علی سدپارہ دل ہے پارہ پارہ

February 10, 2021

وہ بہت باہمّت اور حوصلہ مند۔ زندگی جاں فشانی کی ۔خطرات سے کھیلنا معمول۔پہاڑوں کی بلند سے بلند چوٹیاں سر کرنے کا جنون۔موسم اور حالات کی سختیاں شکست جھیلنے کا عادی۔اس کاشوق زندگی اور موت کی آنکھ مچولی۔ مگر اس مرتبہ کچھ پتا نہیں کہ’’ وہ‘‘ جیتا یا موت ۔ تادمِِ تحریر علی سدپارہ کی تلاش جاری ہے۔ملک بھر میں پھیلے ہوئے اس کے مدّاحوں کے ہاتھ اس کی با حفاظت واپسی کے لیے دعاگو ہیں۔دیکھیے ،قدرت کے پردے سے کیا ظاہر ہوتا ہے۔

اسکردو کے جنوب میں واقع کوہ پیماؤں کی سرزمین سدپارہ کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونےوالا علی سدپارہ دنیا بھر کے مہم جوؤں کے لئے رول ماڈل بنا۔ اسےپاکستانیوں سے زیادہ غیر ملکی جانتے اور ایک دیوتا کی طرح پوجتے ہیں۔ علی گزشتہ چار سال سے فرانس اور اسپین کے مختلف تعلیمی اداروں میں طلبہ کو کوہ پیمائی کی تربیت دے رہا تھا۔ والدین کے لاڈلے اور رشتہ داروں کے چہیتے نے بچپن ہی میں حوصلہ مند، بہادر اور محنتی کا اعزاز حاصل کرلیا۔

2 فروری 1976 کو سدپارہ گاؤں کے باڑو گوم محلے میں پیدا ہونے والے علی سدپارہ نے قرآن کی تعلیم اپنی اکلوتی بہن ملکہ کے ساتھ محلے کے بزرگ اخوند روزی سے حاصل کی جبکہ کم عمری میں اپنے والد حاجی اسد، والدہ فضہ اور بڑے بھائی نعمت علی کے ساتھ کھیتی باڑی اور مال مویشیوں کے دیکھ بھال میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا۔ ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول سدپارہ سے حاصل کی، گاؤں میں پرائمری کے بعد تعلیم کی سہولت میسر نہیں تھی زیادہ تر بچےپرائمری کے بعد اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پاتے تھے۔ لیکن علی کے والد جو سرکاری محکمے میں گریڈ ون بھرتی ہوئے تھے ، انہوں نے علی کاتعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کی غرض سے سندوس گاؤں میںجانے کا فیصلہ کیا جو اسکردو میں ہی ہے۔

یہاں علی نے مڈل اور ہائی اسکول کی تعلیم کشمراہ سےاور ایف اے اسکردو کے واحد فیڈرل بوائز انٹر کالج سےکیا۔ علی نے دوران تعلیم کھیلوں میں حصہ لیا اور اچھے طالب علم کے ساتھ بہترین اسپورٹس مین مشہور ہوئے، وہ ا سکردوکے بہترین فٹ بالررہے ۔ سندوس محلے اورا سکول کی ٹیم کے علاوہ شہر کی ٹیم کا بھی حصہ رہے، ا سکول کے ہم جماعت ساتھیوں کا کہنا ہے کہ علی کی فٹ بال ٹیم ہار بھی جاتی تو علی جیت جاتا تھا، کیوں کہ لوگ علی ہی کا میچ دیکھنے کے لئے آتے اوراسی کو داد دیتے تھے۔ علی واحد کھلاڑی تھا جس کےلئے ٹیم بنتی تھی، وہ ہمیشہ سنٹر فارورڈ پوزیشن میں کھیلتا۔

کالج سے فارغ ہونے کے بعدکچھ گھریلو مجبوریوں کے باعث علی روزگار کے لئے بلوچستان گیاجہاں مکران میں پہلی مزدوری کی،لیکن صرف تین ماہ کے بعد وہ واپس اسکردو آگیا اور بوٹو بازار میں پرانے جوتوں کی دوکان کھولی، لیکن جلد ہی اپنے بچپن کے شوق یعنی مہم جوئی کی طرف مائل ہوگیا۔اس نے جوتے کی دوکان فروخت کرکے کوہ پیمائی میں استعمال ہونے والی اشیاء خریدلیں اور اپنے شوق کو پروان چڑھانے لگا۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کامیابیاں اس کے قدم چومنے لگیں۔ بچپن میں ہم دونوں یعنی میں اور علی اکثر ساتھ کھیلتے تھے ۔محلے کے بچوں کے درمیان پہاڑ پر چڑھنے کے مقابلے ہوتے اور ہمیشہ علی ہی جیتتاتھا۔ اسے بچپن ہی میں اپنی خدادا دصلاحیتوں کا اندازہ ہوگیا تھا۔

