خواتین کی قیادت ’’کووڈ ورلڈ‘‘ میں مساوی مستقبل کا حصول

March 07, 2021

’’عورت ہو، خاموش رہو۔ہر بات میں مداخلت نہیں کیا کرو۔‘‘ ’’زیادہ پڑھ لکھ کر کیا کروگی، کرنا تو ہانڈی، چولھا ہی ہے۔‘‘ ’’ارے جانے دو،مجھے سب پتا ہے کہ یہ خاتون اس ادارے کی مینیجنگ ڈائریکٹر کیسے بنیں۔ ورنہ عورتوں میں کہاں اتنی قابلیت ہوتی ہے کہ اعلیٰ پوزیشن تک پہنچ سکیں۔‘‘’’فیصلے کرنامَردوں کا کام ہے، خواتین کی رضامندی کی کیا ضرورت؟‘‘ ہم اکثر ہی اِن جیسے کئی فقرے اپنے اِرد گرد سُنتے رہتے ہیں کہ یہ نہ صرف ہماری بلکہ دنیا کے اکثر مَردوں کی سوچ کے عکّاس ہیں۔ مانا کہ ہم 21 ویں صدی کے 21 ویں سال میں داخل ہو چُکے ہیں، چاند توکیا ، مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کیے جا رہے ہیں، لیکن بد قسمتی سے کچھ لوگوں کی سوچ آج بھی زمین کی بھی کسی نچلی سطح ہی تک محدود ہے۔

وہ آج بھی اسی زعم میں جی رہے ہیں کہ عورت صرف گھر ، بلکہ با ورچی خانہ ہی سنبھال سکتی ہے۔ مگروہ کیا ہے ناں کہ ’’وقت سب کا آتا ہے‘‘، تو گزشتہ برس کورونا وائرس کی عالم گیر وبا نے یہ ثابت کر دیا کہ چاہے گھر سنبھالنا ہو، بچّے،دفتر یا مُلک خواتین کسی معاملے میں پیچھے نہیں۔ اور اب تو ان کی لیڈر شِپ اسکلز کے چرچے دنیا بھر میں ہو رہے ہیں۔ جیسے ایک ماں اپنے بچّے کے لیے تڑپ اُٹھتی اور وقت آنے پر سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے، بالکل ایسے ہی خواتین نےان وبائی ایّام میں فرنٹ لائن پر رہتے ہوئے بطور ہیلتھ ورکرز، ٹیچرز، صحافیات اور سب سے بڑھ کر سربراہانِ مملکت کے طور پرجس موثر انداز سے کورونا وائرس کا مقابلہ کیا ، اس کی مثال نہیں ملتی۔

علاوہ ازیں، وائرس سے نمٹنے ، بچنے کے لیےان کے انوکھے خیالات، آئیڈیاز نے ثابت کر دیا کہ ان کا زاویۂ نگاہ کتنا وسیع، تخلیقی اوراچھوتاہے۔ ان کی مرتّب کردہ حکمتِ عملی اور اقدامات نے ظاہر کیا کہ قانون ،پالیسی اور فیصلہ سازی میں ان کا کردار قابلِ ستایش ہے۔ خواتین سربراہان نے نہ صرف صحت کے شعبے کے لیے موثر حکمتِ عملی ترتیب دی، بلکہ کورونا وائرس کی وجہ سے معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات ، سماجی و اقتصادی اثرات سے نمٹنے کی بھی ہر ممکن سعی کی۔ بر وقت موثراقدامات کیے ، فی الفور نوٹسز لیے ، پالیسیز بنائیں اور انتظامات کیے۔

شاید یہی وجہ ہے، جو ایک بار سابق امریکی صدرباراک اوباما نے سنگاپور میں ایک لیڈرشپ ایونٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا’’مجھے اس بات کا یقین ہے کہ اگر کرہ ٔارض پر بسنے والی تمام اقوام کی قیادت دو سال کے لیے خواتین کو دے دی جائے، تو تمام تر معاملات، بشمول معیار ِزندگی پر مثبت اثرات مرتّب ہوں گے۔‘‘اسی طرح ٹرینٹی کالج ،ڈبلن کی تحقیق کے مطابق ’’ جن ممالک کے سربراہان مرد تھے، وہاں دوسرے ممالک کی نسبت کورونا وائرس سے 5گُنا زیادہ اموات ہوئیں۔‘‘ماہرین نے اس کی وجہ یہ بیان کی کہ’’ مرد سربراہان نے اپنے ممالک میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے مُلک کا معاشی مفاد مدّ ِنظر رکھا، جب کہ خواتین نے شہریوں کے تحفّظ کو ترجیح دی، جس کے نتیجے میں خواتین سربراہان کے حامل ممالک میں وائرس پر جلد قابو پا لیا گیا اور اموات بہت کم ہوئیں۔‘‘ اور، خواتین کی انہی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ نے اِمسال عالمی یومِ خواتین کو ’’Women in leadership: Achieving an equal future in a COVID-19 world‘‘ کے تھیم سے منانے کا اعلان کیا ہے۔

