ایف اے ٹی ایف: پاکستان پر تلوار کب تک لٹکتی رہے گی؟

March 07, 2021

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس( ایف اے ٹی ایف) نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کو گِرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ فیصلہ اُس وَرچوئل اجلاس میں کیا گیا، جو 21سے 25 فروری تک جاری رہا۔اِس بار کورونا وبا کی وجہ سے آن لائن اجلاس منعقد کیا گیا تھا۔ٹاسک فورس کے سربراہ نے اجلاس کے اختتام پر فیصلہ سُناتے ہوئے کہا کہ’’ پاکستان نے 27 میں سے 24 نکات پر کام یابی سے عمل کیا ہے۔‘‘اُنہوں نے پاکستان کی کوششوں کو زبردست طریقے سے سراہا اور بتایا کہ اسے مزید چار ماہ دیے گئے ہیں تاکہ وہ باقی تین اہداف بھی حاصل کر سکے۔

اِس اجلاس میں پاکستان کی جانب سے اُن چھے نکات پر عمل درآمد کی تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی، جن پر ایف اے ٹی ایف نے گزشتہ سال اکتوبر میں ہونے والے اجلاس میں عمل کرنے کو کہا تھا۔ادارے کی اکتوبر کی رپورٹ میں اسلام آباد کی کارکردگی کا اعتراف کیا گیا اور ساتھ ہی اِس بات کی بھی نشان دہی کی گئی کہ پاکستان نے ادارے کے تجویز کردہ روڈ میپ پر بھرپور طریقے سے عمل کیا ہے، تاہم اُس وقت بھی یہی بتایا گیا تھا کہ چھے نکات پر بہتر کارکردگی کے باوجود مزید اقدامات ضروری ہیں اور اس کے بعد ہی اسے گِرے لسٹ سے نکالنا ممکن ہوگا۔ اب معاملہ جون تک چلا گیا ہے۔

ایف اے ٹی ایف 40 ارکان پر مشتمل ادارہ ہے، جسے دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے والی رقوم اور ذرائع پر کنٹرول میں مدد کے لیے قائم کیا گیا ہے۔مَنی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد روکنے کے لیے ایف اے ٹی ایف نے جو 40 سفارشات مرتّب کیں ، اُنہیں انٹرنیشنل کارپوریشن ریویو گروپ، جو اِس کی ایک ذیلی تنظیم ہے، دیکھتا ہے۔نومبر 2017ء میں ارجنٹائن میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کا کیس پہلی مرتبہ اُس کے سامنے آیا اور پھر 2018 ء میں اُسے گِرے لسٹ میں ڈال دیا گیا۔اُس وقت کے وزیرِ خزانہ، مفتاح اسماعیل نے پاکستان کا نام اِس لسٹ سے خارج کرنے کی استدعا کی تھی، تاہم اُن کی درخواست مسترد کردی گئی۔

اِس وقت پاکستان سمیت دنیا کے 18 ممالک ایف اے ٹی ایف کی گِرے لسٹ میں شامل ہیں، جب کہ دو مُلک، ایران اور شمالی کوریا اس کی بلیک لسٹ میں ہیں۔کسی بھی مُلک کا بلیک لسٹ میں جانا اُس کے لیے بڑی مشکلات کا باعث ہوسکتا ہے، کیوں کہ اس کے براہِ راست اثرات مُلکی معیشت پر پڑتے ہیں۔ایف اے ٹی ایف کی جانب سے بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کے بعد بیرونی سرمایہ کاری پر شدید ضرب پڑتی ہے، کیوں کہ ایسے مُلک کو کوئی قرض دینے یا وہاں سرمایہ کاری پر تیار نہیں ہوتا۔وجہ ظاہر ہے، اُنہیں شک ہوتا ہے کہ کہیں یہ رقم دہشت گردی اور مَنی لانڈرنگ میں تو استعمال نہیں ہو رہی؟

