شوبز کیلئے سرکاری ملازمت کو خیرباد کہہ دیا

February 28, 2021

بات چیت : عالیہ کاشف عظیمی

2009ء میں فن کی دُنیا سے رشتہ جوڑنے والے نوید رضا آج کے معروف اداکار ہیں، جنہوں نے اپنے شوبز کیرئیر کا آغاز معروف ڈرامے ’’محمودآباد کی ملکائیں‘‘ سے کیا۔ اُس وقت وہ ’’سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام‘‘ سے بطور آفیسر وابستہ تھے۔ تاہم، دو برس بعد ملازمت چھوڑ کر اداکاری ہی کو اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ نوید رضا نے مختلف ڈراموں میں مزاحیہ، سنجیدہ، مثبت، منفی، رومانی تقریباً ہر طرح کے کردار ادا کیے۔

ان کے مقبول ڈراموں میں’’یہ زندگی ہے‘‘،’’بشر مومن‘‘، ’’جہیز‘‘، ’’جورو کا غلام‘‘، ’’اگر اور جی لیتے‘‘، ’’رشتے کچّے دھاگوں کے‘‘، ’’دِل تو کچّا ہے جی‘‘ اور’’میرا دِل، میرا دشمن‘‘، جب کہ فلموں میں ’’جوانی پھر نہیں آنی‘‘ اور ’’راستہ‘‘شامل ہیں۔ وہ اس وقت ’’ایڈز کنٹرول پروگرام‘‘ ،’’ آئی آر ڈی، پاکستان‘‘ اور ’’ کرن ستارہ‘‘ کےسفیر بھی ہیں۔

گزشتہ دِنوں ہم نے جنگ،سنڈے میگزین کے مقبولِ عام سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ کے لیے ان سے خصوصی بات چیت کی ،جس کی تفصیل قارئین کی نذر ہے۔

س: خاندان، ابتدائی تعلیم و تربیت سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج:میرا تعلق ایک پڑھے لکھےاور محبّت بَھرے خاندان سے ہے۔ والد، جاوید احسن پی آئی اے میں ملازمت کرتے تھے ،اب ریٹائر ہوچُکے ہیں ۔ والدہ، زہرا جاوید نےہوم اکنامکس میں گریجویشن کیا اورشادی کے بعد گھر گر ہستی میں مصروف ہوگئیں۔ مجھ سے تین سال چھوٹی ایک بہن حنا ہے، جس کی شادی ہوچُکی ہے۔

ویسے ہم دونوں کا’’ ٹام اینڈ جیری‘‘ والا رشتہ ہے۔ میری جائے پیدایش کراچی ہے۔ اسکولنگ سے لے کر یونی ورسٹی تک تمام مراحل بھی اِسی شہر سے طے کیے۔ بی بی اے کے بعد ایم بی اے میں داخلہ لے لیا، مگر مصروفیات کے باعث تعلیمی سلسلہ برقرار نہ رکھ سکا۔ رہی بات تربیت کی، تو والدین نے اپنے دونوں ہی بچّوں کی تعلیم، تہذیب اور تربیت پر خاص توجّہ دی ہے۔

س: بچپن میں کیسے طالب علم تھے، پڑھاکو یا…؟

ج:مَیں پورا سال پڑھنے والوں میں سے نہیں تھا،اس کے باوجود ہرامتحان میں اے گریڈ سے پاس ہوتا۔

س: بچپن کیسا گزرا؟

ج:بہت ہی شان دار، کیوں کہ مَیں اپنے ننھیال میں پہلا بچّہ تھا، تو سب مجھ پر جان چھڑکتے تھے۔ سب ہی نے خُوب محبّتیں نچھاور کیں، مگر مَیں نے اُن محبّتوں کا کبھی ناجائز فائدہ نہیں اُٹھایا۔ خودسری، مَن مانی نہیں کی۔تمیزدار ، فرماں برادر تھا، بڑے، چھوٹے کا لحاظ بھی کرتا تھا اور اب بھی یہ خوبیاں میری شخصیت کا حصّہ ہیں۔ البتہ میٹرک کے بعد ذرا شرارتی ہوگیا تھا، مگر تب بھی اپنی حدود کا خیال رکھا۔

