مضبوط خاندان، محفوظ عورت، مستحکم معاشرہ

March 07, 2021

’’ اے مسلم دنیا! اپنے خاندان کے ادارے پر فخر کرو کہ ہم دنیاوی اور مادّی لحاظ سے تو ترقّی یافتہ معاشرہ کہلاتے ہیں، مگر روحانی اور اخلاقی لحاظ سے تیسری دنیا اور زوال پذیر معاشرہ بنتے جارہے ہیں۔‘‘دو دہائی قبل اقوامِ متحدہ کی راہ داریوں میں’’ Pro family‘‘ گروپس کے روحِ رواں، رچرڈ ولکنز کے خطاب کی یہ بازگشت آج بھی سُنائی دیتی ہے۔ دنیا بھر کے محقّقین، خاندان کے ادارے پر تحقیق کے لیے امریکا کی معروف یونی ورسٹی، برگھیم ینگ یونی ورسٹی کے’’ فیملی پالیسی فورم‘‘ کا رُخ کرتے ہیں کہ خاندان پر تحقیق کے لیے اِتنا بڑا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پاکستان سمیت کسی اور جگہ نظر نہیں آتا۔ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے موقعے پر کانفرنس کے چیف آرگنائزر، آنجہانی رچرڈ ولکنز نے مجھے اسلام کے خاندانی نظام اور عصری تہذیبی چیلنجز پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھنے کی ترغیب دی۔

مَیں اُن کی شُکرگزار ہوں کہ وہ مسلم سماج کی خُوبیوں کے بے حد قدر دان تھے۔ مجھے اُن کے ساتھ کانفرنس میں ایک ہفتہ گزارنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ ہم لنڈا بازار کی عادی قوم ہیں۔ وہ جو کپڑے اور نظریات اُتار پھینکتے ہیں، ہم اُنھیں پہنتے اور اپناتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ ہم نے عورت کو خاندان کا مرکزِ محبّت بنانے کی بجائے صنف میں شمار کرنا شروع کردیا اور اُسے مساوات، ترقّی کے پُر فریب نعرے کے دھوکے میں مبتلا کرکے محبّت اور حفاظت کے حصاروں سے محروم کردیا۔نیز، اُس پر دُہرے بوجھ لاد دیئے، جس سے خاندان کا نظام بُری طرح بگڑ گیا۔

ایک رپورٹ کے مطابق، گزشتہ ایک سو سالوں میں امریکا میں شادی کی شرح میں 66 فی صد کمی آئی، حالاں کہ آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ لوگ شادی کے بندھن میں بندھے بغیر ہی آزادانہ طور پر ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، جس کے سبب اکیلی ماؤں کا مسئلہ گمبھیر ہوتا جا رہا ہے۔ بچّوں کو پتا ہی نہیں کہ اُن کا باپ کون ہے؟ اب دو تہائی امریکی یہ بھی مانتے ہیں کہ دو عورتیں یا دو مرد بھی خاندان بناسکتے ہیں۔ 39فی صد امریکی سمجھتے ہیں کہ اب خاندان کا ادارہ متروک ہوتا جا رہا ہے۔ مزید تفصیلات پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ’’ The Decline of Marriage and Rise of New Families (Nov-2010)‘‘ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ورلڈ اکنامک فورم کے زیرِ اہتمام 152زبانوں میں 5لاکھ سے زاید افراد سے ’’World Values Survey ‘‘میں سوال کیا گیا کہ’’ آپ سب سے زیادہ کس چیز کے بارے میں سوچتے اور فکر مند رہتے ہیں؟‘‘ تو’’ سب سے پہلے خاندان‘‘ کا جواب ملا۔گویا خاندان کے ادارے کے بارے میں ہر خطّے میں یک ساں حسّاسیت پائی جاتی ہے۔

