آخر ضمیر بھی کوئی چیز ہے !

January 21, 2021

میں کچھ دنوں سے بہت حیران سا پھر رہا ہوں، مجھے لگتا ہی نہیں کہ میری ملاقات ان پاکستانیوں سے ہو رہی ہے جن کی رگ رگ سے میں واقف ہوں بلکہ ان سے ملتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ کسی اجنبی سے میری ملاقات ہو رہی ہے۔ ڈیڑھ برس قبل میری ملاقات ایک تاجر سے ہوئی، میں بیرون ملک جا رہا تھا، فلائٹ کی روانگی میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے، سمجھ نہیں آتی تھی کہ ٹائم کیسے پاس کیا جائے؟ اتنے میں ایک ادھیڑ عمر شخص جس نے ایک انتہائی مہنگا سوٹ پہنا ہوا تھا، میرے برابر کی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا۔ گفتگو کا آغاز ہوا تو پتا چلا کہ موصوف ایک بہت بڑے بزنس مین ہیں اور اس وقت بھی کاروباری سفر پر بیرون ملک جا رہے ہیں۔ ٹائم پاس کرنے کے لئے بہترین موضوع کرپشن ہے۔ ہم پاکستانی اس موضوع پر گھنٹوں باتیں کرتے رہتے ہیں اور اس سے ہونے والی تباہی پر کفِ افسوس ملتے ہیں۔ چنانچہ میں نے موقع غنیمت جانا اور کہا جناب ’’ملک میں کرپشن اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے‘‘، اُس کے بعد میں خاموش ہو گیا کیونکہ مجھے یقین تھا باقی ایک گھنٹہ اس موضوع پر موصوف دل کا غبار نکالیں گے اور یوں فلائٹ کے انتظار کا ایک گھنٹہ کم ہو جائے گا مگر انہوں نے میرے سوال کے جواب میں خاموشی اختیار کر لی۔ مجھے گمان ہوا شاید وہ اونچا سنتے ہیں چنانچہ میں نے اپنی آواز کا والیم بڑھایا اور چیخنے کے انداز میں کہا ’’جناب ملک میں کرپشن بہت بڑھ گئی ہے، پاکستان کا کیا بنے گا؟‘‘ مگر وہ اِس پر بھی گم سم بیٹھے رہے تب میں نے اُنہیں جھنجھوڑتے ہوئے کہا ’’جناب! آپ میرے سوال کا جواب کیوں نہیں دے رہے؟‘‘ اس پر ان کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ سی ابھری اور بولے ’’آپ سمجھ رہے ہوں گے شاید میں بہرا ہوں مگر میں بہرا نہیں ہوں، میں نے آپ کا سوال پہلی مرتبہ ہی سن لیا تھا، تب میں نے حیران ہو کر پوچھا ’’اگر ایسا ہے تو پھر آپ کرپشن پر زبان کیوں نہیں کھول رہے؟‘‘ یہ سن کر انہوں نے آہستگی سے کہا ’’اس لئے کہ میں اور میرے طبقے کی اکثریت خود بہت کرپٹ ہے، میرا کروڑوں کا کاروبار ہے مگر میں سالانہ چند ہزار انکم ٹیکس ادا کرتا ہوں، لالہ موسیٰ میں میری ایک فیکٹری بھی ہے جس میں تمام مہنگے برانڈ کی جعلی کاسمیٹکس تیار ہوتی ہیں۔ حال ہی میں، میں نے تین لاکھ روپے کی ایک مشین خریدی ہے جو مدتِ میعاد گزر جانے والی ادویات پر نئی ایکسپائری ڈیٹ کندہ کرتی ہے، اس کے علاوہ حکومتی کارندوں کیساتھ مل کر جعلی ریبیٹ (REBATE) حاصل کرتا ہوں‘‘۔ مجھے یہ شخص بہت فضول لگا اور مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اگر وہ کرپٹ ہے تو ہوا کرے لیکن اسے کرپشن کے خلاف بولنا تو چاہئے، انسان نے آخر ٹائم بھی تو پاس کرنا ہوتا ہے چنانچہ میں نے کہا ’’جناب! آپ جو کچھ فرما رہے ہیں سچ فرما رہے ہیں مگر اس کے باوجود آپ کو کرپشن کے خلاف کم از کم آدھ پون گھنٹہ تو بولنا چاہئے کیونکہ فلائٹ کی روانگی میں ابھی دو گھنٹے باقی ہیں‘‘ مگر موصوف نے معذرت کی اور کہا ’’میں پہلے خود ٹھیک ہو لوں، بعد میں دوسروں کے بارے میں بات کروں گا‘‘۔