س: ماڈل بھی ہیں اور اداکار بھی تو فیلڈ میں کیسے آمد ہوئی؟

ج:مَیں نے اپنے کیرئیر کا آغاز 2008ء میں بطور گریڈ17 آفیسر، شعبۂ صحت سے کیا۔میری تعیناتی’’سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام‘‘ میں ہوئی۔پھر2009ء میں، مَیں نےچند ایک جرائد کے لیے ماڈلنگ کی اور ایک نجی چینل سے نشر ہونے والےشو’’ہیرو بننے کی ترنگ‘‘ کا آڈیشن بھی دیا۔یہ شو میرے لیےخاصا لکی ثابت ہوا کہ اس کے بعد متعدّد اشتہارات اور ڈراموں میں کام ملتا چلا گیا۔

دو برس تک اداکاری کے ساتھ ملازمت بھی جاری رکھی، مگر جب لگا کہ زیادہ رجحان اداکاری کی جانب ہے، تو سرکاری ملازمت چھوڑ دی۔ حالاں کہ دوستوں نے بہت سمجھایا، منع بھی کیا، مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا، تو بس اپنے شوق کی خاطر شوبز کا راستہ چُن لیا۔ ویسے مَیں ایڈز کنٹرول پروگرام ، آئی آر ڈی، پاکستان اور کرن ستارہ کا سفیر بھی ہوں۔

س:پہلا ڈراما اور فلم کون سی تھی؟

ج: مجھے ہمایوں سعید نے’’محمود آباد کی ملکائیں‘‘سے متعارف کروایا، جو2011ء میں نشر ہوا،جب کہ 2015ء میں واسع چوہدری کی فلم’’جوانی پھر نہیں آنی‘‘میں وکیل کا کردار ادا کر کے فلمی دُنیا میں بھی قدم رکھ دیا۔

س: فیلڈ میں آنے کے بعد کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

ج:مشکلات تو زندگی کا حصّہ ہیں،جن سے ہر ایک کو نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔لیکن، اس فیلڈ میں اس لیے بھی مشکلات ہی مشکلات ہیں کہ یہاں کام سے زیادہ تعلقات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ لوگوں سےتعلقات بنانے پڑتے ہیں، جو زیادہ تر پروفیشنل ہی ہوتے ہیں، لہٰذا شوبز انڈسٹری میں اُس مقام تک پہنچنا، جس کے لیے آپ محنت بھی کررہے ہوں، خاصا دشوار ہوجاتا ہے۔

س: فیلڈ کی وجہ سے ذاتی زندگی متاثر ہوئی؟

ج:قطعاً نہیں کہ مَیں اپنا کام سیٹ پر چھوڑ کر گھر آتا ہوں، جہاں میں صرف بیٹا، شوہر اور باپ ہوں۔

س: کسی بھی فیلڈ میں مقام بنانے کے لیے کیا چیز سب سے ضروری ہے؟

ج:ہر ایک کو عزّت دینا۔

س: گزشتہ برس کورونا وائرس کا شکار ہوئے تھے، تو اس حوالے سے بھی کچھ بتائیں؟

ج:مَیں اکیلا نہیں، والدین، اہلیہ اور پانچ سال کی بیٹی بھی کورونا وائرس کا شکار ہوئی تھی۔ مگر اللہ کا شُکر ہے کہ وائرس کا حملہ شدید نہیں تھا۔ رپورٹ مثبت آنے پر ملازمین کو ان کی تن خواہیں ادا کرکے چُھٹی دے دی تھی، تو ہم سب نے مل جُل کر گھر کے کام کیے،مزے مزے کے کھانے بنائے ، ایک دوسرے کو حوصلہ بھی دیا اور اللہ کے حضور توبہ استغفار بھی کی۔

س: کیا اس عالم گیر وبا سے کچھ سیکھا؟

ج:یہی کہ زندگی کی ہر چھوٹی بڑی نعمت کا شُکر ادا کیا جائے۔صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے اور حتی الامکان دین کے اصولوں کے مطابق زندگی گزاری جائے۔

