سندھ اسمبلی کی آدھی نشستوں پر کراچی کا حق ہے

February 28, 2021

بات چیت… مطلوب حسین

سیّد مصطفیٰ کمال کا سیاسی سفر کئی برسوں پر محیط ہے۔ 2003ء میں متحدہ قومی موومنٹ کے ٹکٹ پر سندھ اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور دو برس تک آئی ٹی کے وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ اکتوبر 2005ء میں مُلک کے سب سے بڑے شہر، کراچی کے ناظم منتخب ہوئے۔اِس عُہدے پر رہتے ہوئے اُنھوں نے بڑے پیمانے پر عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں پر کام کیا، جنھیں شہری آج بھی یاد کرتے ہیں۔

اِنھیں خدمات کے اعتراف میں اُنھیں 2010ء میں دنیا کا بہترین مئیر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 2013ء میں ایوانِ بالا کے رُکن منتخب ہوئے، تاہم جلد ہی سینیٹ کی رُکنیت سے استعفا دے کر بیرونِ مُلک چلے گئے۔2016ء میں وطن واپس آئے اور ایک نئی سیاسی جماعت’’ پاک سرزمین پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اِن دنوں اِسی پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں اور بہت کم وقت میں قومی سیاست میں اہم مقام بنانے میں کام یاب رہے ہیں۔سیّد مصطفیٰ کمال سے گزشتہ دنوں’’ پاک سرزمین پارٹی‘‘ کے مرکزی سیکریٹریٹ’’ پاکستان ہاؤس‘‘ میں ایک تفصیلی نشست ہوئی، جس کا احوال قارئین کی نذر ہے۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س: نئی پارٹی بنانے کا خیال کب اور کیوں آیا؟

ج: مَیں نے 2013ء میں ایم کیو ایم چھوڑی، تو اُس وقت نئی پارٹی بنانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ 2016 ء میں خیال آیا کہ ظلم کے خلاف آواز اُٹھانی چاہیے۔ سو، مَیں نے انیس بھائی سے بات کی اور پاکستان آکر ظلم اور ظالم کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے پاک سرزمین پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اُن دنوں کراچی میں روزانہ 20،22 لوگ قتل ہو رہے تھے۔ شیعہ، سُنی، بریلوی دیوبندی کے نام پر لوگوں کو قتل کیا جاتا تھا۔ سندھی، مہاجر، پختون، بلوچ کے نام پر لوگ مرتے تھے۔

ہماری پرانی جماعت کی قیادت’’ را‘‘ کی ایجنٹ بن گئی تھی۔ لوگوں کو تو اِس کا اب پتا چلا، لیکن ہم نے اُسی وقت یہ بات بتادی تھی کہ کون کون پیسے لے کر یہاں قتل و غارت گری کروارہے ہیں۔ اُس پارٹی میں شامل نوجوانوں کی زندگیاں تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ ہمارا مقصد ایم پی اے، ایم این اے بننا نہیں کہ یہ تو ہم خود چھوڑ کر آئے، ہمیں لوگوں کو تباہی سے بچانا ہے اور یہی ہماری سیاست کا محور ہے۔

س:اِس مقصد میں کس حد تک کام یابی حاصل کر چُکے ہیں؟

ج: دیکھیں، جیت اور کام یابی میں بہت فرق ہے۔ اگر الیکشن جیت لینا ہی کام یابی ہے، تو آج عوام الیکشن جیتنے والوں کو بددُعائیں کیوں دے رہے ہیں؟ الحمدللہ، ہم اپنے اندازوں سے بھی زیادہ کام یاب رہے ہیں۔ ہم تو یہ سوچ کر آئے تھے کہ ہمیں جلد ہی مار دیا جائے گا، لیکن اللہ تعالیٰ نے مارنے والوں کو مار دیا،اُن سے طاقت چھین لی،اُنھیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ کیا یہ کم کام یابی ہے کہ ہماری وجہ سے مہاجر، سندھی، پنجابی، بلوچ بھائی بھائی بن گئے ہیں۔یہ سب کچھ دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ انشاء اللہ ایک وقت آئے گا، جب ہم اقتدار بھی حاصل کرلیں گے، جسے لوگ کام یابی سمجھتے ہیں۔

