جوبائیڈن: مشکلیں کچھ کم نہیں

January 29, 2021

امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنی تقریب حلف برداری کے موقع پر جو تقریر کی اس میں رجائیت پسندی، حوصلہ مندی، گرمجوشی اور استدلال پسندی زیادہ نمایاں تھی۔ انہوں نے کہا آج امریکہ کا دِن ہے، آج جمہوریت کا دِن ہے، ہمیں پُرانے زخم بھرنے ہوں گے، لبرل اور قدامت پسندوں میں جنگ ختم کرنا ہوگی، ماضی کی طرح ہم آج بھی قوم کو متحد اور ہم آہنگ بنا سکتے ہیں۔ ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں کے سلسلے میں نمٹنا ہوگا، امریکہ ماضی میں بہت بار آزمایا جا چکا ہے، ہم ہمیشہ طاقتور ثابت ہوئے ہیں۔ آج ہمیں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی، سفیدفام برتری اور دہشت گردی کا سامنا ہے۔ امریکہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر سیاست نہیں کرے گا بلکہ ہم امن ترقّی اور سلامتی کے لئے ایک قابل اعتماد ساتھی ثابت ہوں گے۔

امریکہ کو وائرس کا سامنا ہے۔ ہم دیگر مسائل کے ساتھ کورونا وائرس کا بھی مقابلہ کریں گے۔ دُنیا ہماری طرف دیکھ رہی ہے۔ ہمیں بہت کچھ بہتر کرنا ہے۔ بہت کچھ تعمیر کرنا ہے۔ امریکی افراد کو مواقع، سیکورٹی، آزادی، عزت احترام اور سچائی سے محبت ہے۔ سچ اور جھوٹ میں بنیادی فرق ہوتا ہے، جھوٹ مفاد اور طاقت کے لئے بولے جاتے ہیں، ہمیں سُرخ اورنیلے کے جھگڑے کو ختم کرنا ہوگا، یہاں صدر بائیڈن کا اشارہ ریپبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے علامتی رنگ کی طرف اشارہ تھا۔ صدر بائیڈن نے مزید کہا میں ایک پارٹی کا نہیں بلکہ پورے امریکہ کا صدر ہوں۔ صدر امریکہ، امریکی عوام کے مفاد میں کام کروں گا۔

صدر جوبائیڈن نے حلف برداری کے بعد اپنے سرکاری دفتر میں جا کر کام شروع کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وقت بہت کم اور کام بہت زیادہ ہے۔ ایک دن میں انہوں نے سترہ صدارتی حکم ناموں پر دستخط کر دیئے۔ جن میں کورونا وائرس سے بچائو کے سلسلے میں ماسک پہننا، فاصلہ قائم کرنا اور ہجوم سے پرہیز کرنا، طلبہ اور چھوٹے کاروباری لوگوں کو جو قرضے دیئے گئے تھے وہ کووڈ۔19کی معاشی مندی کا شکار ہوئے قسطوں میں تاخیر ہوئی ان قرضوں میں کچھ کو معافی، کچھ کو رعایت اور سود معاف کیا گیا، عالمی ادارئہ صحت سے امریکہ کا دوبارہ تعاون اور امداد بحال کی گئی، پیرس کے ماحولیات کے عالمی معاہدہ میں امریکہ کو دوبارہ شامل کرنے کا حکم نامہ وغیرہ نمایاں ہیں۔

صدر جوبائیڈن نے بڑا اور پہلا مسئلہ کووڈ۔19کے پھیلائو پر قابو پانا قرار دیا۔ معیشت کی بحالی، اتحادی ممالک سے دوستی تعاون کی تجدید، نسلی امتیازات اور امریکہ میں دھڑے بندیوں پر قابو پانے کو بھی اہم مسئلہ قرار دیا۔صدر بائیڈن نے جن چیلنجز کا ذکر کیا ہے اس کے علاوہ جو معرکہ انہیں اور امریکہ کو درپیش ہیں ان میں بڑے مسائل افغانستان میں امن کا قیام، امریکی فوجیوں کی واپسی کا مسئلہ، چین سے مضبوط تعلقات اور تجارت کو بہتر بنانے کا مسئلہ، اس حوالے سے صدر ٹرمپ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے آخری دنوں میں اپنے ایک سخت بیان کے ذریعہ چین کو مزید ناراض کر دیا ایسے میں صدر بائیڈن کے لئے مزید مشکلات پیدا کر دیں۔

