سراجُ الائمہ، امام ابو حنیفہؒ

February 27, 2021

مولانا محمد الیاس گھمن

کوفہ جس کے دروازوں سے صدیاں گزر چکی ہیں۔ ایسا سنگم ہے جہاں عرب و عجم کی سرحدیں گلے مل رہی ہیں ، یایوں کہیے کہ عربی و عجمی کی باہم برتری و کمتری کی تقسیم و تفریق دم توڑ رہی ہیں۔ اس کے چپے چپے پر سیکڑوں جلیل القدر اصحاب پیغمبر کے حسن خرام کے پھول کھِلے ہیں،اس کی ہواؤں میں انفاسِ صحابیت کی خوشبوئیں بَسی ہوئی ہیں۔ اس کے انگ انگ سے فراست و بصیرت انگڑائیاںلے رہی ہیں۔ خلافتِ فاروقی کے مبارک عہد میں اس کی علمی و سیاسی اساس رکھی گئی ۔ایک ہزار پچاس جلیل القدر صحابہؓ جن میں چوبیس ایسے شیردل مجاہد بھی تھے، جو غزوہ ٔبدر میں رسول ا للہ ﷺکے ہمرکاب رہے تھے، کوفہ آئے اور اسے علم و تقویٰ ، عمل و اخلاص ، آداب و اخلاق ،فضل و کمال اور تدبر و سیاست کے موتیوں سے سجادیا۔

ہجرت رسولؐ کو 80 برس بیت چکے تھے، کوفہ میں مشیت ایزدی نے یاوری کی اور بشارت نبوی کی پیش گوئی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوئی۔ ثابت بن زوطی کے گھرانے میں ایک بچے نے آنکھ کھولی ،جسے دنیاسراج الائمہ، سیّد المحدثین امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابتؒ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یہ وہ عہد تھا کہ حالتِ ایمان میں وجود پیغمبر کی صحبتیں اٹھانے والے (یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) میں سے چند بزرگ بھی موجود تھے جن میں سے بعض امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے آغازِ شباب تک اپنے وجود کی برکتیں زمانے کو بانٹتے رہے۔

نعمان اصل میں اس خون کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے بدن کا قوام ہوتاہے۔اسی طرح آپ ؒکے ذریعے ملت اسلامیہ کا قوام ہے۔یا نعمان بمعنی گل لالہ۔آپ کے فضائل ومناقب ایسے خوشبودار ہیں جیسے گل لالہ(پاک وصاف کردار کے مالک ہیں،فضائل اس طرح مہکتے ہیں جیسے گل لالہ کی خوشبو مہکتی ہے )

آپ کی کنیت ابوحنیفہ ہے، یہ کنیت نسبی نہیں، بلکہ وصفی ہے ۔جیسے ابوہریرہ اور ابوتراب وغیرہ چونکہ دین اسلام کانام قرآن نے ملت حنیف بتایا ہے اسی طرح امام اعظم ؒنے سب سے پہلے اس دین حنیف کی تدوین فرمائی اورعربی محاورہ میں ’’اب‘‘کے معنی ہوتے ہیں والا ۔ اس لیے اسلام میں آپ کی کنیت ابوحنیفہ قرارپائی۔

حضرت سلمان فارسی ؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ آپﷺ کی مجلس میں تشریف فرما تھے کہ قرآن کریم کی آیت مبارکہ ’’واٰخرین منہم لما یلحقوا بہم‘‘ نازل ہوئی۔ آپ ﷺ نے حضرت سلمان ؓکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا کہ اگر علم / دین / ایمان ثریا ستارے تک بھی پہنچ جائے تو فارس کے کچھ لوگ اسے وہاں سے بھی حاصل کرلیں گے۔ امام جلال الدین سیوطی ؒ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے جو بشارت دی ہے، اس کا مصداق حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں۔

اہل علم نے لکھا ہے کہ آپ نے 70 صحابہ کرامؓ کا زمانہ پایا ۔ ان میں سے بعض سے حدیث نقل بھی کی ہے۔