ہم کئی دہائیوں سے عورت کے اصل مقام کی بحالی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ ہم ہی وہ خواتین ہیں، جو اس کی نسائیت کا احترام چاہتی ہیں اور اسے جدید چیلنجز کا مقابلہ بھی کرنا سِکھا رہی ہیں۔ ہم نے دو دہائیوں سے پاکستانی عورت کو اس کے اصل رول ماڈلز سے روشناس کروانے کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے۔ ہم نے اِس کا آغاز اپنی عظیم المرتبت امّی جان، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کیا کہ وہ کس طرح نئی نسل کے لیے مثالی کردار ہیں۔ پہلی ایمان لانے والی انسان کا اعزاز اُن کی وجہ سے عورت ذات کو ملا۔ اُنہوں نے ایمان و وفا کی لازوال داستان رقم کی اور صحیح معنوں میں تَن، مَن، دھن سے حضور اکرم ﷺ کے انقلاب کی آب یاری کی۔ وہ اُس جاہلیت کے زمانے اور زوال پذیر مَردوں کے معاشرے میں’’ طاہرہ‘‘ کے لقب سے یاد کی گئیں اور اُس زمانے میں اُن کے مالِ تجارت کے قافلے ایک طرف شام، تو دوسری طرف یمن جاتے تھے۔

اُنہوں نے خود نبی کریم ﷺ کی ذات بابرکات کو اپنے لیے منتخب کیا تھا۔ ایک عورت کی چشمِ بصیرت کی اِس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے؟ رائے کی آزادی کو استعمال کرنے کا سلیقہ بھی امّی جانؓ نے ہی آج کی بیٹیوں کو سِکھایا ۔ پھر نبوّت کی تصدیق اور نبی کریم ﷺ کی تسلّی کا سامان ایسا خزانہ ہے، جس پر مسلمان عورتوں کو فخر کرنا چاہیے۔اُن کے بعد امّی جان، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی زندگی کو اپنے لیے روشن مثال بنایا۔ وہ علم و دانش کا ایسا چراغ تھیں کہ اُمّت ایک تہائی دین کے علم کے حصول کے لیے آج بھی اُن کی محتاج ہے۔ بڑے بڑے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اُن کے دَر پر حاضر ہوتے اور علم و فضل میں کمال حاصل کرتے۔

وہ ایسی فقیہہ اور نبی کریم ﷺکی محبوب زوجہ تھیں، جن کے حجرے اور جن کی گود میں نبی کریم ﷺکا وصال ہوا۔ اُن کی پاکیزگی پر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں گواہی پیش کی۔پھر بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو خاندان کے ادارے کے لیے مینارۂ نور کی حیثیت سے سمجھا۔ نوجوانوں کو بتایا کہ ایک بیٹی کے رُوپ میں محبّت کرنا کیسے سیکھنا ہے اور اپنے جلیل القدر والد کا چھوٹی عُمر میں کیسے ساتھ دینا ہے۔ ایک صابر و شاکر بیوی کا کردار کیسے نبھانا ہے اور اپنے بچّوں کی تربیت کیسے کرنی ہے۔ علّامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں ؎’’بتولے باش و پنہاں شو ازیں عصر…کہ درآغوش شبیرے بگیری ‘‘یعنی ’’بی بی فاطمہ ؓ کی طرح بن جانا اور اس زمانے کی نگاہوں سے چُھپ جاؤ کہ تمہاری آغوش کو بھی ایک حُسینؓ میّسر آجائے۔

اقبال نے’’ رموزِ بے خودی‘‘ میں سیرتِ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر ایک پورا باب باندھا ہے کہ وہ ہر رُوپ میں قابلِ تقلید ہیں۔ اس کے بعد ہم نے بی بی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو، جو صبر و شجاعت کی ایک مثال ہیں، اپنے لیے قابلِ تقلید مثال بنایا کہ ایک مفکّر، ڈاکٹر علی شریعتی کا قول ہے کہ’’ شہادت دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک حضرت امام حسین ؓ کی طرح کہ اُنہوں نے اپنے خون سے کربلا کے میدان میں حق کی گواہی دی اور دوسری، بی بی زینب ؓ کی طرح کہ اُنہوں نے کوفہ کے بازاروں اور یزید کے درباروں میں قولی شہادت دیتے ہوئے ایسے ولولہ انگیز خطبات دیئے کہ امامؓ کی قربانی کو اَمر کردیا۔‘‘