وہ پہاڑ پر چڑھتے ہوئے بہت رسک لیتا تھا اور کسی مرحلے پر بھی خوفزدہ نہیں ہوتا تھا۔علی کے ماموں حسین بھی اچھے کوہ پیما تھے وہ دوران مہم جوئی، جاں بحق ہونے والے سدپارہ کے پہلے کوہ پیما تھے۔ انہوں نے بچپن میں کئی بار علی کو گود میں اٹھاتے ہوئےاپنی بہن سے کہا تھا کہ میرا یہ بھانجا نہ صرف بہت بڑا کوہ پیما بنے گا بلکہ انگریزوں کو بھی سبق دے گا،اور واقعی علی نےماموں کی بات کو سچ کردکھایا۔

علی کی شادی 1997 میں سدپارہ کے کوہ پیما حاجی محمد حسین کی صاحبزادی سے ہوئی ۔اس کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے، 1996 میں پہلی بار وہ برٹش ٹریکرز کے ساتھ بیافو گلیشر پر واقع اسنو لیک تک پورٹر کی حیثیت سے گیا، اس مہم کے بعد سنئیر کوہ پیما علی رضا نےعلی سدپارہ کی خدا داد صلاحیتوں کو جانچ لیا اور علی کو کوہ پیمائی کی ابتدائی تربیت دینی شروع کی ، اس کے بعدعلی کو پہلی بارکورین کے ٹو کلین اپ ایکسڈیشن میں بحیثیت ہائی پورٹر لے گیا۔

علی سدپارہ بیوی بچوں کے ساتھ

اس میں پاکستانی اور کورین کوہ پیمائوں نے کے ٹو کو کیمپ تھری تک سفر کیا ،علی سدپارہ نے پہلا کامیاب ریسکیو بھی علی رضا کے ساتھ کیا اور دونوں ہسپر گلیشر پر واقع 7ہزار فٹ بلند لاٹوک پیک کی بلندی پر حادثے کا شکار ہونے والے اسپینش کوہ پیما کو ریسکیو کرنے گئے لیکن بدقسمتی سے وہ ان کے پہنچنے سے قبل ہی مر چکا تھا، تاہم وہ نے مردہ کوہ پیما کی لاش کو پہاڑ پر چھوڑنے کے بجائے نیچےلائےاور لواحقین کے حوالے کی۔علی سدپارہ اپنے کیریئر کے آغاز سے ہی رضاکارانہ طور پر ریسکیو کے لئے ہمیشہ تیار رہتا وہ ناگا پربت سمیت دیگر تمام پہاڑوں پر رضا سدپارہ اور حسن سدپارہ سمیت شمشال اور ہوشے کےنامور کوہ پیمائوں کے ساتھ ریسکیو ٹیموں کا حصہ رہا۔

اس نے پہلی بار 2006 میں ایک ہی سال میں 7027میٹر بلند اسپنگ ٹیک پیک سر کی اور اسی سال کوہ قراقرم میں واقع 8ہزار میٹر سے بلند دنیا کے 14بلند ترین پہاڑوں کی فہرست میں شامل 8035 میٹر بلند گشہ بروم ٹو پر سبز ہلالی پرچم لہرانے میں کامیاب ہوا۔علی سدپارہ نے پولیش ٹیم کے ہمراہ 8051کی سرمائی مہم جوئی کے دوران دو بار انتہائی بلندی کے لئے سمٹ پوش کیا لیکن غیر ملکی کوہ پیما کمزور پڑجانے کے باعث وہ سر نہ کرسکے ، انھوں نے پیشہ ور ہائی پورٹر کی حیثیت سے 2008میں ایک بار پھر ایک ہی سال میں دو ممالک میں واقع دو پہاڑ سر کئے ۔پہلے عوامی جمہوریہ چین کے صوبہ سنکیانگ میں واقع ’’موزتق آتا‘‘کی چوٹی سر کی جو 7546 میٹر بلند ہے،ا سی سال پاکستان کے ہمالیائی سلسلہ پر واقع نانگا پربت کی چوٹی سر کی جو کہ’’ قاتل پہاڑ‘‘ کے نام سے مشہور ہے، 8126 میٹر بلند چوٹی نانگا پربت اور کے ٹو کا شمار دنیا کے خطرناک ترین پہاڑوں میں ہوتا ہے۔