دُوسرے شمالی کوریا کا مسئلہ بھی امریکہ کے لئے بڑے معرکے سے کم نہیں ہے۔ بھارت اور پاکستان کے مابین دیرینہ کشیدگی میں صدر بائیڈن کو دونوں ممالک سے دوستی اور تعاون کے سلسلے میں توازن قائم کرنے میں بھی مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔ بھارت سے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور میں مختلف دفاعی اور دوطرفہ تعاون کے معاہدے میں طے کئے ہیں اور امریکہ اس خطّے میں چین کے دائر اثر کو کم کرنے کے لئے بھارت کو اہم اتحادی تصوّر کرتا ہے ایسے میں مزید اقدام کرنا ہوں گے۔ جنوبی بحیرئہ چین اور بحرِ ہند میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو کم کرنے کا مسئلہ بھی بڑا معرکہ ہے۔

کیونکہ چین بحیرئہ جنوبی چین میں اپنی دفاعی قوت میں اضافہ کو اپنے مفادات کے لئے بہت اہمیت دیتا ہے۔ چین نے پہلے ہی امریکہ کو خبردار کر رکھا ہے کہ اگر امریکہ نے اس خطّے میں مداخلت کی یا چین کو روکنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف چین ہر بڑا قدم اُٹھانے پر تیار ہے۔ صدر جوبائیڈن کے لئے چین سے دوطرفہ تجارتی معاہدوں میں صدر ٹرمپ کے دور میں جو تبدیلیاں عمل میں لائی گئیں تھیں وہ ان کو برقرار رکھیں گے یا چین کی شرائط منظور کر لیں گے یہ ایک اہم معرکہ ہے۔

صدر جوبائیڈن کو یورپی ممالک جو امریکہ کے پُرانے اتحادی چلے آ رہے ہیں مگر صدر ٹرمپ کے دور میں یورپی ممالک اور امریکہ کے مابین سردمہری دَر آئی تھی اور صدر ٹرمپ نے برملا کہا تھا کہ یورپ اپنی حفاظت خود کرے امریکہ کی طرف نہ دیکھے۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی جاری پالیسیوں کی صدر ٹرمپ نے حمایت کی تھی اور یروشلم پر اسرائیل کے قبضہ کو تسلیم کر لیا تھا۔ اسرائیل کے حوالے سے یہ پالیسی برقرار رہے گی یا اس میں کچھ تبدیلی عمل میں آئے گی یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔

مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب ایک اہم ملک ہے جس سے امریکہ کے دیرینہ اور گہرے تعلقات رہے ہیں۔ مگر ماضی قریب میں ایران کے حوالے سے سعودی عرب کے بعد دیگر خلیجی ریاستوں کے کچھ تحفظات رہے ہیں جن میں ایران کا جوہری پروگرام اور ایران کی حزب اللہ سے تعاون سمیت یمن کا مسئلہ بھی ہے۔ اسرائیل کو بھی ایران سے خدشات ہیں وہ ایران امریکہ جوہری معاہدہ کے خلاف رہا جس کو صدر ٹرمپ نے 2018ء میں یکطرفہ طور پر منسوخ کر کے مزید مسائل پیدا کر لئے تھے۔ مگر صدر جوبائیڈن واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران امریکہ جوہری معاہدہ کو دوبارہ بحال کریں گے یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔

