قلندر نے لاہور میں جدید ہائی پرفارمنس سینٹر کا آغاز کردیا

January 26, 2021

پاکستان سپر لیگ کی فرنچائز لاہور قلندرز نے کامیاب پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام کے بعد لاہور میں جدید ہائی پرفارمنس سینٹر کا باضابطہ آغاز کردیا ہے۔پاکستان اور بیرون ملک سے کھلاڑیوں کی رجسٹریشن شروع ہوچکی ہے اس میں بیس فیصد کوٹہ اسکالرشپ کا ہوگا جس میں کرکٹرز بلامعاوضہ ان سہولتوں سے فائدہ اٹھائیں گے۔

یہ سینٹر اسٹیٹ آف دی آرٹ ہے۔قلندرز کے سی ای او عاطف رانا کہتے ہیں کہ ان جدید سہولتوں والے ہائی پرفارمنس سینٹر سے کھلاڑیوں کو ایک جگہ پر عالمی معیار کی کئی سہولتیں اور ماہرکوچز کی نگرانی میں اپنےٹیلنٹ کو پالش کرنے کا موقع ملے گا۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے بعد لاہور قلندرز پرائیویٹ سیکٹر میں پہلا ادارہ ہے جس کے پاس تمام جدید سہولتیں موجود ہیں۔

ڈائریکٹر ایل کیو عاقب جاوید نے کہا کہ امید ہے جلد دنیا کہے گی جتنے پلیئرز کی ڈیولپمنٹ ہم کررہے ہیں کوئی اور نہیں کررہا۔ قلندرز ہائی پرفارمنس سینٹر کے پہلے بیچ میں بیرون ملک سے بھی کھلاڑیوں نے رجسٹریشن کروائی ہے۔ لاہور قلندرز نے ملک بھر سے ٹیلنٹ تلاش کیا، پہلے ہمارے پاس ٹریننگ دینے کی سہولت نہیں تھی۔ مقامی سطح پر سہولیات نہ ہونے پر ہائی پرفارمنس سیٹر بنایا، یہاں ہم کرکٹ کی مہارت کے علاوہ دیگر پہلوؤں پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔ فخر زمان، شاہین آفریدی، حارث روف اور دلبر حسین کو ڈیولپ کیا، ہمارا مقصد پی ایس ایل کھیلنے کے ساتھ کھلاڑیوں کو ڈیولپ کرنا بھی ہے۔

عاطف رانا کا کہنا ہے کہ اس سے قبل ہمیں اپنی ٹیموں کی تیاری کے لئے بار بار ایسی سہولت کی ضرورت پڑتی تھی،اب ہمارے کھلاڑی جب چاہتے ہیں پریکٹس کرسکتے ہیں ، بارش یا سردی کی صورت میں ان ڈور میں بھی پریکٹس کرسکتے ہیں۔اس سینٹر میں جمنازیم،کرکٹ گراونڈ،14آوٹ ڈور نیٹ ہیں، جن میں چار ٹرف پچیں ہیں اور سات آسٹرو پچ ہیں۔ کرکٹرز کو کرکٹ پر لیکچر دینے کے لئے آڈیٹوریم بھی بنایا گیا ہے پاکستان کے علاوہ انگلینڈ، آسٹریلیا، جنوبی افریقا،عرب ملکوں خصوصا متحدہ عرب امارات،قطر،سعودی عرب اور دیگر ملکوں کے بچے اپنی تعلیم کے ساتھ کرکٹ کی ٹریننگ کرسکیں گے۔چار ایج گروپ انڈر11انڈر15 انڈر18اور اڈلٹ گروپ میں ہفتے اور اتوار کو ٹریننگ دی جائے گی۔

کلاسوں کا آغاز عاقب جاوید کی نگرانی میں ہوا وہ دیگر کوچز کو اس بارے میں اپنی معاونت فراہم کررہے ہیں۔ ہم نے یہ بھی پلان بنا رکھا ہے کہ دنیا کے بڑے کھلاڑیوں جن میں شعیب اختر،راشد لطیف،انضمام الحق،عمران نذیر،برینڈن میکالم اور اے بی ڈی وئیلرز قابل ذکر ہیں انہیں بھی ایچ پی سی میں بلاکر کھلاڑیوں کولیکچرز دیں، سہیل وڑائچ،محمد مالک حامد میر اور دیگرصحافی بھی میڈیا ہینڈلنگ پر بریفنگ دیں گے۔یہ ایک مکمل شاہکار ہے جس کے ثمرات پاکستان کرکٹ کو ملیں گے۔ہم چاہتے ہیں کہ کھلاڑی جب تعلیم سے فارغ ہوں تو وہ سینٹر میں آکر ٹریننگ حاصل کریں۔لاہور قلندرز کی فرنچائز پورے سال پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام اور اپنے ہائی پرفارمنس سینٹر کی وجہ سے خبروں میں رہتی ہے۔