علی سدپارہ نے مہم جوئی کے سفر میں کامیابیوں کا سفر جاری رکھا اور 2010میں 8068میٹر بلند گشہ بروم ون سر کرکے4سال کے قلیل عرصےمیں 8ہزار میٹر سے بلند تین چوٹیوں اور 7 ہزار سے بلند تین چوٹیوں کو سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ دور کوہ پیمائی کی دنیا میں سدپارہ کے چار کوہ پیما، حسن سدپارہ، علی رضا سدپارہ، علی سدپارہ اور نثار سدپارہ کے عروج کا دور تھا، تاہم بد قسمتی سے نثار سدپارہ 2012میں گشہ بروم ون کی مہم جوئی کے دوران دو غیر ملکی کوہ پیمائوں کے ہمراہ جاں بحق ہوگئے۔ نثار سدپارہ آسٹریلین کوہ پیما گیرفٹ گوشل اور سوئٹزرلینڈ کے کوہ پیما سیدرک کے ہمراہ موسم سرما کی مہم جوئی کر رہے تھے کہ 8 ہزار میٹر کے قریب پہنچ کر تیز ہوائوں کے باعث لاپتہ ہوئے، تینوں کی لاشیں بھی نہ مل سکیں۔

علی سدپارہ نے 2011 میں 8047میٹر بلند براؤٹ پیک کی سرمائی مہم جوئی کی لیکن دو بھرپور کوششوں کے باوجود کامیابی حاصل نہ ہوسکی، اس مہم میں علی رضا سدپارہ اور پولینڈ کے7 ممبر بھی شامل تھے۔ 2012میں وہ گشہ بروم ون کی سرمائی مہم جوئی کے دوران پائوں کا انگوٹھا سردی کے باعث جل جانے کے باعث کیمپ فور سے واپس آگیا تھا، تاہم اس ایکسپڈیشن کے پولینڈ سے تعلق رکھنے والے دو ممبران نے مہم جوئی میں کامیابی حاصل کی تھی۔ 2013میں وہ امریکن ایکسپڈیشن کے ہمراہ نیپال میں مکالو کی مہم جوئی پر گیا، تاہم کامیابی نہ مل سکی۔ اس مہم کے دوران بھی پاؤں کی انگلیاں جل گئی تھیں۔

علی سدپارہ نے 2016میں اپنے کیرئیر کی سب سے بڑی کامیابی حاصل کی، اس نےسرمائی مہم جوئی کے دوران 8126 میٹر بلند چوٹی نانگا پربت کو پہلی بار اٹالین کوہ پیما سمنی مورو اورا سپینش کوہ پیما الیکس ٹیکسکون کے ہمراہ سر کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا۔اس کے ساتھی کوہ پیمائوں نے اپنے انٹرویوز میں کہا کہ، علی سدپارہ ہمارے ساتھ نہ ہوتا تو یہ مہم کامیاب نہ ہوتی۔ اسی سال علی نے موسم خزاں میں بھی نانگا پربت سر کرنے کا ریکارڈ بنایا، اس پہاڑ کو تین بار سر کیا۔

2017 میں علی نے نیپال میں واقع 7492 میٹر بلند پوماری پیک کی پہلی کامیاب سرمائی مہم جوئی کی لیکن اسی سال دنیا کی پہلی بلند چوٹی مائونٹ ایورسٹ کی سرمائی مہم جوئی میں ناکامی ہوئی۔ اس مہم سرمائی مہم جوئی کے پارٹنر الیکس بھی علی کے ہمراہ تھے۔ نیپال روانگی سے قبل پاک فوج کے بریگیڈئیراحسان محمود نے علی سدپارہ کو میونسپل گرائونڈ میں سیکڑوں لوگوں کے سامنے پاکستانی پرچم دیا۔ اس خوبصورت اور منفرد تقریب میں بلتستان بھر کے کوہ پیمائوں نے شرکت کی۔