س:مُلکی سیاست کس سمت جا رہی ہے؟

ج :سیاست تو ایک مقدّس کام ہے اور اِس کا مقصد محض انسانیت کی خدمت ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی سیاست بہت منافقانہ ہے۔ اِسی لیے ہم نے پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا کہ اگر اچھے لوگ سیاسی میدان میں نہیں اُتریں گے، تو یہ سب یوں ہی نسل در نسل چلتا رہے گا۔پاکستان کی سیاست کا تو اب یہ حال ہوگیا ہے کہ اگر کوئی آپ سے جھوٹ بول رہا ہے، دھوکہ دے رہا ہے، فریب کررہا ہے ،تو آپ کہتے ہیں’’ بھائی! مجھ سے سیاست نہ کرو۔‘‘گویا سیاست کا نام جھوٹ، دھوکہ، فریب ہوگیا ہے اور یہ درست بھی ہے کہ آج مُلک کا جو حشر نشر ہوا ہے، آخر گزشتہ70 برسوں میں کوئی تو یہاں حکم ران رہا ہوگا، جنھوں نے مُلک کو اِس حال تک پہنچایا۔اگر سارے حکم ران مُلک کی ترقّی کے لیے اپنا تھوڑا تھوڑا حصّہ بھی ڈالتے، تو یہ مُلک یوں لُٹا پٹا نہ ہوتا۔سچّی بات تو یہ ہے کہ سیاست دانوں نے سیاست کا نام خراب کردیا۔

س :آپ کے خیال میں مُلک کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟

ج: مُلک میں ڈھائی کروڑ بچّے اسکولز سے باہر ہیں، جن میں سے 70 لاکھ سے زاید بچّوں کا تعلق سندھ سے ہے۔ایک تو اسکولز کی تعداد ناکافی ہے اور جو ہیں، وہ بھی تباہ حال ہیں۔ہمارے زمانے میں پیلے اسکولز کی تعلیم بہت اچھی تھی، مَیں خود سرکاری اسکول سے پڑھا ہوا ہوں، لیکن آج غریب کے بچّے کے لیے کوئی معیاری تعلیمی ادارہ نہیں۔

کراچی کی آبادی دنیا کے ایک سو پچاس ممالک کی آبادی سے بھی زیادہ ہے اور ہم جاہل آبادی ہی کو پروان چڑھا رہے ہیں۔اس سے بڑی تباہی اور کیا ہوسکتی ہے؟ اور افسوس تو یہ کہ کوئی اِس جانب توجّہ بھی نہیں دے رہا، حالاں کہ ہم اپنا نظامِ تعلیم درست کیے بغیر ترقّی نہیں کرسکتے۔

س: پاک سرزمین پارٹی نے مُلکی مسائل کے حل کے لیے عدالتوں میں جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ وہاں تو پہلے ہی لاکھوں مقدمات برسوں سے زیرِ سماعت ہیں؟

ج:ہم نے آئینی پٹیشنز کے ذریعے مُلکی مسائل اعلیٰ عدالتوں کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن ہم ان مسائل کے حل کے لیے بہت زیادہ انتظار بھی نہیں کریں گے۔ ہم سڑکوں پر آئیں گے، کیوں کہ یہ ہماری نسلوں کا مسئلہ ہے،خاص طور پر مردم شماری کے معاملے کو تو کسی صُورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

س: کب تک سڑکوں پر نکلیں گے؟

ج:آئندہ کچھ دنوں میں چیزیں بہت زیادہ واضح ہوجائیں گی۔

س: ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کے الزامات لگتے ہیں،آخر یہ سلسلہ کب تھمے گا؟

ج:بات دراصل یہ ہے کہ جو جماعتیں اِن دنوں انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہیں، وہ خود بھی قصور وار ہیں کہ جب وہ اقتدار میں تھیں اور آج بھی ہیں، تو انتخابی اصلاحات کیوں نہیں کرواتیں؟ دنیا بھر میں ایسا انتخابی نظام بنایا گیا ہے کہ اگر کوئی دھاندلی کرنا بھی چاہے، تو نہیں کرسکتا۔

