سینیٹ: پارلیمان کا ایوانِ بالا

March 01, 2021

ڈاکٹر سید جعفر احمد

ڈائریکٹر، انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ

ان دنوں ملک بھر میں 3 مارچ کو ہونے والے سینیٹ کے انتخابات موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں۔ بحث یہ ہے کہ ملک کے آئین یا قوانین میں کیا ایسی گنجائش موجود ہے کہ خفیہ رائے دہی کا طریقہ کار ختم کرکے سینیٹ کے الیکشنز میں ووٹ دینے والوں کو پابند کردیا جائے کہ وہ ہاتھ اٹھا کر اپنی رائے کا اظہار کریں۔ہر چند کہ آئین کے آرٹیکل 226 میں بہت واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ:

"All elections under the constitution, other than those of the Prime Minister and the Chief Minister shall be by secret ballot."

(آئین کے تحت تمام انتخابات سوائے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے انتخاب کے، خفیہ رائے دہی کے ذریعے منعقد کیے جائیں گے)۔ اس واضح آرٹیکل کی موجودگی کے باوجود مذکورہ تنازعہ بظاہر غیر ضروری معلوم ہوتا ہے لیکن چونکہ ماضی میں سینیٹ کے انتخابات میں بڑی بڑی رقوم کے عوض ووٹوں کی خرید و فروخت بڑے پیمانے پرہوتی رہی ہے لہٰذا ایک حلقے کا، جس میں اِس وقت کی برسر اقتدار حکومت بھی شامل ہے، خیال ہے کہ آئندہ انتخابات میں بھی پیسے کے زور پر نتائج پراثر انداز ہُوا جائے گا۔موجودہ حالات میں حکومت کو اندیشہ ہے کہ خرید و فروخت کا یہ رائونڈ شاید اُس کے خلاف جائے۔ ہر چند کہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس سے قبل سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کے وقت موجودہ حکومت کے امیدوار ووٹوں کی خریدو فروخت کے ذریعے ہی سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے جس پر ہر طرف سے انگلیاں بھی اٹھائی گئی تھیں۔ اس موقع پر سینیٹ کے ادارے کی اہمیت ، پاکستان کے مجموعی ریاستی اور آئینی نظام میں اس کے مقام اور اس کے تاریخی ارتقا کا ایک جائزہ معلومات افزا ہوسکتا ہے اور ویسے بھی اصولاً قو م کو اپنے اداروں کی بابت معلومات ہونی چاہئیں کیونکہ یہی ادارے ان کے حقوق کی پاسداری کے ذمہ دار ہیں۔

دستور میں بنیادی حقوق کا ایک خاصا متاثر کن باب موجود ہے لیکن اگر قوم کتابِ دستور میں حقوق کے باب کی موجودگی ہی سے ناواقف ہوگی تو وہ ان کے حصول کے لیے انصاف کے کسی دروازے کو دستک دینے کی بھی کیسے اہل ہوسکے گی۔ سو، اپنے اداروں کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ ادارے بھی اُسی وقت ٹھیک ٹھیک کام کرتے ہیں جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان پر نظر رکھی جارہی ہے اور شہری جو ریاست کو براہ راست یا بالواسطہ طور پر کروڑوں بلکہ اربوں کے ٹیکس ادا کرتے ہیں، اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ اُن کے منتخب ادارے اپنے فرائض کی ادائیگی کا کام خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہے ہیں یا نہیں۔

جہاں تک سینیٹ کا تعلق ہے یہ ہمارے ملک کی پارلیمنٹ کا ایوانِ بالا ہے جبکہ ایوانِ زیریں قومی اسمبلی ہے۔ دنیا کی وفاقی مملکتوں میں تقریباًایک اصول کے طور پر پارلیمان یا مقننہ کے دو ایوان ہوتے ہیں۔امریکہ میں یہ علی الترتیب سینیٹ اور ہائوس آف ریپریزینٹیٹوز، ہندوستان میں راجیہ سبھا اور لوک سبھا، کینیڈا میں سینیٹ اور ہائوس آف کامنز اور فرانس میں ہماری ہی طرح سینیٹ اور نیشنل اسمبلی کہلاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وفاقی مملکتوں میں قانون ساز ادارے یعنی مقننہ کو دو ایوانوں کی شکل میں کیوں منتخب کیا جاتا ہے۔اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ خود وفاقی مملکت دوسری مملکتوں کے مقابلے میں کن معاملوں میں مختلف ہوتی ہے۔وفاقی مملکتیں مرکز اور وحدتوں میں تقسیم ہوتی ہیں اور دونوں یعنی مرکز اور وحدتوں کے دائرہ کار آئین میں طے کردیے جاتے ہیں۔