س: کیا یہ سچ ہے کہ سینئر اداکار جاوید شیخ سے ویب شو کے دوران نامناسب سوال پوچھنے پر آپ نے خاصی برہمی کا اظہار کیا تھا؟

ج:جی بالکل، مَیں اُن دِنوں جاوید شیخ صاحب کے ساتھ فلم’’چکر‘‘ کی شوٹنگ میں مصروف تھا۔ تو ایک ویب شو میں میزبان نے نہ صرف اُن سے نامناسب سوال کیا، بلکہ اُن کا مذاق بھی اُڑایا، جو مجھ سے برداشت نہیں ہوا اور مَیں نے اپنی برہمی کا بَھرپور اظہار کردیا۔ جاوید شیخ مُلک کے نام وَر اداکار ہیں۔ ویب شوز کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو دِل میں آیا، پوچھ لیا جائے۔

س:اپنے کسی ڈرامے کا کوئی ڈائیلاگ، جو خود بھی بہت اچھا لگا ہو؟

ج: مجھے تو اپنے ہر ڈرامے کے ڈائیلاگز اچھے لگتے ہیں۔ہاں البتہ ایک ڈراما ’’میرا دِل، میرا دشمن‘‘ کا ڈائیلاگ’’شاہینہ! سوچ لو‘‘ بہت مشہور ہوا اور اس پرممیز بھی خُوب بنیں۔ تو یہ ڈائیلاگ زیادہ اچھا لگتا ہے۔

س: زندگی سے کیا سیکھا؟

ج:زندگی سے جو سیکھا، اس کا نچوڑ یہی ہے کہ اس فانی دُنیا میں سب سے اہم صرف آپ کی فیملی ہے، اُسے توجّہ دیں۔ قریبی لوگوں کو ساتھ لے کر چلیں اورزبردستی کے تعلقات استوار نہ کریں۔

س:زندگی میں جو چاہا، پالیا یا کوئی خواہش تشنہ ہے؟

ج: دیکھیں،خواہشات کا سلسلہ تو کبھی رُکتا ہی نہیں۔ اس لیے اللہ کی رضا میں راضی رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ وہ مالکِ کائنات جس نعمت سے نوازتا ہے، اُس پر شُکر ادا کرتا ہوں۔

س: زندگی کا کون سا دَور پسند ہے؟

ج:بے فکری کا دَور یعنی بچپن بہت پسند ہے۔

س: زندگی میں کسی اور مُلک جابسنے کا موقع ملے، تو کہاں رہنا پسند کریں گے؟

ج:مَیں تقریباً پوری دُنیا ہی گھوم چُکا ہوں، مگر پاکستان، پاکستان ہے۔ہاں، اگر کبھی خدانخواستہ حالات ایسے بن گئے کہ کسی اور مُلک میں رہنا پڑے، تو دبئی کو ترجیح دوں گا۔

س: لَو میرج کی یا ارینجڈ؟ اہلیہ اور بچّوں سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: ہماری لَو میرج ہے۔ پہلی ملاقات15 سال قبل یوتھ پارلیمینٹ میں ہوئی اور شادی 2013ء میں کی۔ کنول نوید کلینکل سائیکالوجسٹ ہیں، انہوں نے نفسیات میں پی ایچ ڈی کی ہے اور ہماری ایک ہی بیٹی ہے ،جس کا نام منال ہے۔

س:اگر اہلیہ شوبز سے وابستگی کیخواہش ظاہر کریں تو ردِ عمل کیا ہوگا؟

ج: کنول کاا پنا کلینک ہے، تو وہ زیادہ تر اِسی میں مصروف رہتی ہے۔ ہاں اگر کبھی کسی ڈرامے میں کام کرنا چاہا ،تو منع نہیں کروں گا۔

