کیا دنیا ’’ویکسین پاسپورٹ‘‘ کی طرف بڑھ رہی ہے؟

February 18, 2021

دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو کووِڈ-19 وَبائی مرض سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے جانے کے ساتھ، کچھ سیاسی اور کاروباری رہنما تجویز کررہے ہیں کہ اقوامِ عالم ایک نام نہاد ’’ویکسین پاسپورٹ‘‘ متعارف کروا کر زندگی کو معمول پر لانے میں مدد فراہم کرسکتی ہیں یعنی ویکسین لگوانے والے ہر شخص کو آسانی سے قابلِ رسائی اور قابلِ تصدیق سند کا اجراء۔

نجی کمپنیاں پہلے ہی ایسے لوگوں کے لیے کورونا وائرس کے خلاف ویکسین شاٹس لازمی کرنے پر غور کررہی ہیں، جو طیارے اور بحری جہاز پر سوار ہونا چاہتے ہیں یا سماجی میل جول کے پروگراموں جیسے کنسرٹ وغیرہ میں شرکت کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں پہلے ہی حکومتوں، نجی کاروباری اداروں اور بین الاقوامی ایسوسی ایشنوں کی جانب سے اس طرح کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ لیکن اس مجوزہ منصوبے سے متعلق سائنسی اور اخلاقی سوالات بھی اُٹھتے ہیں۔

پسِ پردہ کیا سوچ کارفرما ہے؟

اس وقت، بہت سے ممالک اور ایئر لائنز کو اس بات کا ثبوت درکار ہے کہ بین الاقوامی مسافر کووِڈ۔19 مرض سے متاثر نہیں ہیں۔ تاہم، اس کے قواعد و ضوابط جگہ جگہ مختلف ہیں اور اب تک لوگوں کو ٹیکہ لگانے کا بین الاقوامی طور پر کوئی یکساں اور منظم طریقہ کار طے نہیں کیا گیا۔ ویکسین پاسپورٹ کا تصور نام نہاد ’’یلو کارڈ‘‘ کا جدید ورژن ہے، جسے ’’انٹرنیشنل سرٹیفکیٹ آف ویکسینیشن‘‘ یا ’’پروفیلیکسس‘‘ یعنی حفظِ ماتقدم کہا جاتا ہے۔ یہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے منظور کردہ ایک کتابچہ ہے، جس میں آپ کو دیے جانے والے حفاظتی ٹیکوں کا ریکارڈ درج ہوتا ہے۔

کووِڈ-19کے پھیلاؤ کی شرح، متعدی بیماری اور تباہی کو دیکھتے ہوئے، بہت سے لوگ زیادہ جدید، ڈیجیٹل اور محفوظ ریکارڈ کی ضرورت کی تجویز دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، یہ ویکسینیشن کی حیثیت کا ثبوت فراہم کرے گا اور حالیہ وائرس ٹیسٹ کے نتائج کو دستاویزی ثبوت کے طور پر محفوظ کرے گا۔ اس طرح یہ سرحدی حکام اور ساتھی مسافروں کے خدشات کو ختم کرے گا یا ایونٹ منتظمین کی پریشانیوں کو کم کرے گا۔ عالمی ادارہ صحت کی ترجمان مارگریٹ ہیریس کے مطابق، اس طرح کے ثبوت کے مطالبے کی وجہ سے ویکسین سرٹیفکیٹ کے جھوٹے اور جعلی کاغذی نمونے سامنے آرہے ہیں۔

ثبوت مانگنے پر کون غور کررہا ہے؟

کئی کمپنیوں نے کووِڈ-19ویکسین کا ریکارڈ رکھنے کو لازمی قرار دے دیا ہے یا اس بات پر سنجیدگی سے غور کررہی ہیں۔ ان میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والی ’’کروزشپ‘‘ چلانے والی کمپنی بھی ہے، جو صارفین کے لیے پہلے ہی اس بات کو لازمی قرار دے چکی ہے کہ وہ کووِڈ-19ویکسینیشن کا باقاعدہ ریکارڈ پیش کریں۔

آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی ایک بڑی نجی ایئرلائن، جسے دنیا کی تیسری سب سے پُرانی ایئرلائن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کا کہنا ہے کہ ا ن کی ایئرلائن اس بات پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے کہ آسٹریلیا میں داخل ہونے والے یا آسٹریلیا سے جانے والے تمام مسافروں سے بورڈنگ سے قبل، کووِڈ-19ویکسینیشن کا ریکارڈ طلب کیا جائے۔ لائیو ایونٹس کے ٹکٹ فروخت کرنے والی سب سے بڑی آن لائن ٹکٹ بکنگ کمپنی کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کسی لائیو ایونٹ جیسے کنسرٹ میں شرکت کرنے والوں سے کووِڈ-19ویکسینیشن کا ریکارڈ طلب کیا جائے، اس سلسلے میں وہ ایک ایسا نظام وضع کرنے کی کوشش کررہی ہے، جس کے تحت صارف اپنے ویکسین ریکارڈ کو ڈیجیٹل ٹکٹ کے ساتھ لِنک کردے۔

