پنجاب یونیورسٹی کا کشمیر سیمینار

February 27, 2021

عالمی فیصلے کے مطابق کشمیر میں رائے شماری، کشمیریوں کے حق خود ارادیت، پاکستان کی تکمیل اور اس کی سلامتی کو یقینی بنانا ہمارا ناگزیر ایجنڈا ہے، جسے بھارت ریاستی دہشت گردی سے ختم نہیں کر سکتا۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اِس موقف پر مکمل متفق ہیں، وقت آ گیا ہے کہ وہ اس کے مطابق کشمیریوں کو عالمی اداروں میں اُن کا تسلیم شدہ حق دلانے کے لئے ایک ہی قومی پلیٹ فارم سے متحدہ جدوجہد کا آغاز کریں۔ یہ بڑی قومی ضرورت پوری کرنے کے لئے پنجاب یونیورسٹی علمی کردار ادا کرے۔ ’’ہندوتوا‘‘ کے جنون میں مبتلا بھارت کی بنیاد پرست حکمران جماعت، پارلیمان میں اپنے ہی آئین کو بلڈوز کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں کھلے عام ریاستی دہشت گردی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ عالمی ٹربیونل میں اسے جنگی جرائم کا مرتکب ثابت کرنے کی تیاری کی جائے۔ نہتے کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف مختلف النوع اور مختلف اطراف سے بھارت کی برسوں سے جاری ریاستی دہشت گردی اب مکمل ثابت شدہ کیس ہے، جس کی تصدیق متعلقہ معتبر عالمی اداروں کی اپنی تحقیقاتی رپورٹس سے ہو رہی ہے۔ اِس پر عالمی سیاست کے سرگرم ممالک کی حکومتوں، پارلیمان اور عالمی اداروں کا رسپانس مسلسل آ رہا ہے، لیکن اسے فقط بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں لپیٹ کر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ پاکستان ثبوتوں کی روشنی میں دنیا پر مطلوب فری کوئینسی سے واضح کرے کہ بھارتی رویے کا معاملہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے آگے نکل کر منظم ریاستی دہشت گردی تک پھیل گیا ہے، جس کی شدت کشمیریوں کی نسل کشی، ڈیمو گرافک تبدیلیوں اور ان کے مال جائیداد پر قبضوں تک ہو گئی ہے۔ پاکستان کی جانب سے سفارتی اور ابلاغ کا محاذ، سازگار حالات کے مطابق نہیں ہے۔ اس کی منظم تیاری مسئلہ کشمیر کی ہماری قومی جدوجہد کا فوری ناگزیر تقاضا ہے، جس میں یونیورسٹیوں کی علمی معاونت لازم ہے۔ پنجاب یونیورسٹی نے یہ قومی ذمہ داری پوری کرنے کا عزم باندھا ہے۔

’’مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی:عالمی ردعمل‘‘ کے موضوع پر پنجاب یونیورسٹی کے ’’سکول آف کمیونی کیشن سٹڈیز‘‘ کے زیر اہتمام وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد اختر کی صدارت میں ہونے والا یہ مشترکہ ابلاغ، مہمان خصوصی سردار مسعود احمد خاں، صدر آزاد جموں و کشمیر، مجیب الرحمٰن شامی، پرووائس چانسلر ڈاکٹر سلیم مظہر، ڈین ڈاکٹر عنبرین جاوید، ڈاکٹر نوشینہ سلیم، ظفر سندھو اور ناچیز کا تھا۔ وائس چانسلر صاحب کے زیر نگرانی سکول کی چیئرپرسن ڈاکٹر نوشینہ سلیم اور سٹوڈنٹس ایڈوائز ڈاکٹر شبیر سرور اِس قابل قدر اور عملی تجاویز کے حامل سیمینار کے روح رواں تھے جسے کامیاب بنانے میں فیکلٹی اور طلبہ نے گرمجوشی سے حصہ لیا۔