س: ان دِنوں کون سا گانا ذہن میں بسا ہوا ہے؟

ج:اسٹرنگز بینڈ کا گانا ،’’سر کیے یہ پہاڑ‘‘اکثر گنگناتا رہتاہے۔

س:آپ کا مَن پسند ڈراما کون سا ہے؟

ج:اپنے ڈراموں میں’’دِل تو کچّا ہے جی‘‘، اور دیگر میں’’میرے پاس تم ہو‘‘۔

س:موجودہ حکومت کی کارکردگی اگر ایک جملے میں بیان کرنے کو کہا جائے تو…؟

ج:صرف اتنا کہوں گا کہ ’’کنفیوژ حکومت نے عوام کو بھی کنفیوژ ہی کر رکھا ہے۔‘‘

س:سینیئر اداکاروں میں سے کس کے ساتھ کام کرنے کی خواہش ہے؟

ج: مجھے ایمان علی اور ہمایوں سعید کے ساتھ کام کرنے کی خواہش ہے۔ دیکھیں، کب پوری ہوتی ہے۔

س: سوشل میڈیا کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ج:میری نظرمیں سوشل میڈیا رابطے کا فوری اور مؤثر ذریعہ ہے،خاص طور پر فن کاروں کے لیے۔

س: اپنے والدین کے لیے کچھ کہنا چاہیں گے؟

ج: والدین کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا ،جنہوں نے پڑھا لکھا کراتنی بڑی دُنیا میں اپنی پہچان بنانے کے قابل بنایا ۔

س: کون سی ڈشز اچھی لگتی ہیں یا خود بنا سکتے ہیں؟

ج:مجھے دیسی، چائنیز، جنک فوڈز، ہرقسم کے کھانے پسند ہیں، بس ان کا ذائقہ اچھا ہونا چاہیے۔

س: کتب/ شاعری سے شغف ہے؟

ج:جی بالکل،شاعری صرف سُننے کی حد تک پسند ہے، توانٹرنیٹ پر تحقیقاتی آرٹیکلز پڑھتا رہتا ہوں۔

س: کس بات پر غصّہ آتا ہے؟ اور آئے تو ردِعمل کیا ہوتا ہے؟

ج:مجھے چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصّہ آجاتا ہے، تو ایسے میں ڈانٹ دیتا ہوں، مگر چیختا چلّاتا نہیں ۔

س:اگر کوئی تنقید کرے، تو…؟

ج: اصلاحی ہو تو بُرا نہیں لگتا، اپنی اصلاح کرلیتا ہوں۔ ورنہ نظرانداز کردیتا ہوں۔

س: گھر والوں کو آپ کی کون سی عادت ناپسند ہے؟

ج:گھر سے باہر کھانا کھانے کی ،مگر لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ عادت بھی تقریباً ختم ہوچُکی ہے۔

س: تاریخِ پیدایش کیا ہے، سال گرہ مناتے ہیں؟

ج: 7جولائی1985ء تاریخِ پیدایش ہے اور ستارہ سرطان۔ سال گِرہ بہت دھوم دھام سے مناتا ہوں۔

س: موبائل فون کو زندگی سے نکال دیا جائے تو؟

ج: پھر تو بڑی مشکل ہوجائے گی۔

س: آپ کی وارڈروب کی تلاشی لی جائے تو؟

ج: تو کپڑوں سے کہیں زیادہ جوتے ملیں گے۔کیوںکہ میرے پاس دُنیا بَھر سے خریدے گئے جوتے موجود ہیں۔

س: شاپنگ کس کے ساتھ کرنا پسند کرتے ہیں؟

ج: کبھی اہلیہ یا دوستوں کے ساتھ، تو کبھی اکیلے کرتا رہتا ہوں۔ویسے مجھے شاپنگ کا بہت شوق ہے۔

س: اسپورٹس سے دِل چسپی ہے؟ کون سے کھیل، کھلاڑی اچھے لگتے ہیں؟

ج: کرکٹ، بیس بال ،باسکٹ بال پسند ہیں، جو مَیں خود بھی کھیلتا ہوں۔ ویسے ان دِنوں باکسنگ کی باقاعدہ طور پر تربیت لے رہا ہوں۔

س: آپ کی کوئی انفرادیت، اپنی شخصیت کو کس طرح بیان کریں گے؟

ج: خوش اخلاقی ہی میری انفرادیت ہے۔