دوسرے لفظوں میں آئین میں درج کردیا جاتا ہے کہ کن موضوعات پر مرکز قانون سازی کرے گا اور ان قوانین پر عملدرآمد کروائے گا اور وہ کون سے موضوعات ہوں گے جن پر صوبے قانون سازی اور ان پر عملدرآمد کریں گے۔اصولاً مرکز ،صوبوں کے دائرہ کار میں مداخلت نہیں کرسکتا۔اس طرح صوبے بھی مرکز کے دائرہ کار میں مداخلت نہیں کرسکتے لیکن اگر کبھی ایسی صورت پیدا ہوجائے تو آئین میں بات چیت کے ذریعے اس اختلاف کو دور کرنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے اور اس کے لیے الگ سے ادارے بھی بنادیے جاتے ہیں ۔لیکن بالفرض یہ اختلاف آئین میں فراہم کردہ دیگر اداروں کی سطح پرحل نہ ہوپائے تو ملک کی عدالت عظمیٰ مرکز اور صوبوں کی رہنمائی کے لیے آئین کی تشریح کرکے اس مسئلے کو حل کر دیتی ہے۔

وفاقی مملکتوں کے برخلاف وحدانی طرز کی حکومتیں صرف ایک سطح پر حکومتی نظام کی حامل ہوتی ہیں اور سارے اختیارات اسی ایک حکومت کے پاس ہوتے ہیں ۔بعض صورتوں میں وحدانی مملکتیں خود ذیلی حکومتیں تشکیل دیتی ہیں اور خود ہی اپنے اختیارات میں سے چند اختیارات ان کو منتقل کردیتی ہیں۔اُن وحدانی مملکتوں میں جو بھی نچلی سطح کی حکومتیں ہوتی ہیں ان کو اختیارات آئین سے نہیں بلکہ مرکزی حکومت سے مل رہے ہوتے ہیں اور کیونکہ یہ اختیارات مرکز کے عطا کردہ ہوتے ہیں لہٰذا مرکز کبھی بھی اُن کو واپس لے سکتا ہے۔یہ صورت وفاقی مملکتوں میں نہیں ہوتی کیونکہ وحدتیں اپنے اختیارات کے لیے مرکز کی مرہونِ منت نہیں ہوتیں بلکہ ان کے اختیارات آئین سے مشتق ہوتے ہیں۔

پاکستان کا ایک وفاقی نظام کا حامل ہونا ایک ایسا فیصلہ تھا جو آزادی سے قبل ہی کرلیا گیا تھا۔متحدہ ہندوستان میں مسلم لیگ کی ساری جدوجہد پہلے تو مسلم اکثریتی صوبوں کی تعداد بڑھوانے اور ان کے لیے زیادہ سے زیادہ خود مختاری حاصل کرنے کی جدوجہد تھی جس کا نقطۂ عروج 1940ء کی لاہور کی تاریخی قرارداد تھی۔پاکستان میں وفاقی نظام کو ایک اور تاریخی حقیقت نے قوت فراہم کی اور وہ حقیقت یہ تھی کہ جب ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ ہوا تو مسلم اکثریتی صوبوں سے رائے لی گئی کہ وہ پاکستان کے نئے وفاق میں شامل ہونا چاہیں گے یا ہندوستان کے وفاق کا حصہ بننا پسند کریں گے۔ان صوبوں کی آمادگی کے بعد ہی پاکستان کا وفاق وجود میں آیا۔ایک اور بات جو پاکستان میں وفاقی نظام کے حق میں جاتی تھی وہ پاکستان کا کثیرالثقافتی، کثیر اللسانی اور کثیر القومی تشخص تھا ۔یہ ایک متنوع معاشرہ تھا جس کی سیاسی تجسیم کے لیے وفاقی نظام ہی موزوں نظام تھا۔

سوال یہ پیداہوتا ہے کہ وفاقی نظاموں میں مقننہ کے دو ایوان کیوں رکھے جاتے ہیں؟اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ مقننہ کا ایک ایوان تو جمہوریت کے اصول کے مطابق بنایا جاتا ہے جس کی رو سے جس صوبے کی جتنی بھی آبادی ہوتی ہے اس کواسی تناسب سے نمائندگی دے دی جاتی ہے۔پاکستان کی قومی اسمبلی اسی اصول پر منتخب ہوتی ہے۔چنانچہ پنجاب جس کی آبادی 55 فیصد کے قریب ہے اور بلوچستان جس کی آبادی ملک کی کُل آبادی کا 5 فیصد کے قریب ہے، لہٰذا ان دونوں صوبوں کو اور اسی طرح سندھ اور خیبر پختونخوا کو بھی ان کی آبادی کے مطابق قومی اسمبلی میں نمائندگی دے دی گئی ہے۔اس طرح قومی اسمبلی یعنی ہمارا ایوانِ زیریںمنتخب ہوتا ہے لیکن وفاقی مملکت صرف جمہوری مملکت نہیں ہوتی بلکہ اس کی ایک اہم حیثیت ایک وفاق کی بھی ہوتی ہے۔