ایک دن امام صاحب بازار جا رہے تھے۔ کوفہ کے مشہور عالم دین امام شعبیؒنے آپ کو دیکھ لیا اور پوچھا:بیٹا تم کس سے پڑھتے ہو؟" آپ نے نفی میں جواب دیا، اس پر امام شعبیؒ نے کہا "مجھے تمہارے اندر قابلیت کے جوہر نظر آتے ہیں، تم علماء کی صحبت میں بیٹھا کرو۔" اس نصیحت کے بعد آپ تحصیلِ علم کے لیے کمر بستہ ہوگئے۔ اس وقت علم کلام کو حاصل کرنے لیے صرف قدرتی ذہانت اور مذہبی معلومات درکار تھیں۔ قدرت نے امام ابوحنیفہؒ میں یہ تمام باتیں جمع کر دی تھیں۔ اس وقت کے تمام گمراہ فرقوں کے سامنے آپ نے منطقی ،استدلالی اور علمی انداز میں دین اسلام کی حقانیت کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا اور دین اسلام پر ہونے والے عقلی اعتراضات کو احسن انداز سے دور کیا۔

اس وقت کوفہ میں امام حماد رحمہ اللہ کا مدرسہ طلبائے دین کا مرجع سمجھا جاتا تھا۔ امام ابو حنیفہؒ نے علمِ فقہ پڑھنا چاہا تو انہی کو منتخب کیا۔ شروع شروع میں ایک نئے طالب علم ہونے کی وجہ سے درس میں پیچھے بیٹھتے۔ لیکن چند روز کے بعد جب امام حماد ؒکو تجربہ ہو گیا کہ تمام حلقےمیں ایک شخص بھی حافظہ اور ذہانت میں اس کا ہمسر نہیں ہے تو حکم دے دیا کہ’’ابو حنیفہ سب سے آگے بیٹھا کریں۔‘‘

آپؒ کا بیان ہے کہ "میں دس برس تک حمادؒ کے حلقے میں ہمیشہ حاضر ہوتا رہا اور جب تک وہ زندہ رہے ان کی شاگردی کا تعلق کبھی نہیں چھوڑا۔ انہی دنوں میرے استاد امام حمادؒ کے ایک رشتے دار کا انتقال ہوگیا تو وہ مجھے اپنا جانشین بنا کر تعزیت کے لیے سفر پر روانہ ہو گئے۔ چونکہ مجھے اپنا جانشین مقرر کر گئے تھے،تلامذہ اور اربابِ حاجت نے میری طرف رجوع کیا۔ بہت سے ایسے مسئلے پیش آئے جن میں استاد سے میں نے کوئی روایت نہیں سنی تھی ،اس لئے اپنے اجتہاد سے جواب دیئے اور احتیاط کےلیے ایک یادداشت لکھتا گیا۔ دو مہینے کے بعد حمادؒ بصرہ سے واپس آئے تو میں نے وہ یادداشت پیش کی۔ اس سے میرے استاد بہت زیادہ خوش ہوئے اور بعض معمولی اصلاح بھی فرمائی۔ میں نے عہد کیا کہ حمادؒ جب تک زندہ ہیں ،ان کی شاگردی کا تعلق کبھی نہ چھوڑوں گا۔"