پچھلے سال القدس کی مریم نے دنیا کو متوجّہ کیا کہ جیسے حضرت مریمؑ نے القدس کی خدمت کی تھی، اسی طرح آج بھی فلسطین کی مظلوم بہنیں حضرت مریمؑ کو اپنا رول ماڈل مانتے ہوئے اُن کی مزاحمت سے بھرپور زندگی کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنائے ہوئے ہیں۔ حضرت مریمؑ بہادری اور مزاحمت کا استعارہ ہیں۔ دنیا بھر کی مظلوم عورتیں اُن سے ہمّت و جرأت کا سلیقہ سیکھتی ہیں۔ القدس کی عورتیں اپنے آپ کو’’ مریمات ‘‘کہتی ہیں کہ ہم سب حضرت مریمؑ کی تقلید میں القدس کو نہیں چھوڑیں گی۔کشمیر کی بیواؤں کو بھی ہم نہیں بھولے۔ اُن کشمیری عورتوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں، جن کے شوہروں اور مَردوں کا کچھ پتا نہیں چل رہا کہ وہ کہاں چلے گئے؟ زندہ بھی ہیں کہ شہید کردیئے گئے؟

اِس سال ہم نے 8 مارچ کو’’ یومِ خواتین‘‘ منانے کے لیے ایک نعرے کا انتخاب کیا ہے اور وہ ہے ’’مضبوط خاندان، محفوظ عورت، مستحکم معاشرہ۔‘‘ کچھ سال پہلے تُرکی کے صدر، رجب طیّب اردوان نے’’ Strong Families Make Strong Societies‘‘ کانعرہ اپنے لوگوں کو دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی گونج پھیلتی چلی گئی۔ تُرکی کے بعد ملائیشیا، انڈونیشیا، بھارت اور پاکستان میں بھی اِس سلوگن کو پذیرائی ملی۔ مختلف یونی ورسٹیز میں دخترانِ پاکستان نے اِس عنوان پر پروگرام کیے۔

یہ عنوان وقت کی ضرورت ہے اور خاندان کے عالمی بحران کا حل بھی۔ اس عنوان کے تحت حلقۂ خواتین جماعتِ اسلامی پاکستان نے ایک مہم کا اعلان کیا ہے، جس کے مقاصد یہ ہیں٭ معاشرے میں خاندان کے استحکام کی اہمیت کو اجاگر کرنا۔٭اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک طلاق کی ناپسندیدگی واضح کرتے ہوئے طلاق کی بڑھتی شرح کم کرنا۔٭ مَردوں کو احساسِ ذمّے داری دِلاتے ہوئے قوام کا فریضہ نبھانے کی طرف رہنمائی کرنا اور عورت کی کفالت کی ذمّے داری پوری کرنے کی ترغیب دینا۔٭معاشرے میں عورت کی تعظیم اور تکریم کا شعور بیدار کرنا۔٭ عورت کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور ظلم کے خلاف رائے عامّہ پیدا کرنا۔٭نکاح اور خاندان کو آسان اور خوش گوار فریضہ بنانا۔ ٭نوجوانوں کی اخلاقی، فکری اور عملی تربیت کرنا۔٭اسلام کے نظامِ عفّت و عصمت کو رائج کرنا۔٭معاشرے میں خاندان کی تنظیم اور اس کے اصول و ضوابط کی پاس داری کے شعور کی بیداری کی مہم چلانا۔٭خاندان کے ادارے کو درپیش مسائل اور ان کے حل کی طرف پیش قدمی کرنا۔٭معاشرے میں نبی کریم ﷺکو ’’محسنِ نسواں‘‘ کے طور پر پیش کرنا۔٭بے روزگاری اور معاشی استحصال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے متاثرہ خاندان کی تکالیف کم کرنا۔٭میڈیا سے رابطہ کرکے خاندان کے استحکام کی طرف متوجّہ کرنا۔٭ڈراموں میں رشتوں کے تقدّس کی پامالی کے خلاف عوامی شعور بیدار کرنا۔٭صدر، وزیرِ اعظم، وزرائے اعلیٰ اور گورنرز سے کُھلے خطوط کے ذریعے اپنی ذمّے داریاں ادا کرنے کی درخواست کرنا۔٭عورت پر ہر قسم کے تشدّد کے خلاف آواز بلند کرنا۔٭ خواتین کے حقِ وراثت اور حقِ کفالت کے لیے شعور بیدار کرنا۔٭کاؤنسلنگ سینٹرز کا قیام۔٭شادی، نکاح نامے کی آگہی اور فیملی ایجوکیشن کورس کے لیے نوجوانوں کو ترغیب دینا۔٭تعلیمی اداروں میں خاندان کے استحکام کے لیے نصاب کی تیاری۔٭ اِس سال اقوامِ متحدہ کا خواتین کے لیے مقرّر کردہ عنوان "Women in leadership: Achieving an equal future in a COVID-19 world"کو بھی دورانِ مہم مدّ ِنظر رکھنا۔٭قانون ساز اسمبلیوں اور اسلامی نظریاتی کاؤنسل سے بھی اپنا کردار اداکرنے کی اپیل کی جائے گی۔