وفاق کا اصول یہ کہتا ہے کہ اس کے اندر شامل تمام وحدتیں خواہ ان کی آبادی کچھ ہی کیوں نہ ہو ، یکساں اہمیت اور حیثیت کی مالک ہوتی ہیں اور اگر ایسا ہے توپھر صرف جمہوری اصول کے مطابق بننے والا ایوانِ زیریں کافی نہیں ہے بلکہ ایک اور ایوان بھی ناگزیر ہے جس میں سب وحدتوں (یا صوبوں ) کو برابر نمائندگی دی جائے۔دنیا کے سب وفاقی نظام دو ایوانی مقننہ کے حامل ہوتے ہیں جن میں ایوانِ بالا وفاقیت جبکہ ایوانِ زیریں جمہوریت کی نمائندگی کرتے ہیں۔علمِ سیاسیات کے ایک معروف مفکر سی ایف اسٹرانگ (C.F. Strong) نے وفاق کے ایوانِ بالا میں صوبوں کی مساوی نمائندگی کے لیے یہ دلیل پیش کی ہے کہ یہ مساوی حیثیت وفاقیت کا لازمی جزو ہے کیونکہ وفاقی نظام اس تصور پر قائم ہوتا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ بنیادی طور پر وفاقی اکائیوں کی ہوتی ہے۔یہ وفاقی اکائیاں یا وحدتیں اپنی حاکمیت اعلیٰ کے ایک حصے سے دستبردار ہوجاتی ہیں اور اس کو مرکز کے سپرد کردیتی ہیں تاکہ وہ تمام وحدتوں کے مجموعی اور یکساں مفادات کی ترجمانی ،داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر کرسکے۔

آزادی کے بعد پاکستان میں جب آئین سازی کی کوششوں کا آغاز ہوا اور مختلف آئینی تجاویز آئندہ چھہ سات سال زیر بحث رہیں ،ان سب میں دوایوانی مقننہ کی تجویز شامل تھی۔1949ء میں آئین ساز اسمبلی نے ایک کمیٹی جس کا نام ’بنیادی اصولوں کی کمیٹی‘(Basic Principles Committee) تھا، قائم کی۔اس کمیٹی کو دستور کے لیے بنیادی اصول مرتب کرکے اسمبلی کے سامنے پیش کرنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔یہ کام کمیٹی نے اپنی ذیلی کمیٹیوں کے سپرد کیا جس میں ایک ذیلی کمیٹی وفاقی نظام کی تفصیلات طے کرنے سے متعلق تھی۔ذیلی کمیٹیوں کی رپورٹوں کی بنیاد پر بڑی کمیٹی نے آئین ساز اسمبلی میں اپنی مجموعی رپورٹ پیش کردی تھی۔بنیادی اصولوں کی کمیٹی نے پہلے ایک عبوری رپورٹ پیش کی جوکہ وزیراعظم شہیدِ ملت لیاقت علی خان کے زمانے میں پیش کی گئی۔

اس کے بعد خواجہ ناظم الدین کی وزارت کے زمانے میں ایک دوسری رپورٹ جو بڑی حد تک مکمل تھی پیش کی گئی۔ان دونوں رپورٹوں میں دو ایوانی مقننہ کا تصور موجود تھا۔چونکہ اس وقت مشرقی پاکستان آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ تھا لہٰذا ایوانِ بالا میں اس کو اور مغربی حصے کے سب صوبوں کو یکساں نمائندگی دینے کی تجویز رکھی گئی۔1953ء میں وزیراعظم محمد علی بوگرا نے ایک ایسا آئینی فارمولا تیار کیا جس نے مشرقی اور مغربی حصوں کے درمیان نمائندگی کے مسئلے کو حل کرنے کا راستہ دکھا دیا۔نمائندگی کا یہ مسئلہ آزادی کے بعد سے چلا آرہا تھا۔مشرقی پاکستان جو ملک کی مجموعی آبادی کا 54فیصد کا حامل تھا، بجا طور پر اپنی آبادی کے تناسب سے اسمبلی اور دیگر ریاستی اداروں میں نمائندگی کا جواز تھا۔مشرقی پاکستان کا یہ موقف ہماری اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی اشرافیہ کے ایک بڑے حصے کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔

