مذہبی آزادی یا انسانی حقوق؟

January 23, 2021

تحریر:مسزشمیم ڈیوڈ ۔۔۔ لندن
دفتر خارجہ کے ترجمان جناب زاہد چوہدری کا بیان شائع ہوا کہ اقلیتی برادری کے تمام افراد پاکستان کے مساوی شہری اور اپنے مذہب کی تشہیر و تبلیغ اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لئے آزاد ہیں۔ اقلیتوں کا قومی کمیشن فعال ہے۔ انہوں نے یہ بیان امریکی خبر رساں ادارے ایسوی ائیڈ پریس کی رپورٹ کے جواب میں دیا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستا ن میں ہر سال مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو جبری مسلمان کیا جاتا ہے۔ اسی قسم کا بیان وفاقی وزیرؤ برائے مذہبی امور جناب نور الحق قادری نے کرسمس کی تقر یب میں خطاب کرتے ہوئے مسیحی حاضرین اور شٗرکأ کو بھی اپنے خطاب میں دیا۔ انہوں نے فرمایا " اقلیتوں کو خطے میں سب سے زیادہ مذہبی آزادی پاکستان میں حاصل ہے، عمران خان نے ہمیشہ مذہبی آزادی کی بات کی " ۔عملی اور حقیقی روش ِ فکر کی عادت سے مجبور سوال اٹھتا ہے،کیا مذہبی آزادی محض عبادت گاہوں میں جا کر عبادت کرنے کی اجازت یا اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کا نام ہے؟ اگر مذہبی آزادی کی ہما رے معا شرے یہی محدود تعر یف ہے تو پھر بے شک پاکستان میں اقلیتوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ وہ اپنی عبادت گاہوں میں جا سکتے ہیں۔ لیکن اس آزادی پر عمل کے بعد روزمرہ زندگی میں اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ معاشرہ میں اقلیتوں کو جو قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اُس کے احوال کیلئےکتابیں د ر کا رہیں ۔ پہلے تو اِن ہی عبادت گاہوں جن میں پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کا جانے کی اجازت کو مکمل مذہبی آزادی کا نام دیا جاتا ہے۔ اُن ہی عبادت گاہوں کی بے حرمتی ، توہین اور تذلیل آئے دن کی داستازا۔ ۔شانتی نگر، گوجرہ، لاہور کے نزدیک جوزف کالونی کے مناظر تمام دنیا نے دیکھے۔ یہ وہ قیمت ہے جو مذہبی اقلیتوں کو چکانی پڑتی ہے۔ پس ماندہ دیہاتوں اور چھوٹے گائوں میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن وہ کبھی بھی میڈیا کے ذریعے منظرِ عام پر نہیں آتے۔ تازہ ترین واقعہ خیبر پختونخواہ میں کرک کے علاقہ میں مندر پر یلغار کا ہے۔ حکومتی وزراء اور ارکان ا قتد ار کی طرف سے فورا ً وہی گھسے پٹے بیانات جاری ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ وزیر اعظم نے نوٹس لے لیا ، پولیس کو فوری تفتیش کا حکم جاری وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کبھی مجرم کو ایسے جرائم کی سزا بھگتتے نہیں دیکھا۔یہ وہ مذہبی آزادی ہے جس پر بہت فخر یہ ا ند از میں ترجمان وزیر خارجہ نے بڑا دبنگ بیان دیا کہ اقلیتوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے اور وہ پاکستان میں مساوی حقوق رکھتے ہیں۔ کیا یہ مساوات ہے؟ وزیر برائے مذہبی امور فرماتے ہیں کہ پاکستان کی اقلیتوں کو خطے میں سب سے زیادہ مذہبی آزادی ہے۔ خطے میں مذہبی آزادی کے حوالہ سے اگر اُن کا اشارہ بھا ر ت طرف ہے ۔ تو وہ اپنی انتہا پسندی کی وجہ سے اپنی ساکھ پہلے ہی کھو چکا ہے۔ بھارت سے موازنہ کرنا اندھوںمیں کانا راجہ ہونے کے مترادف ہے۔ اگر موازنہ کرنا اور مقصد حالات کو بہتری کی طرف لے جانا حکومت کی خواہش ہے تو پھر آنحضرت ﷺ کے اُس معاہدے کی بات کریں اُس کی پیروی کریں جو انہوں نے سینٹ کتھرین کے راہبوں کے ساتھ کیا تھا۔ کیا ہماری حال اور ماضی کی حکومتوں اور مسلم عوام میں اتنی اخلاقی پختگی ،فرا خد لی ا ور حو صلہ ہے۔ کہ وہ ایسے معاہدے کا سوچ بھی سکیں ؟ وزیر براے مذہبی امور جناب نور الحق قادری سے موُدبانہ گذارش ہے۔