کون سے ممالک اپنی سرحدوں میں داخلے کیلئے ویکسینیشن کا ثبوت مانگتے ہیں؟

جب کسی بھی ملک کی زیادہ سے زیادہ آبادی کو کووِڈ-19کے ٹیکے لگادیے جائیں گے، اس کے بعد مستقبل قریب میں یہ ایک ممکنہ منظرنامہ ہوسکتا ہے۔ اس وقت عالمی ادارہ صحت اس بات کی توثیق نہیں کرتا، تاہم ہم نے دیکھا ہے کہ مختلف اوقات میں کئی ممالک نے عالمی ادارہ صحت کو نظرانداز کرتے ہوئے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے بیرونِملک یا مخصوص ممالک سے آنے والے افراد کے داخلے پر پابندیاں عائد کی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے بین الاقوامی ضوابط کے تحت، جن پر 196ممالک قانونی طور پر عمل کرنے کے پابند ہیں، اپنے ملک میںداخل ہونے والے افراد سے صرف ایک ویکسین یعنی ’’یلو فیور‘‘ (Yellow Fever)کا ویکسینیشن ریکارڈ طلب کرنے کے مجاز ہیں۔ فروری 2021ء کی ابتداء میں عالمی ادارہ صحت نے 2وجوہات کی بناء پر کووِڈ-19کو اس فہرست میں شامل نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

اوّل، یہ ابھی تک واضح نہیں کہ ویکسین کس حد تک لوگوں کو وائرس پھیلانے سے روکے گی، چاہے وہ ابھی تک اس سے متاثر ہوچکے ہیں یا نہیں۔ دوئم، کووِڈ-19ویکسین کی رسد ابھی محدود ہے۔ گزشتہ سال بھی، ڈبلیو ایچ او نے صرف ’’اینٹی باڈیز‘‘ کی بنیاد پر کووِڈ-19ویکسین پاسپورٹ متعارف کرانے کی حوصلہ شکنی کی تھی، کیونکہ اس بات کے ٹھوس سائنسی ثبوت موجود نہیں تھے کہ اینٹی باڈیز رکھنے والے افراد دوبارہ اس وائرس سے متاثر نہیں ہوسکتے۔

ویکسین کی محدود رسد کے اثرات

اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں داخلے کے تقاضوں کے باعث، دنیا کے زیادہ تر لوگوں کی کووِڈ-19ویکسین تک رسائی مشکل ہوگی۔ دنیا بھر کے ممالک صحت کے بین الاقوامی قواعد و ضوابط کے تحت صحت عامہ کے ایسے اقدامات کرنے کے مجاز ہیں جو عالمی ادارہ صحت کی تجاویز سے بالاتر ہوں، لیکن صرف اس صورت میں جب وہ بلا امتیاز ہوں۔ کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ ویکسین پاسپورٹ عدم مساوات کو بڑھاتے ہوئے ٹیکہ لگے ہوئے امراء کا ایک امتیازی گروہ پیدا کردے گا جبکہ دیگر کو کئی خدمات کی وصولی اور سرحدیں عبور کرنے سے بھی انکار کردیا جائے گا۔

ویکسین پاسپورٹ پر کون کام کررہا ہے؟

برطانیہ اپنے ملک کی دو ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کووِڈ-19 کمیونٹی اور ویکسین پاسپورٹ پر کام کررہا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم، کامنز پروجیکٹ اور راکر فیلر فاؤنڈیشن "CommonPass"کے نام سے ایک ٹیکنالوجی پلیٹ فارم قائم کررہا ہے۔ یہ پلیٹ فارم ’’سفر کرنے اور سرحدیں عبور کرنے والے افراد کو محفوظ اور قابلِ تصدیق انداز میں اپنی صحت کی حالت سے متعلق محفوظ اور قابلِ تصدیق دستاویز‘‘ فراہم کرے گا۔

انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن بھی ’’ٹریول پاس‘‘ پر کام کررہی ہے، جو ہوائی سفر کرنے والے افراد کو ان کے مطلوبہ ملک میں ’’ہیلتھ اسکریننگ‘‘ کے اقدامات سے آگہی اور ان سے مطابقت قائم کرنے میں مدد فراہم کرے گی۔ اسی طرح یورپی یونین کے ممالک بھی ممکنہ طور پر کووِڈ-19ویکسینیشن سرٹیفکیشن متعارف کرانے پر غور کررہے ہیں۔