جل ترنگ قہقہے، کھنکھناتی ہنسی

March 07, 2021

……نیّر کاشف……

جل ترنگ قہقہے،کھنکھناتی ہنسی

گونجتے تھے ،جو کالج کے دیوار و دَر میں کبھی

اب کہاں ہوں گی وہ چُلبلی لڑکیاں

بات ،بے بات ہنستی ہوئی

ڈائری میں پسندیدہ اشعار لکھتی ہوئی

ایک دوجے کو غزلیں سُناتی ہوئی لڑکیاں

گنگناتی ہوئی لڑکیاں، وہ حسیں لڑکیاں

حالِ دل کو درختوں پہ تحریر کرتی ہوئی

روٹھتی اور مناتی ہوئی

مُسکراتی ہوئی لڑکیاں

سوچتی ہوں کہاں ہوں گی اب؟

زندگی کی الجھتی ہوئی ڈور میں خود بھی الجھی ہوئی

اپنے رنگوں سے گھر کو سجاتی ہوئی

خواہشوں کا گلا گھونٹ کر مُسکراتی ہوئی

اپنے خوابوں کو پورا نہ ہوتے دیکھ کر ڈگمگاتی ہوئی،ٹوٹ جاتی ہوئی

خون سے اپنے شمعیں جلاتی ہوئی

کیا خبر یہ بھی ہو

کچھ کے بالوں میں چاندی اُتر آئی ہو

اور وہ اب تلک گھر کی چوکھٹ پہ آنکھیں لگائے ہوئے

ایک شہزادے کی منتظر ہو کہیں

کیا خبر کہ کوئی

تمکنت سے کسی میز کے پیچھے بیٹھی ہوئی

ایک کے بعد ایک فائل پہ دستخط کر کے تھک جاتی ہو

شام ہونے کو ہو

وہ گھڑی دیکھتی اور مُسکاتی ہو

اور شاید کوئی،گھر کے،باہر کے ،سب کام نمٹاتی ہو

اپنے بچّوں کو پہلو میں لے کر وہ خود اُن سے پہلے ہی سو جاتی ہو

سوچتی ہوں کہ میری طرح

روزمرّہ کے کاموں میں الجھے ہوئے

یاد ان کو بھی آتے تو ہوں گے وہ کالج کے دیوار و دَر

جل ترنگ قہقہے،کھنکھناتی ہنسی

سوچتی ہوں کہ میری طرح

یاد ان کو بھی آتے تو ہوں گے!!