تذکرہ نگاروں سے مروی ہے کہ آپؒ نے قرأت امام عاصمؒ سے سیکھی ،جن کا شمار قرأئے ِ سبعہ میں ہو تا ہے ۔حمادؒ کے زمانے میں ہی امام صاحبؒنے حدیث کی طرف توجہ کی، کیونکہ مسائلِ فقہ کی مجتہدانہ تحقیق جو امام صاحبؒ کو مطلوب تھی ،حدیث کی تکمیل کے بغیر ممکن نہ تھی۔ لہٰذا کوفہ میں کوئی ایسا محدث باقی نہ بچا جس کے سامنے امام صاحبؒ نے زانوئے تلمذ تہ نہ کیا ہو اور حدیثیں نہ سیکھیں ہوں۔ اس سلسلے میں آپ نے مکہ مکرمہ کا سفر بھی کیا، فن حدیث کے اساتذہ میں سے صحابہ کرام ؓکے خاص معتمد اور فیض یافتہ حضرت عطاء سے استفادہ کی غرض سے حاضر خدمت ہوئے۔ آپ کی قوت حافظہ اور قوت استدلال کو دیکھ کر حضرت عطاء آپ کو خصوصی توجہ سے نوازتے۔115ھ کو یہ آفتاب علم بھی غروب ہوگیا۔حضرت عطاء کے بعد مکہ مکرمہ میں جن کے علم کا سکہ چلتا تھا، ان کا نام عکرمہ ہے، یہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد تھے۔آپ نے ان سے بھی علم حاصل کیا۔

اس کے بعد آپ مدینہ پہنچے تو بطور خاص سلیمانؒ اور سالم بن عبد اللہؒ سے کسب فیض کیا۔ سلیمان ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے غلام تھے۔ اور سالمؒ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے پوتے تھے اور اپنے والد بزرگوار سے تعلیم پائی تھی۔ امام ابو حنیفہؒ دونوں بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے حدیثیں روایت کیں۔غرض امام ابو حنیفہؒ کے اساتذہ کی تعداد محتاط اندازے کے مطابق بقول امام ابو حفص کبیرؒ چار ہزار تک پہنچتی ہے ۔آپ کے اساتذہ آپ سے انتہائی شفقت والا معاملہ فرماتے تھے۔

امام حماد 120ھ میں فوت ہوئے۔ ابراہیم نخعیؒ کے بعد فقہ کا دارو مدارچونکہ امام حماد ؒپر ہی موقوف تھا ،اس لیے ان کی وفات سے چراغ علم ٹمٹما اٹھا۔اس صورت حال کے پیش نظر تمام بزرگوں نے متفقاً امام ابو حنیفہؒ سے درخواست کی کہ مسندِ درس کو زینت بخشیں۔ آپ کی عمر چالیس سال تھی۔

تاریخ بغداد اور دیگر کتب میں لکھا ہے کہ اس زمانے میں آپ نے یہ خواب دیکھا کہ وہ نبی کریم ﷺ کی قبر انورکھود رہے ہیں ۔ یہ خواب دیکھ کر سخت پریشانی ہوئی، جب اس کی تعبیر امام ابن سیرینؒ سے پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ خواب دیکھنے والے شخص کواحادیث سے استنباط کی توفیق خاص نصیب ہوگی۔

آپ نہایت عبادت گزار تھے ،کثرت سے نوافل پڑھتے۔ اکثر روزے سے ہوتے ،قرآن کریم سے بے حد لگاؤ تھا۔ خوب تلاوت فرماتے، آپ کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ رمضان المبارک میں 60 مرتبہ قرآن کریم ختم فرماتے، جبکہ عام مہینوں میں ایک رات میں مکمل قرآن کریم کا ختم فرماتے ،تہجد گزار تھے ، رات کو اللہ کے حضور اتنا روتے کہ اس آواز سے پڑوسیوں کو بھی آپ پر ترس آتا۔

آپ صبح کی نماز کے بعد مسجد میں درس دیتے، دور دور سے استفتا آئے ہوتے۔ ان کے جواب لکھتے۔ پھر تدوینِ فقہ کی مجلس منعقد ہو تی، بڑے بڑے نامور شاگردوں کا مجمع ہوتا۔ پھر ظہر کی نماز پڑھ کر گھر آتے۔ نمازِ عصر کے بعد کچھ دیر تک درس و تعلیم کا مشغلہ رہتا۔ باقی دوستوں سے ملنے ملانے، بیماروں کی عیادت، تعزیت اور غریبوں کی خبر گیری میں صرف ہوتا۔ مغرب کے بعد پھر درس کا سلسلہ شروع ہوتا اور عشاء تک رہتا۔ نمازِ عشاء پڑھ کر عبادت میں مشغول ہوتے اور اکثر رات رات بھر نہ سوتے۔