قومی ترانے کی گونج میں بریگیڈئیر احسان محمود سے قومی پرچم لیتے ہوئے علی کی آنکھیں نم ہوئیں، اس نے 2018میں دنیا کی دوسری بلند چوٹی کے ٹو کوسرکیا اور2019 میں 8516میٹر بلندنیپال میں واقع لوٹسےسرکیا اور اسی سال نیپال میں ہی واقع 8481میٹر بلند مکالو سر کیا،بعدازاں احسان محمود نے فورس کمانڈر کی حیثیت سے بھی وطن کے اس عظیم سپوت کے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور علی سدپارہ نے 8156 میٹر بلند ماناسلو سر کیا۔مہم جوئی کے ان غیر معمولی کامیابیوں کے ساتھ علی سدپارہ نے دنیا کے 8بلند ترین پہاڑ سرکرنے والے پہلے پاکستانی ہونے کا اعزاز حاصل کیا اور کئی عالمی ریکارڈز بھی اپنے نام کئے۔

علی سدپارہ کے بڑے بیٹے ساجد سدپارہ نے جب پہلی بار کوہ پیمائی کرنے کے شوق کا اظہار کیا تو اس نے بیٹے کو پہلے پڑھائی مکمل کرنے کی تاکید کی، تاہم بیٹے کی مہم جو بننے کی بے تابی دیکھ کر علی نے خودباقاعدہ ساجد کو تربیت دی جس کے بعد جب ساجد کو کوہ پیمائی کا سامان اور آلات دینے کا مرحلہ آیا تو سب سے پہلے علی نے بیٹے کے ہاتھ میں قومی پرچم تھمایا اور کہا کہ یہ پرچم ہمارا مقصد حیات ہے۔ ساجد نے ہمیں بتایا کہ جب 16 جولائی کے روز 10رکنی نیپالی ٹیم نے 8611میٹر بلند کےٹو کو سر کیاتو بابا کے ٹو چوٹی پر قومی پرچم لہرانے کے لئے بہت بے تاب نظر آئے، ہماری دوسری کوشش پر جانے سے قبل انھوں نے کہا کہ اب یا سرکرنا ہے یا مرنا ہے۔ ساجدحسین نے 2020 میں کے ٹو سر کی تھی ،لیکن اپنی پہلی سرمائی مہم میں والد،علی کے ہمراہ گیا تھا۔ آئس لینڈ کے کوہ پیما جان سنوری اس تین رکنی ٹیم کے ممبر تھے، جس کےلئے جان سنوری نے علی سدپارہ اور ساجد سدپارہ کی پیشہ ورانہ خدمات حاصل کی تھیں۔

رواں سال کے ٹو کی مہم جوئی کےلئے دنیاکے 18ممالک سے 49سے زیادہ کوہ پیما حصہ لے رہے تھے،ان میں سب سے زیادہ تعداد نیپالی کوہ پیمائوں کی تھی، جبکہ پاکستان، امریکہ، جرمنی، آئس لینڈ، فن لینڈ،پولینڈ،یونان اور کئی دیگر ممالک کے کوہ پیما شامل تھے۔علی سدپارہ اپنے بیٹے ساجد سدپارہ اور جان سنوری کے ہمراہ 28نومبر کو اسکردو سے روانہ ہوئے اور 5دسمبر کو بیس کیمپ پہنچے ۔مہم جوئی کے پہلے مرحلے میں 10نیپالی کوہ پیمائوں کی ٹیم نے 16جنوری کو کے ٹو پہلی بار موسم سرما کے دوران سر کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ نیپالی کوہ پیما ’’نرما پرجا‘‘ اس مہم کی قیادت کر چکے ہیں جو دنیا کے 8ہزار سے بلند 14پہاڑوں کو صرف 6 ماہ میں سر کرنے کا عالمی ریکارڈ ہولڈر ہیں۔ پہلے یہ ریکارڈ 8سال میں بنا تھا۔