محمد علی بوگرہ فارمولے کی رو سے مشرقی پاکستان اور مغربی حصے کے چاروں صوبوں کو(گو بلوچستان ابھی صوبہ نہیں بنا تھا مگر اُس وقت خیال تھا کہ دستور بننے پر یہ صوبہ بن جائے گا) ایوانِ بالا(جس کے لیے ’ہائوس آف یونٹس ‘ کانام تجویز کیا گیا تھا) میں دس، دس نشستیں دی گئیں جوکہ وفاقیت کے اصول کے عین مطابق تھا۔دوسری طرف ایوانِ زیریں(جس کانام’ ہائوس آف پیپلز‘ تجویز کیا گیا) میں مشرقی پاکستان کو 165 نشستیں دی گئیں جبکہ مغربی حصے کے چاروں صوبوں کے لیے 135نشستیں رکھی گئیں۔نشستوں کی یہ تعداد ان صوبوں کی آبادی سے متناسب تھیں چنانچہ ایوانِ زیریں بجا طور پرجمہوریت کے اصول کی نمائندگی کررہا تھا۔

محمد علی بوگرا فارمولے کی خوبصورتی یہ تھی کہ اس میں جمہوریت اور وفاقیت دونوں کے اصولوں کی پاسداری کرلی گئی تھی اور دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کی صورت میں مشرقی پاکستان کی, ایوانِ زیریں کی 165 نشستیں ،ایوانِ بالا میں اس کی دس نشستوں کے ساتھ مل کر 175 نشستیں بن جاتی تھیں, اور مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کی ،ایوانِ زیریں کی 135 نشستیں بھی ایوانِ بالا میںان چاروں کی مجموعی طور پر 40 نشستوں کے ساتھ مل کر 175 نشستیں بن جاتی تھیں۔اس طرح پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں ملک کے دونوں حصوں کی نمائندگی برابر ہوجاتی تھی۔اس فارمولے کو آئین ساز اسمبلی کے ارکان کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہورہی تھی اور 1954ء میں جبکہ آئین کا مسودہ تقریباً تیارہوچکا تھااور 27اکتوبر 1954 ء کو اس کو اسمبلی میں پیش ہونا تھا، مگر اس سے صرف تین دن قبل، 24 اکتوبر کو گورنر جنرل نے اسمبلی کوتوڑنے کا اعلان کردیا۔گورنر جنرل جو بیوروکریسی اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندہ تھے، ان کا یہ اقدام اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر جمہوریت کا راستہ مسدود کرنے کی شعوری کوشش تھی۔

اس اقدام کے فوراً بعد محمد علی بوگرہ کو ایک نئی کابینہ بنا کر دی گئی جس میں اسٹیبلشمنٹ کے لوگ براہ راست طور پر شاملِ اقتدار ہوئے۔یہاں تک کہ برّی فوج کے کمانڈراِنچیف جنرل ایوب خان اپنے فوجی منصب پر فائز رہتے ہوئے وفاقی کابینہ میں بھی شامل ہوگئے۔ اس نئی کابینہ نے پہلا کام یہ کیا کہ مغربی پاکستان کے صوبوں اور دیگر خطوں کے انضمام کے ذریعے یہاں ایک صوبہ مغربی پاکستان کے نام سے بنایا گیا جس کو ون یونٹ بھی کہا جاتا ہے۔مغرب میں یہ انجینئرنگ کرنے کے بعد کہا گیا کہ اب چونکہ ملک میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی صورت میں دو ہی صوبے ہیں، لہٰذا ان کو قومی اسمبلی میں برابر نمائندگی دی جانی چاہیے۔

نتیجتاً ملک کی مجموعی آبادی کے 54 فیصد کا حامل مشرقی پاکستان ،پچاس فیصد نشستوں کا حقدار قرار دیا گیا۔جبکہ مغربی حصے کی مجموعی آبادی ،جو کہ ملک کی آبادی کا 46 فیصد تھی، اس کو بھی قومی اسمبلی میں پچاس فیصد نمائندگی دے دی گئی ۔اس کو برابری یا ـ’پیریٹی‘ کا نظام کہا گیا جو مشرقی پاکستان کے ساتھ سراسر ناانصافی کا مظہر تھا۔پیریٹی کے اسی اصول کی بنیاد پر 1956ء کا دستور بنا جس میں صرف ایک ایوان، قومی اسمبلی کے نام سے رکھا گیا۔

آئین میں ایوان بالا اس لیے نہیں رکھا گیا کہ جب ایوانِ زیریں ہی دو صوبوں کی برابری کے اصول پر بنادیا گیا تو اب ایوانِ بالا کی ضرورت بھی نہیں تھی۔1956ء کا دستور جب بنا تو اس وقت ممتاز وکیل اے کے بروہی، جو کچھ عرصہ وزیر بھی رہے تھے، انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا کہ، ’1956ء میں پاکستان دنیا کی واحد وفاقی ریاست تھی جس نے وفاقی اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے یک ایوانی مقننہ تشکیل دی تھی‘۔

