ہمارے یہاں خواتین کی چوپال لگتی، افسانوں پر بحث مباحثہ ہوتا ہے

March 07, 2021

بات چیت … رؤف ظفر، لاہور

ماضی ہو یا عہدِ حاضر، خواتین لکھاریوں نے بھی مَردوں کے شانہ بشانہ فنونِ لطیفہ اور ادبِ عالیہ میں نام کمایا۔ اپنے افسانوں، ناولز اور شاعری سے اردو ادب کو مالامال کیا، لیکن سیّاحت اور سفر ناموں کی صنف میں جہاں گرد خواتین کی تعداد بہت محدود ہی رہی کہ آج بھی خواتین کے لیے مُلکوں مُلکوں کی سیر آسان نہیں۔ تاہم، 26سے زاید کتب کی مصنّفہ، سلمیٰ اعوان کو اس ضمن میں ایک خاص مقام حاصل ہے کہ اُن کا شمار اِنہی معدودے چند سیّاح خواتین میں ہوتا ہے۔نیز، اُن کے کریڈٹ پر 12سفرنامے بھی ہیں۔اسی حوالے سے ہماری گزشتہ دنوں سلمیٰ اعوان صاحبہ سے ایک خصوصی نشست ہوئی، جس کی تفصیل قارئین کی نذر ہے۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س: اپنے خاندان، ابتدائی زندگی اور تعلیم و تربیت سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: پیدائش تو مشرقی پنجاب کے شہر، جالندھر کی ہے، البتہ ہوش پاکستان آکر سنبھالا۔ میٹرک سائنس صدر چھائونی کے اسلامیہ گرلز ہائی اسکول سے کیا۔ دراصل امّاں بے چاری ڈاکٹر بنانے کے لیے مَری جاتی تھیں، مگر مجھے ریاضی اور سائنس سے چِڑ تھی۔ بی اے کے بعد بی ایڈ اور پھر کچھ عرصہ نوکری کی۔ پیسا جمع کیا اور ایم اے کرلیا۔ پھر ڈھاکا یونی ورسٹی پڑھنے چلی گئی۔ ہمارا گھر تضادات کا مجموعہ تھا، جہاں مختلف نظریات کے لوگ رہتے تھے۔ بڑے ماموں کا خاندان یعنی نصف ننھیال جماعتِ اسلامی سے منسلک تھا، تو ایک خالہ، خالو پکّے سوشلسٹ تھے، جن کی صبح’’ داس کیپٹل‘‘ کے اہم پہلوئوں کی اسلام سے موازنے سے شروع ہوتی۔

کھدّر پہنتے، تبلے ( برتن) موندھے مارتے اور چارپائیوں پر بیٹھ کر حافظ سعدی، شیکسپیئر اور ورڈز ورتھ سے عشق کرتے۔ البتہ گھر میں نظریاتی اور فکری رواداری بہت تھی۔ بحث مباحثوں میں تُو تُو، مَیں مَیں ضرور ہوتی، مگر اگر خالو شیو کرتے ہوئے ریڈیو سیلون پر پورے والیوم کے ساتھ ’’مجھے گلے سے لگا لو کہ بہت اداس ہوں مَیں‘‘، سُنتے تو کوئی دنگا فساد نہ کرتا۔والدین اَن پڑھ تھے۔ امّاں تو پھر بھی گلستان، بوستان گاؤں کے مکتب سے پڑھی ہوئی تھیں، مگر ابّا کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ وہ میری دادی اور پھوپھیوں کے بڑے لاڈلے تھے۔ دراصل، اُن کی پیدائش سے پہلے میری دادی کے تین بیٹے اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔

ایسے میں وہ ماں، بہنوں کی ہتھیلیوں کا پھپھولا کیسے نہ بنتے۔ بارہ سال تک اُن کی گودیوں میں چڑھے رہے۔ اسکول پڑھنے جاتے، تو میری دادی دس چکر لگاتیں۔ بیس بار منشی جی کے کان میں ڈالتیں کہ’’ بڑا منہگا پتر ہے جی۔‘‘ اب ایسے میں وہ دوسری جماعت میں تین بار اور تیسری میں چار بار فیل نہ ہوتے تو اور کیا کرتے؟پھر جب علم پاس ہو، نہ کوئی ہنر، تو مقدّر میں مزدوریاں ہی رہ جاتی ہیں۔ وہی ابّا کے ساتھ تھا۔ بڑے ماموں وغیرہ پاکستان آکر اہم عُہدوں پر فائز ہو گئے اور اپنے اِس قریبی رشتے دار کے اہلِ خانہ کو، جو اُن کا بہنوئی بھی تھا، اپنے بڑے سے گھر میں ایک کمرا اور باورچی خانہ دے دیا۔

س: بچپن کی کوئی خوش گوار یاد؟

ج: ایک بڑی کھٹّی اور میٹھی یاد ذہن میں مچل اُٹھی ہے۔ بڑی عید کا تہوار تھا، ہماری امیر نانی نے ہمیں ایک روپیا دیا۔ روپیا ہاتھ میں پکڑا، جہاں خوشی بے حساب تھی، وہیں یہ فکر بھی دامن سے آلپٹی کہ اُن دنوں امّاں اور نانی میں کچھ ناراضی تھی۔ ایسے میں اگر امّاں کو پتا چل گیا، تو نہ صرف ڈانٹ پڑے گی، بلکہ ہاتھ آئی رقم بھی واپس کرنی ہوگی۔سو، حل یہ سمجھ آیا کہ دبا جائو ساری بات۔ روپے کو بُھنوایا اور ریزگاری بڑی حکمتِ عملی سے لی۔ ایک اٹھنّی، ایک چونّی، تین آنے اور ایک آنے کے چار پیسے۔ ہمارے اکلوتے کمرے کے کونے میں پیٹی کے اوپر رضائیاں دَھری تھیں، نیچے والی رضائی کے کُھلے کنارے سے ہاتھ آگے لے جاکر دو پیسے رکھ کر باقی سارا خزانہ وہاں چُھپا دیا۔

