ملازمت پیشہ خواتین...

March 07, 2021

پیرزادہ شریف الحسن عثمانی ،سکھر

مَردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے والی ملازمت پیشہ خواتین کو درپیش مشکلات کا احساس بہت کم لوگ ہی کر پاتے ہیں۔ درحقیقت یہ خواتین دہری پریشانیوں کا شکار ہوتی ہیں۔ ایک طرف انہیں حصولِ رزقِ حلال کے سلسلے میں گھر کی محفوظ چاردیواری سے باہر نکل کر زمانے کے سرد و گرم سے ’’مَردانہ وار‘‘ نبرد آزما ہونا پڑتا ہے، تو دوسری طرف گھریلو ذمّے داریوں کی بجا آوری بھی یقینی بنانا ہوتی ہے۔

اگر ان حالات پر نظر ڈالی جائے، جو ملازمت پیشہ خواتین کو درپیش ہیں، تو لامحالہ ان کے صبر و ضبط اور عزم و ہمّت کے لیےدِل میں تحسین و تکریم کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ گھر سے باہر پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کیا جائے، تو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا آمد و رفت کے دوران کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ ایسے اداروں کی تعداد کم ہی ہے، جو خواتین کو سفری سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ سو، جائے ملازمت تک جانا اور واپس گھر پہنچنا ایک صبر آزما مرحلہ بن جاتا ہے۔ اور ایسے میں اگر ان کے ساتھ کوئی معمولی سا بھی ناخوش گوار واقعہ پیش آجائے، تو وہ شدید ڈر وخوف کا شکار ہوجاتی ہیں۔

پیشہ ورانہ ذمّے داریوں کے ساتھ اضافی امور کا بوجھ، کولیگز کا غیر اخلاقی رویّہ، عوام کا نامناسب برتاؤ، مَردوں کی نسبت کم اجرت اور ان جیسے دیگر مسائل کا سامنا ہر ملازمت پیشہ خاتون کو کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی حد تک بہرحال کرنا ہی پڑتا ہے۔ ایک اور اہم مسئلہ وقت کی تقسیم کا ہے۔ کوئی خاتون چاہے گھر اور خاندان کے اخراجات کا بوجھ بانٹنے کی غرض سے ملازمت اختیار کرے یا اپنے شوق کی تکمیل کی خاطر، بلا تخصیص اس کی گھریلو ذمّے داریاں جوں کی توں رہتی ہیں۔

حضرات دفتر سے گھر لوٹیں، توان کی خواہش ہوتی ہے کہ دروازے پر ان کا استقبال کیا جائے، تبدیل کرنے کے لیے لباس پہلے سے موجود ہو، آتے ہی چائے کی پیالی خدمت میں پیش کردی جائے اور پھر کچھ دیر ’’نو ڈسٹرب‘‘ کا اعلان فرما کر سستا بھی لیا جائے، لیکن خواتین کام سے لوٹنے پر اس قسم کی کسی ’’عیاشی‘‘ کا تصوّر تک نہیں کر سکتیں، کیوں کہ بکھرا ہوا گھر سمٹنے اور کچن میں برتنوں کا انبار دھلنے کے لیے جو موجود ہوتا ہے۔

سو، گھر داخل ہوتے ہی روایتی کردار نبھانے کے لیے جُت جانا از بس ضروری ہوجاتا ہے۔ اس کے باوجود کسی بھی ممکنہ تاخیر کی صُورت میں بلارعایت ڈانٹ پڑنے کے قوی امکانات بہرکیف موجود ہوتے ہیں۔اِسی طرح کا معاملہ چُھٹی والے دِن کا بھی ہے۔ عموماً مَرد دیر تک سو کر، دوستوں کے ساتھ میل ملاپ، گپ شپ، تفریح اور دیگر مشاغل میں وقت گزار کر چھٹی منانا اپنا حق سمجھتے ہیں، جب کہ زیادہ تر خواتین کو چھٹی والے دِن معمول سے بھی جلد اُٹھنا پڑتا ہے۔ ہفتے بَھر کے کپڑے دھونے، گھر کی تفصیلی صفائی ستھرائی، بچّوں اور شوہر کی فرمایشی پکوان تیار کرنے جیسے کئی امور انجام دینے ہوتے ہیں۔ یوں چُھٹی کا دِن آرام وسُکون کی بجائے معمول کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھکا دینے والا ہوتا ہے۔

