انمٹ داغ

February 27, 2021

امریکہ کے ممتاز مصنف و ادیب کارل ساگن نے کہا تھا کہ ’’ جب کوئی حق کی تلاش میں نکلتا ہے تو اسے منزل کے حصول میں کئی کٹھن مراحل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن سے نمٹنے کے لئے ذہانت، عزم، لگن اور حوصلہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اگر ہم سخت حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے خود کو تیار نہیں کرتے تو پھر ہم ان سنگین چیلنجز کو حل کرنے کی امید بھی نہ رکھیں جن کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے‘‘۔جب میں نے ان سطور کو لکھنے کا آغاز کیا تو اچانک میری سوچ نے مجھے ماضی میں دھکیل دیا۔ جب معاشرے میں انسانیت کی قدروقیمت تھی۔سب لوگ اخلاقیات کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے درست سمت کی جانب گامزن رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ آج پرانی اقدار کے امین شاید ہی کچھ لوگ ملیں جبکہ انسانی رشتے بھی انتہائی نازک رسی سے بندھے نظر آتے ہیں۔

ایسی حقیقت کو تسلیم کرنا ہی درد کا باعث ہے۔ اگر آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہر شخص نے اپنی الگ دنیا بسا رکھی ہے لیکن کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں ملے گا جس کے رہنما اصول سچائی سے منسلک ہوں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جہاں جھوٹ کو سیاسی بیان بازی کے پردے میں چھپانا اور کھلم کھلا جعل سازی معمول بن چکی ہے، جہاں کساد بازاری کو حکمت عملی سمجھا جاتا ہے اور بدزبانی کو حق سمجھ کر استعمال کیا جاتا ہے، جہاں غریب نے مانگنے والا ہاتھ پھیلا رکھا ہے لیکن امیروں کے ہاتھ نظر نہیں آتے، جہاں طاقتور اور نااہل افراد کے لئے قانون الگ اور غریب کے لئے الگ، جو انصاف دینے کے تقاضے پورے نہیں کرتا، جہاں طاقتور طبقے کے سنگین جرائم بھی چھپ جاتے ہیں ، جہاں اشرافیہ کو تو تمام سہولیات و مراعات حاصل ہیں لیکن عام آدمی آج تک اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں احساس اور ہمدردی کا نام و نشان تک نہیں۔

کسی بھی تبدیلی کا آغاز لوگوں کے کردار کے ساتھ شروع ہوتا ہے جس کا ساتھ وہ مشکل میں بھی نہیں چھوڑتے۔ اگر وہ اپنی ضروریات کے تقاضوں اور زمانے کے کٹھن حالات کے سامنے سرنگوں ہو جائیں تو پھر بہتری کا امکان ختم ہوجائے گا۔ حقیقت میں یہی حالت ہے جس کا ہمیں سامنا ہے۔ ہماری کمزوریوں کی وجوہات کی ایک طویل فہرست ہے جس نے ہمیں فیصلہ سازی سے دور رکھا ہوا ہے۔ یہ کہنا کافی ہے کہ ریاست اپنے عوام کو ان کے حقوق فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ ان کے ساتھ کئے گئے وعدے ایک لامتناہی داستان ہے جو کبھی سچ ثابت نہیں ہوئی۔ وہ بدحالی کے گڑھے میں اپنی تقدیر کو گلے لگانے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے زوال میں ایک کثیرالجہتی تکلیف دہ عمل شامل ہو چکا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنی روایات سے کہیں دور ہٹ چکے ہوں اور روشنیوں سے اندھیروں کی طرف بڑھ رہے ہوں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسے ہم اپنی تقدیر کے طور پر قبول کر لیں یا ابھی بھی کوئی ایسی چیز ہے جو ایسی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے کارآمد ثابت ہو سکتی ہے؟

تبدیلی لانے کے لئے جب کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو سب سے پہلے ضابطہ اخلاق طے کیا جاتا ہے تاکہ سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق واضح ہو سکے۔ یہاں ایسی لائن کھینچنی چاہئے جو آپ کو دو الگ الگ راستے دکھائے، اس بات کا فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ آپ نے کس راستے پر چلنا ہے اور کس راستے کو چھوڑنا ہے۔ اگر آپ اس راستے پر چل دیئے جہاں انحطاط کا عمل طے ہوتا ہو‘ ایسی صورت میں زوال کی رفتار بھی تیزی سے بڑھتی جاتی ہے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جن کو ہم کئی دہائیوں سے برداشت کر رہے ہیں۔ آج بھی ہماری قسمت کے فیصلے کرنے کا اختیار طاقتور طبقے کو حاصل ہے ۔ شاید ہی ہم نے کبھی حق و باطل میں تمیز کرنے کی کوشش کی ہو۔ در حقیقت آج بھی انہی لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی شعوری کوشش کی جا رہی ہے جو ہمیشہ دھوکہ دہی اور تحریف کی خوشخبری سناتے رہے ہیں۔

منافقت پر مبنی اس تماشے نے قوم کے چہرے کو بھی داغدار کردیا ہے ۔ اب لوگوں کے لئے یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے کہ وہ کس کا ساتھ دیں اور کس کا نہ دیں۔ بے رحم وقت کی لہروں میں تیرتی صحیح یا غلط دونوں چیزیں گڈمڈ نظر آتی ہیں۔ اگر ہم اسی ڈگر پر چلتے رہے تو پھر ہمیں ڈوبنے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم ان لوگوں کو بے نقاب کریں جن کے کرتوتوں کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔ غلط روایات کو مسترد کرنا ہی تبدیلی کی کوشش کی ابتدا ہے۔ ہمیں ان مافیاز، مفاد پرستوں اور ان کے منصوبہ سازوں کو بھی بے نقاب کرنا ہوگا جو حقیقی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ایسے لوگوں کو نہ صرف اٹھا کر باہر پھینکنا ہوگا بلکہ انہیں عبرت کا نشان بھی بنانا ہوگا تاکہ حقیقی تبدیلی کیلئے راہ ہموار ہو سکے۔ اس مقصد کے حصول میں عزمِ مصمم اور قوت ارادی کی ضرورت ہے۔

(صاحب تحریر وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار اور ادارۂ علاقائی امن کے بانی ہیں)