ہر بچہ، بہت اچھا

February 28, 2021

نائلہ اسلم، اسلام آباد

اکثر والدین فکرمند نظر آتے ہیں کہ بچّے اچھے اسکولوں میں داخل کروانے اور بہترین ٹیوشن حاصل کرنے کے باوجود بھی تعلیمی میدان میں نمایاں کارکردگی کیوں نہیں دکھا پا رہے۔ بلاشبہ بچّوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے کسی بھی مرحلے پر متوقع نتائج برآمد نہ ہونے پر تشویش ایک فطری امر ہے، لیکن بچّوں کی تعلیمی کارکردگی کا انحصار محض ان کی ذہانت، قابلیت اور صلاحیت پر نہیں۔

اگر آپ کا بچّہ ذہین ہے اور پڑھائی میں دِل چسپی بھی رکھتا ہے، پھر بھی والدین اس کی کارکردگی سے مطمئن نہیں، تو اسے موردِ الزام ٹھہرانے کی بجائے مناسب ہوگا کہ اُن عوامل کا جائزہ لیں، جو بچّوں کی کارکردگی پر براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثلاً بچّوں کی صحت، ماحول، معمولات اور غذا وغیرہ۔

بچّوں کی عمدہ کارکردگی کے لیے سب سے اہم ان کے معمولات میں توازن ہے۔ طبّی ماہرین کے مطابق پانچ سال سے کم عُمر بچّوں کو ذہنی و جسمانی طور پر چاق چوبند رہنے کے لیے چوبیس گھنٹوں میں کم از کم 10سے 12گھنٹے سونا چاہیے۔ جب کہ چھے سے بارہ سال کی عُمر کے بچّوں کے لیے نیند کا مناسب دورانیہ9سے 12گھنٹے پر مشتمل ہے۔ تیرہ سے اٹھارہ سال کی عُمر میں 8سے 10گھنٹے کی نیند ضروری ہے۔ اگر آپ کا بچّہ کم سوتا ہے، تو اس کے اثرات اس کی صحت اور عمومی کارکردگی پر لازماً مرتّب ہوں گے۔ جیسے امتحانات یا ٹیسٹس میں نمبر کم آنا، کلاس میں توجّہ کی کمی یا اونگھتے رہنا، کھیل کود میں عدم دِل چسپی اور سُستی وغیرہ۔

بَھرپور نیند سے نہ صرف جسمانی اعضاء، بلکہ ذہن بھی تازہ دَم رہتا ہے۔خصوصاً اسکول جانے والے بچّوں کا رات کو جلد سونا ضروری ہے، لہٰذا انہیں رات دیر تک ٹی وی، کمپیوٹر، موبائل گیمز وغیرہ میں مشغول نہ رہنے دیں اور ایک وقت مقرر کرکے جلدسونے کا عادی بنائیں۔ دیگر معمولات میں بھی بچّوں کے کھیل کود، ہوم ورک، گھومنے پھرنے اور کھانے پینے کے اوقات کا جائزہ لیں۔ اگر بچّہ ان میں سے کسی ایک پر بھی غیر ضروری طور پر زیادہ وقت صرف کرتا دکھائی دے، تو بروقت اصلاح کریں۔ علاوہ ازیں، گھر سے باہر کھیلے جانے والے کھیل جیسے فٹ بال، کرکٹ اور ہاکی وغیرہ میں شمولیت کے لیے بچّوں کی حوصلہ افزائی کریں، تاکہ بہتر جسمانی نشوونما کے ساتھ ان کی خود اعتمادی میں بھی اضافہ ہو۔

اچھی صحت کا دارومدار متوان غذا پر بھی ہوتا ہے۔ بچّوں کو غذائیت سے بَھرپور اور زود ہضم غذائیں کھلائیں کہ ان کی بہتر صحت ہی ان کی بہترین کارکردگی کی ضمانت بن سکتی ہے۔ اکثر والدین جیب خرچ کے نام پر بچّوں کو معقول رقم تو دے دیتے ہیں، لیکن انہیں کھانے پینے کی چیزوں میں احتیاط کے حوالے سے کچھ خاص رہنمائی فراہم نہیں کرتے،جس کے نتیجے میں وہ غیر معیاری اشیاء کھا کر بیمار اور کم زور ہوجاتے ہیں۔ کوشش کریں کہ بچّوں کو گھر ہی سے لنچ باکس تیارکرکے دیں۔

ان کے لنچ باکس میں روزانہ کم از کم ایک پھل ضرور شامل ہو۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بچّے لنچ باکس جوں کا توں واپس لے آتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں،’’بھوک نہیں لگی تھی۔‘‘تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ بڑھتی عُمر میں اسکول کے اندر بھاگ دوڑ کرنے والے بچّے کو اتنے گھنٹوں میں بھوک محسوس نہ ہو۔

دراصل لنچ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ اس کی پسند کا نہ ہو۔ کوشش کر کےبچّوں کو ان کی پسند کی چیز یںہی بنا کر دیں۔اور اس کے لیےابتدا ہی سے بچّوں کو انڈا، مرغی، دال، گوشت، سبزی، مچھلی غرض ہر طرح کی غذائیں کھانے کی عادت ڈالیں۔ بچّوں کی صحت کی طرف خصوصی توجّہ دیں۔ اگر آپ کے بچّے کو دَمہ، الرجی، ذیا بطیس یا کوئی اور دائمی مرض ہو تو یہ بات اسکول انتظامیہ کے علم میں لے کر آئیں۔ مگر بچّے کے سامنے کبھی نہ کہیں کہ وہ بیمار ہے۔بچّے کے اسکول میں ایمرجینسی رابطے کے لیے موبائل نمبر ضرور دیں۔

اگر بچّہ بیمار ہے، تو زبردستی اسکول نہ بھیجیں۔بچّوں کی ویکسی نیشن پر خاص توجّہ دی جائے اور عُمر کی مناسبت سے ان کے بڑھتےقد اور وزن پر دھیان رکھا جائے۔ بہتر ہوگا کہ سال، چھے مہینے میں کسی ماہرِامراضِ اطفال سے معائنہ کروالیا جائے۔ بچّوں کو سڑک پار کرنے کا درست طریقہ سکھائیں۔ اگر بچّے وین کے ذریعے اسکول جاتے ہیں، تو ڈرائیور کے ساتھ یہ بات طے کر لیں کہ ڈرائیور خود سیٹ سے اُتر کر بچّوں کو وین میں بٹھائے گا اور واپسی پر گھر میں داخل ہونے تک وہ ان پر نظر رکھے گا۔ اس طرح بچّے ٹریفک حادثات کا شکار ہونے سے محفوظ رہیں گے۔

والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اخلاقیات کے حوالے سے بھی بچّوں پر کڑی نگاہ رکھیں۔ اُنہیں ہر حال میں سچ بولنا سکھائیں اورخود بھی ان کے سامنے جھوٹ بولنے سے گریز کریں۔ ان کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئیں اور ان کو بھی اس کی تلقین کریں۔ بچّوں کو شروع سے نماز، روزے اور تلاوت کا عادی بنائیں۔

اسکول میں بہتر سے بہتر پوزیشن حاصل کرنے کے لیے اپنے بچّے پر دباؤ ڈالنے سے بہتر ہے کہ والدین درج بالا تمام باتوں کی اہمیت کو سمجھیں اور ان پر غور بھی کریں، کیوں کہ بچّوں کی پرورش ہی نہیں، اُنہیں معاشرے کا ایک کارآمد فرد اور اچھا مسلمان بنانا بھی ہماری ذمّے داری ہے۔