اس ’’مشینی کارکردگی‘‘ کے باوجود ملازمت پیشہ خواتین سے اہلِ خانہ نالاں ہی رہتے ہیں کہ اُنہیں وقت ہی نہیں ملتا۔ شوہر کو شکایت رہتی ہے کہ گھر کی صفائی ستھرائی پر توجّہ نہیں دی جارہی، آنے جانے والوں کا گلہ ہوتا ہے کہ ہم آتے ہیں، تو تم اپنے کاموں میں لگی رہتی ہو، بالکل لفٹ نہیں کرواتی۔ عریز، رشتے دار اس بات پر شاکی رہتے ہیں کہ فون پر بات نہیں کرتی۔ یہ اُن حالات کا ایک دھندلا سا خاکہ ہے، جن کا سامنا ملازمت کرنے والی بیش تر خواتین کو کرنا پڑتا ہے۔ ان حالات سے اگر مَردوں کو دوچار ہونا پڑجائے، تو ان کی پیشہ ورانہ کارکرگی صفر ہو کر رہ جائے۔ جب کہ خواتین ان حالات میں بھی اپنی دفتری ذمّے داریوں کو بطریقِ احسن پورا کرتی ہیں ۔

علاوہ ازیں، خواتین کارکنان ذہنی اور جذباتی طور پر بھی الگ الگ قسم کی صُورتِ حال کا مقابلہ کرتی ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بیوی کا عہدہ یا تن خواہ زیادہ ہونے پر شوہر کی مردانہ انا کو ٹھیس پہنچ جاتی ہے، جس کی تسکین کے لیے وہ بیوی کو دیگر معاملات میں نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ میاں اگر شکی مزاج ہو، تو بیوی کو ہر روز کٹہرے میں کھڑے ہو کر طرح طرح کے معاملات میں صفائیاں پیش کرنی پڑتی ہیں۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر شوہر ملازمت پیشہ بیوی کی ذاتی ضروریات و اخراجات سے بری الذمّہ ہوجاتے ہیں۔ اُلٹا اخراجات کی اضافی ذمّے داریاں انہیں سونپ دی جاتی ہیں۔ ایک عجیب صُورتِ حال تب سامنے آتی ہے، جب گھر یا دفتر میں سے کسی ایک جگہ پر کسی خاتون کو کارکردگی پر پذیرائی ملتی ہے، تو دوسری جانب سے حوصلہ شکنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دفتر سے سند ملتی ہے کہ ’’اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر آپ کو قبل از وقت ترقّی دی جارہی ہے۔ آپ جیسی محنتی، مخلص اور قابل کارکن کسی بھی ادارے کے لیےسرمایۂ افتخار ہیں‘‘ تو گھروالوں سے سُننے کو ملتا ہے،’’تم بہت زیادہ لاپروا اور غیر ذمّے دار ہو، کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرتی، کچھ سلیقہ سیکھ لو۔‘‘اس دہری صورتِ حال میں کس طرح کا ذہنی دباؤ پیدا ہوسکتا ہے، بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اپنا آرام و سُکون، خواہشات، مشاغل اور تفریح کا ہر سامان قربان کرکے اپنے گھر اور گھروالوں کے حالات کی بہتری کے لیے دِن رات محنت و مشقّت کی چکّی میں خود کو پیسنے والی خواتین بجا طور پر عزّت و تکریم کی حق دار ہیں، لیکن افسوس کہ زیادہ ترافرادان کے ایثار کی قدر و قیمت سے آگاہ نہیں ہوتے۔