1956ء کا دستور 7 اکتوبر 1958ء کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا۔1962ء میں جنرل ایوب خان نے ایک نیا دستور متعارف کیا ۔اس میں بھی مقننہ ایک ہی ایوان پر مشتمل تھی کیونکہ ملک کے مغربی حصے میں ون یونٹ کو برقرار رکھا گیا تھا اور مشرق اور مغرب کے درمیان پیریٹی بھی برقرار تھی۔یہ دلچسپ بات ہے کہ کابینہ کے وزرا سے دستور کا مسودہ تیار کروانے سے پہلے ایوب خان نے جسٹس شہاب الدین کی سربراہی میں جو آئینی کمیشن تشکیل دیا تھا اور جس کو مستقبل کے آئین کا مسودہ تیار کرنا تھا اس کمیشن نے بھی دوایوانی مقننہ کی تجویز پیش کی تھی لیکن ساتھ ہی ون یونٹ کو برقرار رکھنے اور پیریٹی کو بھی جاری رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔

سوال یہ ہے کہ جب دونوں صوبوں کی نمائندگی کی برابری کی بنیاد پر قومی اسمبلی تشکیل کرنے کی تجویز دی گئی تھی تو پھر صوبوں کی برابری ہی کے اصول کے مطابق ایوانِ بالا بنانے کا مقصد کیا تھا؟ یہی سوال جب برسہا برس قبل اس مقالہ نگار نے پیپلز پارٹی کے بانی سیکریٹری جنرل اور بھٹو کابینہ کے سینئیر وزیر جے اے رحیم مرحوم سے کیا تو انہوں نے کہا کہ مذکورہ کمیشن میں دوایوانی مقننہ کی یہ تجویز جسٹس شہا ب الدین کے ذہنِ رسا کی پیداوار تھی۔وہ ایک انتہائی روایتی اور قدامت پسند انسان تھے ۔

انہوں نے برطانوی دور میں تربیت کے دوران بہت سے رجعت پسندانہ اثرات قبول کررکھے تھے۔سو انہوں نے قومی اسمبلی میں مغربی اور مشرقی پاکستان کی برابری ہی کی بنیاد پر ایک اور ایوان کا خواب دیکھا۔وہ دراصل اس کو برطانیہ کے ہائوس آف لارڈز کا درجہ دینا چاہتے تھے۔

پاکستان میں 1973ء کے دستور کی منظوری کے ساتھ ہی یک ایوانی مقننہ کا تصور ترک کردیا گیا اور وفاقی نظام کے تقاضے پورا کرتے ہوئے دو ایوانی مقننہ کا نظام اختیار کیا گیا۔1973ء کے آئین نے جس سینیٹ کی تشکیل کی وہ دنیا کے بہت سے وفاقی ممالک کے ایوانِ بالا کے مقابلے میں خاصی کمزور تھی ،لیکن یہ بات بھی اہم تھی کہ آزادی کے بعد تقریباً تین عشروں تک بھٹکنے کے بعدملک نے بالآخروفاقی نظام کے ایک اصول کو اختیار کرلیا لیکن ایسا کرلینے کے بعد بھی ہمارا آئندہ کا سفر کوئی بہت ہموار ثابت نہیں ہوا، کیونکہ 1973ء کے بعد دو مرتبہ فوج نے مداخلت کرکے ملک کا اقتدار سنبھالا۔

پہلے 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں اور پھر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں فوجی اقتدار قائم ہوا ۔ فوجی حکمرانی جہاں ملک کے تمام جمہوری حلقوں کی ناپسندیدگی کا ہدف بنتی ہے وہیں چھوٹے صوبے خاص طور سے فوجی حکمرانی کی مذمت کرتے ہیں کیونکہ یہ ملک کے وفاقی نظام کی کمزوری کا ذریعہ بنتی ہے۔فوجی حکومتوں میں آئین کی پامالی ایک معمول ہوتی ہے خاص طور سے آئین کے وفاقی ادارے فوجی حکمرانی کے دوران بالکل مرجھا کر رہ جاتے ہیں۔

