سکُھ کی تلاش

February 24, 2021

جب آپ کوئی نیا کام سیکھتے ہیں، مثلاً ٹائپنگ تو شروع شروع میں یہ کتنی مشکل لگتی ہے۔ چند ماہ بعد آپ اس کام کے ماہر ہو جاتے ہیں۔ دماغ میں سیکھنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھی گئی ہے۔ بچّہ اپنے دماغ میں مکمل خلیات (Neurons)لے کر پیدا ہوتاہے۔ پچاس برس بعد بھی جب وہ کوئی بات سیکھتاہے تواس وقت ان نیورانز میں نئے کنکشن ہی بنتے ہیں اور کچھ نہیں۔

بچّہ جب انجکشن دیکھتا ہے تو ہنگامہ کھڑا کر دیتاہے۔ والدین کو معلوم ہوتاہے کہ اس انجیکشن سے وہ بیماریوں سے امیون ہو جائے گا، محبت کرنے والے ماں باپ اپنے بچّے کی چیخ و پکار نظر انداز کردیتے ہیں۔جس نے ہمیں پیدا کیا، اسے بخوبی معلوم ہے کہ تکلیف بڑھا کر کیسے ہمیں زندگی کی سختیوں سے نمٹنے کے قابل بناتی ہے۔ بیماری، غربت یا کسی بھی آزمائش کو دیکھ کر ہم بلبلاتے ہیں تو یہ اسی طرح ہے، جیسے بچّہ انجکشن کو دیکھ کر شور مچاتاہے۔ ماں باپ کو معلوم ہوتاہے کہ بچّہ یہ تکلیف برداشت کرنے کے قابل ہے اور کچھ دیر بعد اسے بھول بھی جائے گا۔

جو بھی پیدا ہوا، اسے آزمائش اورتکلیف سے گزرناہوتاہےجس قسم کا نازک جسم ہمیں ملاہے، بہت ساری تکالیف اس کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہ تھک جاتاہے۔ اسے بھوک لگتی ہے۔یہ خواہشات کی آماجگاہ ہے۔ اس میں بیماری پیدا ہوتی ہے۔ کوئی جسمانی تکلیف نہ بھی ہو تو دماغ کے درمیان والے حصے میں جو جذبات موجود ہیں، وہی تکلیف دینے کے لیے کافی ہیں۔ والدین اور بیوی بچوں سے جب ہماری توقعات پوری نہیں ہوتیں تو دماغ میں مختلف کیمیکلز خارج ہوتے ہیں اور رنج کاباعث بنتے ہیں۔ یہ سب کچھ خالصتاً سائنسی بنیادوں پر ہوتاہے۔آپ اندازہ اس سے لگائیں کہ احساسات اور جذبات کا یہ بہائو محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً برقی رو کی صورت میں جسم میں سفر کرتاہے۔ اگر کبھی انسان زیادہ جذباتی ہوجائے تو ایک لہر اٹھتی ہے، جو کہ ریڑھ کی ہڈی اور دماغ سے گزرتی ہے۔

اگر تو آپ جذبات سے نکل کر غور کریں تو معلوم ہوتاہے کہ یہ دنیا اتفاقاہرگز وجود میں نہیں آئی۔ تعصبات سے اوپر اٹھ کر ہم جب گہرائی سے غور کرتے ہیں تو خدا کا وجود جھٹلانا ناممکن ہوجاتاہے۔ نتیجہ یہ اخذ ہوتاہے کہ ایک منصوبے کے تحت ہمیں تکلیف سے گزارا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کوئی نہیں کہ ہمیں آزمایا جا رہاہے۔

دنیا کی یہ زندگی جو ہمیں بڑی طویل محسوس ہوتی ہے، اس کی عمر چند لمحات سے زیادہ نہیں۔ کرّ ئہ ارض کی تاریخ میں پانچ ارب قسم کی مخلوقات (سپیشیز )اس پر آباد رہی ہیں۔ زندگی کی پیدائش اگر ایک اتفاق ہوتی تو انسان دوسرے جانوروں جیسا ایک جانور ہی رہتا۔یہ بات تو ماہرینِ حیاتیات ہی جانتے ہیں کہ حیاتیاتی طور پر انسان دوسرے جانوروں جیسا ایک جانور ہی ہے، جس میں دل ، گردے، پھیپھڑے ، نروز ، جلد اور ہڈیاں ہو بہو دوسرے جانوروں جیسی ہی ہیں ۔

