ملازم بخش (ایک حقیقت، ایک فسانہ)

February 28, 2021

محمد عارف قریشی، بھکر

وہ پہلی جماعت سے نہ صرف میرا کلاس فیلو تھا، بلکہ ہمارے گھر کی دیواریں بھی ملی ہوئی تھیں۔ اس کے والد خاصے متمّول،صاحبِ ثروت تھے اور انہیں اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا بہت شوق تھا، چناں چہ انہوں نے گھر پر بھی اس کے لیے ایک ٹیوٹر کا انتظام کر رکھا تھا۔ اسکول کے بعد ایک گھنٹہ ٹیوشن اور تھوڑی دیر کے لیے کھیل کود کے سواا س کی اور کوئی مصروفیت نہ تھی۔ تعلیمی میدان میں وہ اپنے تمام ساتھیوں سے آگے تھا، اسی لیے ہر ٹیچر اسے کلاس کا مانیٹر بنا دیتے ۔ وہ اکثر کہا کرتا کہ ’’مَیں سی ایس ایس کرکےافسر بنوں گا ‘‘اور اپنے شان دار تعلیمی ریکارڈ، ذہانت اور قابلیت کے باعث وہ اس کا مستحق بھی تھا۔ لیکن ہائی اسکول میں آکر اسے نہ جانے کہاں سے فلمی رسالے پڑھنے کی لت لگ گئی، خصوصاً وہ رسائل جن میں قلمی دوستی کا کالم ہوتا ۔

اس نے ان کالموں میں کئی مرتبہ اپنا نام، پتا بھی چھپوایا ۔ اس سلسلے میں جو خطوط آتے، ان کا جواب بھی بڑی باقاعدگی سے دیتا۔ مگر اس کے لیے وہ اپنا اصلی نام استعمال نہیں کرتا تھا۔ لیکن اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ خط و کتابت کسی سے پوشیدہ رکھنا چاہتا تھا، بلکہ اسے اپنے نام ’’ملازم بخش‘‘ سے چِڑ تھی۔ مَیں نے ایک مرتبہ اس سے اس چِڑ کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا ’’یہ بھی کوئی نام ہے اور پھر لوگ پورا نام تو پکارتے نہیں،بس ملازم، ملازم ہی کہتےرہتےہیں۔

یوں لگتا ہےکہ جیسے مَیں ہر شخص کا ملازم ہوں‘‘۔ اور پھر اس نام سے اس کی نفرت اتنی بڑھی کہ آخر کار اس نے اپنا نام تبدیل کر کے ملازم بخش سے محمّد اکرم کرلیا۔ اس نے فرداً فرداً ساری کلاس سے کہا کہ ’’آئندہ کوئی بھی مجھے ’’ملازم‘‘ کہہ کر نہ بلائے، ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔‘‘ اس کی تنبیہہ کے باوجود ہم کبھی کبھار اسے چھیڑنے کی غرض سے ملازم کہہ کر پکارتے توہ وہ مرنے مارنے پرتُل جاتا۔

فلمی رسالوں کے مستقل مطالعے کی عادت نے رفتہ رفتہ اسے فلموں کا شوقین بنا دیا۔یہاں تک کہ اُس دَور کی ایک معروف فلمی اداکارہ کو اپنا تصوّراتی محبوب بنا لیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، اُن دنوں ہمارے میٹرک کے امتحان ہونے والے تھے کہ ایک صبح ہیڈ ماسٹر صاحب کا چپڑاسی اسے بلانے آیا۔ وہ فوراً ساتھ ہو لیا، تھوڑی دیر بعد جب واپس آیا تو اس کا چہرہ اترا ہوا اور آنکھوں میں خوف کے گہرے سائے تھے۔ مَیں نے پہلے آنکھوں آنکھوں میں اور پھر دَبی زبان میں اس سے پوچھا ’’کیا ہوا…؟‘‘ لیکن وہ اتنا گھبرایا ہوا تھا کہ اس کے منہ سے ایک لفظ بھی ادا نہ ہو سکا۔

