...مگر ہم یہ بھی تو نہ کر سکے

March 03, 2021

پچھلے ہفتے ریلوے کی تنزلی کے حوالے سے چند حقائق بیان کئے تو لوگوں نے بربادیوں کے اس سفر میں بھی اپنے اپنے قائدین کو عالی مقام ثابت کرنے کی کوشش کی حالانکہ یہ چالیس برسوں کی کہانی تھی، ان چالیس برسوں میں جو لوگ بھی اقتدار میں رہے وہ تمام تنزلی کے ذمہ دار ہیں۔ اِس کالم میں حاجی غلام احمد بلور کا تذکرہ بھی شامل تھا، بلور صاحب دو مرتبہ ریلوے کے وزیر رہے۔ پہلی مرتبہ 1991میں ریلوے کے وزیر بنے، تو نواز شریف وزیراعظم تھے۔ اسی شاہی دور میں ریلوے کے ٹریک اور انجن بھٹیوں کی نذر ہوئے۔ غلام احمد بلور دوسری مرتبہ ریلوے کے وزیر نومبر 2008میں بنے، اس وقت تک بہت کچھ کھویا جا چکا تھا کیونکہ مشرف دور میں ریلوے کے اسکول ایک چہیتے وزیر کو دے دیے گئے تھے۔ بلوچستان سے متعلق منیر رند بتاتے ہیں کہ ...’’ایک وفاقی سیکرٹری سمیع خلجی نے بلوچستان میں ریلوے کا جو حال کیا، ہم اس سے پناہ مانگتے ہیں...‘‘۔ اکرم شاہد نے تو پورا کالم ریلوے والوں کو پڑھا ڈالا مگر کسی کو وطن کے لٹنے کا دکھ ہی نہیں شاید۔ لکھنے پڑھنے والے اجمل خان تبصرہ کرتے ہیں ...’’جی ٹی ایس، اسٹیل مل، پی آئی اے اور ریلوے کو اپنے ہی ملازمین نے برباد کیا لیکن اس میں حکمران طبقے کا بھی مکمل قصور ہے...‘‘۔ اب ریلوے کا حال کیا ہے یہ قصہ مخدوم سید خاور بیان کرتے ہیں ’’کل میں لاہور سے کراچی ریل گاڑی پر آیا، بہت مایوس ہوا، گاڑی وقت سے پہلے پلیٹ فارم پر پہنچ کر بھی دیر سے چلی، صفائی نہ ہونے کے برابر تھی، ٹوٹے ہوئے دروازے، سیٹیں خراب، موبائل چارجر کی جگہ ہی نہیں تھی اور میری سیٹ والی سائیڈ پر تو بتی بھی خراب تھی، اے سی بند، کھڑکیاں کھول کر سفر کرنا پڑا، ریلوے کی بدحالی دیکھ کر فیصلہ کیا کہ آئندہ ہوائی جہاز سے سفر کروں گا یا پھر بذریعہ روڈ، ہم کب اس ملک کو ترقی یافتہ دیکھیں گے؟‘‘

خواتین و حضرات! اگر باقی دوستوں کے تبصرے شامل کروں تو پتہ نہیں کتنے کالم لکھنا پڑیں۔ مایوسیوں کے سائے میں کیا لکھا جائے۔ پاکستان بنا تو 77فیصد مسلمان جبکہ 23فیصد اقلیتیں تھیں، اس وقت بنگلہ دیش ہمارا حصہ تھا، بنگلہ دیش میں آج بھی دس فیصد آبادی اقلیتوں پر مشتمل ہے جبکہ ہمارے ہاں ساڑھے تین فیصد اقلیتیں ہیں۔ ہم پاکستانی پرچم میں موجود سفید رنگ کا پاس بھی نہیں کر سکے۔ ہمارے ہاں اقلیتیں سکڑتی گئیں، قائداعظم اقلیتوں کا بہت احترام کرتے تھے مگر بعد میں آنے والوں نے ایسا نہ کیا۔ گیارہ اگست 1947کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس سے قائداعظم نے جو خطاب کیا، اسے چارٹر آف پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ جان و مال کی سلامتی سمیت اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا اعلان کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا ...‘‘آپ آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لئے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لئے، آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو، ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں...‘‘ شاید آپ کو یاد ہو کہ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی مجلسِ قانون ساز کے پہلے اجلاس کی صدارت ایک ہندو ممبر، جو وزیر قانون و انصاف بھی تھے،جوگندر ناتھ منڈل نے کی تھی۔