دریں اثنا، ہم نے خاندان کے استحکام کے لیے کچھ سلوگنز بھی بنائے ہیں۔٭خاندان میرا سائبان٭میراگھر، میری جنّت ٭میری ضرورت، محبّت اور حفاظت٭تم کھاؤ ،مَیں بناؤں٭مَیں اور تم نہیں !ہم٭تشدّد نہیں، عزّت اور محبّت ٭آؤ گھر چلیں !بچّے منتظر ہیں۔

خاندان کا ادارہ اور اخلاقی اقدار کا زوال ایک عالم گیر مسئلہ بن چُکا ہے۔ کووِڈ کی وَبا اور لاک ڈاؤن میں یہ مسئلہ زیادہ گمبھیر شکل میں سامنے آیا۔ گھریلو تشدّد اور طلاق کی شرح میں روز افزوں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ خاندانی نظام کی بنیادیں کم زور ہوتی جا رہی ہیں۔ جب معاشرے کا بنیادی یونٹ کم زور ہوگا، تو وہ ایک کم زور معاشرے اور کم زور تہذیب ہی کا سبب بنے گا۔ ہمیں اپنے خاندان کے ادارے میں خوش گوار تعلقات کی ضرورت ہے، خواہ وہ میاں بیوی کے درمیان ہوں، اولاد اور والدین کے مابین یا اعزّہ و اقارب کے درمیان ۔ ان رشتوں کے استحکام پر توجّہ دینی ہے۔

شادی بیاہ کی فضول رسومات نے زندگی اجیرن کردی ہے،اِس کے حل کے لیے کوششیں کرنی ہیں۔ خواتین کو فرائض کے ساتھ حقوق کی طرف بھی متوجّہ ہونے کی ضرورت ہے۔ فحاشی، عریانی اور تباہ کن اقدار نے معاشرے میں ایک ہیجان برپا کر رکھا ہے۔ ہمارے ڈرامے اخلاقی زوال کی آخری حدوں کو چُھو رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کی تعلیم پر تو توجّہ ہے، مگر تربیت سے ایسی غفلت کہ خاندان کی قدریں مِٹتی محسوس ہو رہی ہیں۔

حال ہی میں ایک نوجوان لڑکی کے دل دوز واقعے نے تو ہر صاحبِ دل کو خون کے آنسو رُلا دیا کہ اُس نے اپنے بوڑھے باپ سے فیس کی مَد میں لاکھوں روپے وصول کیے اور یہاں اسپتال میں بے یار و مدد گار لاش کی صورت پڑی رہی اور پھر مجرم کو سی سی ٹی وی کیمرے کی مدد سے گرفتار کیا گیا، جو اسے مُردہ حالت میں اسپتال چھوڑ گیا تھا۔طلاق کی شرح خوف ناک حد تک بڑھتی جارہی ہے اور اُن خواتین کی بھی کمی نہیں، جن کو اُن کے شوہر معلّق چھوڑ کر زندگی بھر سولی پر لٹکا دیتے ہیں۔

گھریلو تشدّد بھی سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ جہیز کے نام پر اذیّت رسانی، قتل اور خودکشی تک کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ خواتین، معصوم بچّوں اور بچیوں پر مجرمانہ حملوں کی کثرت نے معاشرے کو حیوانیت کی ڈگر پر چلا دیا ہے۔ خواتین کی وراثت کے جائز اور شرعی حق سے محرومی ، بزرگوں اور بوڑھے والدین سے عدم توجّہی جیسے مسائل بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔بوسنیا کے سابق صدر، عالی جاہ عزت بیگووچ کی کتاب’’ Islam between East and West‘‘ کاایک جملہ یاد آرہا ہے کہ’’ جن معاشروں میں ڈے کیئر سینٹرز کُھل رہے ہوں، اُنھیں اولڈ ہاؤسز کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘‘ جن ماں باپ کے پاس آج اپنے بچّے کے لیے وقت نہیں،اُن بچّوں کے پاس کل اپنے والدین کے لیے ٹائم نہیں ہوگا۔ تحقیقی نتائج یہ بتا رہے ہیں کہ نفسیاتی امراض اور خودکُشیوں کا سب سے بڑا سبب گھریلو تنازعات اور کشیدگیاں ہیں ۔