کورونا وائرس کے خلاف جن ممالک کی خاتون سربراہان کا کردار قابلِ تعریف ہے ان میں تائیوان، نیوزی لینڈ، ناروے اور جرمنی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔آئیے، جائزہ لیتے ہیں کہ ان سربراہانِ مملکت نے کس طرح مشکل حالات کا سامنا کیا، ان کی حکمتِ عملی کیا رہی۔علا وہ ازیں،کچھ بات اس پر بھی ہوجائے کہ ہمارے مُلک میں فرنٹ لائن پر رہنے والی خواتین نے کس طرح کام کیا، کیا کیا مسائل پیش آئے اوراس ضمن میں اُن کے احساسات کو خیالات کیا ہیں۔

سائی اِنگ وین

سائی اِنگ وین ،تائیوان کی تاریخ میں صدر منتخب ہونے والے پہلی خاتون ہیں۔20جون2020ء کو کوپن ہیگن ڈیموکریسی سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’تائیوان نے جمہوریت کی قربانی دئیے بغیر کورونا وائرس کا مقابلہ کیا اور تمام جمہوری ممالک کو اسی طرح کے نظریات پر مل کر کام کرنا چاہیے۔‘‘واضح رہے، جنوری 2020ء میں جانز ہاپکنز یونی وَرسٹی کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ’’ چین کے ساتھ جغرافیائی طور پر نزدیک ہونےاورتجارتی نقل و حمل کے باعث تائیوان کو وبا سے شدید متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔‘‘

تاہم، تائیوان کی صدرکے بروقت اقدامات اور موثر حکمتِ عملی کی وجہ سے یہاں وبا کا پھیلاؤ رُک گیا، یہی وجہ ہے کہ یہاں رپورٹ ہونے والے بیش تر کیسز بیرونِ مُلک سے آنے والے مسافروں میں سامنے آئے۔ سائی اِنگ وین کی دُور اندیشی کو بھی سراہنا چاہیے کہ جب دسمبر 2019ء میں ووہان سے کورونا وائرس سے متعلق معلومات سامنے آئیں تو انہوں نے فی الفور ووہان سے آنے والے مسافروں کی اسکریننگ کا فیصلہ کر تے ہوئے کووڈ-19کی علامات ظاہر ہونے والے مسافروں کی شناخت کے بعد انہیں قرنطینہ کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا تھا۔

انہوں نے دنیا بھر میں وائرس کے سنگین پھیلاؤ سے پیش تر ہی اپنے مُلک میں موثر منصوبہ بندی کے ذریعے کورونا کاپھیلاؤ روکا اور اس کے خلاف ردّ ِعمل میں شفّافیت اور مضبوط ہم آہنگی پر زور دیا۔جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق ’’تائیوان کی صدر نے نیشنل ہیلتھ کمانڈ سینٹر کے دفتر میں سینٹرل ایپی ڈیمک کمانڈ سینٹر ( سی ای سی سی) قائم کیا تاکہ وائرس اور اس کے اثرات سے متعلق معلومات جمع کی جاسکیں۔

بعد ازاں، انہی معلومات کی بنا پر عوام میں شعور وآگہی عام کی گئی۔‘‘ واضح رہے کہ تائیوان معاشی لحاظ سے ایک مستحکم مُلک ہے۔ دنیا بھر کی طرح کورونا وائرس کی عالمی وبا نے تائیوان کی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتّب کیے، مگر اس کی صدرنے واضح الفاظ میں عوام سے کہہ دیا ہےکہ ’’اس مشکل وقت میں ہم سب ساتھ ہیں اور جلد معیشت بھی بہتر ہوجائے گی۔ ‘‘

انجیلا مرکل

انجیلا مرکل 2005ء میں جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر منتخب ہوئیں۔ اس کے بعد سے اب تک چار بار چانسلر منتخب ہو چُکی ہیں ۔ جرمنی میں کورونا وائرس کے پہلے کیس کی تصدیق 27 جنوری 2020ء کو ہوئی تھی اور یہاں مارچ تک وبا عروج پرپہنچ گئی۔

