2021ء: ریئل اسٹیٹ مارکیٹ کےعالمی رجحانات اور پاکستان

January 24, 2021

سال2020ء ریئل اسٹیٹ مارکیٹ کے لیے اتنا بُرا ثابت نہیں ہوا، جتنا کہ ہوسکتا تھا۔ کووِڈ19-کی عالمی وَبا، معاشی سست روی اور ریکارڈ بے روزگاری کے باوجود امریکا میںگزشتہ ایک سال کے دوران نہ صرف 6کروڑ گھر فروخت ہوئے بلکہ ان کی قیمتوں میں اوسطاً 5فی صد اضافہ بھی ریکارڈ کیا گیا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ دُرست ہے کہ گزشتہ سال امریکا میں مارگیج کی شرح بھی ریکارڈ کم سطح پر رہی لیکن اعدادوشمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ معاشی سست روی نے بڑی حد تک صرف کم آمدنی والے طبقے کو ہی متاثر کیا، جو زیادہ تر کرایہ کے گھر میں رہتا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ریئل اسٹیٹ کے لیے 2021ء بھی ایک عجیب سال ثابت ہوگا۔ ویکسینز کے آنے کے بعد لوگ2022ء تک کورونا وائرس کے خاتمے کی توقع کررہے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ معیشت یا ریئل اسٹیٹ شعبہ کووڈ19-سے پہلے کی طرح معمول پر آجائے گا۔ سال 2021ء ریئل اسٹیٹ شعبے کے لیے کیسا ثابت ہوسکتا ہے، یہاں یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔

ملازمتیں: ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کووڈ19-کے دوران ختم ہونے والی کئی ملازمتیں اب دوبارہ کبھی بحال نہیں ہوں گی۔ کاروباری افراد نے اس عرصے کے دوران عمومی سے کم افرادی قوت کے ساتھ کام کرنے کا طریقہ سیکھ لیا ہے اور یہ ایک ایسا رجحان ہے جو اس معاشی بحران سے پہلے ہی پنپنا شروع ہوگیا تھا۔ کووڈ19-بحران کے نتیجے میں زیادہ تر کم آمدنی والی نوکریاں متاثر ہوئی ہیں لیکن اس سے زیادہ تنخواہیں لینے والے کمپیوٹر انجینئرز بھی متاثر ہوئے ہیں۔ توقع ہے کہ عالمی معیشت میں نئے سال کے دوران ملازمتوں کے کچھ نئے مواقع پیدا ہوں گے لیکن یہ ناکافی ہوں گے۔ اس کے اثرات دفاتر پر مشتمل ریئل اسٹیٹ پر دیکھے جائیں گے۔

شہروں کو نقل مکانی: وَبا کے باوجود، 2021ء میں بھی شہری علاقوں کو نقل مکانی کا رجحان جاری رہنے کی توقع ہے۔ ہرچندکہ، وَبا نے یہ بات عیاں کردی ہے کہ کئی ملازمتیں گھر سے بیٹھ کر بھی کی جاسکتی ہیں، تاہم لوگ اب بھی انفرااسٹرکچر کے قریب رہنا چاہتے ہیں، جیسے صحت اور تعلیم کی معیاری اور بہتر سہولتیں۔

امریکا کی بات کریں تو کئی دہائیوں سے امریکی، شمال مشرقی ریاستوں سے ٹیکساس اور فلوریڈا کی طرف نقل مکانی کررہے تھے۔ حالیہ عرصے میں کئی امریکی کیلی فورنیا جیسی بڑی تجارتی ریاست سے دوسری ریاستوں کو نقل مکانی کرتے دیکھے گئے ہیں۔ بڑھتی بے روزگاری کے باعث، کئی لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔

ان حقائق کی روشنی میں کیا نتائج اَخذ کیے جاسکتے ہیں؟ کووِڈ19-کی وجہ سے نئے رہائشی منصوبے تاخیر کا شکار ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے رسد میں کمی آئی ہے اور لوگوں کی ہجرت کے باعث وہ کرائے کے گھروں کو ترجیح دیں گے۔ اس وجہ سے کم آمدنی والے علاقوں میں کرائے کے گھروں کی طلب بڑھے گی لیکن طلب بڑھنے کے ساتھ کرایہ داروںکے مالی مسائل بھی مزید بڑھ سکتے ہیں۔ ان حالات میں، کم آمدنی یا کم کرائے والے علاقوں میں سرمایہ کاری کرنااتنا سود مند ثابت نہیں ہوگا۔

2021ء کے بعد کم آمدنی والے طبقہ کے لیے کرایہ کے گھروں کی مارکیٹ سُکڑنے کا امکان ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سال کم قیمت کرایہ پر اٹھنے والے گھر کا آئندہ سال کے آخر تک پھر سے خالی ہونے کا امکان ہے، کیونکہ زیادہ تر کرایہ دار ایک گھر میں دو سال گزارنے کے بعد اسے بدلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

طویل مدت میں، کرایہ کے لیے رہائشی گھروں کی مارکیٹ میں اضافہ متوقع ہے۔ کووِڈ19-بحران نے ایک بار پھر ایسے لوگوں کی تعداد بڑھادی ہے جو اپنا گھر خریدنے کی مالی حیثیت نہیںرکھتے۔ امریکا میں 2020ء کے دوران اپنا گھر رکھنے والے افراد کی تعداد 2فی صد اضافے کے ساتھ 67فی صد ہوگئی، جو 2019ء میں 65فی صد تھی۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ایک دفعہ رونما ہونے والا واقعہ ہے۔ معاشی بحران نے لوگوں کی آمدنی کے ساتھ ساتھ ان کی بچتوں پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

گزشتہ سال کے دوران گھروں کی قیمتوں میں 5فی صد اضافے سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2021ء اور 2022ء کے دوران گھروں کی قیمتوں میں معمولی اضافہ ریکارڈ کیا جاسکتا ہے۔ اس میں ایک مارکیٹ سے دوسری مارکیٹ کے درمیان فرق ضرور دیکھا جائے گا اور اس دوران ذہین سرمایہ کار اپنے پرانے گھر کو بیچ کر بہتر مقام اور بہترگھر میں منتقل ہونے کے مواقع حاصل کرسکتے ہیں۔

اگر پاکستان میں رہائشی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ کا جائزہ لیا جائے تو 2020ء کے دوران، ہماری مقامی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ میں بھی لگ بھگ عالمی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ والا رجحان دیکھا گیا۔ پاکستان میں بھی معاشی بحران کے باوجود، کچھ بہتر ہاؤسنگ مارکیٹس میں قیمتوں میں معمولی اضافہ دیکھا گیا۔ حکومت کی جانب سے ریئل اسٹیٹ پیکیج میں دسمبر 2021ء تک توسیع کے بعد اس شعبے سے وابستہ ماہرین اور پروفیشنلز کو توقع ہے کہ نئے سال میں بھی اچھی ریئل اسٹیٹ کی مالیت میں محدود اضافے کے امکان کو رَد نہیں کیا جاسکتا۔