خاندان کے ادارے کو مختلف قسم کے سطحی نعروں نے ٹوٹ پھوٹ سے دوچار کیا ہے۔ حد سے زیادہ خود سری اور خود غرضی پر مبنی رویّوں اور مادّہ پرستی کی اس شدید لہر نے انسان کو ہر قسم کی ذمّے داری سے آزاد کردیا ہے۔ جہاں خود غرض اور نفسانیت سے بھرپور انسان معاشرے سے تو فائدہ اٹھاتا ہے، مگر اس کے حقوق کی ادائی سے فرار کی راہ اختیار کرتا ہے۔اگر ہر انسان اپنی مرضی سے جیے، تو اس ادارے کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ فیمنزم کے انتہاپسندانہ تصوّر نے خاندان پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اس لیے مَردوں کے انتہاپسندانہ رویّوں کی پذیرائی کرنی چاہیے اور نہ نسائیت کی، بلکہ خاندانیت کی ترویج ہونی چاہیے، کیوں کہ خاندان کا خاتمہ انسانی تہذیب ہی کا خاتمہ نہیں، انسانی نسل کا بھی خاتمہ ہے۔پھر یہ کہ خاندان کا ادارہ محض قانون اور ضابطے سے وجود میں نہیں آتا۔ اس کی بنیاد باہمی محبّت اور اعتماد ہے۔

جدید معاشرت نے ساتھ رہنے کے مواقع کم کردیئے ہیں۔ جدید نظریات و تصوّرات نے خود غرضی اور حقوق کی رسّہ کشی میں ایک دوسرے سے دُوری پیدا کردی ہے۔لہٰذا،ہمیں ایک دوسرے کی مدد کے لیے کاؤنسلنگ سینٹرز کے قیام میں تعاون کرنا چاہیے۔انسانوں کو سوشل میڈیا کی جھوٹی دنیا نے پہلے تو رشتے اور تعلق کی نئی جہتوں سے آشنا کیا، مگر جلد ہی یہ احساس ہونے لگا کہ ہر چیز غیر فطری انداز میں اُلٹ ثابت ہو رہی ہے۔ لوگ غیر فطری انداز سے اپنے جذبات واحساسات اُن لوگوں سے بیان کر رہے ہیں، جن کا اُن سے کوئی رشتہ نہیں، مگر ایک ہی چھت اور ایک ہی کمرے میں لوگ ایک دوسرے سے اَن جان ہوتے جا رہے ہیں۔

’’مضبوط خاندان، محفوظ عورت اور مستحکم معاشرہ‘‘ ایسا عنوان ہے، جو آج کے تمام مغربی معاشروں کے لیے بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ خاندان کے تمام افراد ایک دوسرے کے حقوق و فرائض اداکریں گے، تو ہی معاشرے کا استحکام ممکن ہوگا ۔ نیز، خاندان کے جلو میں عورت کی ترقّی کی راہیں روشن بھی ہوتی ہیں اور محفوظ بھی۔اِس وقت خاندان کاادارہ طوفانوں کی زَد میں ہے۔

ہماری قدروں کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ حقوقِ نسواں اور آزادی کے مطالبات بڑھتے بڑھتے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے بغاوت، گھرداری کی تحقیر اور آزادانہ تعلقات کے مطالبات تک جا پہنچے ہیں۔ طلاق اور خلع کے ہزاروں مقدمات روزانہ عدالتوں میں دائر ہو رہے ہیں۔ سال 2020ء کے ابتدائی چھے ماہ میں صرف کراچی میں طلاق کے 14943مقدمات داخل کیے گئے۔ یہ اعداد و شمار معاشرے میں ٹوٹتے بکھرتے خاندانوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں اور اس کے آگے بند باندھنے میں سب کو مل کر اپناکردار اداکرنا ہے۔