اب ہر سو موجیں ہی موجیں تھیں۔ دولت کا خمار اور نشہ بھی کیا چیز ہے؟ پائوں زمین پر نہیں ٹکتے تھے۔ ہر روز پیسے نکالتی، ہر وہ چیز کھاتی، جسے کھانے کی حسرت رہتی تھی۔ امّاں کو تشویش سی ہوئی کہ یہ پیٹ بھر کر کھانا کیوں نہیں کھاتی؟’’ سو دن چور کے، ایک دن شاہ کا‘‘ کے مصداق ایک دن بھانڈا پھوٹ گیا۔ غلطی سے بھائی کو کھانے پینے میں شامل کر لیا تھا۔

اب امّاں باز پرس کریں تو کیسے؟ بھرا پُرا گھر۔ ساتھ لے کر باہر نکل آئیں۔ گلی سنسان تھی۔ ایک تھپڑ گال پر پڑا۔ پھر تھپڑ، ایک دھموکا، ایک گھونسا۔ سوال، جواب کی عدالت بھی سج گئی۔ آئینہ تو نہیں دیکھا، مگر یہ ضرور یاد ہے کہ آنسو اس روانی سے بہے کہ گلی میں اور کچھ نظر ہی نہیں آرہا تھا۔ نئی نویلی ساری چوڑیاں امّاں کے عتاب کی نذر ہو گئیں۔

مار سے بھی زیادہ ملال رقم کی واپسی کا تھا، جو نو آنے، دو پیسے پر مشتمل تھی۔ امّاں نے اُس میں باقی پیسے ڈال کر پورا روپیا نانی کو واپس کرتے ہوئے کہا’’منڈھ سے بیر اور شاخوں سے جپھیاں۔‘‘ دراصل، ہمارے ماموں اپنی چھے بہنوں میں تین سے چھوٹے تھے۔ بڑی بہنیں تو تقسیم سے قبل ہی رشتے داروں میں بیاہ دی گئیں۔ نئے مُلک میں ہماری نانی کے پڑھے لکھے، کنوارے افسر بیٹے بڑے عہدے پر فائز ہو گئے، جس پر نانی اور اسکول، کالج میں پڑھنے والی کنواری بہنوں کے مزاج ہی بدل گئے۔ مگر ہماری امّاں بڑی خود دار طبیعت کی مالک تھیں۔ اپنے شوہر کی 60 روپے تن خواہ میں گزارہ کرتیں اور کسی کا رُعب برداشت نہ کرتیں۔

س: بچپن میں شرارتی تھیں، سنجیدہ یا پڑھاکو؟

ج: شرارتی تو نہیں تھی اور شاید سنجیدہ بھی نہیں تھی۔ ہاں پڑھاکو ضرور تھی، مگر درسی کتب کے لیے نہیں۔ بچّوں کے رسائل، کوہِ قاف کی کہانیوں کے لیے۔ بازار کا کون سا ایسا دُکان دار تھا، جس کے پاس یہ کہانیاں ہوتیں اور مَیں اُس کی کرائے دار نہ ہوتی۔ دو، تین بار تو کرایہ بڑھ کر بارہ آنے تک پہنچ گیا۔ جمیل دُکان دار بھی ایسا کائیاں کہ اُدھار پر کہانیاں پڑھاتا رہا، جب معاملہ بارہ آنے تک پہنچ گیا، تو گھر آگیا۔

امّاں نے آئو دیکھا نہ تائو، لتّر اُتار کر اپنی اکلوتی بیٹی کی وہ چھترول کی کہ آج بھی مار سے زیادہ وہ ذلّت اور بے عزّتی یاد آتی ہے، جو اُس وقت مَیں نے محسوس کی۔ امّاں کی مار پیٹ اور سختی کی وجہ بھی آج سمجھ آتی ہے کہ مجھے ریاضی کا مضمون ذرا اچھا نہیں لگتا تھا۔ ایسی کوڑھ مغز تھی کہ دماغ میں بیٹھتا ہی نہیں تھا۔ مشکل سے 33نمبر لے کے پاس ہوتی، جب کہ گھر کی باقی لڑکیاں ریاضی میں اچھی تھیں، تو امّاں کا چیخنا چلانا تو بنتا تھا ناں۔

س: لکھنے لکھانے کا شوق کب اور کیسے پیدا ہوا؟

ج: شوق تو بس کہانیاں پڑھنے ہی کا تھا۔ اس کے لیے پاپڑ بھی خُوب بیلتی تھی۔ ہمارے مشترکہ گھر کی عورتیں، جو دُہرے تہرے رشتوں کی سنگلیوں میں الجھی ہوئی تھیں، مثلاً پھوپھی ممانی ہے، تو خالہ چچی ہے، گرمیوں کی لمبی دوپہروں اور سردیوں کی طویل راتوں میں بڑے کمرے میں اپنی چوپال لگاتیں۔ خواتین کے مشہور رسائل زیب النساء، حور، عفّت اور بتول ہمارے گھر باقاعدگی سے آتے تھے۔ چھوٹی خالہ، جو اِن دنوں جماعت دہم کی طالبہ تھیں، افسانہ پڑھنا شروع کرتیں۔