وہ اپنی وزارتی منصب وتوانائی خطے میں مذہبی آزادی کی ناپ طول،کمی بیشی کے اندراج کی بجا ئے با نیِ قوم قایدِاعظم محمد علی جناح کے پا کستان کی تعمیرو تزئین پر صرف کریں۔قائداعظم نے پا کستا ن کی بنیاد مسا وات کے سنہر ی اصو لوں پر رکھی تھی۔جو اُ ن کی 11 اگست 1947کی د ستورسازاسمبلی کے خطاب سے عیاں ہے۔ایسے پا کستان کی تعمیرنہ صرف خطے،بلکہ دنیا میں قا بلِ رشک وتقلید ہو گا۔معاشرتی سطح پر اقلیتوں کو جو امتیازی سلوک سہنا پڑتا ہے مہذب معاشروں میں اِس قسم کے ا متیا ز کو جرم قرار دیا جاتا ہے۔ معاشرہ میں پائے جانے والا امتیازی سلوک، انسانیت سوز ہے۔ اس کا دکھ اور کرب وہی جانتے ہیں جو ان امتیازی رویوں کا روز شکار ہوتے ہیں۔ یہ امتیازی سلوک سکولوں، بازاروں، گھروں ، کارخانوں، دفتروں پایا جاتا ہے۔مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے طلباء ایسے گھٹن اور تکلیف دہ تعلیمی ماحول میں کسی نہ کسی طرح جب فارغ التحصیل ہوتے ہیں اور روزگار کی تلاش میں نکلتے ہیں تو اُن پر اُن کی مذہبی شناخت کی وجہ سے روز گا ر کے دروازےبند پائے جاتے ہیں۔ مجبورا ً وہ کمتر، ادنیٰ اور عام محنت مزدوری کا پیشہ اختیار کر لیتے ہیں۔ پاکستان میں قومی لا شعورمیں یہ بات را سخ کر دی گئی ہے کہ اقلیتوں اور خاص طور پر مسیحیوں کیلئے محض خاکروب یا گھریلو ملازم جیسے روزگار ہی ہیں۔ ہم بحیثیت مسیحی اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ کسی طرح کی محنت مزدوری میں کوئی عار یا شرم نہیں ہونی چاہئے بشرطیکہ دل و جان کے ساتھ محنت اور ایماندای سے کی جائے۔ خواہ وہ خاکروب کا ہی کام ہو۔ اس مقولہ کی تذلیل کی جاتی ہے۔ جب حکومتی دفاتر میں خاکروب کی آسامی کیلئے اشتہارات اخبار میں دئیے جاتے ہیں تو خاص وضاحت کی جاتی ہے کہ ان آسامیوں کیلئے غیر مسلم یا خاص طور پر مسیحی درخواستیں دیں۔ ایسے حربے استعمال کر کے نفسیاتی طور پر مذہبی اقلیتوں میں خود اعتمادی اور عزت نفس کو ضرب لگانا ہوتا ہے۔دفتر ِ خارجہ کے ترجمان نے مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والی کم عمر لڑکیوں کا جبری تبدیل ِ مذہب اور جبری شادیوں کے و ا قعا ت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کو پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ وہ دفتر ِ خارجہ کے ترجمان ہیں اور بہت اہم اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ انہوں نے ان جبری تبدیل ِ مذہب اور جبری شادیوں کو ایک فکشن قرار دے دیا۔ فکشن کا اردو میں ترجمہ افسانوی داستان یا من گھڑت کہانی ، خود ساختہ کہانی کے ہیں۔ افسوس کہ ہمارے اعلیٰ عہدے پر بیٹھے حضرات و اہل ِ اختیار عوام کے دکھ درد اور مسائل سے اتنے دور اور بے حِس ہیں کہ وہ گھمبیر مسائل کا نہ صرف ادراک نہیں بلکہ ایسے مسائل کی حساسیت کو محسوس کرنے کی حس بھی کھو چکے ہیں۔ترجمان دفتر ِ خارجہ کو کیسے یقین دلایا جائے کہ یہ واقعات روزمرہ کی حقیقت ہیں۔ ان واقعات میں معصوم زندگیاں تباہ ہو رہی ہیں۔ خاندان کے خاندان صف ِ ماتم پر بیٹھے ہیں۔دفتر ِ خارجہ کے ترجمان اپنے جاری کردہ بیان میں مزید خوش خبری کی یاد دہانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ " اقلیتوں کا قو می کمیشن فعال ہے" لیکن وہ بتانا بھول گئے کہ یہ کمیشن چیف جسٹس صاحب تصدق حسین کے 2014ء کے جاری کردہ حکم اور قواعد و ضوابط کے تحت یا مطابق نہیں بنا بلکہ موجودہ حکومت نے راتوں رات بڑی عجلت میں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے تشکیل دیا تھا۔ جناب شعیب سڈل جن کی سربراہی اور سفارشات کے بعد کمیشن بنانا تھا اُس کو پس ِ پردہ ڈال کر کمیشن بنایا گیا جس کی رکنیت بھی غیر تسلی بخش ہے۔ کمیشن اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے تھا لیکن ممبران کی اکثریت مسلم ممبران کی ہے۔ لہٰذا یہ کمیشن محض خانہ پوری کرنے کیلئے تو قیام پذیر ہو چکا ہے لیکن مذہبی اقلیتوں کے فلاح و بہبود یا مسائل و مشکلات حل کرنے کیلئے بے جان سا کمیشن ہے۔ اس کمیشن کے ہونے یا نہ ہونے سے اقلیتوں کی روزمرہ عملی زندگیوں پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں پڑے گا۔ ہاں وزرا اور حکو متِ وقت کی ٹو پی میں سرخاب کے پر کا کام ضرور دے گا۔گزشتہ چند مہینوں سے پاکستان کی سیاست اور میڈیا میں یکساں قومی نصاب کا بہت چرچا رہا ہے۔ موجودہ حکومت تعلیم کے میدان میں یکساں قومی نصاب کی تشکیل دینا ا پنا یکتا کارنامہ سمجھتی ہے۔ یکساں قومی نصاب سے تاثر یہ ملتا ہے کہ ایسا نصاب قومی سطح پر سب کیلئے ایک برابر ہوگا۔ لیکن انگلش میڈیم سکول جو اے لیول یا او لیول کرواتے ہیں وہ جوں کے توں رہیں گے یعنی وہ قومی نصاب سے خارج ہیں۔ نصاب میں اسلامی تعلیمات پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ مذہبی اقلیتوں کو پھر سے تعلیمی نصاب میں بھی اجنبیت اور قومی دھارے سے الگ تھلک ہونے کا احساس دیا گیا ہے۔ یہ نصاب قومی ہونے کی بجائے قوم میں مزید مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا موجب ہے۔ مثلا ً اعلیٰ تعلیم کی سطح پر طلبا ء کو ڈگریاں حفظ ِ قرآن سے مشروط کر دی گئی ہیں اور غیر مسلم طلباء کیلئے اخلاقیات جیسے مضامین پڑھانے کی تجویز دی گئی۔ یعنی قوم کو نصاب کے ذریعے اقتصادی مذہبی طور پر منقسم کر دیا ہے۔مذہبی اقلیتوں کی زبوں حالی، ر نا انصافی کی ایک بڑی وجہ قومی سیاست میں اُن کا ناقص ، غیر موثر اور غیر جمہوری طریقہ انتخاب ہے۔ موجودہ نظام کے تحت قانون ساز اسمبلیوں (وفاقی، صوبائی) میں اقلیتی نمائندگان اپنی مذہبی کمیونٹی کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں نشستیں حاصل نہیں کرتے بلکہ پارٹی کی طرف سے اُن مخصوص نشستوں میں نشست دی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ اپنی کمیونٹی کے نمائندہ نہیں بلکہ اپنی پارٹی کے نمائندہ ہوتے ہیں۔ پارٹی لیڈر اُن کو اپنی مرضی سے چنتے ہیں کیونکہ وہ پارٹی لیڈر کی کرم نوازی اور نظر عنایت کے مرہون منت ہوتے ہیں جنہوں نے انہیں ازراہ نوازش چُنا ہوتا ہے۔ اس لئے وہ آزادی یا اپنی مرضی سے پارلیمنٹ میں بات نہیں کر سکتے کیونکہ اسمبلیوں میں مذہبی اقلیتوں کے منتخب نمائندے نہیں۔ ا س لئے یہ کہنا بجا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کی کوئی آزادانہ سیاسی آواز نہیں۔ لہٰذا ان کا قانون سازی اور ملکی امو ر میں وا ضع و ٹھو س کوئی خاطر خواہ عمل دخل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے مسائل ، پریشانیوں اور ناروا سلوک میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔مذہبی اقلیتیں اپنے ایمان اور عقیدہ کی وجہ سے اقلیت میں ہیں۔ ورنہ انسان کی جو بھی خصوصیات یعنی طبیعی ، قد ر تی فطری، ذہنی یا نفسیاتیاُن خصوصیات کے لحاظ سے ہم دل و جاں سے پاکستانی ہیں۔ پاکستان ہمارا ملک ہما را جنم بھو می ہے اس کی ترقی اور بقاء ہما ری تر قی و بقا ہے۔ ہم دعا گو ہیں یہ سدا شا د و آباد رہے ۔ہم جانتے ہیں کہ پاکستان بہت سی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ اور حکو مت کو تر جیحا ت کی بنا پر مسائلل کو حل کر نا ہے ۔ حکومت ِ وقت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وطن ِ عزیز میں جو امتیازی سلوک، نا انصافی اور تشدد مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ہو رہا ہے اُس کو ختم کرنے کیلئے تر جیحاتی بنا پر ٹھوس اور جامع اقدا م کرے۔ ہم خوشحال پاکستان کیلئے دعا گو ہیں۔