علم کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کے جذبے نے آپ کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیوست کر دی ۔آپ لوگوں کی مشکلات میں ان کا ہاتھ بٹاتے ، لوگوں کا بوجھ اٹھانے لگے اور ایسے ایسے کام کرنے لگے ،جنہیں کرنے سے دوسرے لوگ عاجز تھے۔مفلس اور نادار لوگوں کی کفالت بھی آپ نے خوب کی۔ آپ کی علمی شہرت اور خدمت خلق کے چرچے دنیا بھر میں عام ہونے لگے ۔

امام ابو حنیفہ ؒ کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے۔ آپ نے اپنے شریک حفص بن عبدالرحمان سے کہا کہ فلاں کپڑے میں کچھ عیب ہے ،لہٰذا جب تم اسے بیچو تو خریدار کو واضح طور پر اس عیب کا بتا دینا، لیکن جب حفص نے وہ کپڑا بیچا تو خریدار کو عیب بتانے بھول گئے۔ اس واقعے کی جب امام ابو حنیفہؒ کو خبر ہوئی تو انہوں نے وہ ساری کمائی صدقہ کر دی۔ آپ کی عقل مندی کے بارے میں ائمہ حدیث و فقہ کے بہت سارے اقوال اور واقعات کتب میں ملتے ہیں۔اہل علم کی قدردانی کے بارے میں حجر بن عبدالجبار کہتے ہیں کہ دوستوں اور اہل مجلس کا سب سے زیادہ اکرام و اعزاز کرنے والا شخص میںنےامام ابو حنیفہؒ کے علاوہ نہیں دیکھا ۔

امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہو ں،اگر وہ اس لکڑی کے ستون کو سونا کا ثابت کرنا چاہے تو دلائل کی قوت سے اسے ثابت کر سکتا ہے اور وہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ اگر کوئی شخص دین کا تفقہ حاصل کرنا چاہے ،وہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ اورآپ کے اصحاب سے حاصل کرے ،کیونکہ تمام لوگ فقہ میں ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے عیال ہیں۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں علم و حکمت اور تقویٰ کے جس مقام پر ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہیں ،وہاں کوئی نہیں پہنچ سکتا۔

146 ھ میں عباسی خلیفہ منصور نے قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول نہ کر نے کی وجہ سے امام صاحب کو قید کر ڈالا۔ قید خانے میں ان کا سلسلہ تعلیم بھی برابر قائم رہا۔ امام محمدؒ نے جو فقہ کے دست وِبازو ہیں، انہوں نے یہاں قید خانے میں بھی آپ سے تعلیم حاصل کی۔بالآخر رجب 150 ھ میں بادشاہ نے آخری تدبیر یہ اختیار کی کہ انہیں زہر دلوا دیا۔ جب آپ کو زہر کا اثر محسوس ہوا تو سجدہ کیا اور اسی حالت میں جان ، جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ آپ کی وفات کی خبر ہر سو پھیل گئی، سارا شہر آپ کے جنازے کے لیے امڈ آیا۔

قاضی شہر حسن بن عمارہ ؒآپ کو غسل دے رہے تھے اور ان کی زبان پر برابر یہ جاری تھا "اے ابو حنیفہ !واللہ!تم سب سے بڑے فقیہ تھے ،سب سے بڑے عبادت گزار تھے ، سب سے بڑے زہد و تقویٰ کے مالک تھے، تم میں تمام خوبیاں پائی جاتی تھیں۔‘‘ امام صاحبؒ نے وصیت کی تھی کہ خیزران میں دفن کئے جائیں۔وصیت کے مطابق خیزران کے مشرقی جانب آپ کی قبر تیار کی گئی۔سلطان الپ ارسلان سلجوقی نے 459ھ میں آپ کی قبر کے قریب ایک مدرسہ تعمیر کروایا جو مشہدِ ابی حنیفہ کے نام سے مشہور ہے۔