کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے

February 25, 2021

آج پھر ریمنڈ ڈیوس کی یاد آگئی۔ ساری رات عدالت لگی تھی۔ مسودے تیار ہوئے تھے۔ جو بچے اس کی گاڑی سے مارے گئے تھے ان کا خوں بہا دینے کے لئے متذکرہ خاندان بھی لاکر بٹھایا گیا تھا۔ ریمنڈ ڈیوس نے یا پھرہماری حکومت نے کروڑوں روپے، ان خاندانوں کو دیئے، صبح ہونے سے پہلے ریمنڈ ڈیوس امریکہ سے آئے جہاز میں واپس چلا گیا تھا۔ خوں بہا لینے والے خاندانوں کا کیا بنا کہ گھروں میں تو سارے افراد کے لئے پوری چارپائیاں بھی نہ تھیں۔ سنا ہے محلہ چھوڑ کر اپنے اپنے حصے کے مطابق کوئی دبئی گیا تو اور کسی شہر میں دولت خرچ کرنے کی جگہ ڈھونڈی مگر وہ تو بس دو لڑکے تھے۔ 18فروری کو میں اخبار میں پڑھ رہی ہوں کہ سوزوکی میں کچلے جانے والے نوجوانوں کے والدین نے معلوم نہیں کتنا خوں بہا لیا کہ نہیں۔ کیسے نوجوانوں کے یوں مارے جانے کو کس طرح اور کس دل کے ساتھ معاف کیا۔ پڑھ کے ہی کلیجے کو ہاتھ پڑتا ہے۔ کیا عدالتیں ایسے فیصلوں کو قبول کریں گی اور کیا پاکستان میں امیر لوگ یوں خون معاف کرنے کا جواز ڈھونڈ کر ہمارے سامنے اسلام کے فروغ کے لئے کام کرتے رہیں گے۔ ویسےوالدین نے اچھا کیا۔ وہ مانسہرہ کے نوجوان بھی تو اپنا مستقبل سنوارنے اور آسودہ زندگی گزارنے کا خواب لئے اسلام آباد آئے تھے۔ ان میں سے زندہ بچ جانے والا مجیب، چونکہ اس کے سر میں شاید چوٹ آئی تھی۔ اس نے کشمالہ طارق کے بیٹے کا نام لے دیا، ویسے ڈرائیور نے اقبالی بیان سوچ سمجھ کر دیا ہے۔ اس کی نوکری کا سوال تھا۔ ویسے بہت اچھا ہوا، مقدمہ چلتا تو غریب والدین، وکیل کا خرچ کیسے اٹھاتے۔ روز روز اسلام آباد کا چکر کیسے لگا سکتے۔ معلوم نہیں ان کی روح کو سکون ملا، یہ تو یقینی بات ہے کہ ان کے نصیب جاگ گئے اور پھر معاف کیجئے میں غلط کہہ رہی ہوں والدین نے تو اسٹامپ پیپر پر راضی نامہ کیا ہے۔ جیسے بہادر شاہ ظفر نے کیا تھا۔ جیسے اورنگ زیب نے اپنے بھائیوں کو مروا کر، مدت تک اسلام پھیلانے اور ٹوپیاں سی کر بادشاہت کرنے کا سوچا تھا۔ یا پھر دور کیوں جایئے ایک حکمران شہزادے نے، اس کے خلاف لکھنے کی سزا، ایک صحافی کو دی تھی اور اس کی بوٹی بوٹی تیزاب میں گھلا دی تھی۔ ویسے ہمارے یہاں میڈیا کے پھیلائو کے باوجود بہت سی غلام عورتوں اور مردوں کو گولی مار کر، اپنے ہی صحن میں دفن کرنے کے واقعات معمول کی بات ہے کہ چاہے آج کے سینٹ کے الیکشن دیکھیں یا گزشتہ چالیس برس کے نام پڑھتے جائیں۔ ٹھیکیدار، بڑے بزنس مین اور شہزادیاں کہ جن کی جائیداد کروڑوں میں بتائی گئی ہے۔ غریب پرویز رشید کے پاس پنجاب ہائوس کا قرضہ چکانے کے پیسے نہیں تھے، کیا اس وقت ن لیگ کے دوسرے کھڑے دوستوں نے اس طرح مدد کیوں نہ کی جیسا کہ فرحت اللہ بابر کے پاس پیسے جب کم پڑے تھے تو کھڑے ہوئے جیالوں نے جیبیں خالی کردی تھیں۔ اور المیہ یہ ہے کہ روز اخبار اور صحافی لکھ رہے ہیں کہ نوٹوں کے بیگ لئے ایجنٹ حکم کے منتظر ہیں۔ خوں بہا داستان لکھنے کے بعد میری دوست طاہرہ عبداللہ نے یاد کرایا کہ خاتون وفاقی محتسب ہیں۔ فیض صاحب نے محتسب کو کہا کہ لات ومنال کا پوچھتے ہو۔ جو کچھ تھا ہم نے جھاڑ دیا۔ سمجھتے سکتے ہیں آپ لوگ کہ یہ خاتون کس طرح کی محتسب اور وہ بھی عورتوں کے معاملات طے کرتی رہی ہوں گی۔ ان کے ماضی کی زندگی کے بارے میں ہمارے وزیراعظم کو کیا معلوم نہیں کہ یہ کہانی تو اب پرانی ہوکر کباڑیئے کے پاس پہنچ چکی ہے۔ ڈاکٹر ناصرہ جاوید اقبال نے افسوس کرتے ہوئے کہا کہ یہ منحوس راضی نامے کو قانونی شکل دینے کے لئے ضیاء الحق کے زمانے میں شوشہ چھوڑا گیا تھا اور 1997ء میں پارلیمنٹ نے پاس کر دیا۔ میرے سامنے شاہ زیب جیسے بہت سے چہرے آگئے۔ میں ان پر غور کررہی تھی، میرے ایک دوست نے طعنہ دیتے ہوئے کہا ’’تم بہت یاسیت زدہ ہو۔ سمجھتی کیوں نہیں وہ غریب لوگ اپنے دوسرے بچوں کی زندگی اور روٹی مانگتے ہوئے اگر دل پر پتھر رکھ کر راضی نامہ کر رہے ہیں، ان کو صبر آگیا، تم کیوں صبر نہیں کرتیں۔ انہوں نے تو خود عدالت میں کھڑے ہوکر بیان دیا تھا مجھے فوراً طیبہ یاد آگئی۔ وہ دونوں سول سرونٹ تھے جنہوں نے طیبہ کو مار مار کر نیلو نیل کر دیا تھا۔ کچھ دن وہ جیل میں رہے۔ باپ نے خوں بہا تسلیم کرلیا تو وہ افسران جیل سے باہر آگئے۔ اب عدالت کیا کرے۔