مجھے یہ کیس ناقابلِ علاج لگا چنانچہ میں نے اپنا بریف کیس اٹھایا اور ایک بڑے گرانڈیل قسم کے مسافر کے پاس جاکر بیٹھ گیا، اس نے خوشدلی سے میرا استقبال کیا، رسمی قسم کی ابتدائی گفتگو کے بعد میں نے پوچھا ’’جناب ہمارے ہاں کرپشن کب ختم ہو گی؟‘‘ مگر اس نے سوال کے جواب میں خاموشی اختیار کرلی، میں نے دو تین مرتبہ اپنا سوال دہرایا تو اس نے کہا ’’جناب میں کرپشن کے خلاف کس منہ سے بات کروں۔ میں خود ایف آئی اے میں ہوں، ملک دشمنوں کے پاسپورٹ بنانا، انہیں اپنے ملک میں داخل ہونے دینا اور ملک سے باہر جانے دینا اور اس طرح کے دوسرے بےشمار کاموں کا میں بھاری معاوضہ وصول کرتا ہوں، اربوں روپے کے غبن کا کیس ہو تو کروڑوں اس میں سے بھی مل جاتے ہیں۔ لہٰذا کرپشن کے خلاف بولنے کی ضمیر اجازت نہیں دیتا۔ اس پر میں نے دل میں لاحول ولا پڑھا اور ایک بار پھر اپنی سیٹ بدل لی مگر میرے دل کی مراد بر نہیں آئی کیونکہ زندگی کے تقریباً تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اس وقت فلائٹ کے انتظار میں لاؤنج میں موجود تھے لیکن میں نے جس کسی سے کرپشن کے پھیلاؤ اور اس کی تباہیوں کو موضوع گفتگو بنانے کی کوشش کی، اُس نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ہم خود سب سے زیادہ کرپٹ ہیں، لہٰذا جب ہم خود ٹھیک ہوں گے، تب بات کریں گے!

پیشتر اس کے کہ میں مایوس ہو کر نیند کی گولی منہ میں ڈالتا اور یوں فلائٹ کی روانگی تک ڈیڑھ گھنٹہ نیند کے مزے لیتا، اچانک میری نظر ایک کلرک نما شخص پر پڑی۔ پتا چلا وہ واقعی ایک دفتر میں کلرک ہے، میں نے سوچا یہ طبقہ کرپشن کے ہاتھوں اپنے حقوق سے محروم ہو رہا ہے چنانچہ یہ اس موضوع پر یقیناً گھنٹوں بات کرے گا مگر اس کا رویہ بھی سرد مہری کا تھا۔ جب میں نے اسے اس موضوع پر بولنے پر بہت زیادہ اکسایا تو وہ بولا ’’میں کلرک ہوں، میری تنخواہ تیس ہزار روپے ماہوار ہے اور میں بیرون ملک چھٹیاں گزارنے جا رہا ہوں، میں ڈیفنس میں رہتا ہوں، میرے پاس بی ایم ڈبلیو کار ہے، میرے گھر پر دس ملازم ہیں اور تم مجھ سے توقع رکھتے ہو کہ میں کرپشن کے خلاف بولوں، آخر ضمیر بھی کوئی چیز ہے؟‘‘ اور پھر اس نے مجھے بتایا کہ ایک چھوٹا دکاندار، ایک مزدور، ایک مکینک، ایک معمار، ایک چپراسی، گھر کا ملازم یہ سب حسبِ توفیق کرپشن کرتے ہیں اور پھر ہم سب کرپشن کرپشن کرتے رہتے ہیں، تم لوگ جو اخباروں کے صفحے کے صفحے اور ٹی وی چینلوں کے کئی گھنٹے اِس موضوع کی نذر کر دیتے ہو، اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ، تم میں سے کتنوں کے ہاتھ صاف ہیں؟ میں ایک کرپٹ انسان ہوں مگر میں خود کو بدلنے کی کوشش میں ہوں، جس دن میں اس کوشش میں کامیاب ہو گیا، اس دن تم سے زیادہ کرپشن کے خلاف بولوں گا! یا اللہ یہ ہمیں کیا ہو گیا ہے؟