ایسے مُلک کے ساتھ ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بلیک لسٹ میں جانے کے بعد عالمی اور علاقائی مالیاتی اداروں کی جانب سے بھی امداد اور سرمایہ کاری رک جاتی ہے، کیوں کہ یہ تمام ادارے، ایف اے ٹی ایف کی رپورٹ کو معتبر جانتے ہوئے اُس مُلک سے اقتصای روابط قائم کرنا پسند نہیں کرتے۔اس طرح بڑے منصوبے تو تقریباً ختم ہی ہوجاتے ہیں اور نئے منصوبے شروع نہیں ہوسکتے۔پھر ماحولیات، صحت، تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کی مَد میں ملنے والی امداد سے بھی ایسے ممالک محروم رہتے ہیں۔

پاکستان کی پوری کوشش ہے کہ اُسے گِرے لسٹ سے نکال دیا جائے اور اس مقصد کے لیے وہ انتہائی سنجیدگی سے کام بھی کر رہا ہے، جس کا اعتراف ادارے کی جانب سے حالیہ اجلاس میں بھی کیا گیا۔ادارے کی جانب سے اسے 27 اہداف دیے گئے ، اُن میں سے پہلے 21 اور اب 24 نکات پر عمل درآمد ہوچُکا ہے۔ اِسی لیے بھارت کی جانب سے تمام تر سازشوں کے باوجود پاکستان کو بلیک لسٹ میں نہیں ڈالا گیا۔ پاکستان نے اقوامِ متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے گئے افراد پر پابندی لگانے کے علاوہ، اس سلسلے میں قانون سازی بھی کی ہے، جسے حکومت کی جانب سے ایک بڑی کام یابی قرار دیا گیا۔یقیناً یہ ایک بڑی کام یابی ہے اور اِس کا ثبوت آئی ایم ایف سے ہونے والا معاہدہ ہے۔

پاکستان اِس وقت آئی ایم ایف جیسے عالمی ادارے کے قرضہ پروگرام میں شامل ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ آئی ایم ایف، پاکستان کی پیش رفت کو تسلّی بخش سمجھتا ہے، تب ہی تو اُس نے اپنے پروگرام کو مزید وسعت دینے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔ اِسی طرح عالمی بینک، ایشیائی ترقّیاتی بینک اور دوسرے مالیاتی ادارے بھی پاکستان کو قرضے فراہم کرتے ہیں۔نیز، پاکستان پر کسی قسم کی پابندیاں بھی نہیں لگیں، جو ایک حوصلہ افزا بات ہے۔ایف اے ٹی ایف کی رپورٹ ایشیا پیسیفک گروپ کی طرف سے پیش کی گئی۔گو کہ اس ادارے کو خالصتاً ایک’’ ٹیرر فنانسنگ واچ ڈاگ‘‘ کہا جاتا ہے، لیکن اس کی پالیسیز میں بہرحال عالمی تبدیلیاں، سیاسی صُورتِ حال اور مُلکوں کے باہمی روابط بھی اپنا اثر دِکھاتے ہیں۔

بھارت کی مسلسل کوشش رہی کہ وہ دہشت گردی کے الزامات کے ذریعے پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈلوا دے۔ اِس سلسلے میں وہ لابنگ میں اپنے بڑے مُلک اور ایک اقتصادی قوّت ہونے کو بھی کُھل کر استعمال کرتا ہے۔بہت سے مُلک اس کے زیرِ اثر بھی ہیں، شاید اِسی لیے پاکستان کو گِرے لسٹ سے نکلنے میں دشواری کا سامنا ہے اور گزشتہ وہ دو سال سے اس کی مانیٹرنگ سے نکل نہیں پا رہا، حالاں کہ اس کے اقدامات کی ایف اے ٹی ایف کے رُکن ممالک کی جانب سے تعریف بھی کی جاتی ہے۔پاکستان کو چین، ملائیشیا اور تُرکی کی بھرپور حمایت حاصل ہے، اِسی لیے بھارت اپنے تمام تر دبائو کے باوجود بلیک لسٹ کا خواب پورا نہیں کرپاتا۔