اس فرنچائز کے چار ستون میں چیئرمین فوادرانا۔سی ای او رعاطف رانا ،سی او او ثمین رانا اور ڈائریکٹر عاقب جاوید شامل ان ستونوں نے دیگر فرنچائز کواپنے کام سے سب سے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ایک وقت تھا جب عاطف رانا کی باتوں کو دیوانے کا خواب کہا جاتا تھا۔ عاطف رانا کرکٹ کے حلقوں میں مسٹر نو پرابلم کے نام سے مشہور ہیں۔ان کی مسلسل محنت،سوچ اور ٹیم ورک نے مشن ایمپوسیبل کو پوسیبل کردکھایا ہے۔لاہور قلندرز کے پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام سے شاہین شاہ آفریدی ،فخر زمان ،حارث روف جیسے کھلاڑی پاکستانی ٹیم کا حصہ ہیں اور کئی اور کھلاڑی پاکستان کرکٹ ٹیم میں جگہ بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

لاہور میں جدید ہائی پرفارمنس سینٹر کے بعد اب کراچی اورآزاد کشمیر میں بھی ہائی پرفارمنس سینٹر بنانےکے لئے منصوبہ بندی جاری ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ آئی سی سی کی فنڈنگ سے چلنے والا ادارہ ہے لیکن پرائیویٹ سیکٹر میں شائد اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی ہے۔رانا عاطف اور عاقب جاوید دن بھر نت نئے منصوبوں کے بارے میں سوچتے ہیں جس کے پیچھے رانا ثمین کا بھی بڑا کردار ہے۔سب سے بڑھ کر فواد راناکی شخصیت اس پوری فرنچائز کے لئے رول ماڈل ہیں۔عاطف رانا لاہور قلندرز کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر ہیں۔ وہ ٹیم کے ڈیولپمنٹ پروگرام کے مقاصد اور اہداف کے حوالے سے انتہائی واضح اور جامع منصوبہ بندی رکھتے ہیں۔

عاطف رانا نے کہا کہ اس پروگرام میں سفارش اور ذاتی پسند یا ناپسند کی کوئی جگہ نہیں ، نہ ہی کھلاڑیوں سے کوئی فیس وصول کرتے ہیں۔اس پروگرام کے تحت لاہور قلندرز ملک کے مختلف شہروں میں دو روزہ کیمپ لگاتے ہیں جہاں سے ٹرائلز کے ذریعے کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔اسی پروگرام نے اس فرنچائز سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔عاطف رانا کہتے ہیں کہ ’حارث رؤف کی مثال ہمارے ڈویلپمنٹ پروگرام کی بہترین عکاسی ہے۔وہ نہ تو سسٹم کا حصہ تھا اور نہ ہی اسے پاکستان کرکٹ نے اپنایا تھا۔دلبر حسین نے تو کبھی کلب کرکٹ بھی نہیں کھیلی تھی۔ایسے کھلاڑیوں کا آسٹریلیا کے بِگ بیش میں کھیل جانا ان کے پروگرام کی افادیت اور اہمیت کا ثبوت ہے۔

صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقے باجوڑ کے رہائشی معاذ خان نے بھی کبھی بڑے لیول پر کرکٹ نہیں کھیلی تھی۔ لاہور قلندرز کے ٹرائلز دیئے، منتخب ہوئے اور ایک میچ میں لیگ ا سپن کرواتے ہوئے ہیٹ ٹرک داغ دی۔عاطف رانا کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کو ایسے باصلاحیت کھلاڑی دے رہے ہیں جو جب بھی قومی ٹیم کے لیے کھیلیں گے تو ان کی پہچان پاکستان سے ہو گی، قلندرز سے نہیں۔ صرف ایک ٹورنامنٹ جیتنے کی کمی رہ گئی ہےفائنل کھیلنے کے بعد اس سال پاکستان سپر لیگ بھی جتیںگے۔ہم ایک مشن کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں ہمارا کسی سے مقابلہ نہیں ہے ہمارا کام ہی ہماری پہچان ہے۔