نیا صدر نئے چیلنجز …

January 23, 2021

روز آشنائی … تنویرزمان خان ، لندن
امریکہ میں ٹرمپ کا اقتدار ختم ہوگیا۔ جو بائیڈن نے نئے صدر اورکمیلا ہیرس نے نئے پہلی سیاہ فام نائب صدر کا حلف اٹھالیا ہے۔ بائیڈن نےحلف اٹھانے کے بعد کہا کہ وہ ابھی سے وقت ضائع کئے بغیر اپنے کام کا آغاز کررہا ہے کیونکہ امریکہ میں کورونا اور اس پر ٹرمپ پالیسی نے جو حالات خراب کردیئے ہیں اس پر کسی قسم کا وقت ضائع کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ بائیڈن نے فوری طور پر 17 انتظامی اقدامات کا اعلان بھی کیا جس کے تحت 100 دن کیلئے پورے امریکہ میں ماسک کا استعمال لازمی قرار دیا گیا ہے اور تمام سرکاری عمارات میں سوشل فاصلہ کو لازمی ملحوظ رکھا جائے گا۔ اس کے علاوہ فوری طور پر ورلڈ ہیلتھ آگنائزیشن کے ٹرمپ کے فیصلے کو ختم کردیا جس میں ٹرمپ نے WHOکو غیر ضروری ادارہ قرار دے کر اس کے فنڈز بند کردیتے تھے۔ کچھ مسلم ممالک پر ٹرمپ نے جو امیگریشن کی پابندیاں عائد کی تھیں انہیںختم کردیا گیا ہے۔ ماحولیات پر نئے اقدامات کیلئے پالیسی سازی شروع ہوگئی ہے۔ ماحولیات کے حوالے سے ٹرمپ نے پیرس معاہدے سے خود کو بے دخل کرلیا تھا۔ اسی طرح کے دیگر اقدامات کئے جارہے ہیں جس سے گزشتہ چار برسوں میں ٹرمپ نے جو نفرت کی سیاست کو بڑھاوا دیا تھا اسے ختم کرنا شامل ہے۔ حلف کی تقریب میں پچھلے تین صدور اپنی بیگمات کے ہمراہ موجود تھے۔ ٹرمپ نے 150 سال بعد پہلی دفعہ امریکی تاریخ میں اس تقریب میں شرکت نہیں کی۔ جمی کارٹر اپنی صحت کے سبب اپنے پیشرو کی تقریب میں شرکت نہیں کرسکا تھا تاہم اس تقریب میں بہت نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا تھا کہ جوبائیڈن اور بارک اوباما میں بہت گہرے تعلقات ہیں۔ کمیلا ہیرس کے منتخب ہونے اور تقریب میں سیاہ فام قائدین کی بڑی شرکت بتارہی تھی کہ اب یہ صدارتی ٹرم اور حکومت میں کافی گہرا ملٹی کلچر رنگ دکھاتی رہے گی۔ جو بائیڈن کرشمہ ساز شخصیت نہیں ہیں سادہ تقریر، سادہ انداز ، بتاتا ہے کہ وہ عمر کے جس حصے میں ہیں۔ وہاں وہ نہ تو کسی قسم کے شوخ پن کو ضروری سمجھتے ہیںنہ ہی بےجا لمبی لمبی تقریریں کرنے کے عادی ہیں۔ البتہ وہ ٹرمپ کا گھمایا ہواپہیہ الٹاضرور کردے گا لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹرمپ کے جانے سے امریکی سیاست میں ٹرمپ ازم کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ میرے خیال میں ایسا نہیں ہوگا بلکہ ٹرمپ کافی عرصے تک ریپبلکن پارٹی پر اپنا اثرورسوخ دکھاتا رہے گا۔ ٹرمپ نے ساڑھے سات کروڑ ووٹ لیا ہے۔ یہ وہ ووٹر ہے جو ٹرمپ اسٹائل کی سیاست کا فین ہے۔ ابھی 5 جنوری ہی کو ہم نے دیکھا کہ کپیٹل ہل کی عمارت اور کانگریس ہال میں ٹرمپ کے حامیوں کی یلغار اور جارحیت ہوئی۔ اس کے باوجود 197 ریپبلکن کے اراکین نے ٹرمپ کےعدم اعتماد کے خلاف ووٹ دیا یہ امریکی سوسائٹی میں مائنڈ سیٹ کا اظہار ہے۔ یہ امریکیوں کا غیر روایتی اظہار تھا۔ ٹرمپ بھی ایک روایتی صدر تھا ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو اپنی روایت پر چلادیا۔ پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ عمران خان بھی ایک غیر روایتی وزیر اعظم ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عمران خان کے حامیوں کا رویہ بھی ٹرمپ کے حامیوں کی طرح بہت غیر روایتی ہے۔ جس میں جہالت کے ساتھ ساتھ جہالت پر اصرار اور جہالت کی سیاست پر فخر ان کا طرۂامتیاز ہے۔ خیر یہ مثال بغض عمران میں نہیں بلکہ بات کو سمجھنے کیلئے پیش کی ہے۔ جو بائیڈن کو اس وقت امریکہ میں دو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک تو کورونا کی مچائی جانے والی تباہی، دوسرا کورونا کے سبب امریکہ کی تیزی سے گرتی ہوئی معاشی صورتحال۔ یہ سال تو امریکہ میں کورونا سے جنگ میں گزر جائے گا۔ ویکسین کے آنے سے اب بائیڈن انتظامیہ کی فوری کوشش ہوگی کہ جتنی جلدی پوری آبادی کو ویکسین لگائی جاسکے اتنی ہی تیزی سے اس وبا پر قابو ممکن ہوگا۔ اور اتنی ہی تیزی سے معاشی سرگرمیاں معمول پر آنے کے آثار پیدا ہوں گے۔ لیکن بائیڈن کو پتہ ہے کہ کورونا کو صرف امریکہ میں قابو کر لینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ جب تک پوری دنیا کے ہر شخص تک ویکسین نہیں پہنچے گی اس وقت تک اس وائرس کو بے اثر کرنا ممکن نہیں ہے۔ ادھر ٹرمپ نےا علان کردیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی شکل میں پھر سے امریکی سیاست میں جلوہ افروز ہوجائے گا۔ اس لحاظ سے بائیڈن کو اس محاذ پر ہمیشہ چوکنا رہنا ہوگا۔ اور اس چومکھی لڑائی میں معیشت سے ذرہ بھر توجہ ہٹانابھی ممکن نہیں ہوگا۔ ادھر یورپ میں بھی جوبائیڈن کی آمد کو بہت خوشی کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ انڈیا کمیلا ہیرس کے انڈین لنک کو بہت خوش کن سمجھ رہا ہے جبکہ کمیلا ہیرس کا شوہر یہودی ہےاور بہت زیادہ اسرائیل نواز ہے۔ اس لحاظ سے اب امریکی سیاست میں کئی نئے رنگ دیکھنے کو ملیں گے۔ اندازہ یہی لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ، چین دنیا کو کنٹرول کرنے کی دوڑ میں دنیا ایک بار پھر سرد جنگ کی لپیٹ میں آجائے گی۔