آج اگر عمران خان ہے، کل زرداری اور نواز شریف تھے، اُنہوں نے انتخابی اصلاحات کیوں نہیں کیں؟ چلیں پرانی باتیں چھوڑیں، ابھی کرلیں۔ وہ ایسا نہیں کریں گے، کیوں کہ ہر کوئی پیچھے کے دروازے سے کسی نہ کسی سیٹنگ میں لگا ہوا ہے۔ انھیں پتا ہے کہ اگر شفّاف الیکشن ہوئے، تو وہ منتخب نہیں ہو پائیں گے۔

س: اگر آپ کو اقتدار مل جائے، تو سب سے پہلے کون سے مسائل حل کریں گے؟

ج:اگر بات صرف کراچی کی کریں، تو یہاں مسائل کے انبار ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی ایک مسئلہ حل کر دیا جائے اور باقی جوں کے توں چھوڑ دیں۔ ایک زمانے میں یہ دنیا کے 12 تیزی سے ترقّی کرنے والے شہروں میں شامل تھا اور آج رہنے کے لیے دنیا کے بدترین شہروں میں کراچی چوتھے نمبر پر ہے۔پانی، سیوریج، انفرا اسٹرکچر، ٹرانسپورٹ، تعلیم، صحت غرض سب کچھ ہی تباہ ہو چُکا ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے ایک ساتھ اور منظّم طور پر کام کرنے کی ضروت ہے۔

س: کیا پی ڈی ایم کی تحریک کام یاب رہے گی؟

ج:پی ڈی ایم کی تحریک تو کوئی تحریک ہی نہیں ہے۔گیارہ جماعتوں میں سے سب کا الگ الگ ایجنڈا ہے، جس کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے ہوتے جائیں گے، وہ پی ڈی ایم کی گاڑی سے اُترتی جائے گی۔ اگر عمران خان مُلکی مسائل کا حل نہیں ، تو پی ڈی ایم بھی حل نہیں ہے۔پی ڈی ایم کی ایک بڑی جماعت، پاکستان پیپلز پارٹی، سندھ میں جلسے کر کے حکومت کو بُرا بھلا کہہ رہی ہے، کوئی اُن سے پوچھے کہ سندھ میں گزشتہ12 سال سے کس کی حکومت ہے؟

اگر کراچی سے کشمور تک کسی نے عوامی مسائل حل نہیں کیے ، تو وہ پیپلز پارٹی ہی ہے۔وہ کیسے کسی اور کو بُرا کہہ سکتی ہے؟یہ پی ڈی ایم کا کُھلا تضاد ہے۔نواز شریف صاحب تین بار مُلک کے وزیرِ اعظم رہے، اُنہوں نے کیا کیا؟صرف لاہور پر توجّہ دی، باقی مُلک کے لیے تو کچھ بھی نہیں کیا۔یہاں تک کہ وہ نچلی سطح تک اختیارات بھی منتقل نہیں کرسکے۔ہم نے تو وزیرِ اعظم بنے بغیر ہی کراچی میں مثالی کام کیے، جو لاہور سے کئی گُنا بڑا شہر ہے۔مَیں سمجھتا ہوں کہ پی ڈی ایم کے پاس حکومت کو ہٹانے کے علاوہ کوئی نظریہ نہیں۔اگر وہ اپنے دباؤ سے انتخابی اصلاحات ہی کروالیں، تو یہ مُلک کی بڑی خدمت ہوگی، مگر وہ اِس موضوع پر بات ہی نہیں کرتے۔

س: حکومت تو انتخابی اصلاحات کی بات کررہی ہے، کیا وہ سنجیدہ بھی ہے؟

ج:حکومت بھی نہیں چاہ رہی کہ انتخابی اصلاحات ہوں۔ اگر حکومت اصلاحات لانا چاہتی ہے، تو لائے، اُسے کس نے روک رکھا ہے، صرف باتیں نہ کرے۔

س: آپ حکومت کی کارکردگی سے کس قدر مطمئن ہیں اور کیا حکومت کو اپنی آئینی مدّت پوری کرنی چاہیے؟

ج:ایک بات تو حقیقت ہے کہ موجودہ نظام تباہ ہوچُکا ہے اور مُلک اِس نظام کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ ہمیں اسے بدلنا ہوگا، اِس سے پہلے کہ لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے۔عمران خان کہتے ہیں کہ’’ مَیں برطانیہ کے وزیرِ اعظم سے بات کرکے نواز شریف کو مُلک واپس لاؤں گا۔‘‘ اگر برطانیہ کا وزیرِ اعظم آپ کا دوست ہے، تو اُن سے کشمیر کا مسئلہ حل کروائیں، پاکستان میں صنعتیں لگوائیں۔

ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان رسّہ کشی میں ادارے تباہ ہو رہے ہیں۔ مُلک کو ایسے آگے نہیں چلایا جا سکتا، گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ ذاتی اَنا اور غصّے میں کیے گئے فیصلوں کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔مَیں سمجھتا ہوں کہ حکومت اپنی اَنا بالائے طاق رکھ کر مُلکی مفاد میں اپوزیشن سے بات کرے اور سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے قومی مذاکرات کی راہ ہم وار کرے، جس میں تمام اداروں کے لیے مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جائے۔ جہاں تک مدّت کی بات ہے، تو حکومت کو اپنی مدّت ضرور پوری کرنی چاہیے، لیکن ایسے نہیں، جیسی حکم رانی وہ کررہے ہیں۔اِس طرح تو پانچ دن بھی اقتدار میں نہیں رہنا چاہیے۔

س: وفاقی حکومت نے مردم شماری کی حتمی منظوری دے دی ، آپ اسے مُلک دشمنی سے کیوں تعبیر کرتے ہیں؟

ج: کراچی سے سندھ کو 99فی صد اور پاکستان 68فی صد ریونیو حاصل کرتا ہے۔ یہ شہر، مُلک کی معاشی شہ رگ ہے، لیکن یہ آج پاکستان دشمنوں کے نشانے پر ہے۔ ہاں، مَیں اُنھیں پاکستان دشمن کہتا ہوں، جو یہاں کی آبادی کو ٹھیک سے نہیں گِن رہے۔مَیں سندھی بھائیوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ کراچی کا مسئلہ تمھارا مسئلہ ہے،کیوں کہ یہ سندھ کا دارالحکومت ہے۔

اگر حکومت کی یہ بات مان لی جائے کہ اِس شہر کی آبادی، 1 کروڑ 40 لاکھ ہے، تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ یہاں پانی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہاں کا نکاسیٔ آب کا نظام بھی آبادی کے لحاظ سے مناسب ہے،یہاں کے اسپتالوں میں ادویہ ضرورت کے مطابق دی جا رہی ہیں، اسکولز کی تعداد بھی کافی ہے۔

ایک مثال سے بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اگر کراچی کی آبادی پونے تین کروڑ تسلیم کرلی جائے، جو اصل آبادی ہے، تو اِس تناسب سے 1240 ملین گیلن پانی کی ضروت ہے اور اب6 سو ملین گیلن پانی مل رہا ہے،یوں ساڑھے 6سو ملین گیلن پانی کا شارٹ فال ہے۔ اگر وفاقی حکومت کی مردم شماری کو درست مان لیا جائے، جسے اُنہوں نے حتمی شکل دی ہے، تو پھر کراچی میں پانی کی ضرورت 800 ملین گیلن رہ جاتی ہے۔کراچی کو ایک کروڑ 40 لاکھ کی آبادی کے حساب سے 8سو ملین گیلن پانی درکار ہے،6سو ملین گیلن مل رہا ہے، صرف 2سو ملین گیلن اضافی پانی دے کر کہیں گے کہ’’ کراچی کو اُس کے حصّے کا پانی دے دیا گیا۔‘‘جب کہ پانی ضرروت سے ساڑھے 4سو ملین گیلن کم ہوگا۔

کراچی والوں کو نوکریوں میں کوٹا نہیں ملے گا، ادویہ کا بجٹ بھی پورا نہیں ملے گا، پی ایف سی ایوارڈ میں آبادی کو مدّ ِنظر رکھا جاتا ہے، تو اُس میں بھی شہر کا حصّہ آدھا ہوجائے گا۔ جاگیردارانہ، وڈیرانہ اور سردارانہ نظام زیادہ تر پاکستان کے دیہی علاقوں میں ہے، یہ لوگ وہاں کے مالک بنے بیٹھے ہیں، پولیس وہ کنٹرول کرتے ہیں، زرعی پانی اُن کی مرضی سے دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ یہ موقع حاصل ہوا تھا کہ ان جاگیرداروں کے چنگل سے نکل کر شہروں میں آباد ہونے والوں کو اگر صحیح گِن لیا جائے اور پھر اُنھیں اسی حساب سے قومی، صوبائی اسمبلیوں میں نشستیں دے دی جائیں، تو جاگیر داروں کا قبضہ ختم ہوجاتا۔

