کامیابی کے لیے وقت اور محنت کی سرمایہ کاری کرنا پڑتی ہے

March 07, 2021

بات چیت: سعید نیازی

دنیا بھر میں آباد پاکستانی جہاں اپنی صلاحیتوں اور اَن تھک محنت سے ترقّی کے زینے طے کر رہے ہیں، وہیں اپنے مُلک کا نام بھی روشن کر رہے ہیں۔ ایسے ہی قابلِ تقلید پاکستانیوں میں ایک نمایاں نام، جرمنی میں مقیم سجّاد خان کا بھی ہے، جو کار انڈسٹری کے معروف ترین برانڈ،’’ مرسڈیز بینز اے جی‘‘ کے ڈویژنل بورڈ ممبر اور ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ ہونے کے ساتھ Case Organionکے سربراہ بھی ہیں۔’’ Connected Autonomous Shared And,Electric ‘‘ اِس ہونہار پاکستانی سپوت کے ساتھ گزشتہ دنوں ہماری ایک مختصر نشست ہوئی، جس میں اُنھوں نے اپنی تعلیم، ابتدائی ایّام اور خاندان سے لے کر مرسڈیز میں اعلیٰ عُہدے تک پہنچنے کی جدوجہد سے آگاہ کیا۔

سجّاد خان نے خاندان اور تعلیم سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا’’ میرے والد پاکستان ایئر فورس میں تھے، اِس لیے ابتدائی تعلیم پاک فضائیہ کے اسکولز میں مکمل ہوئی۔ اس کے بعد این ای ڈی یونی ورسٹی سے منسلک انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹری الیکٹرانکس انجینئرنگ، کراچی سے بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں، کام کے سلسلے میں دبئی اور سعودی عرب جانے کا اتفاق ہوا۔نیز، ماسٹرز ڈگری کے حصول کے لیے کینیڈا، جرمنی اور امریکا میں مقیم رہا۔سچ تو یہ ہے کہ مَیں کوئی بہت زیادہ لائق طالب علم نہیں تھا۔

ساتویں کلاس میں والد نے ریاضی کی مشق کروائی، تو پڑھائی میں دل چسپی بڑھی، لیکن پھر بھی آئوٹ کلاس اسٹوڈنٹ نہیں تھا۔‘‘’’ مرسڈیز سے کب منسلک ہوئے؟‘‘ اِس سوال پر اُنھوں نے بتایا’’2001ء میں جرمنی آیا اور چار، پانچ سال مرسڈیز کے ساتھ کام کرتا رہا۔ 2007ء میں ماگنا (Magna) کے ای کار سسٹم میں بطور مینیجنگ ڈائریکٹر خدمات سرانجام دیں۔ 2011ء میں بی ایم ڈبلیو گروپ کے میونخ میں کنیکٹڈ ڈرائیورنگ کے شعبے میں وائس پریذیڈنٹ کے طور پر کام کیا۔ 2015ء میں دوبارہ مرسڈیز کو بطور وائس پریذیڈنٹ برائے ڈیجیٹل وہیکل اینڈ موبیلٹی جوائن کیا۔ 2017ء میں چیف ٹیکنیکل آفیسر Case,Daimle,AG, Stuttgar Caseبنادیا گیا، جب کہ2018ء میں ڈویژنل بورڈ ممبر اور ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ کے عُہدے پر ترقّی دی گئی۔‘‘سجّاد خان کی چوں کہ پاکستان کے ساتھ گہری وابستگی ہے، تو اِسی تناظر میں پوچھے گئے ایک سوال پر اُنھوں نے کہا’’ کراچی اور پاکستان کے ساتھ اب بھی گہرا رشتہ قائم ہے۔ والدین ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔

پاکستان کا چکر لگتا رہتا ہے، خواہ چند دنوں ہی کے لیے کیوں نہ جاؤں، لیکن اِس مرتبہ کوِوڈ کے سبب وقفہ طویل ہوگیا ہے۔‘‘ گاڑیوں کی بجلی پر منتقلی کے حوالے سے اُنہوں نے بتایا’’ مرسڈیز بھی تیزی سے الیکٹرک کارز کی طرف جا رہا ہے۔ اِس حوالے سے عالمی سطح پر جو تبدیلیاں رُونما ہو رہی ہیں، اُنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور مرسڈیز اِن تبدیلیوں کے حوالے سے بہت پُرجوش ہے۔ مرسڈیز ایک ایسا عالمی برانڈ ہے، جس کی کاروں کی مانگ چین، جنوبی کوریا، امریکا، یورپ، لاطینی امریکا اور دنیا کے دیگر ممالک میں یک ساں طور پر ہے۔