سعودی عرب کے مقتول صحافی خوشگی کے قتل کا مسئلہ خاصا پیچیدہ رہا ہے اور اس مسئلے پر بیشتر حلقوں میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں اور سعودی عرب کی جانب زیادہ اُٹھتی رہی ہیں اس حوالے سے بھی کہا جا رہا ہے کہ صدر جوبائیڈن صحافی کے قتل کا معاملہ اُٹھائیں گے اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر امریکہ اور سعودی کے تعلقات میں کشیدگی کے امکانات ہیں۔ ایک اور اہم مسئلہ ہے جو صدر بائیڈن کے مؤقف اور ان کے سیاسی نظریات سے وابستہ ہے وہ جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی پاسداری کا معاملہ ہے اگر صدر جوبائیڈن انسانی حقوق کی پامالی اور بنیادی حقوق سے رُوگردانی کرنے والے ممالک کی فہرست بنائیں تو اس فہرست میں عرب اور خلیجی ریاستوں سمیت بھارت کی کشمیر پالیسی اور چین کی ہانگ کانگ میں جاری پالیسی نشانہ پر ہوں گے تب امریکہ مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ امریکہ اور بیشتر امریکی سیاستدانوں کا یہ واضح مؤقف اور دعویٰ رہا ہے کہ دُنیا میں امریکہ جمہوریت، انسانی اور بنیادی حقوق، اظہار رائے کی آزادی اور آزاد معیشت کا سب سے بڑا علمبردار ہے اور اس حوالے سے ماضی میں اور حال میں بھی امریکہ نے دیگر ممالک کے خلاف اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔

ان پر پابندیاں عائد کیں اور اپنی رٹ قائم رکھنے کی کوششیں کیں۔ مگر صدر ٹرمپ کے دورِ اقتدار میں اور اب حالیہ واشنگٹن میں ہونے والے واقعات نے امریکہ کے اس بیانہ کو دُھندلا دیا ہے۔ خود امریکی مبصرین اور میڈیا امریکی جمہوریت پر اُنگلیاں اُٹھا رہے ہیں۔ زمبابوے جیسے ترقّی پذیر ملک کے صدر نے اپنے حالیہ بیان میں کہہ دیا ہے کہ امریکہ دُوسروں کو ڈکٹیشن نہ دے اپنی جمہوریت سنبھالے اور زمبابوے پر عائد پابندیاں ختم کرے۔

صدر جوبائیڈن نے اپنی حلف برداری کے موقع پر جو جذباتی اور پُرجوش تقریر کی اس میں برملا امریکی جمہوری قدروں، نسلی امتیازات اور عوام میں پھوٹ پڑنے کی طرف واضح اشارہ کیا ہے۔ اس پس منظر میں کیا شمالی کوریا، چین، سعودی عرب، وینزویلا، مصر اور شام کیوں امریکہ کا دبائو قبول کریں گے۔ چین نے واضح کیا ہے کہ اب چین اور امریکہ کے مابین تجارت اور سرمایہ کاری اور دوطرفہ تعاون کی جو شرائط ہوں گی وہ چین طے کرے گا۔ چین کے ڈیلی چائنا نے سابق امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسی پر نکتہ چینی کی اور چین کا مؤقف واضح کیا۔ اس کے ساتھ ہی چینی حکومت نے سابق صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے اٹھائیس اعلیٰ عہدیداروں پر چین میں داخلہ پر پابندیاں عائد کر دی ہیں جن میں سابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا نام بی شامل ہے۔

چین سے تعلقات بہتر کئے جائیں گے یا ٹرمپ پالیسی جاری رہے گی ابھی پوری طرح واضح نہیں ہے۔ امریکہ اور روس ایک دُوسرے کے پُرانے حریف چلے آ رہے ہیں ان دونوں بڑی طاقتوں میں سرد اور گرم کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ روس تاحال اپنے بیشتر مسائل کا شکار چلا آ رہا ہے مگر اس کی دفاعی طاقت اور سائنسی تحقیق کی وجہ سے امریکہ کے تھنک ٹینک روس کو امریکہ کا بڑا مسئلہ اور حریف تصوّر کرتے ہیں اور چین کو دُوسرے درجے پر شمار کرتے ہیں۔ ان دنوں روس میں حزب اختلاف کے رہنما الیکسی ناولنی کی حالیہ گرفتاری پر بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں۔