تاہم، اپریل میں کیسز کی تعداد میں بتدریج کمی آنا شروع ہوئی ۔ وبا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے جرمن چانسلر نے کچھ آئیڈیاز متعارف کروائے، جن میں ابتدائی طور پر ٹیسٹنگ مراکز کا قیام، معمّر افراد کووبا سے بچانے کی مؤثر حکمتِ عملی اور مُلک میں اسپتالوں کی صلاحیت کا بہترین استعمال شامل تھا۔ 27فروری 2020ء کو انجیلا مرکل کے حکم پر ایک انٹر- منسٹریل نیشنل کرائسز منیجمنٹ سیل تشکیل دیا گیا،ساتھ ہی چین اور اٹلی سے آنے والے مسافروں کے لیے گزشتہ سفر اور رابطے کی معلومات فراہم کرنا ضروری قرار دے دیا گیا۔ واضح رہے، جرمنی میں طبّی یا وبائی علامات ظاہر ہونے پر ٹیسٹنگ مفت ہے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے انجیلا مرکل کا پہلا بیان 11 مارچ کو سامنے آیا، جس میں انہوں نے وائرس کے پھیلاؤ میں کمی کے لیے قومی یک جہتی پر زور دیا۔

بعد ازاں، 18مارچ کو غیر معمولی طور پردوبارہ قوم سے خطاب میں کہا کہ’’ یہ وبا جنگِ عظیم دوم کے بعد جرمن معاشرے کو دَرپیش سب سے بڑا چیلنج ہے، جس کا مقابلہ صرف اور صرف مشترکہ طور پر ایس او پیز پر عمل کرکے ہی کیا جا سکتاہے۔‘‘ انہوں نے غیر ضروری مشاورت، اجلاس اور تنازعات میں وقت ضایع کیے بغیربر وقت چند انتہائی اہم فیصلے کیے، جن میں سماجی رابطوں پر پابندی کا فیصلہ ( جس کے تحت ایک جگہ دو سے زائد افراد اکٹھے نہیں ہوسکتے تھے) 5 فیٹ تک جسمانی فاصلے اور متعدّد کاروبار کی بندش پر عمل درآمد کا کہا گیا ۔ تاہم، اس دوران عوام کے گھروں سے باہر نکلنے یا واک پر جانے پر پابندی نہیں تھی۔

علا وہ ازیں، جرمنی آنے والے تمام افراد کےلیے 14 روز کا قرنطینہ بھی لازمی قرار دے دیا گیا ۔ انجیلا مرکل نے کورونا وائرس کی وبا کی تشخیص کو 3حصّوں، ٹیسٹنگ، کانٹیکٹ ٹریسنگ اور اینٹی باڈی ٹیسٹنگ میں تقسیم کیااور ساتھ ہی کورونا سے صحت یاب ہونے والے افراد کے لیے کورونا ٹیسٹ منفی آنا یا 14 دن کا قرنطینہ لازمی قرار دیا گیا۔یہاں یہ امر بھی قابلِ ستایش ہے کہ وائرس سے متاثرہ ڈاکٹرز سے ملاقات کے بعد انجیلا مرکل نے خودساختہ قرنطینہ اختیار کیا اور 3 مرتبہ ٹیسٹ منفی آنے کے باوجود گھر ہی سے کام کرنے کو ترجیح دی ۔یہ تو بات ہوئی صحت کی، مگر خاتون چانسلر نے کورونا وائرس کے معاشی اثرات پر قابو پانے میںبھی کوئی کسرنہیں اُٹھا رکھی۔

جیسے،ایف ڈبلیو پروگرام 2020ءکا اجرا کیا، جس کا مقصد کووڈکے باعث مالی مشکلات کی شکار چھوٹی، درمیانی اور بڑی انٹرپرائزز کی معاونت کرنا تھا،چند روز بعد ایف ڈبلیو کوئیک لون متعارف کروایا، جسے لائیبلیٹی سے 100 فی صد استثنیٰ حاصل تھا۔وزیرِ خزانہ، اولف اسکولز نے کورونا بحران سے نمٹنے کے لیے 122ارب 50 کروڑ یورو کا ضمنی بجٹ پیش کیا ،بعد ازاں حکومت نے 50ارب یوروز پر مبنی ہنگامی امداد کابھی اعلان کیا، جس میں چھوٹے کاروبار کرنے والوں، فری لانسرزاور کسانوں کو بلا تاخیر ادائیاں کی گئیں۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ انجیلا مرکل نےکوانٹم کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کیا ہوا ہےاور اسی تجربے کی بنا پر انہوں نےکووڈ19پر قابو پانے سے متعلق سائنسی وضاحت بھی پیش کی ، جسے وبا کے خلاف جرمنی کے ردّ ِ عمل کی کام یابی بھی قرار دیا جارہا ہے۔

