امراضِ گُردہ کے ساتھ بہتر زندگی

March 07, 2021

عالمی ادارۂ صحت، انٹرنیشنل سوسائٹی آف نیفرولوجی اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف کڈنی فائونڈیشن کے باہمی اشتراک سے دُنیا بَھر میں ہرسال مارچ کی دوسری جمعرات کو’’ گُردوں کا عالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے، جس کا مقصد گُردوں سے متعلق معلومات اور احتیاطی تدابیر عام کرنا ہے۔ امسال یہ یوم11 مارچ کو منتخب کردہ تھیم"Kidney Health for Everyone Everywhere: Living Well with Kidney Disease"کے ساتھ منایا جارہا ہے۔

یعنی گُردوں کی صحت، ہرایک کے لیے،ہر جگہ: امراضِ گُردہ کے ساتھ بہتر زندگی گزاریں۔ اگرچہ گُردوں کی خرابی کی متعدّدوجوہ ہیں،لیکن سب سےاہم اور عام وجوہ میں ذیابطیس، بُلندِ فشارِ خون (اگر کنٹرول نہ ہو)، گُردے میں پتھری، بار بار پیشاب آنا اور گُردوں پر جراثیم کا حملہ آور ہونا سرِفہرست ہیں، لیکن افسوس ناک امریہ ہے کہ انفرادی، معاشرتی اور سب سے بڑھ کر حکومتی عدم توجہی اور غیر ذمّے داری کے نتیجے میں عوارضِ گُردہ دائمی بیماری میں تبدیل ہوجاتے ہیں یا پھر موت کی وجہ بن جاتے ہیں۔

گُردے ہمارےجسم کا اہم جُزو ہیں، جو ریڑھ کی ہڈی کے دونوں اطراف، بارہویں پسلی کے نزدیک مضبوطی سے پیوست ہوتے ہیں۔گُردوں کا بنیادی کام جسم میں پانی، نمکیات کا توازن برقرار رکھنا،خون صاف کرنا(یعنی خون میں موجود غیر ضروری اجزاء، زہریلے، فاسد مادّوں کا بذریعہ پیشاب اخراج)،خون کے دباؤ پر قابو، خون کے سُرخ ذرّات کی افزایش میں مدد فراہم کرنا اور ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے کیمیائی اجزاء خصوصاً کیلشیم اور وٹامن ڈی کی مقدار متوازن رکھنا ہے۔اگر گُردوں کے افعال میں کوئی گڑ بڑ واقع ہوجائے، تو گُردوں کے مختلف امراض لاحق ہوجاتے ہیں۔

گُردوں کے عوارض کو دو بنیادی اقسام میں منقسم کیا جاتا ہے۔ ایک قسم گُردوں کے دائمی عوارض(Chronic kidney Diseases)،جب کہ دوسری حادثاتی یا جلد شدّت اختیار کرنے والی بیماریاں (Acute Diseases) کہلاتی ہے۔ اچانک گُردوں کے فیل ہوجانے کی وجوہ بالعموم جُزوقتی ہوتی ہیں۔ جیسے دھوپ، لُو لگ جانا، دست و اسہال کے باعث جسم میں پانی کی شدید کمی، زچگی یا دورانِ حادثہ زائد مقدار میں خون ضایع ہوجانا یا جسم میں کوئی شدید انفیکشن پھیل جانا وغیرہ۔

ان صُورتوں میں بروقت تشخیص اور درست علاج کی بدولت گُردوں کی کارکردگی مکمل طور پر فعال کی جاسکتی ہے۔ آج پوری دُنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص آبادی کا تقریباً ایک تہائی یعنی33فی صدحصّہ ذیابطیس، بلڈپریشر اور گُردے میں پتھری کا شکار ہے۔ پھر عوام کی بنیادی صحت کے اصولوں سے ناواقفیت، طرزِ زندگی،خصوصاً غذائی عادات میں تبدیلی، معاشی ناہم واری،حکومت کی عدم توجہی، مریضوں کا مستند طریقۂ علاج سے گریز،غیر تربیت یافتہ معالجین،جدید طریقۂ علاج سے ناواقفیت اور غلط علاج کے باوجود قانونی کارروائی نہ ہونا بھی ایسے عوامل ہیں، جو مرض کی شرح میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔

گُردوں کے دائمی امراض رفتہ رفتہ گُردوں کی صلاحیت سُست کردیتے ہیں۔چوں کہ ابتدا میں عمومی طور پر ایسی علامات ظاہر نہیں ہوتیں،جو مرض کی تشخیص میں معاون ثابت ہوں، اس لیے مریض اور معالج دونوں ہی کی جانب سے کوتاہی برتی جاتی ہے، نتیجتاً گُردے ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہو جاتے ہیں۔

اگر گُردے فیل ہوجائیں ،تو اس کا واحد علاج پیوندکاری(ٹرانس پلانٹ)یا پھر ڈائی لیسسز ہے۔ عمومی طور پر ڈائی لیسسز کا عمل ہفتے میں 2 سے 3 بار کیا جاتا ہے اورمریض کو 3 سے4گھنٹے تک مشین سے منسلک ہوکر خون کی صفائی کروانی پڑتی ہے۔ یاد رکھیے، پوری دُنیا میں گُردے فیل ہونے کی صُورت میں ٹرانس پلانٹ یا ڈائی لیسسز ہی مستند اور جدید طریقۂ علاج ہے، اس کے علاوہ دیگر علاج کے دعووں میں قطعاً کوئی صداقت نہیں، بلکہ غیر مستند علاج جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