نرمل پرجا کے ہمراہ 16 جولائی کی راتایک بجے کیمپ تھری سے سمٹ پوش کا آغاز کیا اور دوپہر ایک بجے انتہائی بلندی تک پہنچنے کا ممکنہ ٹائم تھا لیکن ٹیم نے شام 5بجے کے ٹو سر کیا اور صرف10 منٹ تک انتہائی بلندی پر رہنے کے بعد واپسی کا سفر شروع کیا ، اسی رات ایک بجے بہ حفاظت کیمپ تھری پہنچ گئے اوراسی روز ایک اسپینش کوہ پیما ،کیمپ ون سے واپسی پر برفانی شگاف میں گر کر جاں بحق ہوگیا۔ نیپالی کوہ پیمائوں کی کامیابی کے بعد علی سدپارہ اور ٹیم نے 25جنوری کو بھی ایک کوشش کی لیکن موسم کی خرابی کے باعث انھیں کیمپ تھری سے واپس آنا پڑا، موسمیاتی اداروں کی جانب سے 4 اور 5 فروری کو موسم صاف ہونے کی پیشگوئی کی تو علی سدپارہ اور ٹیم کے ہمراہ 30 کوہ پیمائوں نے 2فروری کو بیس کیمپ سے اپنی مہم جوئی کا آغاز کیا۔

جس کے پہلے ہی روز دو کوہ پیما ایڈوانس بیس کیمپ سے واپس ہوئے، جبکہ دوسرے روز پولینڈ کی خاتون کوہ پیما سمیت 7 کوہ پیما کیمپ ون سے واپس ہوگئے،جہاں 4فروری تک زیادہ تر کوہ پیما واپس بیس کیمپ لوٹ چکے تھے، اٹلی کی خاتون کوہ پیما چیلی اپنے ساتھی کوہ پیما کے ہمراہ کیمپ تھری سے آگے تک جانے میں کامیاب ہوئیں لیکن خاتون کوہ پیما تمارا پیٹ میں شدید درد کے باعث واپس لوٹ گئیں۔

واپس آنے والے کوہ پیمائوں میں سے بلغاریہ کا کوپیما، کیمپ تھری کے قریب رسی کٹنے سے برفانی کھائی میں گر کر جاں بحق ہوگیا،جس کی میت عسکری ایوی ایشن کے ماہر پائلٹس نے انتہائی مہارت سے کھائی سےائیر لفٹ کیا۔ 5 فروری کی رات 12بجے علی سدپارہ نے اپنے بیٹے ساجد سدپارہ اور آئس لینڈ کے کوہ پیما، جان سنوری کے ساتھ اپنے سمٹ پوش کا آغاز کیا،چیلی کے کوہ پیما نے بھی اس آخری سمٹ پوش میں علی اور ٹیم کو جوائن کیا، ساجد سدپارہ بغیر آکسیجن کے ٹو کی مہم جوئی کر رہے تھے کہ 8200میٹر کی بلندی پر پہنچ کر انھیں جسم میں آکسیجن کی کمی شدت سے محسوس ہونے لگی،تو علی سدپارہ نے اسے آکسیجن سلنڈر استعمال کرنے کا کہا۔لیکن سلنڈر لیک ہونے کے باعث وہ استعمال نہ کر سکے اور واپس ہوگئے۔ ساجد نے نمائندہ جنگ کو بتایا کہ میں نے آخری بار واپس آتے ہوئے اپنے والد کو دیکھا۔ تینوں صحت مند تھے اورموسم بھی ٹھیک تھا۔ اس وقت وہ بوٹل نک کا خطرناک ایریا پار کر رہے تھے۔یہ 12 بجے کے لگ بھگ وقت تھا۔

میں کیمپ تھری پہنچ کر والد صاحب اور ساتھیوں کے لئے پانی گرم کر کے رات بھراکیلا ان کا انتظار کرتا رہا۔ اپنے خیمےمیں ایمرجنسی لائٹ آن کرکے باربار ،بوٹل نک ایریاپر نظریں جمائےرہا لیکن صبح تک جب وہ نہ آئے تو میں کیمپ تھری سے تھوڑا اوپر تک گیا لیکن مجھے لگا کہ وہ اب تک بوٹل نک ایریا سے واپس نہیں لوٹ سکے ۔مجھے بیس کیمپ سے یہ پیغام دیا گیا کہ علی سدپارہ اوران کی ٹیم لاپتہ ہوگئی ہے، ان کی تلاش کے لئے ہیلی کاپٹرکے ذریعے تازہ دم کوہ پیما روانہ ہوں گے لہذا وہ واپس آجائیں۔ 6فروری کی رات بیس کیمپ واپس پہنچا، اس روز پاک فوج کے دو ہیلی کاپٹرز نے 7ہزار کی بلندی تک لاپتہ کوہ پیمائوں کو تلاش کیا لیکن کوئی کامیابی نہیں ملی، دوسرے روز میں اور کوہ پیما نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے دوبارہ تلاش شروع کی لیکن کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی،بعد ازاں اسکردو پہنچے۔ ساجد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ، مجھے یقین ہے والد صاحب اور ساتھیوں کو کے ٹو سر کرنے کے بعد واپسی پر بوٹل نک کے ایریا میں حادثہ پیش آگیا ہے، ان کے بچ جانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن اگر باڈی ریکور ہوجائے تو ہماری حوصلہ افزائی ہوگی۔