کہانی کا اُتار چڑھائو، کردار کے منفی، مثبت رویّے، واقعات کا بہائو، خواتین کا انہماک، کہیں قہقہے، کہیں آنسو، کہیں لعن طعن اور کہیں تحسین آمیز کلمات، مَیں یہ سب دیکھتی تھی۔ وہ بخیے اُدھیڑ دیتیں۔ بہت زیادہ سمجھ نہ آنے کے باوجود لُطف اٹھاتی تھی۔ خیال ہے کہ لکھنے کے جراثیم تبھی پھلنے پھولنے لگے تھے اور اگر یہ کہوں کہ کہانی کی بُنت کو کَس کر کیسے رکھنا ہے کہ اس میں جھول نہ آئے، تو یہ کچھ اِسی تربیت اور مطالعے کا نتیجہ ہے۔

س: آپ کی اوّلین تحریر ناول تھا، ایسا کیوں کر ممکن ہوا؟

ج: دراصل مَیں نے چھوٹی عُمر میں کچھ نہیں لکھا۔ محبّت اور عشق پڑھنے ہی تک محدود رہا۔ بچّوں کی کہانیوں سے ناولز پر آگئی۔ کہہ لیجیے، مَیں اُس مرغی کی طرح تھی، جو دڑبے کا دروازہ کُھلنے پر ٹپوسی مار کر(اچھل کر) چھت پر چڑھنے کی کوشش کرتی ہے۔ شُکر ہے، اِس کاوش میں کباڑا نہیں ہوا۔ شبیہ، ثاقب اور زرغونہ لکھے۔ تینوں ناول عام سے تھے۔ جیسے ہمارے ہاں کی عام خواتین لکھتی ہیں۔ ہاں، چوتھا ناول ’’تنہا‘‘ مشرقی پاکستان پر تھا، جسے دردِ دل نہیں، خونِ جگر سے لکھا۔

میرے وطن کے بننے اور ٹوٹنے کی کہانی کو سنجیدہ ادبی لوگوں نے بہت پسند کیا۔ ڈاکٹر رشید امجد کا یہ کہنا کہ’’ سلمیٰ اعوان کو زندہ رکھنے کے لیے اس کا ناول ’’تنہا‘‘ ہی کافی ہے‘‘، میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔ ’’گھروندا اِک ریت کا‘‘ شادی کے بعد باورچی خانے میں مسالے والے ڈبّوں کے پیچھے چُھپائے کاغذوں کے ٹکڑوں پر لکھا۔ سنگِ میل کے نیاز صاحب نے اُن ٹکڑوں ہی کی کتابت کروا کر چھاپا۔ ’’بیچ بچولن‘‘ افسانوں کا مجموعہ 1983ء یا شاید 1984ء میں جنگ پبلی کیشنز نے چھاپا اور سیّاحت کا سلسلہ اس کے بعد شروع ہوا۔

س: پہلی تحریر کب اور کہاں شایع ہوئی؟

ج: ناول’’ شیبہ‘‘جو 1967 ء میں شایع ہوا، میری پہلی تحریر ہے۔ مَیں نے بچّوں کی کہانیاں نہیں لکھیں۔21 سال کی عُمر میں ڈائریکٹ ناول لکھ دیا، جسے سنگِ میل نے چَھاپا۔

س: شاعری کی طرف کیوں نہیں آئیں اور کیا بچپن ہی سے سیّاحت کا شوق تھا؟

ج: شاعری کا خیال نہیں آیا، وگرنہ کوشش کرتی تو کچھ دال دلیہ کر ہی لیتی۔ سیّاحت کہہ لیں یا آوارہ گردی، وہ تو ہڈیوں میں رچی بسی ہوئی تھی۔ گھر کا سودا مَیں ہی لایا کرتی تھی۔ اب یہ نہیں کہ امّاں نے دہی، دودھ لینے بازار بھیجا، تو سیدھے سبھائو لے کر گھر آئوں۔ نہیں، پہلے تو دودھ کی بالائی اپنے گندے مندے ہاتھوں سے اُتار کر کھا لیتی۔ پھر ونڈو شاپنگ بھی کرتی۔ عید قریب ہوتی، تو دُکانوں کے تھڑوں پر چڑھ کر ریکوں میں لگے کپڑوں کے تھانوں کا معائنہ بھی کرتی اور دِل میں بٹھا لیتی کہ یہ والا سوٹ بنانا ہے۔ پھر امّاں کو بھی گھسیٹ کر اُسی دکان پر لے جاتی۔

اگر امّاں بھائو تائو میں ناکام ہوجاتیں اور خالی ہاتھ دُکان سے اُترنے لگتیں، تو وہ غُل غپاڑہ مچاتی کہ امّاں بے چاری کو سمجھ ہی نہیں آتا کہ وہ اپنی اِس چنڈال بیٹی کا کیا کریں؟ مَیں اپنے محلّے ہی کی خبروں سے واقف نہ ہوتی، چار محلّے پرے بھی گھومتی پِھرتی۔ کوئی سہیلی نہ ملتی، تو اکیلے ہی نکل پڑتی۔ ہمارے زمانے میں مذہبی رواداری بہت تھی۔ محرّم شروع ہوتا تو نذر نیاز اکٹھی کرتی، سوز خوانی کی محفلوں میں جا گُھستی اور چِلچلاتی گرمیوں میں ننگے پائوں عَلم دفن کرنے جاتی۔وہ اپنے گرد سے اَٹے پائوں اور ماتھے سے بہتا پسینہ مجھے آج بھی یاد ہے۔

س: شادی پسند سے کی یا گھر والوں کی مرضی سے ہوئی؟

ج: شادی کا قصّہ بھی بڑا عجیب سا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد ہمارے گھر کی عورتوں اور مَردوں کو جیسے مالیخولیا سا ہو گیا تھا کہ لڑکیوں کو بس پڑھانا ہے، بیاہ کرنا تو اُن کی ترجیح ہی نہیں تھی۔ صرف اسناد ہی پر زور تھا۔ مَیں اور میری خلیری بہن، ڈاکٹر رضیہ حمید کبھی کبھی آپس میں ضرور یہ بات کرتیں ’’یار! انہیں ہماری شادیوں کی کوئی فکر ہی نہیں۔‘‘ مَیں 1969ء میں ایکسچینج پروگرام کے تحت ڈھاکا یونی ورسٹی اور وہ امریکا کی ’’ Colorado State University‘‘ چلی گئی۔ اس دَوران ہمارے ایک رشتے دار لاہور تبادلہ ہو کر آگئے۔ اُن کے میرے ماموئوں اور ننھیال سے گہرے مراسم تھے۔

