملین ڈالر کمیشن لے گیا، جبکہ اسی طرح کے پیسے بتا کر 29ملین ڈالر کما گیا۔

اب ایک طرف یہ حال جبکہ دوسری طرف اپنے سب نہلے اپنی اپنی بانسری بجا رہے، اپنی اپنی کہانی سنا رہے، جیسے حکومت کہہ رہی دیکھا برطانوی عدالتی فیصلے میں آگیا کہ نواز شریف کے اثاثے 820ملین ڈالر، حکومت نے مزید تحقیقات کیلئے 3رکنی کمیٹی بھی بنادی، اب پہلی بات مان لی جائے کہ نواز شریف کے 820ملین ڈالر کے اثاثے، سوال یہ، پھر آگے کیا، کیا حاصل وصول ہوا یا ہوگا، دوسرا، اچھا کیا براڈشیٹ عدالتی فیصلہ پبلک کردیا مگر ادویات، آٹا، گندم، چینی، پٹرول، نجی بجلی گھر ڈاکے رپورٹیں بھی پبلک کی تھیں، کیا ہوا، کتنے مجرم پکڑے گئے، کیا حاصل وصول ہوا، ن لیگ کہہ رہی کہ نواز شریف کے خلاف کرپشن کا جھوٹا بیانیہ گھڑا گیا، زیروریکوری ہوئی،اب کوئی ان سے پوچھے زیروریکوری کی وجہ سے کرپشن کا بیانیہ جھوٹا کیسے ہوگیا، لندن عدالت کے مطابق 80کروڑ ڈالر مالیت کی 76جائیدادیں چھوڑیں، نوازشریف تو ابھی تک ایون فیلڈ فلیٹس کی رسیدیں یا منی ٹریل نہیں دے سکے، کیا کہا جائے، سب سچے، بس ایک پاکستان جھوٹا، نجانے یہ سب کیوں اتنے شیم پروف، پتا نہیں کس ڈھیٹ مٹی سے بنے ہوئے، رتی بھر ضمیر ہوتا تو ڈوب مرتے ۔