آرمی ایوی ایشن میں کمشنر بلتستان ڈویژن ، ڈپٹی کمشنر اسکردو، شگر اور اسسٹنٹ کمشنر شگر نے ساجد کے رشتہ داروں کے ہمراہ استقبال کیا ، باہمت باپ کے جرأت مند بیٹے کا حوصلہ، ہمت اور صبر دیکھ کر تعریف کی،انھوں نے کمال حوصلہ مندی کے ساتھ میڈیا کے ذریعے اپنے والد کے چاہنے والوں کو تفصیلات سے آگاہ کیا اور ان کی سلامتی کے لئے دعائیں کرنے پر قوم کا شکریہ ادا کیا ۔انھوں نے وفاقی اور صوبائی حکومت اور پاک فوج کے غیر معمولی تعاون پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

عوامی جمہوریہ چین کے صوبہ سنکیانگ اور پاکستان کے شمالی حصے میں سب سے بلند مقام پر واقع کے ٹو دنیا کی دوسری بلند چوٹی ہےجو ایک اہرام کی طرح شنک شکل کی چوٹی ہے جس کی اونچائی 28251فٹ اور 8611 میٹر ہے، اس کے چاروں طرف 8 آٹھ ہزار میٹرسے بلند کئی چوٹیوں کا ایک جھرمٹ ہے۔ کے ٹو کی مہم جوئی کرنے والے 4 میں سے ایک کوہ پیما جان سے ہاتھ دھو بیٹھتاہے، اسی لئے اس کو’’ وحشی پہاڑ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔اس پہاڑ کو پہلی بارجغرافیائی سروے کرنے والے برطانوی تھامس مونڈگومری نے دریافت کیا۔

اٹلی کے شہزادے ابوزری پہلی مہم جو ٹیم لے کر سرینگر کے راستے1909 میں اسکردو سے ،کے ٹو پہنچے، آج کے ٹو کی مہم جوئی کا روٹ ان کے نام سے ہی منسوب ہے۔ اس پہاڑ کی پہلی کامیاب مہم جوئی کرنے والی ٹیم بھی اطالوی تھی ،جس نے 31 جولائی 1954میں پہلی بار کے ٹو سر کیا، دنیا کے پانچ سب سے اونچے پہاڑوں میں سے کے ٹو مہلک ترین ہے جہاں اب تک ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 86 ہے جبکہ رواں موسم سرما کی مہم جوئی میں پانچ کوہ پیمائوں کو یہ پہاڑ نگل گیا، جس میں کوہ پیمائوں کی سرزمین سدپارہ سے تعلق رکھنے والے لیجنڈ علی سدپارہ بھی ممکنہ طور پر شامل ہوسکتے ہیں۔

علی سدپارہ کے لاپتہ ہونے کی خبرپوری دنیا میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل کر سوشل میڈیا کا ٹاپ ٹرینڈ بنی، پوری دنیا سے لوگوں نے ان کی سلامتی کے لئے دعائیں کیں، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیر اعظم عمران خان، چیف آف آرمی ا سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، ذوالفقار علی بخارہ ،گورنر گلگت بلتستان راجہ جلال حسین ، وزیر اعلی خالد خورشید، اپوزیشن لیڈر امجد حسین اور وزیر سیاحت راجہ ناصر علی سدپارہ نے دعائوں کے ساتھ ہر ممکن تعاون بھی جاری رکھا ہوا ہے۔