عالمی رہنمائوں نے بھی الیکسی کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں فوری رہا کر دیا جائے۔ انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے امریکہ اور اس کے حواریوں نے روس کو ہمیشہ ہدفِ تنقید بنایا ہے اب صدر جوبائیڈن اس ضمن میں کیا پالیسی اپناتے ہیں دیکھنا ہوگا۔ امریکہ بہرحال روس کے خلاف آواز اُٹھائے گا۔ جاری حالات میں روس اور چین کا باہمی تعاون اور اشتراک زیادہ بڑھ رہا ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے باعث تشویش ہے۔ اس صورت حال میں امریکہ جنوب مشرقی ایشیا میں اور بحرالکاہل میں جاپان، آسٹریلیا اور بھارت سے دفاعی تعاون کا مزید اضافے کا خواہاں رہے گا۔

امریکہ اور بھارت کے مابین چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اور سیاسی اثرات کے جواب میں بعض دفاعی تعاون کے معاہدے طے پائے ہیں مگر بھارت کے یہ سوال بھی کھڑا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ تعاون اور اشتراک میں کس حد تک آگے جا سکتا ہے کیونکہ چین خود ایک بڑی اقتصادی اور دفاعی طاقت ہے۔ امریکہ کوا س خطّے میں بھارت کی ضرورت ہے مگر اہم سوال یہ ہے کہ صدر جوبائیڈن نے اپنی جو ٹیم نامزد کی ہے اس میں بھارتی نژاد امریکیوں کی بھی ایک نمایاں تعداد شامل ہے۔ اس حوالے سے پاکستان میں مختلف قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے مگر اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ بھارتی نژاد امریکی وہ لوگ ہیں جنہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی شہریت بل اور آرٹیکل تین سو ستّر کی کشمیر کے لئے منسوخی کی ٭٭کی تھی۔ دُوسرے لفظوں میں صدر بائیڈن کی ٹیم میں مودی مخالف بی جے پی مخالف لابی کے امریکن نمایاں ہیں ان میں ایک مسلمان خاتون بھی شامل ہے جو مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھتی ہیں مگر اب وہ امریکی شہری ہیں۔

ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ صدر بائیڈن کے دور میں شاید امریکہ بھارت تعلقات ایسے نہ ہوں جیسے سابق صدر ٹرمپ کے دور میں تھے۔ بھارت میں حکمراں جماعت کے رہنمائوں اور تھنک ٹینکس میں اس نکتہ پر تشویش پائی جاتی ہے۔ یہ اندازے ڈیمو کریٹک پارٹی کی جاری پالیسی اور صدر جوبائیڈن کے عیاں مؤقف کو مدنظر رکھتے ہوئے قائم کئے جا رہے ہیں۔ تاہم امریکی صدر وسیع تر اختیارات رکھنے کے باوجود سو فیصد آزاد نہیں ہوتا اس کو پینٹاگون، سی آئی اے، پریشر گروپس، قانون ساز اداروں کی بھی سُننا پڑتی ہے۔

ایسے میں یہاں بھی یہ ابہام ہے کہ صدر جوبائیڈن آیا اپنے مؤقف اور نظریہ پر ڈٹے رہیں گے یا پھر سابق صدر ٹرمپ کی پالیسی کو جاری رکھیں گے۔ واضح رہے کہ آج کے عالمی نظام میں اہم ترین چیز تعاون اور اشتراک ہے۔ سردمہری، کشیدگی اور غیرلچکدار پالیسی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی نہ ثمرآور ثابت ہو سکتی ہے۔ صدر جوبائیڈن کے سامنے بڑے معرکے اور پیچیدہ حالات ہیں۔ ایسے میں زیادہ سنجیدگی اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کا بخوبی ادراک، تجزیہ اور صلاحیت صدر جوبائیڈن کو حاصل ہے۔

پاکستان اور امریکہ تعلقات صدر جوبائیڈن کے دور میں کیسے ہوں گے اس سوال پر ملک میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ ڈیموکریٹس اکثر و بیشتر بھارت کی طرفداری کرتے ہیں اور پاکستان کی حمایت کم کم کرتے رہے ہیں۔ یہ تاثر اس لئے دُرست نہیں ہے کہ دونوں بڑی امریکی جماعتوں کے منشور پروگرام میں امریکی مفادات، آزادی جمہوریت اور آزاد معیشت کے حوالے سے واضح خاکے موجود ہیں۔ دُوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ایک بوتل پر دو لیبل چسپاں ہیں۔