صدر آزاد جموں و کشمیر نے اپنے تجزیے میں کہا کہ مودی حکومت نے اکثریت کے زور پر اپنے غیر آئینی اقدام سے پارلیمان کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کر کے، مقبوضہ متنازع علاقے کو دنیا اور مین لینڈ سے کاٹ کر، کشمیری رہنمائوں کو اسیر بنا کر عسکری طاقت سے نہتے کشمیریوں کو محصور کر کے جو ظلم و ستم ڈھائے ہیں، اس پر ہمارے دستک دینے سے عالمی اداروں اور حکومتوں نے اپنے دروازے اچنبھے کی حد تک کھولے ہیں، بولے بھی ہیں، لیکن ہمیں سنگین صورتحال کے مطابق اپنی پوری بات سنانی نہیں آئی۔ کھلے دروازوں اور ملنے والے وسیع عالمی رسپانس کو ہمیں مسئلہ کشمیر حل کرانے کے عملی تعاون میں بدلنا ہے۔ اس کے لئے جناب مجیب الرحمٰن شامی کی تجویز کی تائید کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ضروری ہے کہ حکومت و اپوزیشن، اس عظیم اور قومی سلامتی کے حامل موقف پر تو متحد ہو کر پاکستان سے باہر آواز پہنچائیں۔ بھارت کے خلاف ریاستی دہشت گردی کے دسیوں ثبوتوں نے ہمارے ابلاغ کو موثر بنانے کا تمام سامان فراہم کر دیا ہے۔ وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز اختر نے کہا ، بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو دی گئی اپنی ہی آئینی حیثیت کو بلڈوز کر کے جس دیدہ دلیری سے نہتے کشمیریوں کے خلاف ظالمانہ اور دہشت گردی کے زمرے میں آنے والے ریاستی جرائم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، اس پر پاکستان کو قانونی کیس تیار کر کے جنگی جرائم کے انٹرنیشنل ٹربیونل سے رجوع کرنا ہو گا۔ انہوں نے یقین دلایا محصور و مظلوم نہتے کشمیریوں کو ان کی عشروں کی جدوجہد کے آخری شروع ہونے والے مرحلے میں پنجاب یونیورسٹی کی علمی و تحقیقی معاونت کشمیری رہنمائوں اور عوام کے مکمل ساتھ ہے۔ پرو وی سی ڈاکٹر سلیم مظہر نے کہا عالمی برادری کو باور کرانا پڑے گا، کہ مودی حکومت نے جو ریاستی دہشت گردی مچائی ہے، اسے نام نہاد ’’قومی مفاد‘‘ کی آڑ حاصل ہے، ہمیں اس کی اصلی حقیقت کا پردہ چاک کرنا ہے۔ ڈاکٹر عنبرین جاوید نے کہا کشمیر اپنے تمام رہنمائوں، سیاسی جماعتوں اور نئی نسل سمیت شروع سے ہی ذہناً بھارت سے کٹا ہوا ہے اور اب ان کی عدم قبولیت انتہا کو پہنچ گئی ہے جس کے کتنے ہی واضح عندیے دنیا کے سامنے ہیں۔ ناچیز نے واضح کیا کہ مسئلہ حل کرنے کے لئے صورتحال بہت سازگار ہے۔ ہمارا ’’قومی مفاد‘‘ عالمی فیصلوں پر عملدرآمد کی شکل میں جاندار ہے۔ افواج پاکستان اور ہماری سیاسی قوتوں کی کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو قائم دائم رکھنے میں کامیابی بلند درجے کی ہے، لیکن داخلی سیاسی انتشار، صورتحال کے مطابق مطلوب اقدامات میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ جنگ نہیں امن کے لئے مذاکرات اور جنگی اتحادی بننے کی بجائے امن اقدام کا اتحادی بننے کی حکومتی پوزیشن عالمی برادری کے لئے پُر کشش ہے قوم کا صورتحال سے فائدہ اٹھا کر کم از کم کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے متحد ہونا، کشمیریوں اور پاکستان کیلئے ناگزیر ہو گیا ہے۔