جسینڈا آرڈرن

جسینڈا آرڈرن اکتوبر 2017ء میں 37برس کی عُمر میں نیوزی لینڈ کی تاریخ میں تیسری خاتون وزیرِ اعظم منتخب ہوئیں، انہیں مُلکی تاریخ میں کم عُمر ترین وزیراعظم ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔جزیرہ نما مُلک میں کورونا وائرس کے پہلے کیس کی تصدیق 28فروری 2020ء کو ہوئی تھی ۔جسینڈا آرڈرن روزِ اوّل ہی سے کلیئر اور الرٹ تھیں ، انہوں نے کورونا وائرس کے پہلے کیس کی تصدیق سے تقریباً ایک ماہ قبل ہی صورت ِ حال کی نگرانی کا آغاز کردیا تھاکہ انہیں اپنے عوام اور قوم کو اس مہلک وبا سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا کیا اقدامات اور اہم فیصلے کرنے ہیں، جن میں زیادہ سے زیادہ ٹیسٹنگ، سفری پابندیاں ، سرحدوں کی بندش، مرحلہ وار 7ہفتوں کا لاک ڈاؤن قابل ذکر ہیں ۔

انہوں نے نیوزی لینڈ آنے والے تمام افراد پر خود ساختہ قرنطینہ کی شرط اُسی وقت سے عاید کردی تھی، جب مُلک میں وبا سےمتاثرین کی تعداد صرف 6 تھی۔ بعد ازاں،تمام غیر ملکیوں کے نیوزی لینڈ آنے پر پابندی عاید کر کے مُلک گیر لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا، جس کےنتیجے میں وبا کے پھیلاؤ میں بتدریج کمی آتی گئی۔ مُلکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سرحدیں بندکرنے کے حوالے سے اعلان کرتے ہوئے جسینڈا آرڈرن نے کہا تھا کہ’’ مَیں مانتی ہوں کہ سرحدوں کی بندش غیر معمولی اقدام ہے،لیکن مَیں کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ۔ہماری اوّلین ترجیح نیوزی لینڈ کے شہریوں کو کووڈ19 سے محفوظ رکھنا ہے، عالمی سطح پر صحت کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال اس بات کا اشارہ کر رہی ہے کہ کیوی شہریوں کی صحت کو درپیش خطرات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

یہی وجہ تھی کہ جب پوری دنیا میں کورونا عروج پر تھا اور کثیر تعداد میں اموات کا سلسلہ جاری تھا، تو اپریل کے انہی دنوں میں نیوزی لینڈ میں صرف 4 اموات ہوئیں، جو بلا شبہ جسینڈا آرڈرن کی بہترین حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے۔ علا وہ ازیں، حکومت نے ووہان میں پھنسے کیوی شہریوں کی بحفاظت وطن واپسی کے لیے ایئر نیوزی لینڈ کی خدمات حاصل کیں۔

یہی نہیں ، جب پوری دنیا پابندیاں ختم کرنے پر سوچ بچار کر رہی تھی، اُس وقت بھی جسینڈا آرڈرن نے وطن واپس لوٹنے والے نیوزی لینڈ کے تمام باسیوں پر مقررہ مقام پر 14روز کے قرنطینہ کی شرط قائم رکھی۔ کیوی وزیر اعظم نے نہ صرف عوام سے سماجی فاصلے پر سختی سے عمل در آمد کروایا بلکہ خود بھی قوانین پر سختی سے عمل کیا ، یہاں تک کہ ایک بار خود انہیں سماجی فاصلے کے قوانین کے مطابق ایک کیفے میں مزید مہمانوں کی گنجایش نہ ہونے کے سبب داخل ہونے سے روک دیا گیا ۔

اگر معیشت کے حوالے سے ان کی حکمتِ عملی کی بات کی جائے تو یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ نیوزی لینڈ کی معیشت زراعت ، سیاحت، ریٹیل اور ہول سیل ٹریڈ پر انحصار کرتی ہے، جو کورونا وائرس کے سبب بری طرح متاثر ہوئی ، بے روزگاری میں بھی خاصا اضافہ ہوا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے جسینڈ انے ایک بڑےپیکیج کا اعلان کیا، جس میں صحت کے لیے 50 کروڑ ڈالرز، کاروبار اور ملازمت میں تعاون کے لیے 8 ارب 70 کروڑ ڈالر زاور آمدن میں تعاون کے لیے 2 ارب 80 کروڑ ڈالرز مختص کیے۔مزید بر آں، انہوں نے اپنی، وزرا اور عوامی اداروں کے سربراہان کی تن خواہوں میں6 ماہ کے لیے20 فی صد کٹوتی بھی کی۔