علی کے قریبی دوست عباس چوپا رجسٹرار چیف کورٹ نے ہمیں بتایا کہ ، علی سدپارہ جیسے پہاڑ سے بھی بلندحوصلہ رکھنے والے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، اس کا شماربڑے دل و دماغ اور وسیع النظر،انتہائی دلیر، مخلص اور قربانی دینے والوں میں ہوتا ہے۔ علی کی صلاحیتوں کو میں اچھی طرح جانتاہوں وہ ہر مشکل مرحلے سے اپنے آپ کو محفوظ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے مجھے یقین ہے کہ وہ کسی کو بچانے کے لئے اپنے آپ کو قربان کرسکتا ہے۔ اسپین کے کوہ پیما الیکس تیکسکون نے اپنے پیغام میں کہا ہےکہ مجھے امید ہے کہ دنیا ایک باکمال کوہ پیما سے محروم نہیں ہوگی ۔

اس کے ساتھ نانگاپربت اور کئی دیگر پہاڑوں پر علی کے ساتھ مہم جوئی میری خوبصورت یادوں کا حصہ ہے، علی رضا سدپارہ نے کہا کہ کوہ پیمائی علی سدپارہ کا عشق اور شوق ہے،وہ ہمیشہ بلندیوں میں رہنا پسند کرتا ۔علی کے بچپن کے ساتھی اور معروف کوہ پیما اکبر حسین سدبارہ نے کہا کہ وہ بچپن سے بہت شریر، ہنس مکھ، ،مزاحیہ اور انتہائی رسکی تھا، خوف اس سے خوف کھاتا تھا۔

علی سدپارہ نے اپنے گائوں میں بچوں کی تربیت کے لئے ایک کلائمنگ اسکول اور گلگت بلتستان میں جدید ہیلی کاپٹرز پر مشتمل ریسکیو سسٹم بنانے کی خواہش اور ضرورت کا بارہا اظہار کیا ۔ آج وفاقی حکومت کو علی سدپارہ کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے اقدامات کرنا چاہئیں، اپنے ہیروز کو پلکوں پر بٹھانے والی پاکستانی قوم سبز ہلالی پرچم کو دنیا کی بلندیوں پر لہرانے کو مقصدحیات سمجھنے والے اس قومی ہیرو اوراس کے بیٹے ساجد حسین کو نشان پاکستان دینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ علی سدپارہ جیسے ہیروز سے زیادہ ان قومی اعزازت کا کون حقدار ہوسکتا ہے۔ پاکستان آرمی کے سربراہ کی جانب سے سرچ آپریشن جاری رکھنےکے فیصلہ نے کوہ پیماؤں اور ان کے خاندانوں کے حوصلے بلند کردیئے ہیں۔

کیا آج تک کسی کوہ پیما نے ڈیتھ زون میں 20 گھنٹے سے زیادہ وقت گزارا ہے؟

اگرچہ 48 گھنٹے سے زیادہ کسی کوہ پیما کے 8000 میٹرز سے اونچائی پر زندہ رہنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں لیکن ڈیتھ زون میں سب سے زیادہ وقت گزارنے کا ریکارڈ نیپال کے پیمبا گلجئین شرپا کے پاس ہے جو2008 میں دو کوہ پیماؤں کو بچانے کے لیے 90 گھنٹے تک کے ٹو کے ڈیتھ زون میں رہے۔

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ وہ دو کوہ پیماؤں کو بچانے کے لیے کیوں ڈیتھ زون میں واپس گئے اور کیوں 8000 میٹر سے زیادہ بلندی پر موت کی گھاٹی میں 90 گھنٹے کا وقت گزارا؟

ان کا جواب تھا "

میں کے ٹو پر خوش قسمت تھا، آپ جانتے ہیں ،میں خوش قسمت تھا"

کیا محمد علی سد پارہ اور ان کے ساتھی بھی اتنے ہی خوش قسمت ہو سکتے ہیں؟

اس سوال کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا لیکن ہماری دعا ہے کہ پاکستان کے یہ صفِ اول کے کوہ پیما اپنے ساتھیوں سمیت زندہ سلامت لوٹ آئیں۔