اُس وقت تک ہمارے معاشی حالات بھی خاصے بہتر ہوگئے تھے۔ امّاں اُن سے ملنے گئیں، تو اُن کے بڑے لڑکے پر جیسے عاشق ہی ہو گئیں اور اپنے طور میرا وہاں رشتہ پکّا کر بیٹھیں۔امّاں نے کہا’’ بہت خُوب صورت، لائق فائق نوجوان ہے۔ بڑے مؤدب اور بیبے لوگ ہیں۔ مغرب کے بعد گھر سے نہیں نکلتے۔‘‘ مَیں نے ماتھے پر ہاتھ مارا اور کہا ’’اُف امّاں! تمہاری بیٹی بڑی پھراؤ قسم کی ہے۔‘‘ اُن دنوں مَیں نے دو کام شروع کر رکھے تھے۔ ایک تو امریکا کی یونی ورسٹیز میں داخلے کے لیے درخواستیں بھیجنے کا کام اور دوسرا ایک بڑے دفاعی ادارے کے پرائمری حصّے کی انچارج کی نوکری۔‘‘ ایک دن ایک خاتون نے، جس کے بچّے کا دوسری جماعت میں داخلے کا کیس مَیں نے رد کر دیا تھا، میرے آفس آکر کہا ’’آپ کا ایک کزن میرے بڑے بیٹے کا کلاس فیلو رہا ہے۔

وہ کل میری سفارش لے کر آئے گا۔‘‘ یہ کزن وہی تھا، جسے امّاں میرا دُولھا بنانے پر تُلی بیٹھی تھیں۔ اگلے دن پہلی بار اُس کزن کا دیدار ہوا۔ کیا ڈیشنگ سا نوجوان تھا۔ گورنمنٹ کالج سے ایم ایس فزکس اور ایک سیمی گورنمنٹ ادارے میں اچھی پوسٹ پر تھا۔ باتیں ہوئیں اور پھر بچّے کو داخلہ بھی دینا پڑا۔ یہ بچّہ( اعزاز چوہدری) بعدازاں پاکستان کا سیکرٹری خارجہ اور مشہور سفارت کار رہا۔اُس وقت تک میرے دو ناول چَھپ چکے تھے۔ اب یہ ترنگ تھی یا خود نمائی کی خواہش کہ اُنھیں اپنا ناول پیش کیا۔ اِس پہلی ہی ملاقات میں اُس لڑکے نے کچھ مبہم سے الفاظ میں واضح کردیا تھا کہ’’ وہ میری والدہ اور اپنے والد کی ہماری شادی کی خواہش جانتا ہے۔

تاہم، چچا اپنی بیٹی اور ماموں اپنی سالی کے لیے رشتے کے خواہش مند ہیں۔‘‘ مَیں نے گھر آکر امّاں سے تو کوئی بات نہیں کی، البتہ اس رشتے کی مخالفت بند کر دی۔ آنے والے دنوں میں اُن سے دو ملاقاتیں مزید ہوئیں۔ ایک میں اعزاز چوہدری اور کچھ ذاتی باتیں، دوسری میں کتاب کی واپسی اور ساتھ ہی یہ خبر بھی ملی کہ اُن کی چچا زاد سے منگنی ہو گئی ہے۔ کچھ اِس خواہش کا اظہار بھی کہ ویسے بھی تو بندہ ایک دوسرے سے مل سکتا ہے۔ میرے تو جیسے تَن بدن میں بھانبھڑ مچ اٹھا۔ تم نے مجھے سمجھا کیا ہے؟ لو تم ہو کیا؟ وہ سُنائیں کہ بے چارہ دُم دَبا کر بھاگ گیا۔

پھر مَیں دنوں نہیں، مہینوں تپتی رہی۔ بعد میں یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اُس نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا، کوئی منگنی ونگنی نہیں ہوئی تھی۔ بہرحال، کچھ دنوں بعد اُس لڑکے کے نانا اور دو ماموں منگنی کی رسم ادا کرنے ہمارے ہاں آئے۔ میرے آنسو تھے کہ مسلسل بہہ رہے تھے۔ مجھے تو یہاں شادی ہی نہیں کرنی۔ امّاں بے چاری گھگیاتی پِھر رہی تھیں کہ میری عُمر اٹھائیس سال ہو رہی تھی اور اُس رشتے کے علاوہ میرا کبھی کوئی اور رشتہ نہیں آیا تھا۔ خیر، رات بھر رونے دھونے کے بعد جیسے دل نے کہا ’’بھئی، وہ کوئی بچّہ تو ہے نہیں، یہ سب اُس کی مرضی ہی سے ہو رہا ہوگا۔‘‘’’ اِس ڈرامے بازی کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ شادی کی رات مَیں نے پہلی بات منہ پھاڑ کر یہی کہی، تو جواباً کہا گیا’’ہاں یار۔بس ڈر گیا تھا، اِتنی پڑھی لکھی لڑکی جو تھی۔ پھر امّاں نے بھی ڈرا دیا کہ سوچ سمجھ لو، زیادہ پڑھی لکھی لڑکیاں اچھی بیویاں نہیں بنتیں۔‘‘’’تو پھر…؟‘‘ ’’بس، مقدّر زور آور تھا۔ گھبرائو نہیں، اِس شادی میں ابّو جان کے ساتھ میری بھی سو فی صد مرضی شامل ہے۔‘‘