پاکستان کے نامور لکھاری علی احمد ڈھلوں نے اس حوالے سے شاندار کتاب لکھی ہے... ’’پاکستان کی روشن اقلیتیں‘‘... کتاب میں وطن عزیز کے لئے اقلیتوں کی خدمات، درپیش مسائل، پاکستان کے چارٹر اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات سے متعلق سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ یہ کتاب شاندار دستاویز ہے۔ علی احمد ڈھلوں نے پاکستان کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل، سابق چیف جسٹس اے آر کارنیلئس، سروکٹر ایلفرڈ، جگن ناتھ آزاد، ڈاکٹر روتھ فائو، ڈاکٹر عبدالسلام، جسٹس بھگوان داس، سر ظفر اللہ خان، ڈاکٹر الیگزینڈر جان ملک، اردشیر کائوس جی، راجہ تری دیو رائے، جسٹس دراب پٹیل، جمشید مارکر، ڈنشا آواری، انیل دلپت، شبنم، روبن گھوش، ڈاکٹر میرا فیلبوس، دانش کنیریا، اے نیئر اور سلیم رضا سمیت کئی شخصیات کو سنہری حروف میں یاد کیا ہے۔ قائداعظم کے فرمان کی خوبصورت عکاسی افواج پاکستان میں تو ہوتی ہے شاید کسی اور محکمے یا فورم پر نہیں ہوتی کیونکہ فوج میں مذہبی، علاقائی اور لسانی تعصبات کی نفی کی جاتی ہے، فوج میں فرقہ واریت، صوبائیت سمیت دیگر تعصبات سے بھی گریز کیا جاتا ہے۔ علی احمد ڈھلوں نے پاک فوج میں شاندار خدمات انجام دینے والوں کو بھی قیمتی لفظوں سے یاد کیا ہے۔ ان میں لیفٹیننٹ جنرل عبدالعلی ملک، میجر جنرل افتخار جنجوعہ، میجر جنرل جولین پیٹر، میجر جنرل گیزاڈ مانک (پارسی) اور میجر ہرچرن سنگھ شامل ہیں۔ اسی طرح پاک فضائیہ میں شاندار خدمات پر ایئر مارشل گورڈن ہال، ایئر کموڈور ڈبلیو جے ایم تورو وچ، ایئر کموڈور نذیر لطیف، ونگ کمانڈر مروین لیسلی، سکوارڈن لیڈر پیٹر کرسٹی، سیسل چوہدری اور فلائیٹ لیفٹیننٹ جاوید اقبال کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔

ہمیں اقلیتوں کا نہ صرف احترام کرنا چاہئے بلکہ ان کا خاص خیال رکھنا چاہئے مگر ہم تو اس حوالے سے اپنی سیاحت کو بھی آگے نہیں بڑھا سکے۔ دنیا کے پانچ بڑے مذاہب میں سے تین کے مرکزی اور بنیادی مراکز ہمارے پیارے پاکستان میں ہیں۔ ہندو مت کے بڑے پیشوا آج بھی کٹاس راج اور شاردہ کی طرف منہ کر کے اپنی عبادات کرتے ہیں۔ بدھ مت کا آغاز ہی ٹیکسلا سے ہوا، آج بھی بدھا کی نشانیاں شاہ اللہ دتہ، سرائے مادھو اور ٹیکسلا میں ہیں۔ اسی طرح سکھ مذہب کے بانی بابا گوروناک کے حوالے سے ننکانہ صاحب اور دربار صاحب کرتار پور کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان تینوں مذاہب کے ماننے والے پندرہ سے بیس ملکوں میں آباد ہیں، ہم ڈھائی سے تین ارب انسانوں کو مذہبی سیاحت کے ذریعے پاکستان کی جانب راغب کر سکتے ہیں مگر ہمارے ہاں ایسا سوچا ہی نہیں جا رہا۔

ایک دن درویش سے پوچھا تو وہ کہنے لگا... ہر شہر کے باہر ایک مذہب روڈ ہونی چاہئے۔ اس روڈ پر مسجد، امام بارگاہ، چرچ، مندر اور گوردوارے سمیت دیگر عبادت گاہیں ہونی چاہئیں، جس کا جہاں دل چاہے چلا جائے، ایسے ہی خیالات قائداعظم محمد علی جناح کے تھے، سچ بہت کڑوا ہے اور سچ یہ ہے کہ ہم نے نفرتوں کو پالا ہے، ہم محبتوں سے دور ہو گئے ہیں، کسی کو اپنا بنانے کے لئے محبتوں کو پالنا لازم ہے کہ بقول ناصرہ زبیری؎

کبھی تھے لازمی مضموں وفا کے

مگر اب اختیاری ہو رہے ہیں