مثلاً آئین کا ایک بہت اہم ادارہ کونسل آف کامن انٹرسٹس ہے جودونوں فوجی حکمرانوں کے زمانے میں تقریباً معطل یا غیر موثر ہوکر رہ گیا تھا۔جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے مجموعی طور پر 19 سالہ دورِ حکومت میں کونسل آف کامن انٹرسٹس کا صرف ایک اجلاس منعقد ہوا۔اسی طرح قومی مالیاتی کمیشن (NFC) اور قومی اقتصادی کونسل(NEC) بڑی حد تک غیر مؤثر ادارے بن کر رہ گئے۔یا تو ان کے اجلاس منعقد ہوتے ہی نہیں تھے یا بہت طویل وقفوں کے بعد ہوتے تھے او ر پھر ان میں فیصلے بھی مرکز کی ایما پر کیے جارہے ہوتے تھے۔

تاریخی اعتبار سے سینیٹ کے ادارے کو سب سے زیادہ نقصان جس چیز نے پہنچایا وہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی سربراہی میں فوجی حکومتوں کے قیام کے بعد اٹھائے جانے والے آئین شکن اقدامات تھے۔ان میں سرِ فہرست تو آئین کا تعطل اور اس کا معرضِ التوا میں ڈالا جانا ہی تھا لیکن دونوں فوجی حکومتوں کے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ قومی اسمبلی کی تحلیل بھی عمل میں آئی ،لیکن وفاقیت کے نقطہ نظر سے ایک اور بہت بڑا دھچکا یہ پہنچا کہ دونوں مواقع پر قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ سینیٹ کو بھی تحلیل کردیا گیا ،جبکہ سینیٹ آئینی طور پر تھا ہی ایک مسلسل ادارہ۔چنانچہ قومی اسمبلی کاا لیکشن پانچ سال بعد ہوتا ہے یا بعض صورتوں میں پانچ سال سے پہلے بھی اس کاا نعقاد ہوسکتا ہے، لیکن ایک قومی اسمبلی اور دوسری منتخب ہونے والی اسمبلی کے درمیان تین ماہ کی مدت کا فاصلہ ہوسکتا ہے، جس میں الیکشن کمیشن اگلے انتخابات کی تیاری کرتا ہے اور سیاسی جماعتیں انتخابی مہم چلاتی ہیں۔

سینیٹ کے قیام کے پیچھے یہ فلسفہ کار فرما ہوتا ہے کہ وفاق کا ادارہ ہونے کے ناطے یہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ پوری سینیٹ کی مدت ایک ساتھ ختم نہیں ہوتی اور نہ ہی پوری سینیٹ پہلی مرتبہ کے سوا ، کبھی بھی ایک ساتھ منتخب ہوتی ہے۔چونکہ آئین کی رو سے سینیٹ کے ارکان کی کُل مدت چھ سال ہوتی ہے ،لہٰذا سینیٹ کے اولین اجلاس میں ہی یہ طے کرلیا جاتا ہے کہ ان میں سے کون سے نصف ارکان تین سال بعد ریٹائرڈ ہوجائیں گے اور اُن کی جگہ منتخب ہونے والے ارکان چھ سال رکن رہیں گے۔اولین سینیٹ میں منتخب ہونے والے وہ ارکان جو تین سال میں ریٹائر نہیں ہوتے ان کو پوری چھ سال کی مدت مل جاتی ہے۔

چنانچہ اس نظام کے تحت سینیٹ ایک دن کے لیے بھی ختم نہیں ہوتی اور ہر تین سال بعد اس کے نصف ارکان کی ریٹائرمنٹ اور ان کی جگہ اتنی ہی تعداد میں نئے ارکان کا الیکشن ہوجاتا ہے۔یہ الیکشن بھی ریٹائر ہونے والے ارکان کی مدت کی تکمیل سے پہلے منعقد ہوجاتا ہے، تاکہ جس روز نصف ارکان ریٹائر ہوں اس کے فوراً بعد نومنتخب ارکان حلف اٹھالیں۔یہ پورا انتظام اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ وفاق کی علامت ادارہ ،وفاق کے تسلسل کی علامت بھی ثابت ہو۔اصولاً 1973ء کا دستور بننے کے بعد سینیٹ کے اس تسلسل کو برقرار رکھنا چاہیے تھا مگر دستور کے اجراء کے بعد دو مرتبہ اس کو ختم کر دیاگیا ۔نتیجتاً جب اس کا احیاء ہوا تو پھر یہی ہوا کہ شروع ہی میں طے کرنا پڑا کہ کون سے ارکان تین سال کے لیے اور کون چھ سال کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔

اپنے وجود میں آنے کے بعد سے آج تک سینیٹ کی کارکردگی اتار چڑھائو کا مظہر رہی ہے۔یہ ضرور ہے کہ بحیثیتِ مجموعی سینیٹ صوبوں کے مفادات کے نقطۂ نظر سے کسی انقلابی پیشرفت کا مظاہرہ نہیں کرسکی لیکن اس کی کارکردگی کو یکسر رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔اگر ملک کی پارلیمان ایک مقتدر ادارہ نہیں بنائی گئی اور اس کو بہت سی تحدیدات کے اندر رہ کر کام کرنا پڑا ہے تو اس کے دونوں ایوانوں کی کارکردگی کو بھی اس پس منظر سے جدا کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔

ریاست کے بعض امور ایسے ہیں جو تاریخی طور پر ہماری پارلیمان کے دائرہ کار سے باہر رکھے گئے ہیں۔ان امور کے حوالے سے نہ تو قومی اسمبلی میں اور نہ ہی سینیٹ میں بحث ہوتی ہے، اور اگر یہ امور پارلیمان کے زیرِ غور لانے ہی سے دور رکھے جاتے ہیں، تو ان پرپارلیمان میں قانون سازی یا پالیسی سازی کابھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ چنانچہ اگر ان امور کے حوالے سے کوئی بڑا اقدام نہیں اٹھایا گیا تو اس کا تمام تر دوش ان اداروں کو نہیں دیا جاسکتا۔

بہرحال باوجود تمام پابندیوں کے سینیٹ نے کچھ نہ کچھ دَم خم ضرور دکھایا ہے۔چھوٹے صوبوں کے نمائندوں نے اس میں اپنا مدّعا کہیں زیادہ کھل کر بیان کیا، خاص طور سے بلوچستان جس کی قومی اسمبلی کی نشستوں کے مقابلے میں سینیٹ میں نمائندگی زیادہ ہے، بڑھ چڑھ کر اپنا موقف پیش کرتا رہا ہے۔کئی کمیٹیاں بھی وجود میں آئیں جو سینیٹ کے مباحثوں ہی کے نتیجے میں تشکیل پائیں۔پھر سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹیوں میں کئی کمیٹیاں کافی فعال بھی رہیں ،اور انہوں نے اپنے کام کے کرنے میں زیادہ فروگزاشت کا مظاہرہ نہیں کیا۔

ماضی اور موجودہ سینیٹ کے ارکان کی انفرادی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو ہر سینیٹ میں کم از کم پندرہ سے بیس فیصد ایسے سینیٹرز کے نام لیے جاسکتے ہیں جو ایوان کی کارروائیوں میں حصہ بھی لیتے رہے ہیں، وقفہ ٔسوالات کو بھی بھرپور طریقے سے استعمال کرتے رہے ہیں اور ان میں سے کئی اپنا ہوم ورک بھی کرکے اجلاس میں تشریف لاتے رہے ہیں۔اگر ماضی اور موجودہ سینیٹ کے چند ایسے ناموں کو یاد کرنے کی کوشش کی جائے، جن کا اظہار خیال سینیٹ کی مطبوعہ رپورٹوں کے آئینے میں قابلِ ذکر رہا ہے تو ایسے لوگوں میں گذشتہ پندرہ ، بیس سال کی سینیٹوں کے اراکین میں وسیم سجاد، نیاز نائیک، نیّر بخاری، سرتاج عزیز، پروفیسر خورشید احمد، رضا ربانی، تاج حیدر، ڈاکٹر عبدالمالک، مشاہد حسین وغیرہ کے ناموں سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔

اٹھارہویں آئینی ترمیم 2010 ء میں پاس کی گئی جس کے تحت 102 آرٹیکلز میں ترامیم کی گئیں۔ان ترامیم کا مجموعی اثر دستور کی جمہوری اور وفاقی شناخت کے حوالے سے نہایت مفید تھا۔جہاں تک وفاقیت کا تعلق ہے تو اس حوالے سے اٹھارہویں ترمیم ایک بنیادی تبدیلی یا aradigm Shift Pکی حیثیت رکھتی ہے ،جس کے نتیجے میں ہمارا نظام نامیاتی وفاقیت (organic federalism)سے معاون وفاقیت (cooperative federalism) میں تبدیل ہوگیا۔جہاں تک سینیٹ کا تعلق ہے تو اٹھارہویں ترمیم میں اسے کئی خاص پہلوئوں سے بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ،مگر سینیٹ کو وفاق کا حقیقی ایوانِ بالا بنانے کے لیے ابھی مزیدبہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلاًاس کے اراکین کے براہ راست انتخاب کے لیے بھرپور دلیل پیش کی جاسکتی ہے۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا وفاقی چہرہ مزید روشن ہوجائے گا۔ بلکہ اس سے سینیٹ کو مالی بلوں کے حوالے سے اختیارات ملنے کا بھی راستہ کھل جائے گا۔ کیونکہ سینیٹ کومالیاتی بل پر رائے دینے کا اختیار تو حاصل ہے لیکن یہ ووٹنگ کے اختیار سے محروم ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ براہِ راست طور سے منتخب ایوان نہیں ہے۔ سینیٹ کی ہیٔتِ ترکیبی (composition) پر بھی از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میںسینیٹ میں فاٹا کے آٹھ اراکین کا، قومی اسمبلی میں فاٹا کے ارکان کے ذریعے انتخاب ایک انتہائی متنازعہ معاملہ تھا،جو بہرحال فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد موجود نہیں رہا ہے۔