س: سیر وسیّاحت کب شروع کی؟

ج: گھر سے نکلنے کا آغاز بنگلا دیش، جو اُس وقت مشرقی پاکستان تھا، جانے سے ہوا کہ ڈھاکا یونی ورسٹی میں داخلہ مل گیا تھا۔ چُھٹیوں میں کسی نہ کسی سہیلی کے ساتھ گھومنے پِھرنے کا موقع ملتا۔ یوں وہاں کے کم و بیش سب بڑے شہر، قصبات اور گائوں دیکھے۔ اُن کے مسائل، بے چینی، کلچر اور ادب کے بارے میں جانا اور پھر واپس آکر ناول ’’تنہا‘‘ لکھا، جو مشرقی پاکستان کے اکیلے رہ جانے کا علامتی اظہار ہے۔

اُس کے بعد سیّاحت کا سلسلہ چل نکلا۔ شمالی علاقہ جات میں اسفار کا سلسلہ 1986ء سے شروع ہوا۔ چلاس سے گلگت، ہنزہ، نگر گلمت۔ بعد ازاں، بلتستان کی وادیاں اور پھر چترال۔ اس سیّاحت کا نتیجہ’’ میرا بلتستان‘‘،’’ میرا گلگت و ہنزہ‘‘ اور’’ سندر چترال‘‘ نامی تین کتب ہیں۔

س: ان مصروفیات پر شوہر کا ردّعمل کیا رہا؟

ج: ( ہنستے ہوئے)بے چارے نے شاید اسی لیے شادی سے انکار کیا تھا۔ مَیں گرمائی تعطیلات میں بچّوں کو اپنی چھوٹی خالہ کے پاس اسلام آباد لے گئی، مگر یہ ٹھان کر گئی کہ اب مجھے اِن علاقوں پر لکھنا ہے اور وہاں جانا ہی جانا ہے۔ بچّوں کو رکھنے کے لیے خالہ کے آگے ہاتھ جوڑے۔ چھوٹے سے دستی بیگ میں کپڑے کا ایک جوڑا، ڈائری، جس میں مقامی لوگوں کے پتے تھے اور کوئی سات سو روپے لیے، جو 1986ء میں کافی تھے۔ سفر پر بظاہر اکیلی، مگر ساتھ میں اوپر والے کو لے کر نکل پڑی۔ راستے دشوار گزار، مگر جنون کے سامنے سب ہیچ تھا۔ مقامی فیملی چچا کی واقف تھی، اُن کے ساتھ بابو سر ٹاپ تک گئی۔ دو دن وہاں رہی۔

اُن کے رہن سہن سے آشنا ہوئی۔ گلگت اور اس کی نواحی وادیوں کا چکر لگایا۔ ہنزہ گئی اور جب نگر کے لیے پر تول رہی تھی، فون پر خالہ نے بتایا’’ رات کو تیرے چھوٹے بیٹے نے باپ کو بتا دیا ہے۔‘‘ کوئی 30 گھنٹے کا زمینی سفر کرکے اسلام آباد پہنچی۔ بچّوں کو لیا اور لاہور گھر آگئی۔ عدالت لگی اور پوچھا گیا’’ تم کِس کی اجازت سے گلگت اور ہنزہ گئی تھیں؟‘‘’’ آپ سے تین، چار بار تو کہا تھا‘‘اِس جواب نے گویا بارود کے ڈھیر میں آگ لگا دی۔ تابڑ توڑ دھماکے ہونے لگے۔’’بڑی ایڈونچرس بنی پِھرتی ہو۔ مارکوپولو کی بھتیجی۔ دشوار گزار علاقے فتح کرنے چلی تھی۔

کوئی ہرج مرج ہو جاتا، کوئی اغوا کر لیتا، کون ذمّے دار تھا؟ بولو، بتائو؟ سری لنکا سے آنے والی اُس سیاح خاتون کا حال معلوم نہیں، اس کے ساتھ کیا بیتی؟ سارا سفارتی عملہ ہلکان ہوگیا، پر ملزم کا نشان تک نہیں ملا۔‘‘ مَیں نے میاں کے پائوں چُھوتے ہوئے کہا ’’معافی مانگتی ہوں، لیکن میرا سری لنکا کی عورت سے مقابلہ مت کریں۔ مَیں تو اپنے آپ کو خدا کی تحویل میں دے کر چلی تھی۔‘‘بولے’’اللہ کی بندی اگر تم جانے پر ادھار کھائے بیٹھی تھی، تو کِسی کو ساتھ لے لیا ہوتا۔‘‘ بہرحال، اُنھوں نے جان لیا کہ مجھے روکنا ممکن نہیں۔ مَیں نے بھی سیّاحت کی شوقین ساتھیوں کی تلاش شروع کی اور بس، پھر جو سلسلہ شروع ہوا، وہ آج تک رُکنے میں نہیں آیا۔ اِس سارے عرصے میں مجھے میاں کی بھرپور مالی اور اخلاقی مدد حاصل رہی۔ یقیناً اس کے لیے مَیں ہمیشہ اُن کی شُکر گزار رہوں گی۔

س: بچّے کتنے ہیں اور کیا کرتے ہیں؟

ج: ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ ماشاء اللہ سب شادی شدہ اور بال بچّوں والے ہیں۔ داماد اور بیٹی آج کل بیجنگ کے پاکستانی سفارت خانے میں ہیں۔ بڑا بیٹا بزنس اور چھوٹا بیٹا وکالت کرتاہے۔