امریکا اور مغربی ممالک کی صُورتِ حال بین بین ہے، وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اُن کی مکمل تسلّی کروائے۔ سُپر پاور ہونے کی وجہ سے امریکا اس ادارے میں بھی اہم کردار کا حامل ہے۔صدر ٹرمپ کے دَور میں پاکستان نے نہ صرف اپنے مُلک میں بہت سے ایسے اقدامات کیے، جن کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔ اُس نے اُن دہشت گردوں کو قید کیا اور اُن کے اکائونٹس منجمد کیے، جنہیں اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے دہشت گرد قرار دیا تھا۔پھر دو جانب اور بھی پیش قدمی کی گئی ہے۔ایک تو مُلک بھر میں گزشتہ چار برس سے دہشت گردی کے خلاف آپریشن جاری ہے، جس کے نتیجے میں کراچی جیسا وسیع وعریض شہر اب امن وامان کے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر آچُکا ہے، جب کہ قبائلی اور دیگر علاقوں میں بھی دہشت گردوں کی تیزی سے بیخ کنی جاری ہے۔

اس جدوجہد کے نتیجے میں ماضی کے مقابلے میں دہشت گردی کے واقعات کی تعداد خاصی کم ہوچُکی ہے، جس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اب عالمی سطح کی ٹیمز اور کھلاڑی یہاں مقابلوں میں شرکت کے لیے آنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔امن وامان کی یہ منزل حاصل کرنے کے لیے عوام اور سیکیوریٹی اداروں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس راہ میں ہزاروں جانیں قربان ہوئیں، اِسی لیے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان فرنٹ لائن اسٹیٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان نے ٹرمپ کے دَور میں افغانستان میں قیامِ امن کے لیے بنیادی کردار ادا کیا۔ دوحا مذاکرات تو شاید ممکن ہی نہ ہوتے، اگر پاکستان کی بھرپور سہولت کاری اس میں شامل نہ ہوتی۔طالبان پر اسلام آباد کے اثرات تو ہیں، لیکن اِتنے بھی نہیں کہ وہ جو چاہے، اُن سے کروا لے۔

لہٰذا، اِس معاملے میں ڈپلومیسی اور دبائو ،دونوں ہی بروئے کار لانے پڑے۔ اگر اِس پس منظر میں دیکھا جائے، تو پاکستان نے امریکا کو افغانستان سے نکلنے کے لیے راستہ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔طالبان اور امریکا، پھر طالبان اور اشرف غنی حکومت کے درمیان امن معاہدے، حکومت میں شمولیت، امریکی فوج کی واپسی کے بعد کی حکمتِ عملی میں پاکستان کا کردار نہایت اہم ہے۔تاہم،جوبائیڈن حکومت اپنی افغان پالیسی کا ازسرِنو جائزہ لے رہی ہے۔

یوں لگتا ہے کہ جو بائیڈن کے خارجہ امور کے مینیجرز مِڈل ایسٹ میں کچھ زیادہ ہی جلدی میں ہیں اور باوجود یہ کہ امریکا نے اسی ہفتے کووِڈ۔19 سے ہونے والی پانچ لاکھ اموات کا غم منایا، اپنی خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو میں مصروف ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، ایران اور بین الاقوامی ایٹمی ایجینسی کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے تحت ایران اُس کے نمایندوں کو اپنی ایٹمی تنصیبات کے معاینے کی اجازت دے گا۔جوبائیڈن انتظامیہ اِس بات کا عندیہ دے چُکی ہے کہ امریکا، ایران کے ساتھ دوبارہ ایٹمی معاہدے میں شمولیت پر غور کرے گا۔یاد رہے، ٹرمپ نے اس معاہدے سے اپنے یورپی اتحادیوں کی درخواست کے باوجود نکلنے کو ترجیح دی تھی، کیوں کہ اُن کے مطابق ایران، مشرقِ وسطیٰ میں دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے، جب کہ ایران ان الزامات کو مسترد کرتا آیا ہے۔