سینیٹ میں ٹیکنوکریٹس کی نشستوں پر بھی ازسرِ نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹیکنوکریٹ کی تعریف کا اطلاق تمام پیشوں سے تعلق رکھنے والے حضرات پر کیا جاسکتا ہے اور اکثر اوقات ٹیکنوکریٹس کی مخصوص نشستوں پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے غیر پیشہ ور افراد، جن کے لیے یہ نشستیں مختص نہیں کی گئیں تھیں، لائے جاتے ہیں۔مذکورہ بالا حقائق سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سینیٹ آف پاکستان کو وفاق کے حقیقی ایوان کا روپ دھار نے کے لیے مزید سفر طے کرنا باقی ہے۔

آخر میں ہم چاہیں گے کہ سینیٹ کے انتخابات میں ہونے والی ووٹوں کی خریدوفروخت کے حوالے سے کچھ عرض کیا جائے۔امرِ واقعہ یہ ہے کہ کرپشن کا زہر ہمارے تمام شعبہ ہائے زندگی میں سرایت کرچکا ہے۔آئینی ادارے بھی اس سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد سے سیاسی جماعتوں کی اہمیت کم ہوتی رہی ہے، نظریاتی سیاست بھی قصہ ٔ پارینہ بن چکی ہے اور سیاست کا میدان جائز یا ناجائز طریقوں سے پیسہ اکٹھا کرلینے والوں کے لیے کھل گیا ہے۔

باقاعدہ ایسے مافیاز موجود ہیں جو سیاست اور انتخابات پر سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ایک سینیٹ کو کیا موردِ الزام ٹھہرایا جائے، صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے انتخابات ،نیز خواتین کی نشستوں پر پارٹی امیدواروں کا تقرر ، ان تمام امور میں سرمایہ کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ایسے میں کوئی زیادہ حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ صوبائی اسمبلیوں کے اراکین جو سینیٹ کے انتخابات میں الیکٹورل کالج کی حیثیت رکھتے ہیں، اپنی وفاداریاں بیچنے پر تیار نہیں ہوں گے۔اسی طرح قومی اسمبلی کے اراکین جو اسلام آباد کے لیے سینیٹرز کا انتخاب کرتے ہیں،وہ بھی رشوت لے کر اپنے ضمیر کا سودا کرسکتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟

کیا خفیہ رائے دہی کو ختم کردیا جائے؟ ایسا ہوا تو سیاسی جماعتوں کے قائدین ایک مرتبہ پھر ڈکٹیٹر بن جائیں گے اور ان کی موجودہ طاقت کہیں زیادہ بڑھ جائے گی۔پھر اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ خفیہ رائے دہی کے خاتمے کے بعد اراکینِ اسمبلی پیسہ لے کر اپنی وابستگیاں تبدیل نہیں کریں گے۔چودھویں آئینی ترمیم سے قبل قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے اندر ہارس ٹریڈنگ کے جو مناظر دیکھنے میں آتے تھے وہ بھولنے نہیں چاہئیں۔چنانچہ کوئی بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا اگر انتخابات خفیہ ووٹنگ کے بجائے ہاتھ کھڑے کرکے منعقد کیے جائیں۔

بنیادی بات یہ ہے کہ جہاں سیاست میں سرمائے، جس میں بلیک مَنی بھی شامل ہے، کا عمل دخل ہوگا وہاں صرف ووٹنگ سے متعلقہ طریقہ کار کے بدلنے سے کوئی بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ جو شخص اپنا ضمیر بیچ سکتا ہے، وہ بڑی ڈھٹائی سے دنیا کے سامنے اس کا اظہار بھی کر سکتا ہے ۔کرپشن ایک بڑا معاشرتی اور سماجی عارضہ ہے جس کے فروغ میں خود ہمارے اداروں نے بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔پورے معاشرے اور ریاستی اداروں کے اندر کرپشن کے اسباب کو ختم کیے بغیر کسی ایک ادارے میں ایک خاص سطح پر کرپشن کا تدارک کرنے کی کوئی بھی کارروائی نہ تو اصل مسئلے کو حل کرسکتی ہے اور نہ ہی دیر پا ثابت ہوسکتی ہے۔