س: بطور خاتون سیّاح کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

ج: اگر آپ نے اچھا لکھنا ہے اور اور قاری کی پیاس بھی بُجھانی ہے، تو یہ واقعی مہم جوئی ہے، وگرنہ تو ایسے بھی سفر نامے ہیں، جہاں پائوں گرد آلود تک نہیں ہوتے۔ جہاں اٹھنا، بیٹھنا، کھانا پینا اور سیر سپاٹا ہی ملتا ہے۔ سفر اگر انگریزی کے لفظ’’ Suffer‘‘ کا صحیح معنوں میں عکّاس نہیں، تو پھر کیا بات بنی؟ پذیرائی کیا ہونی ہے؟ بندہ تو اپنے شوق اور جنون کی تسکین کے لیے بھاگا پِھرتا ہے۔ گزشتہ سال چین کا سفر کیا، مگر خاک لُطف نہیں آیا کہ بیٹی اور داماد وہاں تھے۔

پروگرام اُنہوں نے ترتیب دیا۔ کہاں جانا ہے؟ کیسے جانا ہے؟ کیا کچھ دِکھانا ہے؟ کیسے دِکھانا ہے؟ یہ سب اُن کا دردِ سر تھا۔ میرا کام اُن کے پیچھے چلنا رہ گیا۔ کوئی سہیلی بھی ساتھ نہیں تھی، اس لیے سفری بونگیاں مارنے کا موقع نہیں ملا۔ پانچ بڑے شہروں کو دیکھا، لیکن پندرہ دن کے بعد بھاگ آئی۔ نہیں بھائی، یہ اتنی چھپّر چھائوں اور آسائشیں قبول نہیں۔ عام طور پر ہمارا دو، چار سہیلیوں کا گروپ بن جاتا ہے۔ قہقہے، لعن طعن، غلطیاں، ایک دوسرے کو صلواتیں…، اُن کا تو مزہ ہی اور ہے۔

س: اب تک کتنے ممالک کی سیّاحت کر چُکی ہیں اور کون سا مُلک سب سے اچھا لگا؟

ج: تقریباً 19 ممالک گھوم چُکی ہوں۔ ان ممالک کا انتخاب ہمیشہ سوچ سمجھ کر کیا۔ ایسے ممالک کو ترجیح دی، جو ثقافتی اور تہذیبی طور پر تو امیر ہیں، مگر اُن پر لکھا بہت کم گیا ہے۔ کون سے مُلک نے بہت متاثر کیا؟ یہ فیصلہ مشکل ہے۔ ہر مُلک کی کوئی انفرادیت متاثر کُن رہی۔ تاہم، پھر بھی پرانے دمشق کی کیا ہی بات تھی۔مارک ٹوئن نے اُسے ’’ابدیت کا شہر‘‘ ایسے ہی نہیں کہا تھا۔

س: سیّاحت کے دوران پیش آنے والا کوئی خوش گوار اور ناخوش گوار تجربہ؟

ج: شام جا رہی تھی۔ اُن دنوں قومی اخبارات میں دمشق کے پاکستانی سفارت خانے کے اسکول میں بدعنوانیوں کی خبریں گردش میں تھیں۔ اردو ڈائجسٹ کے الطاف حسن قریشی نے کہا ’’آپ جا تو رہی ہیں، ذرا واقعے کا جائزہ بھی لیجیے گا۔‘‘ ایمبیسی میں پہلی جھڑپ استقبالیے ہی پر ہوگئی، جو اندر نہیں جانے دے رہے تھے۔مَیں نے شائستگی سے اپنا مدعا بتایا، مگر ان کا انداز بہت توہین آمیز تھا کہ’’یونہی منہ اٹھائے چلے آتے ہیں۔ جانتے ہیں ہم سب۔ اٹھیے اور جائیے، اپنا راستہ ناپیں۔‘‘میرے تو تن بدن میں آگ سی لگی گئی’’ تم لوگوں نے جو یہاں اَنھیر(اندھیرا) مچایا ہوا ہے، اس کی پاکستان میں خیر سے بڑی دھوم ہے۔

مَیں چوں کہ اِدھر آرہی تھی، اِس لیے مجھے یہ فریضہ سونپا گیا کہ کچھ کچّا چٹّھا تو جانوں تمہارا۔‘‘یہ سب لتاڑ انگریزی میں دی کہ میرے خیال میں لتاڑ کا یہ مؤثر ترین ہتھیار ہے۔ ایک انگریزی، اوپر سے میرا سَنگھ (گلا) لائوڈ اسپیکر جیسا، آواز نے اندر والوں کو بھی چوکنّا کردیا۔ آواز آئی’’بھیجو اندر، کون ہے یہ؟‘‘ایک چھوڑ، دو دو بندے باادب باملاحظہ جیسی صُورت لیے میرے سر پر آ سوار ہوئے۔ سامنے کرسی پر ایک صحت مند، گورا چٹّا مرد، نام اب بھول گئی ہوں، شاید رئیسانی تھا، بیٹھا ہوا مجھے تنقیدی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

یہ یقیناً سفیر صاحب تھے۔ اُن کے عین بالمقابل کرسی پر ایک اور گہرے سانولے رنگ کا سڑیل سا نوجوان بیٹھا تھا۔ دونوں میں ہزایکسی لینسی والے جراثیم پوری توانائی سے پلے ہوئے تھے۔ مَیں نے بیٹھنے کے ساتھ تہذیب و شائستگی سے اپنے آنے کا مدّعا بتایا۔ سفیر صاحب تو شاید کچھ گومگو کی سی کیفیت میں تھے، مگر وہ نوجوان بڑی نخوت سے بحث مباحثے پر اُتر آیا۔ مَیں نے کہا’’جناب والا! یعفور (جہاں پاکستانی اسکول تھا) یہاں سے صرف بیس کلومیٹر ہے۔ مجھے تو وہاں بھی جانا ہے۔