ہم اِس وقت پیٹرول سے الیکٹرک کی طرف منتقلی کے عمل سے گزر رہے ہیں، تاہم ہمارا ادارہ عالمی طلب دیکھ کر ہی پالیسیز طے کرے گا۔ مرسڈیز بہترین الیکٹرک کاریں مارکیٹ میں متعارف کروا رہی ہے۔ اِس سال جو ای کیو سی ماڈل الیکٹرک کار لانچ کی جارہی ہے، وہ ایک مرتبہ چارج ہونے کے بعد700کلو میٹر تک چلے گی۔ تاہم، پیٹرول سے چلنے والی کاروں کی پیداوار بھی فی الحال جاری رہے گی۔‘‘ ایم بی یو ایکس (MBUX) ٹیکنالوجی کے حوالے سے اُنہوں نے بتایا’’جب مَیں 2015ء میں مرسڈیز میں واپس آیا، تو لیڈنگ کنکیویٹی کے شعبے کی سربراہی کی، جس کے دَوران ہم نے کار ٹو کلاؤڈ ٹو آئی او ڈی (MBUX) دیا، یعنی مرسڈیز بینز میں نصب ہونے والی نئی ٹیکنالوجی۔ ایم بی یو ایکس کے ضمن میں پوچھے گئے ایک سوال پر انھوں نے بتایا’’ اس میں متعدّد نئی ٹیکنالوجیز یک جا کردی گئی ہیں۔ ایم بی یو ایکس ٹیکنالوجی کے تحت کار میں بیٹھے تمام افراد کے درمیان اسکرین پر فلم، میوزک اور نیوی گیشن کو شیئر کیا جاسکتا ہے۔ دوسری خُوبی یہ ہے کہ ڈیش بورڈ کے علاوہ ایک اضافی اسکرین میں بھی3ڈی ڈسپلے نظر آئیں گے، جن میں نالج اور انفارمیشن کو یک جا کردیا گیا ہے۔

سڑک اور کار کے تعلق کو خُوب صُورتی کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ تیسری خُوبی یہ ہے کہ کار، فنگر پرنٹس کے ذریعے بھی شناخت کر سکے گی، جس کے تحت تمام سیٹنگز مثلاً نیوی گیشن، سیٹس، لائسینس کی سیٹنگ صرف ایک سیٹ کو ٹچ کرنے سے ممکن ہوگی۔ ایم بی یو ایکس کے اجزا میں کلاؤڈ، اٹیچمنٹ اینڈ کنویٹی ایکو سسٹم، وہیکل انٹیلی جینس وغیرہ شامل ہیں۔

اگر آپ کار کی اسکرین ٹچ کرکے پوچھیں کہ مجھے ایک ہوٹل تلاش کرنا ہے، جس میں سوئمنگ پُول، وائی فائی اور دیگر سہولتیں موجود ہوں اور اس میں رات گزارنے کی رقم ایک سو سے لے کر150ڈالر تک ہو، تو کار فوراً اس کا نتیجہ آپ کے سامنے پیش کردے گی اور اس سرچ کے لیے کامبی نیشن فار کنکیویٹی کلاؤڈ، انٹیلی جینس آف دی کار، ڈیٹا پرو وائیڈر اور مشین ورکنگ پراسیس مل کر کام کریں گے۔‘‘

سجّاد خان کا کہنا تھا کہ جہاں مرسڈیز لگژری ڈرائیونگ کا دوسرا نام ہے، وہیں اسے مکمل طور پر محفوظ بھی بنایا گیا ہے،یعنی صرف کار میں بیٹھے افراد ہی نہیں، باہر کے افراد کی حفاظت کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔نیز،اسے چوری کرنا بھی ممکن نہیں کہ یہ مالک کی آواز اور فنگر پرنٹ سے آشنا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ مرسڈیز کوئی عام چیز نہیں، یہ مارکیٹ کی سب سے بہترین کار ہے، اسی لیے عام گاڑیوں سے منہگی بھی ہوگی، کیوں کہ بیسٹ آف دی بیسٹ لگژری کار چلانے کے لیے قیمت تو ادا کرنی پڑتی ہے۔ سواری کے لیے اے سے بی تک متعدّد کاریں موجود ہیں، لیکن مرسڈیز سے سفر کی صُورت میں آپ وہ اطمینان، فخر اور آسائش محسوس کرتے ہیں، جو کہیں اور نہیں مل سکتی۔ قدرت نے ہمیں جو محسوس کرنے کی جو صلاحیت دی ہے، ہم نے اُسے مشین کی شکل میں ڈھال کر کار کا حصّہ بنا دیا ہے۔

سجّاد خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے حوالے سے یہ تاثر عام ہے کہ یہ ڈاکٹرز اور انجینئرز ایکسپورٹ کرنے والا مُلک ہے۔ پاکستان میں ایجوکیشن سسٹم اچھا رہا ہے اور اب بھی اچھا ہی ہے۔ یونی ورسٹیز اور انسٹی ٹیوٹس میں مقابلہ جاری رہتا ہے۔ انٹرنیٹ پر بھی بہت کچھ موجود ہے۔ نئے پاکستانی انجینئرز اگر سخت محنت کریں، اپنے کام کو وقت دیں اور سیکھنے پر توجّہ مرکوز رکھیں، تو اُنہیں کام یابی ضرور ملے گی، کیوں کہ کام یابی کے لیے وقت اور محنت کی سرمایہ کاری کرنی پڑتی ہے۔ مَیں خود کو دیکھتا ہوں کہ20سال پہلے کہاں تھا، آج کہاں ہوں اور20سال کے بعد کہاں ہوں گا؟ یہ بہت ضروری ہے کہ پاکستانی انجینئرز جب کسی دوسرے مُلک جائیں، تو وہاں کی جدید ٹیکنالوجی اور لوگوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