گزشتہ دس برسوں میں دِل، گُردے اور ذیا بطیس کے باعث شرحِ اموات میں قریباً 17فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ستم بالائے ستم کہ ان مریضوں کی اکثریت ترقّی پذیر اور پاکستان جیسے پس ماندہ مُمالک سے تعلق رکھتی تھی۔دُنیا بَھر کے کئی مُمالک صحت کے لیے مختص بجٹ کا تقریباً80فی صد حصّہ گُردوں کے امراض کے علاج پرصرف کرتے ہیں،مگر افسوس کہ پاکستان جیسے پس ماندہ مُلک میں جہاں ترقّی بالخصوص صحتِ عامہ کے تمام اشارے (Indicators) پستی، بدانتظامی، غیر سنجیدگی اور کرپشن کی جانب بڑھ رہے ہیں، وہاں اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد(جس کے تحت شعبۂ صحت صوبائی حکومتوں کے حوالے کردیا گیا ہے)حالات مزید ابتر ہوگئے ہیں۔ حالاں کہ یہ قدم اہم اور مثبت بھی ثابت ہوسکتا تھا۔

بہرحال، گُردوں کے عوارض کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیشِ نظرصوبائی اور مرکزی حکومتوں کی صحت پالیسی کا اہم ترین مقصد گُردوں اور غیر متعدّی بیماریوں کی روک تھام ہونا چاہیے۔پوری دُنیا میں قریباً20لاکھ افراد گُردے فیل ہونے کے بعد ٹرانس پلانٹ یا پھر ڈائی لیسسز کا طریقۂ علاج اپناتے ہیں،جس کا تخمینہ تقریباً ڈیڑھ کھرب امریکی ڈالر لگایا گیا ہے۔ اس منہگے ترین علاج سے استفادہ کرنے والےقریباً80فی صد مریضوں کا تعلق ترقّی یافتہ ممالک سے ہے۔ پاکستان اور بھارت کی کُل آبادی کے صرف 10فی صد افراد کو اس علاج کی سہولت دستیاب ہے، جب کہ افریقی مُمالک میں گُردوں کی بیماریوں کے ناکافی اور ناپید علاج کے باعث بیش تر مریض صرف موت کے منتظر ہیں۔

گردوں کے دائمی امراض کی تشخیص کے لیے خون یا پیشاب کے ٹیسٹ تجویز کیے جاتے ہیں، تاکہ خون میں زہریلے مادّوں اور پیشاب میں چربی کی مقدار جانچی جاسکے۔ علاوہ ازیں، الٹراسائونڈ کے ذریعے عموماً گُردوں کا حجم، ان کی ساخت اور ان میں پائے جانے والے مرض کی جانچ کی جاتی ہے۔ تفصیلی معائنے کے نتیجے میں ذیابطیس، بُلندفشارِخون اور امراضِ قلب جیسی دیگر بیماریوں کی نہ صرف باآسانی تشخیص ممکن ہے، بلکہ مناسب ادویہ کے استعمال اور طرزِزندگی میں مثبت تبدیلی سے ان امراض کو خاصی حد تک کنٹرول بھی کیا جا سکتا ہے۔

علاوہ ازیں، گُردوں کے وہ امراض، جو جرّاحی کے ذریعے ٹھیک ہوجاتے ہیں، اُن میں گُردے، مثانے یا پھر اس کی نالیوں میں پتھری، پیدایشی بیماریاں (Congenital Renal diseases)،گُردے اور مثانے کا سرطان اور پروسٹیٹ غدود کا بڑھ جانا شامل ہیں۔ان عوارض کی بروقت تشخیص اور درست علاج سے نہ صرف پیچیدگیوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے، بلکہ علاج معالجے کے اخراجات میں کمی کے ساتھ احتیاطی تدابیر اختیار کرکے صحت مند معاشرے کاقیام بھی ممکن ہے۔

یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ ایسے افراد جو ذیابطیس، بُلند فشارِ خون، گُردے میں پتھری، گُردوں کے موروثی امراض اور موٹاپے کا شکار ہوں یا دافع درد ادویہ استعمال کرتے ہیں، ان میں عام افراد کی نسبت گُردوں کے عوارض سے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں، لہٰذا وہ اپنے معالج سے رابطے میں رہیں اور ان کی ہدایت کے مطابق طبّی معائنہ بھی کرواتے رہیں۔

علاوہ ازیں، جن افراد میں گُردوں کی خرابی کی علامات ظاہر ہورہی ہیں، وہ گُردوں کے مکمل فیل ہونے کے انتظار کی بجائے فوراً کسی مستند نیفرولوجسٹ یا یورولوجسٹ سے رجوع کریں، تاکہ بروقت علاج سے گُردے خراب ہونے سے بچائے جاسکیں۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِ امراض گُردہ ہیں)