سیاسی تلخیاں کم کریں

February 24, 2021

سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد باقی ماندہ ملک میں سیاسی کشیدگی اپنے عروج پر تھی جب ذوالفقار علی بھٹو نے 31؍دسمبر 1971کو ملک کے پہلے صدر اور سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور پر حلف اٹھایا کیونکہ ملک بے آئین تھا۔ مغربی پاکستان کی حزبِ اختلاف کی قیادت نالاں تھی اور تلخیاں اپنے عروج پر تھیں۔

ایسے ماحول میں بھٹو نے گفتگو کا آغاز اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف سے کیا اور چند ماہ میں ہی ملک کو ایک عبوری آئین دے دیا۔ صرف اس ایک اقدام سے ماحول بہتر ہوا اور ایک سال کے قلیل عرصے میں وہ ہوا جو قیام پاکستان کے بعد سے نہیں ہوا تھا یعنی ایک متفقہ آئین۔ سیاسی لڑائیاں اپنی جگہ پھر بھی چلتی رہیں مگر آج 73سال بعد بہت بگاڑ کے باوجود آنے والے بڑے آمروں میں بھی یہ جرأت نہیں ہوئی کہ وہ کوئی نیا آئین لے آتے۔

بھٹو اپنی زندگی اور موت کے بعد بھی پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنمارہے ان کے حامی بھی بہت تھے اور مخالف بھی مگر جس چیز نے انہیں دوسروں سے ممتاز کیا وہ تھی ان کی جرأت اور پھانسی گھاٹ پر بھی NROسے انکار۔ مگر ان کا طرزِ حکمرانی بہت متنازع رہا۔

اس کے باوجود تمام اہم مواقع پر انہوں نے حزبِ اختلاف کو اعتماد میں لیا چاہے وہ دورہ بھارت ہو یا اسلامی سربراہ کانفرنس۔ ایٹمی پروگرام کا آغاز اور اپنے ہی خلاف چلنے والی تحریک کے دوران 1977میں حزبِ اختلاف کے اتحاد پاکستان قومی اتحاد سے کامیاب مذاکرات۔ بدقسمتی سے اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے اس کے باوجود 5؍جولائی کو مارشل لا لگا دیا۔

بھٹو کی پھانسی کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر کیلئے آسان نہ تھا کہ ان لوگوں کے ساتھ سیاسی اتحاد کرتیں جو بھٹو کو دی جانے والی سزا کے حامی تھے۔ اسی لئے پہلی میٹنگ 70کلفٹن میں نہیں، کراچی پریس کلب میں ہوئی۔ تلخ یادوں کو بھلا کر آگے بڑھنے کی بات ہوئی اور 1981میں تحریک بحالی جمہوریت، ایم آر ڈی وجود میں آئی۔

1985میں غیرجماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے۔ ایم آرڈی نے شرکت نہ کرکے غلطی کی اور ایک گمنام سیاست دان محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے جنہوں نے اپنے مختصر دور اقتدار میں وہ کام کیا جس سے مخالفین اور جنرل ضیا بھی حیران رہ گئے۔ انہوں نے شہری آزادیاں بحال کیں، پریس کو آزاد کیا ،جس سے جنرل ضیا خوش نہیں تھے مگر سیاسی کشیدگی بہت کم ہوئی۔ بے نظیر بھٹو نے واپسی کا اعلان کیا۔

جونیجو کمزور سہی لیکن جرأت مند فیصلے کرنے والے حکمران ثابت ہوئے جس کی قیمت انہیں چکانا پڑی۔ جب انہیں بدنامِ زمانہ 58-2Bکا سہارا لے کر اقتدار سے ہٹایا گیاتو کسی نے ان سے سوال کیا کہ آپ اب کیا کریں گے؟ جواب دیا، ’’گھر میں آرام۔

شاید اسی میں ملک کی بہتری ہو‘‘۔1988 سے 2002 تک بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کے بدترین مخالف رہے جس کا فائدہ ایک طرف غیرسیاسی قوتوں نے اٹھایا تو دوسری طرف گورننس کے معاملات سنگین ہوگئے۔ نتیجے میں حکومتیں 18سے 23ماہ میں فارغ کردی جاتیں۔ آخر وہی ہوا جس کا خدشہ رہتا تھا۔ 12؍اکتوبر 1999کو نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ اور پھر ایک طویل فوجی حکمرانی کا دور۔