اُنہوں نے کہا کہ فارغ اوقات میں کتابیں پڑھتا ہوں اور کچھ انٹرنیشنل فرینڈز ہیں، اُن کے ساتھ رابطے میں رہتا ہوں۔ سائیکلنگ کا بے حد شوق ہے، میرے پاس مختلف اقسام کی8سائیکلز ہیں۔ یہ شوق اُس وقت سے ہے، جب4یا پانچ سال کا تھا اور پہلی سائیکل ملی تھی۔

اُنہوں نے کہا کہ میری کام یابی کا کریڈٹ والدین کو جاتا ہے اور یہ بات اِس لیے نہیں کہہ رہا کہ یہ ہمارا کلچر ہے۔ خوش قسمتی ہے کہ مجھے والدین نے اعتماد دیا اور مجھ پر یقین کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ نوجوانوں کے لیے کام یابی حاصل کرنے کا کوئی فارمولا تو نہیں بتاسکتا، لیکن اُنہیں یہی نصیحت کرنا چاہوں گا کہ کتابیں پڑھیں، دیانت داری سے محنت کریں اور والدین کی عزّت کریں۔سجّاد خان نے کہا کہ بدقسمتی سے مقامی طور پر اُن کا کوئی پاکستانی دوست نہیں ہے۔

بیگم جرمن ہیں اور بچّے جرمن اور انگریزی زبان بولتے ہیں۔ جرمنی میں مجھے اِس لیے اِتنی عزّت ملی کہ مَیں انجینئرنگ کی تعلیم لے کر آیا اور مَیں نے یہاں کی ثقافت کی عزّت کی۔ اُنہوں نے بتایا کہ رواں برس مرسڈیز لیول تِھری کار متعارف کروا رہے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اگر آپ60میل فی گھنٹے کی رفتار سے جا رہے ہیں اور آگے ٹریفک ہے تو کار خود بخود کنٹرول سنبھال لے گی۔یعنی یہ سیمی ڈرائیور کار ہوگی۔

تمام کام یابیوں کا سہرا والدین کے سر ہے

سجّاد خان نے بتایا کہ بچپن میں اُن کا دایاں پاؤں پولیو سے متاثر ہوا، لیکن والدین نے اِس مشکل کے باوجود بھرپور اعتماد دیا، لیکن اُنہوں نے اِتنی ہی مدد کی، جتنی کرنی چاہیے تھی، اتنی نہیں کہ مجھے کسی کم زوری کا احساس ہو اور زندگی میں کام یابیوں کے حصول میں رکاوٹ بنے۔ اِس لیے میں اپنی تمام کام یابیوں کا سہرا اپنے والدین کو دیتا ہوں، خصوصاً والدہ کو، جن سے اب بھی روزانہ فون پر بات ہوتی ہے۔

دنیا کی نظروں میں تو مَیں بہت بڑے عُہدے پر بیٹھا ہوں، لیکن مجھے ابھی بہت کچھ حاصل کرنا ہے۔ ہاں، یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ والدین کی عزّت اور محنت کرنے والوں کو ترقّی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

کمپیوٹر کے تحفے نے زندگی بدل دی

سجّاد خان نے بتایا کہ’’ مَیں میٹرک میں تھا، والد نے کہا کہ’’ اگر اے گریڈ آیا، تو موٹر سائیکل ملے گی۔‘‘ زمانۂ طالب علمی میں اپنی موٹر سائیکل کا ہونا کسی عیّاشی سے کم نہیں لگتا تھا، تو خُوب محنت کی اور جب نتیجہ آیا، تو میرا اے گریڈ آگیا، تاہم والدہ نے کہا کہ’’ موٹر سائیکل سے تو کوئی حادثہ ہوسکتا ہے۔‘‘ اس پر والد نے کہا’’ کوئی اور چیز پسند کرلو۔‘‘ پھر والدین ہی نے مجھے کمپیوٹر دِلا دیا، جس پر مَیں نے گیمز کھیلنے کی بجائے پروگرامنگ شروع کردی، وہ اُس وقت کا جدید ترین کمپیوٹر تھا، لہٰذا مَیں نے اُسی پر کام کرکے بیسٹ سافٹ ویئر میکر کا اعزاز بھی جیتا۔

آج بھی مَیں سافٹ ویئر کے حوالے سے اَپ ڈیٹ رہتا ہوں۔ مرسڈیز کے ٹاپ بورڈ میں بیٹھنے کے باوجود چند ایک چیزیں ہیں، جن کی اب بھی پریکٹس کرتا ہوں اور اُن میں پروگرامنگ بھی شامل ہے۔