کراچی میں 1998 ء کی مردم شماری کے حساب سے قومی اسمبلی کی 21 نشستیں ہیں،جس میں یہاں کی آبادی 98 لاکھ گِنی گئی تھی، جب کہ آج آبادی تین کروڑ تک پہنچ چُکی ہے، تو اِس حساب سے قومی اسمبلی کی 50 نشستیں بنتی ہیں، جب کہ سندھ کی کُل آبادی کا 55 فی صد کراچی میں ہے، تو صوبائی اسمبلی کی 55 فی صد نشستیں یہاں کی ہونی چاہئیں، یعنی صوبائی اسمبلی کی 90 سے 95 نشستیں کراچی کا حق ہے اور ہم یہ حق دلا کر رہیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

پھر جسے سندھ پر حکم رانی کا شوق ہوگا، اُسے کراچی کو بھی اہمیت دینی پڑے گی۔جو کراچی کے لوگوں کا دِل جیتے گا، وہی سندھ میں حکومت بنائے گا۔ایوانوں میں براجمان وڈیرے، جاگیر دار اِن اعداد وشمار سے خوف زدہ ہیں، اِسی لیے اُنھیں متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، جو ہم نہیں ہونے دیں گے۔ یہ ہماری آئندہ نسل کو بھی پیپلزپارٹی کے ہاتھوں گروی رکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے بڑے ان کی خدمت کرتے ہوئے مرگئے، اب ہم اپنے بچّوں کو ان کے بچّوں کو حکم راں بنانے کے لیے تیار کریں، یہ نہیں ہوسکتا۔بس بہت ہوگیا، اب یہ ڈراما بند ہونا چاہیے۔

س: آپ کوٹا سسٹم کو مختلف اقوام کے درمیان نہ نظر آنے والی نفرت کی دیوار کیوں کہتے ہیں؟

ج: ذوالفقار علی بھٹّو نے کوٹا سسٹم نافذ کر کے پاکستان اور بالخصوص سندھ میں آباد مختلف قوموں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کردی۔ کوٹا سسٹم کا سب سے زیادہ نقصان سندھیوں کو ہوا، کیوں کہ اُن کے کوٹے پر ایم این اے،ایم پی ایز، وڈیروں اور سیاست دانوں کی اولادیں آتی ہیں۔

سندھ تباہ حال ہے، تھر میں روز بچّے مر رہے ہیں، آوارہ کتّے بچّوں کو بھنبھوڑ رہے ہیں، اسپتالوں میں ویکسین نہیں، مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جب یہ مظلوم لوگ شہروں کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں، تو یہی وڈیرے درست مردم شُماری نہیں ہونے دیتے تاکہ وہ حکومت کرتے رہیں۔

س: عدالت نے سندھ حکومت کو کراچی کی اصلی حالت میں بحالی کا حکم دیا ہے، کیا ایسا ہوسکے گا؟

ج: عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد ہونا چاہیے، مگر یہ کیسے ہوگا؟ جج صاحب اور جنہیں حکم دیا گیا ہے، وہی طے کرسکتے ہیں۔

س: آپ اور انیس قائم خانی نے اپنی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا، تو سیاست دان تیزی سے اُس میں شامل ہوئے، پھر کئی ایک چھوڑ کر بھی چلے گئے۔ اس کا کیا سبب ہے؟

ج: پی ایس پی صحیح معنوں میں الیکشن ہارنے کے بعد بنی ہے۔ شکست کے بعد بہت ساری چیزوں کا اندازہ ہوا۔اب بھی روزانہ سیکڑوں افراد ہماری پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں، بات صرف یہ ہے کہ وہ سیاست دان نہیں، بلکہ عام لوگ ہیں،اِس لیے لوگ انہیں نہیں جانتے۔ خبر صرف اُسی وقت بنتی تھی، جب ایم کیو ایم کا کوئی رہنما ہماری پارٹی میں شامل ہوتا، اب ایم کیوایم بچی ہی نہیں اور جو ہے، اُنہیں کون لے گا۔