ایرنا سولبرگ

ناروے کی موجودہ وزیر اعظم ،ایرنا سولبرگ پہلی مرتبہ 2013 ء اور پھر 2017 ء میں دوسری بار اس عہدے کے لیےمنتخب ہوئیں۔یہاں 26فروری 2020ء کو کورونا وائرس کے پہلے کیس کی تصدیق ہوئی تھی اور اسی کے ساتھ ایرنا سولبرگ نے مُلک کے معروف معالجین پر مشتمل ایک ہنگامی یونٹ تشکیل دیا اور واضح حکمتِ عملی مرتّب کی ، تاکہ متاثرہ افراد بہترین طبّی خدمات حاصل کر سکیں۔ نارویجین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ کی رپورٹس کی بنیاد پر ایرنا سولبرگ نے زیادہ سے زیادہ ٹیسٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا،جس میں تمام مصدّقہ مریضوں کے رابطے میں موجود افراد کی ٹیسٹنگ، وبا سے متاثرہ علاقوں(چین ،اٹلی) سے آنے والے مسافروں کی ٹیسٹنگ اور انفیکشن سے متاثرہ افراد کی اسکریننگ شامل تھی۔

ساتھ ہی انہوں نےوبا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے مختلف طریقے اور اقدامات متعارف کروائے ،جن میںڈے کیئر سینٹرز، اسکولز ، یونی وَ رسٹیز، بڑے اور چھوٹے کاروبار، ریسٹورنٹس، فٹنس سینٹرز اور کنسرٹ وینیوز کی بندش شامل تھی۔ان اقدامات میں ایک دوسرے سے ایک میٹر تک کا سماجی فاصلہ، اِن ڈورز میں 2میٹر کا فاصلہ برقرار رکھنے، بیرونِ مُلک سے واپسی پر 14 دن کا قرنطینہ بھی شامل تھا، جب کہ عوامی مقامات پر صرف 5 اور اِ ن ڈور 6 افراد تک جمع ہوسکتے تھے۔

ناروے کی وزیر اعظم نے پینڈیمک سے بچاؤ کا نیا خیال بھی متعارف کروایا کہ انہوں نے بذریعہ ٹیلی وژن مُلک کے بچّوں سے خطاب کیا۔ بعد ازاں، دو وزراکے ساتھ ایک پریس کانفرنس بھی کی، جس میں میڈیا نمایندگان یا بڑوں کا داخلہ ممنوع تھا، وہ صرف بچّوں کے لیے تھی،اس پریس کانفرنس کو مُلک گیر سطح پر نشر کیا گیا۔

انہوں نےکانفرنس میں بچّوں کے درجنوں سوالات کے جوابات دئیے اور کہا کہ’’ کبھی کبھار ڈرنا اچھا اور ہمارے حق میں بہتر ہوتا ہے کہ یہ ڈر ہمیں بہت بڑے نقصان سے بچا لیتا ہے۔‘‘ پریس کانفرنس کے دوران بچّوں نے وزیراعظم سے ’’کیا میری برتھ ڈے پارٹی ہوسکتی ہے؟ شاپنگ سینٹر جانے کے بعد دادا، دادی کے پاس جاسکتے ہیں؟ ویکسین کی تیاری میں کتنا وقت لگے گا؟ مدد کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟‘‘ وغیرہ جیسے کئی سوالات کیے۔جس طرح کا رویّہ ایرنا نے اپنایا ، واقعی ایک ماں ہی اس طرح کی حکمتِ عملی اپنا سکتی ہےکہ وہ جانتی ہے کہ گھر کے بچّے، بڑوں سے ہر کام کروانے کی اہلیت رکھتے ہیں، اسی لیے انہوں نے بچّوں کو ٹارگٹ کیا۔

واضح رہے، ناروے ایک امیر مُلک ہے جس کا جی ڈی پی پرکیپیٹا دنیا میں سب سے زیادہ ہےاور یہ اقوامِ متحدہ کے انسانی ترقیاتی پروگرام انڈیکس کی درجہ بندی میں پہلے نمبر ہے۔مگر کورونا وائرس کے اثرات سے پھر بھی محفوظ نہیں رہ سکا۔ جس کے باعث ایرنا سولبرگ نے مختلف اسکیمزاور معاشی تعاون کے 3 مراحل متعارف کروائے ، جن کے تحت پہلے مرحلے میں آمدن میں کمی کے باعث کمپنیوں کو دیوالیہ ہونے اور لوگوں کو غیر ضروری طور پر ملازمت سے نکالنے سے روکنا شامل تھا ، اس حوالے سے ٹیکسز میں بھی کمی کی گئی، دوسرے مرحلے میں کورونا وائرس سے متاثرہ کاروبار کے لیے اسکیمز لانے اور تیسرے مرحلے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اگر معاشی اثرات سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے تو حکومت معیشت کی بحالی کےلیے سرحدی اقدامات پر غور کرے گی۔