کوہ پیما ڈیتھ زون میں کتنے گھنٹوں تک زندہ رہ سکتے ہیں؟

طبی ماہرین کے مطابق انسانی جسم سطح سمندر سے 2100 میٹر تک کی بُلندی پر رہنے کے لیے بنا ہے۔ اور اس سے زیادہ بلندی پر انسانی جسم میں آکسیجن کی سچوریشن تیزی سے کم ہونا شروع ہوجاتی ہے اور جسم میں منفی اثرات رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔اونچے پہاڑوں پر جانے سے قبل کوہ پیما کئی ہفتوں تک ’ایکلیماٹائزیشن (acclimatization) یعنی جسم کو ماحول کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا عمل کرتے ہیں تاکہ ان کا دماغ آکسیجن کی سپلائی کے مطابق آہستہ آہستہ ماحول کے حساب سے کام کرنے لگے۔

کوہ پیمائی کے ماہرین کے مطابق کے ٹو پر عموماً کیمپ ون (6000 میٹر کی بلندی) کے بعد کوہ پیما خطرناک زون میں داخل ہو جاتے ہیں اور ان میں آکسیجن کی کمی کے منفی اثرات بھی نمُودار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ہائپوکسیا (آکسیجن کی کمی) کے ساتھ ، نبض تیز ہو جاتی ہے، خون گاڑھا ہو کر جمنے لگتا ہے اور فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ زیادہ خراب حالت میں کوہ پیماؤں کے پھیپھڑوں میں پانی بھر جاتا ہے اور وہ ہائی ایلٹیٹیوٹ سیریبل انیڈما (HACE) کا شکار ہو سکتے ہیں۔

انھیں خون کے ساتھ یا اس کے بغیر کھانسی آنے لگتی ہے اور ان کا نظام تنفس بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ایسی حالت میں بیشتر کوہ پیماؤں کا دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، انھیں عجیب ہذیانی خیالات آتے ہیں ۔سطح سمندر سے 8611 میٹر کی بلندی پر واقع کے ٹو کا ’بوٹل نیک‘ کے نام سے مشہور مقام تقریباً 8000 میٹر سے شروع ہوتا ہے اور کوہ پیماؤں کی اصطلاح میں اسے ’ڈیتھ زون‘ یا موت کی گھاٹی کہا جاتا ہے جہاں بقا کے چیلنجوں میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔

یہاں کوہ پیماؤں کو جان لیوا قدرتی موسم کے ساتھ نبردآزما ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے جسم کے اندر بھی ایک لڑائی لڑنا پڑتی ہے۔ڈیتھ زون میں جہاں ایک غلط قدم کا مطلب سیدھا ہزاروں فٹ گہری کھائی یا گلیشیر میں گر کر موت کو گلے لگانے کے مترادف ہے وہیں اس اونچائی پر آکسیجن کی مزید کمی سے سنگین اثرات رونما ہوتے ہیں اور انسانی دماغ کا جسم پر کنٹرول ختم ہو جاتا ہے اور جسم مفلوج ہو جاتا ہے۔

ڈیتھ زون میں انسانوں کو سانس لینے کے لیے درکار آکسیجن کی کمی سے جہاں ’آلٹیٹیوٹ سکنیس (اونچائی پر لاحق ہونے والی بیماری)‘ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں وہیں اتنی بلندی پر تیز ہوائیں بھی کوہ پیماؤں کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔یہاں پر انتہائی کم درجہ حرارت بھی جسم کے کسی بھی حصے میں فراسٹ بائٹ کا باعث بن سکتا ہے۔ یہاں تک چڑھنے والے کوہ پیما سیریبرل اینڈیما، ریٹنا ہیمرج، شدید سر درد، متلی، بد نظمی، ہیلوسینیشن یا نظر کا دھوکا وغیرہ جیسے طبی حالات سے بھی دوچار ہو سکتے ہیں۔

ڈیتھ زون میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور یہاں آپ مخصوص وقت سے زیادہ نہیں گزار سکتے ہیں اور یہاں نیند یا زیادہ دیر رکنے کا مطلب موت ہے۔اسی لیے کیمپ فور میں پہنچنے والے کوہ پیما سوتے نہیں۔ بس کچھ دیر سستا کر سمٹ کرنے یا چوٹی پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور تقریباً 16 سے 18 گھنٹوں کے دورانیے میں چوٹی سر کرکے ڈیتھ زون سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔کوہ پیما ڈیتھ زون میں زیادہ سے زیادہ 16 سے 20 گھنٹے تک زندہ رہ سکتے تھے ۔کوہ پیماؤں کو خصوصی ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ڈیتھ زون میں اس سے زیادہ وقت ہرگز نہ گزاریں۔