عذاب تو کوئی اپنے سَر نہیں لیتا۔ جسے پی ایس پی کا نظریہ سمجھ میں نہیں آیا، اُسے کُھلی آزادی ہے کہ وہ جہاں جانا چاہیے، جاسکتا ہے۔ ہم نے اس معاملے پر زیادہ توجّہ نہیں دی۔ کراچی میں جہاں پر پی ڈی ایم کی 11 جماعتوں نے مل کر جلسہ کیا، اُسی مقام پر 8 نومبرکو ہم نے سرکاری وسائل کے بغیر اُن سے بڑا جلسہ کیا۔

س: آپ انتخابی مہم کے لیے گلگت بلتستان کیوں نہیں گئے؟

ج:انیس قائم خانی بھائی کو وہاں بھیجا تھا، پانچ دیگر رہنما بھی اُن کے ساتھ تھے۔ مجھے بھی جانا چاہیے تھا، مگر اُنہی دنوں پی ڈی ایم نے کراچی میں جلسہ کیا اور شہر کے مسائل پر کوئی بات نہیں کی، تو اُس کے اگلے دن ہم نے جلسے کا اعلان کردیا۔مَیں اُسی میں مصروف رہا۔ اگر یہ جلسہ نہ ہوتا، تو گلگت بلتستان ضرور جاتا۔ ہمارے پانچ امیدواروں نے وہاں کے انتخابات میں حصّہ لیا تھا۔

س: آپ کہتے ہیں کہ’’ پاک سرزمین پارٹی‘‘ ایک قومی پارٹی ہے، لیکن آپ کی سیاست تو صرف کراچی کے گرد گھومتی ہے؟

ج: یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ کراچی صرف ایک شہر ہے۔یہ پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے اور حقیقتاً کراچی ہی پاکستان ہے۔ اگر کراچی ٹھیک ہوگیا، تو پاکستان ٹھیک ہوجائے گا، اسے ٹھیک کیے بغیر مُلک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ کراچی میں صرف مہاجر نہیں رہتے، یہاں پر لاکھوں پختون، سندھی، بلوچ، پنجابی، ہزارے وال، سرائیکی، کشمیری اور بنگالی وغیرہ بھی رہتے ہیں۔گویا ہر زبان بولنے والے یہاں مقیم ہیں۔جب مَیں کراچی کہتا ہوں، تو اس سے مُراد صرف مہاجر نہیں،ہر زبان بولنے والا ہے۔ کراچی کے ساتھ زیادتی، ہر زبان بولنے والے ساتھ زیادتی ہے۔

س: اگر آپ اپنی جماعت نہ بناتے، تو کس جماعت میں جانا پسند کرتے؟

ج:اگر مَیں پارٹی نہ بناتا، تو کسی بھی جماعت کا حصّہ نہ بنتا۔اگر مجھے کسی اور جماعت میں جانا ہی ہوتا، تو ایم کیو ایم کیوں چھوڑتا۔

س: اگر سیاست دان نہ ہوتے، تو کیا ہوتے؟

ج: سیاست دان نہ ہوتا، تب بھی کوئی نہ کوئی عوامی بھلائی ہی کا کام کر رہا ہوتا۔مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونا ہمارے خون، ڈی این اے میں شامل ہے۔

س: آپ کے خیال میں کراچی کی تباہی کا ذمّے دار کون ہے؟

ج: زبان کی بنیاد پر بنائی گئی سیاسی دُکانوں نے شہر کا کلچر تباہ کر دیا۔پاک سرزمین پارٹی تمام قومیتوں کو جوڑنے کا نظریہ رکھتی ہے۔گو کہ پیپلز پارٹی کی تعصّب زدہ سیاست کی وجہ سے لسانی سیاست کرنا آسان ہے، مگر یہ انتہائی مہلک بھی ہے، اِس لیے ہم کسی صُورت لسانی سیاست نہیں کریں گے۔

س: اپنے خاندان کے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے؟

ج:میرے تین بچّے ہیں۔ اہلیہ ایک گھریلو خاتون ہیں اور مَیں اپنے خاندان کا پہلا شخص ہوں، جس نے سیاسی میدان میں قدم رکھا۔