اسی کے ساتھ ایوی ایشن چارجز عارضی طور پر معطل کردئیے گئےاورچھوٹے ،درمیانے درجے کے کاروبار کے لیے بینک سے قرضہ لینے کی اسٹیٹ گارنٹی اسکیم متعارف کروائی گئی ،جس کے لیے 50 ارب نارویجین کرونر مختص کیے گئے۔علاوہ ازیں، حکومت نے بانڈ فنڈ دوبارہ بحال کیے۔ خیال رہے، نارویجی عوام کا شمار دنیا کے صحت مند ترین افراد میں ہوتا ہے، اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ وہ اپنی جی ڈی پی کا 10 فی صد حصّہ صحت پر خرچ کرتے ہیں۔

ڈاکٹر سیمیں جمالی

یہ تو بات ہوئی چند غیر مُلکی خواتین سربراہان کی، لیکن ہماری خواتین نے، فرنٹ لائن پر رہتے ہوئے، جن لیڈر شِپ اسکلز کا مظاہرہ کیا،وہ بھی یقیناً قابلِ ستایش ہیں۔ ’’ڈیوٹی کی انجام دہی میں خواتین ہیلتھ ورکرز کو کیا مشکلات پیش آئیںیا آرہی ہیںاور کورونا کے حوالے سے آپ لوگوں کی کیا حکمتِ عملی رہی؟‘‘ اس حوالے سے ایگزیکیٹِو ڈائریکٹراور سربراہ شعبۂ حادثات، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر، کراچی، ڈاکٹر سیمیں جمالی کا کہنا ہے کہ ’’دنیا کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ،جس میں خواتین اپنی صلاحیتوں کے جوہر نہ دِکھا رہی ہوں اور شعبۂ صحت میں تو زیادہ تعداد ہی خواتین کی ہے، لہٰذا وبائی ایّام میں انہوں نے جو کردار ادا کیا، وہ قابلِ تحسین ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ماننا ضروری ہے کہ اگر مرد انہیں آگے بڑھنےکا موقع نہ دیں، ان پر بھروسا نہ کریں تو وہ کچھ نہیں کر سکتیں کہ مر د و زن ایک دوسرے کے لیے ڈھال کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔

جہاں تک بات ہے وبائی ایّام میں کام کرنے کی ، تو مُلک کے دیگر صوبوں کی نسبت سندھ میں کیسز زیادہ تھے، لیکن الحمدُ للہ ! حکومت کی بہترین حکمتِ عملی اور بر وقت فیصلوں کی بدولت زیادہ نقصان نہیں ہوا اور صورتِ حال قابو میں رہی۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ خواتین اور مَردوں کے کام کرنے کا طریقہ، مزاج قدرے مختلف ہوتا ہے، گوکہ دونوں ہی سچّی لگن اور ایمان داری سے کام کرتے ہیں، لیکن سوچ کا زاویہ مختلف ہونے کی وجہ سے نتائج مختلف بر آمد ہوتے ہیں کہ عورت صرف پروفیشنلی نہیں، ماں بن کر بھی سوچتی ہےاور یہی عنصر اس کے لیے گئے فیصلوں، طرزِ گفتگو، حکمتِ عملی اور منصوبہ بندی میں صاف نظر آتا ہے۔

اس حوالے سے صوبۂ سندھ کی وزیرِ صحت و خاندانی منصوبہ بندی، ڈاکٹر عذرا پیچوہو اور صوبۂ پنجاب کی وزیرِ صحت، ڈاکٹر یاسمین راشد نے انتہائی اہم کردار ادا کیے۔ بحیثیت شعبے کی سربراہ میں یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ جن دِنوںکورونا عروج پر تھا، تو وزیرِ اعلیٰ سندھ نےنہ صرف بر وقت اچھے فیصلے کیے، بلکہ ہمیں اختیارات بھی دئیے، ہم پر بھروسا کیا،جب بھی ضرورت پڑی میٹنگز کیںاور ہمارے مشوروں پر عمل کیا۔ ہم نے کورونا سے نمٹنے کے لیے انتہائی منظّم انداز میں کام کیا۔ جیسےٹاسک فورس تشکیل دیں ، جن کا کام لاجسٹکس دیکھنا، اسپتال میں جگہ کاا نتظام کرنا، ادویہ کا انتظام وغیرہ تھا۔