آپ کے پاس آنے کا مقصد اس کے سوا اور کیا تھا کہ آپ کی بھی سُن لوں کہ آپ کیا کہتے ہیں؟ تصویر تو پوری سچّائی سے سامنے آہی جائے گی۔‘‘خدا حافظ کہتے ہوئے مَیں نے اپنی راہ ناپنی چاہی، تو اُسی نخوت زدہ نوجوان نے کھڑے ہوکر روکنا چاہا، مگر مَیں نے رُکنا پسند نہ کیا۔اب خوش گوار اور یاد رہنے والا واقعہ بھی سُن لیجیے۔ اٹلی میں تین ہفتے کا قیام رہا۔ واقف فیملی میلان میں تھی، تو بیس کیمپ ایک طرح میلان ہی تھا۔ میزبان فیملی کی پچھتّر سالہ ہم سائی، مسز ریٹا اسمتھ جیسی علم و ادب کی پرستار سے ملنا میرے لیے ایک خدائی انعام تھا۔دوسرا ایک اچھا تجربہ بغداد میں ٹیکسی ڈرائیور، افلاق سے ملنا تھا۔ اُس نے بیروت یونی ورسٹی سے کیمیکل ٹیکنالوجی میں ایم ایس سی کیا ہوا تھا، والدین امریکی آپریشن میں مارے گئے تھے۔

وہ ایک سو ڈالر پر شام تک میرے ساتھ رہتا۔2008کا زمانہ تھا۔ امریکی چپّے چپّے پر بیٹھے تھے، مگر وہ مجھے صدر سٹی میں القاعدہ کے لوگوں سے ملوانے لے گیا۔صدّام حسین کے خصوصی انٹیلی جینس سیل کے ایک کرنل، بغداد کی نام وَر خواتین، ادیبوں اور لکھاریوں سے ملنا۔ 55ڈگری درجۂ حرارت میں اس کا اے سی چلانا، دوپہر میں دو گھنٹے میرا کسی نہ کسی مسجد میں قیام کروانا، ایک تابعدار بیٹا اپنی ماں کے لیے جو کرسکتا تھا، اُس نے کیا۔ ’’عراق اشک بار ہیں ہم‘‘ جیسا سفر نامہ افلاق کی معاونت کے بغیر لکھا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ میرا لُوں لُوں(رُواں) اُس کا سدا شُکر گزار رہتا ہے۔

س: کن ادیبوں نے متاثر کیا؟

ج: مَیں پڑھنے کی دَھنی تھی۔ بورس پاسترناک کا ناول’’ڈاکٹر ژواگو‘‘ ڈکشنری کی مدد سے پڑھ ڈالا تھا۔ اِس ناول پر اُن کی نوبیل ایوارڈ کے لیے نام زدگی پر ہمارے گھر میں دائیں اور بائیں بازوئوں کے درمیان زوردار معرکہ ہوا تھا۔ خالو کو غصّہ تھا کہ یہ امریکا اور برطانیہ کی ملی بھگت ہے، وہ سوویت یونین کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں، جب کہ ماموئوں کا کہنا تھا کہ سوویت یونین اپنے بلند پایہ ادیب کو غدّار کہہ کر اُس کی توہین کر رہا ہے۔ سچّی بات ہے، مَیں نے برّصغیر کے شاید ہی کِسی ادیب کو نہ پڑھا ہو۔

جس مُلک بھی گئی، وہاں کے ادیبوں، شعرا کو پڑھنا، اُن کی کتب خریدنا، تو گویا میرے لیے بے حد ضروری ہے۔ سفرنامہ نگاری میں تھامس جے کرومبی نے بہت متاثر کیا۔ سفرنامے کو اس نے اپنے منفرد اسلوب سے ایک نئی اور انوکھی جہت دی۔ میں نے ابنِ بطوطہ کو کرومبی ہی کے حوالے سے پڑھا۔ اِس عظیم سیّاح کی چوالیس ممالک پر پھیلی سیّاحت نے سحرزدہ کردیا۔

س: پاکستان میں سیّاحت کو کیسے فروغ دیا جاسکتا ہے؟

ج: ہمیں اپنے مُلک کی خُوب صُورتی کا احساس ہے اور نہ ہی اس کی اہمیت سے واقف ہیں۔ شمالی علاقہ جات، بلوچستان، سندھ، خیبر پختون خوا اور پنجاب اپنے فلک بوس پہاڑوں، جھیلوں، قدرتی نظاروں اور میدانی علاقے اپنے لینڈ اسکیپ کے ساتھ باعثِ فخر ہیں۔ مجھے امرتسر میں ایک سیشن ٹورزم اینڈ ڈویلپمنٹ میں شرکت کا موقع ملا۔ ماہرِ تعلیم، درباری لال نے کہا’’ہمارے لیے پاکستان کا پنجاب مسلمانوں کے مکّے، مدینے کی طرح ہے۔‘‘ آج مذہبی سیّاحت بھی صنعت کا درجہ حاصل کرچُکی ہے۔1980ء سے 1990 ء تک شمالی علاقہ جات سیّاحوں سے بَھرے رہتے تھے۔ دعا ہے کہ خدا وہ امن کے دن پِھر لائے۔

س: آپ درس وتدریس سے بھی وابستہ ہیں، گھرداری بھی ہے، تو سیّاحت کے لیے وقت کیسے نکال لیتی ہیں؟

ج: لگن اور جنون سب کچھ کروا دیتے ہیں۔ اگر قدرت نے آپ کا دانہ پانی باہر کی جگہوں پر چُگنا لکھ دیا ہے، تو پھر اسباب بھی بن جاتے ہیں۔