بریک تک کا وقت ہم نے جیسے تیسے گزارا۔کلاس کے دوران بھی وہ کھویا کھویا اور بے کل ہی سا رہا۔پھربریک کی گھنٹی بجی تو ہم حسبِ معمول اسکول کے پاس سے گزرنے والی ریلوے لائن پر جا بیٹھے اور مَیں نے ایک بار پھر اُ سے کریدنے کی کوشش کی کہ آخر ماجرا کیا ہے، جس کے جواب میں خلافِ توقع وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ مَیں نے بڑی مشکل سے اُسے چُپ کروایا اور پوچھا ’’یار! بتائو تو سہی، آخر بات کیا ہے۔‘‘ ’’یار! مَیں نے گزشتہ دنوںجس اداکارہ کو خط لکھا تھا ناں، اس نے وہ خط ہیڈ ماسٹر صاحب کو بھیج دیا‘‘ اس نے سِسکیاں لیتے ہوئےبتایا۔

جس پر مجھے یاد آیا کہ پچھلے دنوں اس نے اپنی پسندیدہ اداکارہ کو ایک خط لکھا تھا، جو اس نےمجھے بھی دکھایا تھا۔ فلمی اداکارہ کے نام اس کے ایک پرستار کا روایتی سا خط تھا کہ ’’آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں۔ مَیں آپ کی ہر فلم ضرور دیکھتا ہوں، اگر آپ اپنے قیمتی وقت میں سے تھوڑا سا وقت نکال کر میرے خط کا جواب دے دیں، تو مجھے بے حد خوشی ہو گی‘‘۔ خط کے آخر میں اس نے اسکول کا پتا لکھ دیا تھا، مذکورہ اداکارہ نے وہ خط بغیر پڑھے ہی ہیڈ ماسٹر صاحب کو بھیج دیا اور ساتھ ہی لکھا کہ ’’آپ کے اسکول کے ایک شاگردنے مجھے یہ خط لکھا ہے۔ اس عمر میں فلمی اداکاروں سے یہ اندازِ محبت اس کے تعلیمی مستقبل پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ براہِ مہربانی اس کی سرزنش کر یں تاکہ وہ آئندہ کے لیے محتاط ہو جائے۔‘‘’’تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟

ہیڈ ماسٹر صاحب دو چار ڈنڈے لگا دیں گے اور بس…‘‘ مَیں نے اسے تسلّی دیتےہوئے کہا۔ ’’نہیں یار! انہوں نے کہا ہے کہ صبح اپنے والد کو ساتھ لےکر آنا‘‘۔ اس نےڈرے سہمے لہجے میں بتایا۔یہ بات سُن کر تو مَیں بھی پریشان ہو گیاکہ مجھے معلوم تھا کہ اس کے والد عام حالات میں اس پر جتنے مہربان رہتےتھے،کسی غلطی یا گستاخی کی صُورت میںان کا رویّہ اُتنا ہی سخت ہو جاتا ۔

چناں چہ اس کا یہ خوف بجا تھا کہ اگر یہ بات ان تک پہنچ گئی تو وہ اسے زندہ دفن کردیں گے۔ سو،مَیں نے ڈرتے ڈرتے اس سے پوچھا ’’پھر اب تم کیا کرو گے؟‘‘ اس نے بائیں طرف دیکھا،سامنے اسٹیشن پر ریل گاڑی روانگی کے لیے تیار کھڑی تھی۔ وہ کہنے لگا ’’مَیں اس گاڑی کے نیچے لیٹ جانا چاہتا ہوں۔‘‘اس کی بات سُن کر مَیں لرز کے رہ گیا۔

