بائے بائے کورونا

February 27, 2021

روز آشنائی… تنویرزمان خان، لندن
دنیا میں کورونا کے بھیانک اور تباہ کن اثرات سمٹنے کی جانب چل پڑے ہیں لیکن پوری دنیا کی معیشت ، رہن سہن اور سوسائٹی کے محرکات کوکورونا نے ہلاکر رکھ دیا ہے۔ فروری2020سے فروری 2021 تک پورے کرۂ ارض پر بسنے والی انسانیت نے خوف، دباؤ اور زندگی کے بارے میں جس غیر یقینی کا سامنا کیا۔ پوری انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اب ویکسین نے امید پیدا کردی ہے کہ وہ سحر دور نہیں جس میں ہم تحفظ اور یقین کی فضا میں سانس لے سکیں گے۔ ریکارڈ کے مطابق دنیا میں آج تک سوا گیارہ کروڑ انسان متاثر ہوچکے ہیں۔ یعنی کورونا مثبت ہوچکے ہیں لیکن یہ وہ اعداو وشمار ہیں جو ٹیسٹ اور ریکارڈ کئے گئے جب کہ غیر رپورٹ شدہ متاثرین کی تعداد اس تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں تو اعداد وشمار جمع کرنے کا نہ تو کوئی بندوبست ہے نہ رجحان ، ریکارڈ کےمطابق دنیا میں25لاکھ انسانوں کی اموات بھی ہوچکی ہیں۔ اس ریکارڈ کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا ہے جو مثبت مریضوں کے اعداد و شمار کے ساتھ ہوا۔ اس وقت تک صرف امریکہ میں چار کروڑ افراد مثبت ہوچکے ہیں لیکن ایسے لوگ جو مثبت تو ہوئے لیکن وہ کسی ادارے کے پاس ٹیسٹ یا رجسٹر نہیں ہوتےان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ خصوصا ان ممالک میں جہاں مریضوں کو ٹیسٹ سے لے کر ہسپتال جانے تک تمام اخراجات اپنی جیب سے دینے پڑتے ہیں اور ان ممالک میں کوئی نیشنل ہیلتھ نام کی چیزنہیں ہے۔ وہاں کورونا مثبت ہونے والوں کی بہت بڑی تعداد ہسپتال یا ہیلتھ سینٹرکا منہ نہیں کرتی۔ یورپ کے اندر ہی تین کروڑ اسی لاکھ افرادکے کورونا مثبت ہوچکے ہیں جس کا مطلب ہے کہ دنیا کے سوا گیارہ کروڑ کورونا مثبت کا نصف سے بھی زیادہ صرف یورپ اور امریکہ میں کورونا کی موجودگی میں اس کےخلاف بہت سی سازش کی تھیوریاں خوب گرم ہیں جو کہ کہہ کر پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ اس مرض کو نہ صرف جان بوجھ کر چھوڑا گیا ہے بلکہ اس میں انسانوں کے خلاف سازش ہے۔ جس کا مقصد لوگوں کو غیر منظم اور علیحدہ علیحدہ کرنا ہے۔ اب ویکسین کے خلاف ایسی ہی سازشیں اور پروپیگنڈا ہورہا ہے کہ اس ویکسین کے ذریعے انسانوں کو کنٹرول کیا جائےگا ، آبادی کو کنٹرول کیا جائے گا، دنیا کی دولت پر قابض چند ہاتھ ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے پوری انسانیت کو اپنے قابو میں کرلیں گے، میں گزشتہ دنوں پاکستان میں تھا، وہاں بہت سے لوگوں سے ملاقات رہی، میں کورونا کے حوالے سے چند سوال ضرور کرتا تھا اور اکثریت کا یہی کہنا تھا کہ یہ کورونا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں جو تھوڑی سی ویکسین پہنچی ہے۔ اس میں سے بھی بہت معمولی حصہ لوگوں کو لگایا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں پولیو کے قطروں کی طرح پورا ملک ویکسین میں سازش کا متلاشی ہے لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب تک کرۂ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں کو ویکسین نہیں لگ جاتی ہم کوویڈ فری نہیں ہوسکیں گے۔ یا وہ لوگ جنہوں نے آج ویکسین کے پس پشت سازش ڈھونڈنی ہے اور ویکسین نہ لگوائی تو وہ کسی بھی وقت کورونا کا شکار ہوسکتے ہیں۔ یورپی ممالک میں تو لگتا ہے کہ آنے والا موسم گرما گرم کافی محفوظ ہوچکا ہوگا تاہم اس پندرہ مہینوں کے کورونا نے دنیا پر جو اثرات چھوڑے ہیں۔ اس کا آئندہ زندگی پر سے اثر زائل کرنا کافی مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ماسک پہننے اور فاصلے پر رہنے نے لوگوں کی کوئی طرح کی موسمی اور چھوت کی بیماریوں سے محفوظ بھی رکھا ہے۔ ماحولیات میں صفائی محسوس کی گئی ہے لیکن دنیا کی معیشت کو ان پندرہ ماہ میں جو تباہ کن دھچکا لگا ہے اس سے نکلنے میں چند سال ضرور لگ جائیں گے۔ لاکھوں کی تعداد میں بزنس ہوتے ہوتے رہ گئے۔ کچھ بحرانی کیفیت سے سسک رہے ہیں۔ امیر معیشتوں نے اس بحرانی کیفیت میں جس پیمانے پر لوگوں کی مدد جاری رکھی۔ اس میں حکومتوں کے خزانے خالی نہیں تو شدید بوجھ تلے آچکے ہیں۔ ظاہری بات ہے یہ سب کچھ آئندہ برسوں میں بھاری ٹیکسوں اور مہنگائی کی شکل میں دنیا بھر کے عوام کو ہی جھیلنا پڑے گا۔ برطانیہ میں اس وقت بڑی تیزی سے عوام کو ویکسین لگائی جارہی ہے اور پلاننگ کرنے والوں کا خیال ہے کہ اگر وہ مٹی کے وسط تک نصف آبادی کو ویکسین لگا چکے ہیں تو پھر نئی لہر کے امکانات نہ ہونے کے برابررہ جائیں گے۔کیونکہ اس نصف آبادی میں تیس سال کی عمر سے اوپر والی تمام آبادی محفوظ ہوچکی ہوگی لیکن اس بارے میں نصف آبادی میں ابھی یہ حتمی طور پر پتہ نہیں چلایا جاسکا کہ اس وقت لگنے والی ویکسین کتنا عرصہ تک محفوظ رکھے گی۔ آیا اگلے موسم سرما میں سب کو پھر سے ویکسین لگوانا ہوگی۔ اس کا ابھی کوئی میڈیکل سائنس کاماہر نہیں بتاسکا۔ آبادی کی بڑی تعداد خاص طور پر چھٹے گھروں میں رہنے والے اتنا عرصہ تنہائی میں رہ رہ کے کئی طرح کے ذہنی امراض کا شکار ہوچکےہیں جو کہ ماحول ذرا کھلنے کے بعد زیادہ منظر عام پر آنا شروع ہوں گے۔ معیشت اور ماحول کی گھٹن سے جو مسائل پیدا ہونگے۔ اگلے برسوں مں ان سے نمٹنے کیلئے پر سطح پر پوری دنیا کو تیار رہنا ہوگا۔ یہ سب وہ تخمینے اور اندازے ہیں جو ہم معمول کے مطابق اس وائرس سے نکلنے کیلئے سوچ سکتے ہیں، اس سارے ماحول میں کیا گیا کچھ غیر معمولی چھپا ہے، وہ بھی وقت کے ساتھ آشکار ہوتا جائے گا۔