آخر دونوں سیاست دانوں کو چوٹ لگنے کے بعد ہوش آیا اور غلطیاں تسلیم کرکے ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کیا۔ بعد میں بھی بی بی سے NROکی بڑی غلطی ہوئی مگر پھر بھی دونوں ملک واپس آئے مگر یہ اتحاد کچھ لوگوں کو پسند نہ آیا اور 27؍دسمبر 2007کو بے نظیر الیکشن سے کچھ عرصہ قبل شہید ہوگئیں۔عمران خان اس سارے عرصہ میں توجہ کا مرکز بنتے چلے گئے۔

ان کو سب سے زیادہ سیاسی فائدہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان فرینڈلی اپوزیشن سے ہوا اور جلد ہی وہ واحد حزب اختلاف کے رہنما کے طور پر ابھرے۔ انہوںنے اپنے ’’کرپشن مخالف‘‘بیانیےسے پاکستان کی مڈل کلاس کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ 2011 سے 2013 تک عمران کراچی تا خیبر ایک مستند سیاسی رہنما کے طور پر ابھر چکے تھے۔

KPمیں پہلی بار ان کی حکومت بنی جو آج تک قائم ہے۔ مگر ان کی نظریں مرکز پر تھیں۔ جن غیرسیاسی لوگوں کو عمران ایک بہتر آپشن کے طور پر نظر آئے اور انہوں نے ان کی خاموش حمایت کا فیصلہ کیا،وہ اپنی تمام کوششوں کے باوجود نواز شریف کا پنجاب میں اثر و رسوخ اور ووٹ بینک کم نہ کرسکے لہٰذا ’’کھیل‘‘ کراچی میں کھیلا گیا۔

جس کی شاید گواہی خود مصطفیٰ کمال اور خالد مقبول دے سکتے ہیں کہ انہیں کون کون کیا کیا پیغام دیتا رہا۔عمران پچھلے ڈھائی سال سے حکمران ہیں اور سول، ملٹری تعلقات بہتر ہیں۔ شاید وہ سیاسی تلخیاں برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

وہ کچھ نہ کریں مگر اچھی طرز حکمرانی کی مثالیں تو قائم کریں۔ حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات ان کیلئے ایک سبق ہیں۔ حال ہی میں سندھ، پنجاب اور نوشہرہ کے نتائج ردعمل ہیں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا۔ اس کے بعد خان صاحب بلدیاتی الیکشن کی طرف جائیں گے یا نہیں یہ تو پتہ نہیں مگر فواد چوہدری کے بقول ملک میں کپتان طاقتور ہو اور پنجاب اورKPمیں کمزور تو مسلم لیگ جیسی جماعت کو PTI کے خلاف جانے کی ضرورت کیا ہے۔ ہم خود ہی کافی ہیں۔

رہ گئی بات مستقل حکمرانوں کی تو موجودہ سیاسی کشیدگی کسی بھی طرح ملک کے لئے بہتر نہیں۔ آپ کا غیر جانبدار رہناہی بہتر ہے کیونکہ ہمارے چیلنجز بڑے ہیں۔ سیاست اور حکومتوں میں تبدیلی اِدھر اُدھر سے لانے کے بجائے جمہوری طریقہ سے آنے دیں۔

یہی درخواست عدلیہ سے بھی ہے کہ پچھلے 73سالوں میں لوگوں کا اعتماد ’’نظریہ ضرورت‘‘ کی وجہ سے کم ہوا ہے۔ اچھی بری سیاست جس کا کام ہے اس کو ہی کرنا چاہئے۔ لوگ باشعور ہیں۔ عمران ایک سیاسی عمل کا حصہ ہے۔ مقبول لیڈر پھانسیوں اور سازشوں سے نہیں جاتے، ایک طے شدہ طریقہ کار سے جاتے ہیں جسے جاری رہنا چاہئے۔ پانچ سال عمران کا حق ہے مگر ماحول تو بنائیں اس کا حضور۔