سینیٹ انتخابات اور پرویز رشید سے ’’حسن سلوک‘‘

March 04, 2021

سینیٹ انتخابات ضوابط کے مطابق ہر تین سال بعد منعقد ہوتے ہیںجس سیاسی جماعت کے جتنے ووٹ ہوتےہیں کم و بیش تھوڑا اوپر نیچے حصہ بقدر جثہ ہی ملتے ہیں لیکن پچھلے سینیٹ انتخابات میں کچھ ایسی ’’انہونی ‘‘ ہوئی جس کے پیش نظر ہمارے لوگوں نے سمجھا کہ شاید وہی سب کچھ اب بھی دہرایا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے یہ بلنڈر کیا کہ واضح آئینی شق کی موجودگی کے باوجود اپنا غیر آئینی آرڈیننس لاگو کرنے کی منفی سوچ کے زیر اثر صدارتی ریفرنس تیار کرتے ہوئے خواہ مخواہ سپریم جوڈیشری کو آزمائش میں ڈال دیا کسے معلوم نہیں کہ تشریح وہاں کی جاتی ہے جہاں کوئی سقم یا ابہام ہو۔ جب سیکریسی قطعی واضح آئینی تقاضا ہے تو پھر اس پر حجت بازی کے مقاصد ناقابلِ فہم ہیں۔

مسٹر جسٹس یحییٰ صاحب کے اختلافی نوٹ میں، ایک فقرہ اس ساری کج بحثی پر حاوی ہے ’’صدرِ مملکت نے جس معاملے پر رائے طلب کی ہے، وہ آئین کے آرٹیکل 186کے تحت قابلِ غور ہی نہیں ہے ‘‘۔ اور ریٹائرڈ جسٹس شائق عثمانی صاحب کا یہ استدلال اس سے بھی بڑھ کر ہے کہ ووٹ قابلِ شناخت ہو تو الیکشن کا مقصد ہی ختم ہو جائے گا۔ دراصل ہمارے ہاں کرپشن سے نفرت کی مثبت سوچ کو اپنے مخصوص VESTED INTERESTS کیلئے یا اپنا الو سیدھا کرنے کیلئے ہر دور میں جس طرح استعمال کیا گیا ہے اور کیا جاتا ہے، یہ قابل نفرت ہی نہیں حقائق کی نظر سے دیکھا جائے تو خود اس پارسائی کے پروپیگنڈے کے اندر ایک بدترین کرپشن چھپی ہوتی ہے ۔

وہ پارٹی جس کی قیادت پر آپ نے الزامات کی بھرمار کرتے ہوئے کیا کچھ نہیں کیا انہوں نے اپنے جن لوگوں کو سینیٹر بنانے کیلئے آپ کےبقول نوازا ہے، ایک ایک پر بحث ہو سکتی ہے کہ وہ کتنی طویل مدت سے لیگ یا لیگی سوچ کے ساتھ وابستہ ہے یا جڑا ہوا ہے اور ان حوالوں سے اس کی خدمات کیا ہیں جبکہ آپ کی نوازشات میں ذاتی تعلقات یا ذاتی مفادات کی بات نہ بھی کی جائے تو بھی یہ سوال بار بار میڈیا کی طرف سے اٹھایا جاتا ہے کہ باتیں آپ غریب کارکنوں یا ان کی قربانیوں کی کرتے ہیں مگر معاملہ جب بھی شرینیاں بانٹنے کا آتا ہے تو کروڑ پتی یا ارب پتی لوگ ہی کیوں آپ کے منظورِ نظر ہوتے ہیں؟