اس کے علاوہ ہم نے ایسی تمام خواتین ڈاکٹرز اور نرسز کو چُھٹیاں دے دی تھیں ، جو حاملہ تھیں یا جن کے بچّے چھوٹے تھے تاکہ ان کی وجہ سے وائرس بچّوں میں منتقل نہ ہو۔واضح رہے، کورونا کے سبب ہمارے 4ریٹائرڈ پروفیسرز کا انتقال بھی ہوا۔یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ہمیں جو پی پی ایز دی گئی ہیں، وہ تین سائز زمیں ہیں، جنہیں خواتین ڈاکٹرز اور نرسز بھی بآسانی استعمال کر رہی ہیں۔

علا وہ ازیں،حکومت کی جانب سے تمام ہیلتھ ورکرز کوہائی رِسک ہیلتھ الاؤنس دیا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں توایسا محسوس ہورہا ہے ،گویا کورونا کوئی جانور، بلا یا جِن تھا، جو واپس چلا گیا۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہے، ہم ابھی تک وائرس فِری نہیں ہوئے ہیں، اسی لیے خطرہ ٹلا نہیں، رِسک فیکٹر اب بھی اُتنا ہی ہے، اگر ہم احتیاط نہیں کریں گے تو اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے پریشانی کا باعث بن جائیں گے۔اس لیے خدارا! کم از کم ماسک کا استعمال جاری رکھیں ۔ ‘‘

ایس ایس پی، شہلا قریشی

’’خواتین سیکیوریٹی اہل کاروں نےکن مسائل کا سامنا کیا، کتنی اہل کار کورونا سے متاثر ہوئیں؟‘‘ ہم نے پوچھا تو گزشتہ دس برس سے محکمۂ پولیس میں جاں فشانی سے فرائض سرانجام دینے والی فرض شناس افسر، ایس ایس پی، انویسٹی گیشن، سینٹرل شہلا قریشی نے کہا کہ ’’فورسز میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ آپ خاتون ہیں یا مرد، سب کی ڈیوٹیز برابر ہوتی ہیں، کسی کو رعایت نہیں ملتی اور سچ تو یہ ہے کہ ہمیں مشکل حالات کا سامنا کرنے اور سختیاں برداشت کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ جب پاکستان میں کورونا وائرس عروج پرتھا تو ہیلتھ ورکرز کی طرح ہم بھی ہائی الرٹ تھے کہ ہماری ذمّے داریاں کئی گُنا بڑھ گئی تھیں۔ 12،12 گھنٹے ڈیوٹی دی، بِنا چھٹی کے بھی کا م کیا۔

پھر لاک ڈاؤن کی صورتِ حال میں عوام کو سنبھالنا ، ان سے نمٹنا اور باتیں سُننا کوئی آسان کام نہیں۔ سب سے زیادہ مشکل جمعے کے روز، رمضان میں اور مذہبی اجتماعات روکنے میں پیش آئی کہ عوام کے لیے با جماعت نماز پر پابندی، تراویح کا اہتمام نہ کرنا اور مذہبی محافل میں شریک نہ ہونا نا قابلِ قبول تھا، تو ایسے حالات میں اپنے اعصاب ، غصّے پر قابو رکھ کر عوام سے ڈیل کرنا انتہائی مشکل کام تھا، کیوں کہ ہمارے عوام جب بد تمیزی کرنے پہ آتے ہیں، تو یہ نہیں دیکھتے کہ پولیس افسر خاتون ہے یا مرد۔

علا وہ ازیں، ڈیوٹی کے ساتھ ہمیں خود کو بھی وائرس سے محفوط رکھنا تھا ، ساتھ ہی احساس پروگرام کے تحت رات کے اندھیرے میں کورونا متاثرین کے گھر راشن پہنچانا بھی کوئی آسان کام نہ تھا۔ پولیس نے سیکیوریٹی فراہم کرنےکے ساتھ ساتھ سوشل وَرک بھی کیا، کورونا سینٹرز میں بھی ڈیوٹی دی۔ گوکہ ہمیں حکومت کی جانب سے سینی ٹائزرز، سرجیکل ماسک فراہم کیے گئے تھے، لیکن اس کے با وجود ہزاروں کی تعداد میں پولیس اہل کار وائرس سے متاثر ہوئے،جن میں خواتین اہل کاروں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ ‘‘

مہناز رحمٰن

’’اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤنز میں خواتین پر گھریلو تشدّد میں اضافہ ہوا، انہیں ملازمت سے بھی نکالا گیا۔ ‘‘اس حوالے سے بات کرتے ہوئے خواتین کے حقوق کی عَلم بردار اور عورت فاؤنڈیشن کی روحِ رواں، مہناز رحمٰن کا کہنا ہے کہ ’’ کورونا وائرس نے معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتّب کیے ہیں، لیکن صرف خواتین ہی نہیں ،مَرد بھی بے روزگار ہوئے ہیں ۔