قرین قیاس یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی، علاقائی اور سماجی اہمیت ماضی کی طرح قائم اور دائم ہے۔ امریکہ کو اگر بھارت کی ضرورت ہے تو دُوسری طرف پاکستان کی بھی ضرورت ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن بھارت سے نہیں بھارتی حکومت نریندر مودی اور ان کی جماعت کی پالیسی سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ اس طرح پاکستان کی حکومت کے بعض اقدام سے امریکہ کو اختلاف ہو سکتا ہے مگر پاکستان سے امریکہ کی دوستی اور تعاون کا سلسلہ قائم رہے گا۔ پایسی میں کچھ سردمہری تو آ سکتی ہے مگر یکسر اختلاف نظرانداز اور بائیکاٹ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی بہت فعال ہے اور اپنی بعض کوتاہیوں اور مجبوریوں کے باوجود ایک توانا آواز رکھتے ہیں۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن اکثر پاکستانی کمیونٹی کی تعریف کرتی رہی ہیں۔ پاکستانی جفاکش، مستقل مزاج اور روایت پسند مشہور ہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ اور تعلیم یافتہ طبقہ میں امریکہ کی مقبولیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ تاہم خطّے میں بلکہ عالمی سطح پر چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور دفاعی طاقت کی وجہ سے پاکستان اور چین دیرینہ دوست مزید قریب آگئے ہیں۔ امریکہ اور چین کو قریب لانے میں بھی پاکستان کا کردار نمایاں رہا ہے۔ اب افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کرنے اور وہاں پائیدار امن قائم کرنے کے لئے بھی امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی سرحدیں چین بھارت افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں اس کے محل و وقوع کی وجہ سے پاکستان کی بہت اہمیت ہے۔

صدر جوبائیڈن کو بیرونی مسائل اور خارجی معاملات سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ اندرون خانہ مسائل اور معرکوں سے بھی نمٹنا ہے۔ مثلاً سینیٹ کی طرف سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے محاسبہ کا اعلان اور اس کی تیاری ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے زیادہ تر اراکین سینیٹ اور کانگریس کا مطالبہ ہے کہ ٹرمپ کا محاسبہ ضرور ہونا چاہئے تا کہ ان کا آئندہ کے لئے سیاست میں شرکت کا راستہ روکا جا سکے۔ ان کی مراعات روک دی جائیں اور ان پر میڈیا کی بھی پابندی لگائی جائے کہ وہ اشتعال انگیز تقریریں نہ کر سکیں اور بیانات نہ جاری کر سکیں۔ یہ سب کچھ کرنا اس لئے مشکل نظر آتا ہے کہ امریکہ میں ایک بڑا عوامی حلقہ سابق امریکی ٹرمپ کا حامی ہے۔ صدر بائیڈن جمہوری اقدار اور اظہار رائے کی آزادی کے نظریہ پر یقین رکھتے ہیں تو پھر امریکہ میں مخالف دھڑوں کو بھی آزادی اور اظہار کا موقع دینا ہوگا۔

اس کے ساتھ معاشی مسئلہ بھی جس پر صدر بائیڈن نے بہتری لانے کا عزم کیا ہے۔ کووڈ۔19 سے نمٹنے کو اولیت دینے کا بھی عزم کیا ہے۔ نسلی امتیازات بھی صدر کے سامنے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ امریکہ میں گن کلچر پر قابو پانا اسلحہ کی خریداری پر کسی نہ کسی حد تک پابندی عائد کرنا، قوانین میں بہتری لانا بھی ضروری ہے۔ اسلحہ کی بہتات اور نرم قوانین کی وجہ سے جرائم میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لحاظ سے جاری عالمی صورت حال اور کووڈ۔19کے پھیلائو کے لحاظ سے آئندہ چند ماہ امریکہ اور دُنیا کے دیگر ممالک کے لئے اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