سینٹ کے الیکشن کے دوران بھرے ہوئے نوٹوں والے عجب نہیں کسی ایسے شخص کو ضائع کردیں جو ان کے خیال میں ملکی مفاد میں کام نہیں کررہا اور پھر اس کے گھر والے نوٹوں کی گڈیاں سنبھالتے سنبھالتے بے حال ہو جائیں۔ کہاں کا کفر کہاں کا اسلام۔ کس نے دیکھا ہے قیامت کو۔ جب آئے گی دیکھا جائے گا۔ کووڈ 19نے کتنے گھر اجاڑے ہیں۔ عزرائیل نے اپنا کام کیا۔ ایک شیطان کو پاکستان میں کھلی چھٹی تیس برس سے ہے۔ چلنے دو، اب تو کرپشن کے محکمے میں کئی سو لوگ رشوت کی بنا پر نوکری سے نکالے گئے تھے۔ دیکھو تو احسان اللہ احسان کو اتنی جرأت ہوئی کہ وہ پھر ملالہ کو قتل کی دھمکیاں دے رہا ہے کہ اس دفعہ نشانہ نہیں چوکے گا۔ اب پوچھیں کس سے احسان اللہ احسان تو پکڑا گیا تھا۔ بڑی بڑی خبریں لگی تھیں۔ سنا ہے وہ کسی اور ملک کے چینلز آزما رہا ہے۔ یہ سارے نظارے ہوں تو مغرب والے ہمیں جاہل اور غریب کہہ کہ علامہ اقبال کو کہنے دیتے ہیں ’’کیا بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے‘‘