س: مستقبل قریب کے کیا ارادے ہیں؟

ج: ارادے تو بڑے نیک تھے، مگر اس کورونا کا ستیاناس ہو، اس نے سب کو جکڑ دیا۔ آیا صوفیہ مسجد بنی، تو مَیں نے وہاں سجدہ کرنے جانا تھا، مگر بیچ میں کورونا آگیا۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صرف 2020ء میں عالمی سیّاحت کو ایک کھرب ڈالر سے زاید کا نقصان ہوا اور سیّاحت کے کسی نہ کسی شعبے سے وابستہ 10کروڑ افراد بے روزگار ہوئے۔

صرف بھارت کو ایک سال میں 65ارب ڈالرز کا نقصان ہوا۔نیز، ہم جیسوں کے لیے دنیا کے دروازے تقریباً بند ہو گئے۔ زندگی کا رسک کوئی نہیں لینا چاہتا۔یوں بھی بڑھاپا آگیا ہے۔ دل ہے کہ ہر دَم بھاگتے رہنے کا متمنّی ہے۔ حالت اِس شعر کی غمّاز ہے؎ گو ہاتھ کو جنبش نہیں ،آنکھوں میں تو دَم ہے…رہنے دو ابھی ساغر و مِینا مرے آگے۔

س: زندگی سے کیا سیکھا؟

ج: وقت، حالات اور بڑھاپا انسان کو خودبخود بہت کچھ سِکھا دیتا ہے۔ ستاروں پر کمند ڈالنے کی خواہشیں، بلند بانگ عزائم اور منصوبے، بندہ جان لیتا ہے، یہ سب اس کی نظرِ کرم کے صدقے ہیں۔ ہمارا جسم، تمنّائیں، خواہشیں سب کی مُہار اوپر والے ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ چاہے تو ہی کچھ ہوگا۔

س: سیّاحوں، بالخصوص خواتین سیّاحوں کو اپنے تجربے کے روشنی میں کیا مشورہ دیں گی؟

ج: دیکھیں جی، سیّاحت کے انداز اب بہت بدل گئے ہیں، انٹرنیٹ نے بہت آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ آن لائن بُکنگ، گائیڈ کی سہولتیں، سیّاحتی موسم، مختلف ممالک اور ٹورسٹ کمپنیز اور ہوٹلز کی جانب سے رعایتوں کے سلسلے سب سفر کو آسان، سَستا اور دل کش بنا رہے ہیں۔البتہ ہماری طرح بونگیاں نہ ماریں کہ میڈرڈ میں ہوٹل کی بکنگ 16اکتوبر کی کروائی تھی، ایجنٹ نے غلطی سے 16نومبر کی کروا دی۔ ایسی اوندھیاں تین عورتیں کہ کِسی نے دیکھا ہی نہیں۔ اب پھر جو وہاں بھگتا، اُس کی اپنی ایک کہانی۔

س: کس مُلک کو دیکھنے کی آرزو ہے؟

ج: فرانس ،وہاں ابھی تک نہیں گئی۔

س: آپ ناول، افسانہ نویس، سفرنامہ اور کالم نگار ہیں۔ اپنی تحریر میں اِن اصناف کے باہمی میلاپ کو استعمال بھی کرتی ہیں؟

ج:مَیں ہر شعبے میں کام کرنے کی عادی ہوں، کیوں کہ مشقّت و محنت گُھٹّی میں پڑی ہوئی ہے۔ اس لیے پِتّا مارنے میں دشواری نہیں ہوتی۔ ناول، افسانہ، سفر نامہ، کالم ہر صنف پر لکھا ہے۔ سفر نامے کے تجربات ظاہر ہے، میری ذہنی وسعت اور علم میں اضافے کا باعث بنے۔ رنگارنگ لوگوں، مختلف النوّع قوموں اور مذاہب کے مطالعے اور شناسائی نے آگہی کے نئے دروازے کھولے۔ غیرمُلکی ادب کے مطالعے نے فکروفہم کو وسعت اور بالیدگی دی۔

فِکشن چوں کہ میرا میدان تھا، اِس لیے جہاں ضرورت سمجھی، ادب کی تینوں اصناف کو استعمال کرکے تحریر کو خُوب صُورت اور اثر انگیز بنانے کی پوری کوشش کی۔ ’’کہانیاں دنیا کی‘‘ اِس کی ایک خُوب صورت مثال ہے۔ اسفار میں دنیا کے بہت سے سلگتے مسائل کے بارے میں جانا، مشرقِ وسطیٰ کے ہر مُلک میں خواہ وہ مِصر تھا یا اردن، شام تھا یا عراق، مسئلۂ فلسطین کسی نہ کسی رنگ میں سامنے آیا۔ اس کے مختلف پہلوئوں سے آشنائی ہوئی، جس کے نتیجے میں ناول’’لہو رنگ فلسطین‘‘ لکھا۔

س: زندگی کا کوئی یادگار لمحہ؟

ج: اِس ستتّر سالہ زندگی میں بہتیرے یادگار لمحات اللہ کی ذات نے عطا کیے۔

س: سیّاحت کے علاوہ تخلیقی سفر کہاں تک پہنچا؟

ج: ناول، افسانوی مجموعے، سفرنامے، کالمی مجموعے، عالمی شعرا اور ادیبوں پر جو کام کیا، وہ کتابی شکل میں ’’عالمی ادب کی فروزاں قندیلیں‘‘ کے نام سے چَھپ چُکا ہے۔ کُل ملا کر میری 26کتابیں اِس وقت مارکیٹ میں موجود ہیں۔ ان میں 12سفر نامے ہیں، جب کہ تین کتابیں زیرِ طبع ہیں۔

س۔ ایک دُعا، جو ہمیشہ لبوں پر رہتی ہے؟

ج: اپنے بچّوں کی سلامتی اور زندگی کی دُعا۔ اپنے چاہنے اور پیار کرنے والوں کے لیے دُعائیں۔