وہم سے دور رہیں

March 01, 2021

رابطہ…مریم فیصل
برطانیہ میں کورونا ویکسین لگانے کا عمل تیز ہورہا ہے ،اعدادو شمار کے مطابق 20 ملین آبادی کو ویکسین لگائی جاچکی ہے اس سے یہ امید بڑھتی جارہی ہے کہ سال 2020سے پہلے والی زندگی دوبارہ لوٹ آئے گی۔ برطانیہ کی آبادی اتنی زیادہ نہیں ہے کہ رواں سال کے اختتام سے پہلے ویکسین کی پہلی خوراک پوری آبادی کو لگانا ناممکن عمل ہو اور پھر برطانوی حکومت نے پوری آبادی کی ضرورت سے زیادہ ویکسن بک کر لی ہے ۔ برطانوی عوام کی جانب سے ویکسین پروگرام کو مکمل سپورٹ دی جارہی ہے اور جیسے جس کا نمبر آتا ہے وہ ویکسین لگوا لیتا ہے لیکن ایک بات جو برطانوی حکومت کو پریشان کر رہی ہے وہ اقلیتی اور ایشیائی آبادی کی جانب سے ویکسین نہ لگوانا ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق برطانیہ کی اقلیتی کمیونٹی جس میں ایشیائی کمیونٹی بھی شامل ہے ویکسین لگوانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہے اور اس کے پیچھے وہی عوامل ہیں جو ویکسین کو سازش کا شکار کرنا چاہتے ہیں کیونکہ کورونا ایسے عناصر کیلئے فائدہ کمانے کا بہترین موقع ہے ۔ جب کورونا کی شروعات ہوئی تھی تب ایسے عناصر نے ان خبروں کو خوب ہوا دی تھی کہ یہ وبا سال دو سال نہیں بلکہ لمبے عرصے تک رہنے والی ہے اور اب دنیا بھر کے لوگوں کی زندگیاں اسی کے مطابق چلیں گی ۔ لیکن گزشتہ سال ختم ہونے سے پہلے ہی کورونا ویکسین کا بن جانا ان عناصر کو ذرا نہیں بھایا، انھیں ہضم ہی نہیں ہوا کہ اتنی جلدی ویکسین بن جائے گی اور اس سے بھی زیادہ تیزی سے دنیا میں پھیلائی بھی جاسکے گی ۔ اس لئے جب ان کا یہ حربہ ناکام ہوگیا تب انھیں کورونا ویکسین کے بارے میں منفی افواہیں پھیلانے کا موقع ملا اورمین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے کورونا ویکسین کے نقصانات کے بارے میں افواہیں پھیلانے کا کام شروع کردیا گیا ۔ ان افواہوں میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والی افواہ اس ویکسین سے انسانی جینیات میں تبدیلی کی ہے کیونکہ کورونا ویکسین ایم آراین اے ویکسین کہلاتی ہے جس پر سائنسدان پہلے سے ریسرچ کر رہے تھے لیکن اس کا استعمال اب کورونا سے نمٹنے کیلئے کیا جارہا ہے کیونکہ مطالعہ بتا تا ہے کہ ایم آر این اے ویکسینز انسانی جسم کے مداٖفعتی نظام کو کورونا جیسے وائرس سے نمٹنے کیلئے تیار کرتی ہے البتہ اس ویکسین میں ایسی کوئی خصوصیات نہیں ہے جوانسانی جینیات میں کسی قسم کی تبدیلی کر سکے لیکن ان کا استعمال پہلی بار کیا گیا ہے ۔ یہاں یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ اتنی جلدی ویکسین تیار کیسے ہوگئی ۔ اس کا جواب ہے جدید دور میں ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ ممکن ہوا ۔ پہلے جب کوئی وبا یا بیماری آتی تھی تب اس کی ویکسین تیار ہونے میں وقت اس لئے زیادہ صَرف ہوتا تھا کیونکہ آج کی طرح ریسرچ کے تیز طریقے موجود نہیں تھے ۔ آج گھنٹوں کا کام منٹوں میں کرنا ناممکن نہیں رہا ہے۔ اس لئے ایسی ویکیسنز پر ریسرچ کرنے والوں کیلئے آسان ہوگیا ہے کہ وہ جلد ہی کسی ویکسین کو تیار کرنے کی ہر ممکن کوشش کو بروئے کار لا سکتے ہیں ۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ ویکسین کو ٹرائل کے جتنے مراحل سے گزرنا ہوتا ہے ان کو ضرور چھوڑاگیا ہو کیونکہ کورونا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور یہ ضروری ہوگیا تھا کہ جلد از جلد یہ ویکسین لوگوں کو لگائی جائے تاکہ اس وبا پر قابو پانا آسان ہو جائے ۔ برطانیہ میں آبادتمام کمیونٹیز کو وہم سے دور رہ کر اپنی باری آنے پر اس ویکسین سے استفادہ کرنا چاہیے کیونکہ سب کی مشترکہ کوششوں سے ہی اس عالمی وبا کو ختم کرنا ممکن ہوسکتا ہے ۔