جوبائیڈن اور اُن کے سیکریٹری آف اسٹیٹ کا اصرار ہے کہ ایران پہلے یورینیم افزودگی کی سطح کو وہیں لے آئے، جو معاہدے میں طے پائی تھی اور اُس نے اُسے تسلیم بھی کیا تھا۔ یہ سطح پانچ فی صد تھی، لیکن ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے بعد ایران نے نہ صرف یورینیم افزودگی بڑھا کر 25 فی صد تک کر دی، بلکہ ایٹمی ایجینسی کے انسپکٹرز کو تنصیبات کے معاینے سے بھی روک دیا۔ جوبائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے بعد ایران، امریکا کی طرف سے مثبت اقدامات کا انتظار کرتا رہا ہے، جن میں پابندیوں کا معاملہ سرِفہرست ہے، لیکن صدر جوبائیڈن کی جانب سے یوٹرن لینا سیاسی طور پر مشکل ہے، غالباً اِسی لیے اُنہوں نے درمیان کی راہ نکالی ہے کہ ایٹمی ایجینسی کے ماہرین کی جانب سے معاینے کے بعد اس طرف پیش رفت کی جائے۔

مشرقِ وسطیٰ میں ٹرمپ کے آخری زمانے میں جس طرح کی انقلابی تبدیلیاں آئیں، وہ بھی جوبائیڈن کو فوری پیش رفت سے روکتی ہیں۔اِس وقت امریکا کے قریبی حلیف سعودی عرب سے لے کر یو اے ای تک، اسرائیل کے ساتھ نہ صرف رابطے میں ہیں، بلکہ کئی ممالک نے اُس سے سفارتی تعلقات بھی قائم کرلیے ہیں۔اُدھر، قطر کے سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے تعلقات بحال ہوچُکے ہیں۔اِن حالات میں امریکا کے لیے مشکل ہوگا کہ وہ فوری طور پر کسی ایسے معاہدے میں شامل ہو، جس پر اُس کے دونوں قریبی اتحادیوں یعنی عرب اور اسرائیل کو شدید قسم کے تحفّظات ہوں ۔اب اوباما جیسا دَور بھی نہیں، جب مشرقِ وسطیٰ ایک جہنّم بنا ہوا تھا۔

شام کی خوف ناک خانہ جنگی، یمن کی جنگ اور داعش کا تیزی سے سامنے آنا دنیا کے لیے دردِ سر تھا۔اب ان میں سے دو محاذ تو ختم ہوچُکے ہیں اور تیسرے محاذ، یعنی یمن کی جنگ سے خود سعودی عرب بھی تنگ آچُکا ہے۔امریکا کے لیے اِس جنگ میں ایران کی جانب سے حوثی باغیوں کی مدد کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوگا، اِس لیے بھی اُسے ایران کی جانب سے یقین دہانیوں کی ضرورت پڑے گی۔ یہ بھی یاد رہے، یہ سال کورونا وائرس کے اثرات سے نکلنے کا ہے۔مِڈل ایسٹ نے بھی اِس وبا کے ہاتھوں بہت نقصان برداشت کیا۔ اِن متاثرہ ممالک میں عرب اور سرائیل کے ساتھ ایران بھی شامل ہے۔جوبائیڈن انتظامیہ کو اس خطّے میں دو چیلنجز کا سامنا ہے۔

ایک تو یہ کہ افغانستان سے فوج کی واپسی کیسے ممکن بنائی جائے؟طالبان کو تشدّد سے کیسے روکیں گے اور اشرف غنی کو کیسے راضی کیا جائے کہ وہ طالبان کو حکم رانی میں شریک کرلیں۔اِس معاملے پر اشرف غنی کا حالیہ بیان بھی اہم ہے، جس میں اُنھوں نے کہا کہ’’ افغانستان، ویت نام نہیں۔‘‘اُن کا مطلب یہ تھا کہ فوج کی واپسی کو سیاسی عمل سے مشروط نہیں کیا جاسکتا۔دوسری جانب، امریکا کے لیے ایران سے ایٹمی معاہدہ بھی ایک اہم چیلنج ہے، جس میں عرب اور اسرائیل کے تحفّظات بھی سامنے رکھنے ہوں گے۔