جب یہ کالم تحریر کیا جا رہا ہے سینیٹ انتخابات کے نتائج آنے میں لگ بھگ سات گھنٹے باقی ہیں لیکن اندازہ یا قیافہ قطعی واضح ہے کہ وفاق میں جیت حکومتی امیدوار ہی کی ہونی ہے حالانکہ ایک طرف وہ شخص ہے جس کی اپنی پارٹی سے وابستگی کی طویل تاریخ ہے اور وہ اپنے طویل تعلق کی بنیاد پر ہی اعلیٰ ترین ذمہ داری پر فائز رہ چکا ہے جبکہ دوسری طرف ساری خدمات تو IMFکیلئے رہی ہیں۔ سیاسی وابستگی کتنی ہے یہ بھی سب کو معلوم ہے لیکن ہمارے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ جس نوع کے کرشمے کی وہ توقع کرنے لگتے ہیں وہ مہربانوں کی خصوصی محبت کے بغیر کیسے ممکن ہے؟ اگر بظاہر آپ کو تھوڑی سی غیر جانبداری دکھائی دی ہے محض اس برتے پر آپ لوگ کیسے یہ سوچ سکتے ہیں کہ کو ئی کرشمہ ہونے والا ہے؟ زرداری صاحب تو بادشاہ آدمی ہیں اپنی شان میں کچھ بھی فرماسکتے ہیں ۔

درویش کو کسی کی ہار جیت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور میڈیا سے منسلک کسی بھی شخص کو پوری کوشش کرنی چاہئے کہ وہ سچائی اور اصولوں کی بنیاد پر حمایت یا مخالفت کرتے ہوئے ایک نوع کا غیر جانبدارانہ رویہ اپنائے ۔البتہ سنیٹر پرویز رشید صاحب کے ساتھ ان سینیٹ انتخابات میں جو رویہ اپنایا گیا ہے اس پر افسوس ہی کیا جاسکتاہے ۔پرویز رشید کی پارٹی وابستگی سے لیکر آئین اور جمہوریت کی سربلندی کیلئے جدوجہد اور قربانیوں کی طویل داستان ہے ۔اس ملک میں جب جب آئین شکنی ہوئی اور غیر جمہوری ہتھکنڈے اپنائے گئے، پرویز رشید صاحب ہر آمریت کے بالمقابل پوری استقامت سے کھڑے رہے، پرویز مشرف کے دور میں اس عظیم انسان پر ستم کے پہاڑ توڑے گئے مگر ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔جمہوری جدوجہد اور اعلیٰ انسانی اقدارپر ایمان رکھنے و الوں کیلئے وہ رول ماڈل ہیں۔ ڈان لیکس اسکینڈل کیا تھا ؟ اس کی تمام تر تفصیلات ہمارے میڈیا میں آ چکی ہیں مگر اس کا نشانہ ناجائز طور پر اس ذمہ دار شخصیت کو بنا دیا گیا۔

ایک سینیٹر سے آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ سینیٹر بننے کے اہل نہیں ہیں کیونکہ آپ پنجاب ہائوس کے نادہندہ ہیں وہ بقایاجات اٹھائے پھر رہا ہے ۔دفاتر کے چکر کاٹتا ہے مگر کوئی وصول کرنے پر تیار نہیں ہے، آخر یہ کھیل کیوں اور کس لئے کھیلا گیا ہے ؟ جب ادائیگی کرنے والا چیک تھامے تیار ہے تو پھر اعتراض ازخود ختم ہو جاتا ہے۔ ہمارا گمان تھا کہ اپیل میں ایشو ختم ہو جائے گا مگر جب اپیل بھی مسترد ہوئی تو اندازہ ہوا کہ کواکب جس طرح دکھتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ ویسےہوں بھی۔ اس طرح، ایک برا سا محاورہ ہے کہ ایک برا آدمی برائی چھوڑ بھی دے پھر بھی کچھ نہ کچھ ہیرا پھیری کر ہی لیتا ہے اب ہمارے چھوٹے بڑوں کو اس نوع کا رویہ یا وتیرہ ترک کر دینا چاہئے توبہ کرنے والوں کیلئے کہا گیا ہے کہ توبتہ النصوح کرو۔