جہاں تک بات ہے ،گھریلو تشدّد میں اضافے کی، تو جب جہالت زیادہ اور احساس کم ہو تو ہم اور اُمید بھی کیا کر سکتے ہیں۔ جو آدمی عام حالات میں بھی اپنی بیوی پر تشدّد کرتا، اس کے ساتھ جانوروں سا برتاؤ کرتا ہو، وہ بے روزگاری کی حالت، سارا دن گھر رہ کر، تناؤ کا شکار ہوکر مزید وحشیانہ انداز ہی اپنائے گا۔ جب تک دنیا عورت کو انسان نہیں سمجھے گی،مائیں، بیٹوں کو بیوی کی عزّت کرنا نہیں سکھائیں گی، تب تک یہ مسئلہ جوں کا توں ہی رہے گا۔ علاوہ ازیں، یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ ویسے تو کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے قبل ہی تحقیق سے ثابت ہوگیا تھا کہ مَردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ کام کرتی ہیں۔

جینڈر وَرک شاپس میں بھی مختلف مشقوں کے ذریعے ہم نے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ دن کے 24گھنٹوں میں سے زیادہ گھنٹے خواتین کام کرتی ہیں، سب سے پہلے اُٹھتی اور سب سے آخر میں سوتی ہیں، لیکن کورونا اور لاک ڈاؤن میں تو اور زیادہ واضح ہوگیا کہ چاہے ورکنگ ویمن ہوں یا گھریلو خواتین وہ ہر لحاظ سے مَردوں سے زیادہ ہی کام کرتی ہیں، بلکہ ورکنگ ویمن کے کام میں تو مزید اضافہ ہوگیا کہ انہوں نے ورک فرام ہوم بھی کیا، بچّوں کی آن لائن کلاسز میں بھی مدد کی، بچّے بھی سنبھالے اور شوہر کا بھی خیال رکھا۔

نصرت سحر عباسی

’’پالیسی سازی، خصوصاً صحت کے حوالے سے پالیسی سازی میں خواتین کا کردار کتنا اہم ہےاور ہمارے ہاں اس حوالے سے کیا صُورتِ حال ہے؟‘‘ اس حوالے سے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس پارٹی کی انفارمیشن سیکریٹری اور ایم پی اے، سندھ اسمبلی نصرت سحر عبّاسی کا کہنا ہے کہ ’’خواتین کسی طور بھی مَردوں سے کم تر نہیں، لیکن نہ جانے کیوں مَردوں کا یہ معاشرہ اس بات سے انکاری نظر آتاہے۔

بہر حال، کورونا وائرس نے دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ خواتین گھر ہی نہیں، مملکت بھی بہتر طور پر چلا سکتی ہیں اور اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ کورونا وائرس پر قابو پانے والےاکثریتی ممالک کی سربراہان خواتین ہی ہیں۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صرف پاکستان میں خواتین کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے، لیکن جب مَیں امریکا گئی، لوگوں سے ملی تو دیکھا کہ وہاں بھی خواتین اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں، انہیں خود کو منوانے کے لیے ، اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے جدّو جہد کرنا پڑتی ہے۔ پوری دنیا ہی خواتین کو حقوق دینے کی بات تو کرتی ہے، لیکن انہیں با اختیار کوئی نہیں کرتا۔ چاہے میری اپنی پارٹی ہو یا پارلیمان پالیسی و فیصلہ سازی میں خواتین کی رائے کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی یا کم دی جاتی ہے۔ کہنے کوتو ہم 21 ویں صدی میں جی رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کے اس ماڈرن ، ترقّی یافتہ دَور میں بھی خواتین کو بار بار یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ ہر لحاظ سے اہل ہیں۔

مَیں نےدیکھا ہے کہ آفیشل میٹنگز یا اجلاسوں میں بھی جب تک خواتین ارکانِ اسمبلی بولنے کا حق نہ مانگیں، آواز نہ اُٹھائیں ،تب تک ان کی رائے نہیں لی جاتی، انہیں فیصلوں میں شامل نہیں کیا جاتا۔مر د کبھی یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ عورت اس سے زیادہ کام یاب یا اعلیٰ پوسٹ پر ہو۔ ویسے خواتین کی اس حالت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان میں اتحاد نہیں ، ہمارے مُلک کی خواتین انتہائی قابل، اہل اور ذہین ہیں، بس اگر یہ متّحد ہوجائیں تو پھرکوئی ان کا استحصال نہیں کر سکتا۔ ‘‘