زندگی اگر اپنے آپ وجود میں آئی ہوتی تو پانچ ارب مخلوقات میں سے فقط ایک انسان ہی ذہین نہ ہوتا۔انسانی عقل سے بڑی خدا کی نشانی شاید اور کوئی نہیں۔ آدمی کانپ کے رہ جاتاہے۔ پانچ ارب قسم کی مخلوقات خوراک اور افزائشِ نسل تک محدود رہیں اور ہم سورج کے مرکز میں عناصر کی تشکیل دیکھنے لگے۔کتنی عجیب بات ہے کہ انسان جو کہ خود عناصر کے ایٹموں (ہائیڈروجن، نائٹروجن، کاربن، آکسیجن، کیلشیم، فاسفورس) کا ایک مجموعہ ہے، خو دہی ان ایٹموں کی تخلیق کا جائزہ لے رہا ہے۔

اس دنیا میں جو بھی پیدا ہوا، اسے آزمائش سے گزرنا ہوگا۔ فرض کیجیے کہ اگر آپ پر زندگی بھر کوئی تکلیف نہیں آئی تو بھی زندگی کے آخری مہ و سال میں آپ کو بڑھاپے سے گزرنا ہوگا۔ یہاں پہنچ کر کھرب پتی اور کنگلے ایک برابر ہو جاتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم سب برابر ہیں۔ آج آپ مڑ کر دیکھیں تومحسوس ہوگا کہ زندگی کے تیس چالیس سال ایک لمحے میں گزر گئے۔ ایک دن آئے گا، جب ہم اگلے جہاں میں اپنی اس پوری زندگی کو اسی انداز میں دیکھیں گے۔ تب ہم دو دنیائوں کے پسِ منظر میں سوچ سکیں گے۔

انسان کی چالیس پچاس ہزار سال کی زندگی ایک لمحے سے بھی کم ہے۔ کائنات کی عمر 9ارب سال تھی، جب ہمارا سورج اور ہماری زمین پیدا ہوئی۔ اس زمین کی زندگی میں بھی ساڑھے چار ارب سال بعد کہیں جا کر انسان پیدا ہوتاہے۔ کروڑوں برس ڈائنا سار اس کرّے پر دندناتے رہے۔ 99فیصد مخلوقات جو اس زمین پر پیدا ہوئیں، وہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکیں۔ جو منصوبہ ساز ہے، آغاز بھی اس کے سامنے ہے اور اختتام بھی۔ یہ دنیا بھی اس کے سامنے ہے اور وہ دنیا بھی۔ ہماری استطاعت بھی اس کے سامنے ہے اور ہماری آزمائشیں بھی۔

اُس کے پاس مکمل معلومات ہیں اور وہ مکمل تجزیہ کر سکتاہے۔ہم نے کس گھر میں پیدا ہونا ہے اور کس جگہ رہنا ہے، یہ طے شدہ ہے؛حتیٰ کہ ہم نے گزرنا کس رستے سے ہے، کہاں ٹھہرنا ہے ،یہ بھی۔ ہر چیز تو طے شدہ ہے۔ہماری ذہنی صلاحیت کیا ہوگی؟ کیا ہم ذہین فطین ہوں گے یا گائودی؟ ہماری اپنی اولاد کیسی ہوگی؟ ہمارے بس میں کچھ بھی نہیں۔ انسان کے پلّے اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں رہ جاتا کہ زندگی میں جب بھی ہمیں دو میں سے ایک چننا ہوتو ہم بہتر کا انتخاب کریں۔ ہم غو ر و فکر سے کام لیں تو اس ساری صورتِ حال کو سمجھ کر اس سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔ جو جان لے گا، جو اس عظیم منصوبہ ساز سے تعلق استوار کر لے گا، وہی سُکھی رہے گا۔اِس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی۔