اس وقت اس کی جو کیفیت تھی، اس میں اس کا یہ عمل بعید از امکان نہ تھا۔ مَیں نے فوراً اسے بازو سے پکڑا اور تقریباً گھسیٹتے ہوئے ریلوے لائن سے پرے لے گیا۔ وہ بار بار کہہ رہا تھا’’ مجھے چھوڑ دو، مجھے مر جانے دو، مَیں گھر نہیں جائوں گا۔ مَیں ابّا کا سامنا نہیں کر سکتا‘‘۔ لیکن میں زبردستی اسے اسکول واپس لے آیا۔ چھٹّی تک کا وقت اس نے اسی افسردگی میں گزارا۔ گھر جاتے ہوئے مجھ سےکوئی بات کی اور نہ بچھڑتے وقت سلام دُعا، بس چُپ چاپ چلتا رہا اور خاموشی سے گھر میں داخل ہو گیا۔

اگلی صبح مَیں اسے بلانے گیا تو معلوم ہوا کہ وہ اسکول جا چُکا ہے۔ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ وہ میرے بغیر چلاگیا تھا۔ مَیں نے سوچا، چلو اسکول جا کر اس سے پوچھوںگا کہ ایسا کیوں کیا۔ لیکن وہ تواسکول پہنچا ہی نہیں تھا ، میرا دھیان فوراً اسی طرف گیا کہ کہیں وہ گھر سے فرار ہی نہ ہو گیا ہواورپھر تھوڑی دیر بعد میرے اس اندیشے کی تصدیق ہو گئی جب اس کے والد اسے ملنے اسکول آپہنچے،کیوں کہ وہ گھر سے کچھ پیسے بھی چراکر لےگیا تھا۔ جب انہیں بتایا گیا کہ وہ تو اسکول نہیں آیا تو انہوں نے کہا کہ ’’اس کا مطلب ہے ، وہ گھر سے بھاگ گیا ہے ،مگر کیوں؟‘‘مَیں نے دَبے الفاظ میں ان سے گزشتہ روز کے واقعے کا ذکر کیا، جس کی تفصیل معلوم کرنے کے لیےوہ فوراً ہیڈ ماسٹر صاحب کے پاس چلےگئے۔

ہیڈ ماسٹر صاحب نے انہیں ساری بات بتائی اور ساتھ ہی اداکارہ کی طرف سے اپنے نام آیا ہوا خط بھی ان کے سامنےرکھ دیا۔ جسے دیکھ کروہ ششدر رہ گئے۔غالباً انہیں اپنے ہونہار بیٹے سے اس بات کی توقع نہ تھی۔اب تو سب کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ وہ کہیں فرار ہو گیا ہے، چناں چہ اس کی تلاش شروع کر دی گئی۔ تھانے میں رپورٹ درج کروائی گئی۔ دور، نزدیک کے تمام رشتے داروں اور دوستوں کو خطوط لکھے گئے،فون کیے گئے، لیکن خدا معلوم اُسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا کہ اس کا کہیں کچھ پتا نہ چلا۔

ان حالات میں میرا گمان غالب تھا کہ اس نے کہیں جا کر خود کشی کر لی ہو گی۔ہمارے امتحانات ہو گئے، رزلٹ آگیااور مَیں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے آبائی شہر سے دُور چلا گیا۔ پھر تکمیلِ تعلیم کے بعد مَیں نے ایک نجی کمپنی میں ملازمت کر لی اور زندگی کے بکھیڑوں میں ایسا الجھا کہ ماضی کی تمام یادیں بھولا بسرا خواب بن کر رہ گئیں۔ ملازمت کے سلسلے میں مجھےاکثر و بیش تر دوسرے شہروں کے دَوروں پر جانا پڑتا تھا۔

ایسے ہی ایک دَورے پر کام سے فارغ ہو کر شہر میں مقیم اپنے ایک دوست سے ملنے گیا، وقت کم تھا اس لیے تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد میں نےاجازت چاہی اور اپنے بریف کیس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ میرے میزبان نے کہا ’’رہنے دو ، میرا ملازم تمہیں اسٹاپ تک چھوڑ آئے گا۔‘‘ ا سی کے ساتھ اس نے کسی کا نام لے کر آواز دی، اسی لمحے میری نظر سامنےوالے دروازے پر پڑی۔ میرے بچپن کا دوست ’’ملازم بخش‘‘ اپنےمالک کے حکم پر میرا بریف کیس اُٹھانےکے لیے تیار کھڑا تھا۔