امن کی نئی امید۔۔۔!

March 04, 2021

میں نے گزشتہ سال بھارتی جنگی جہاز کی پاکستانی حدود میں دراندازی کے خلاف پاک فضائیہ کی حیران کُن جوابی کارروائی کے ایک سال مکمل ہونے کے تناظر میںروزنامہ جنگ میں اپنے کالم بتا ر یخ 27فروری 2020ء میں تحریر کیا تھا کہ آج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایسے وقت بھارت کا دورہ کررہے ہیں جب (پلوامہ)واقعے کو ایک برس گزر گیا لیکن دونوں ممالک کے مابین کشیدگی دور نہیں ہوسکی ہے۔تاہم مجھے خوشی ہے کہ آج دو سال گزرنے کے بعدجب میں اپنا یہ کالم تحریر کررہا ہوں تو دونوں ممالک کی عسکری قیادت نے علاقے میں امن قائم کرنے کے لئے لائن آف کنٹرول پر سیزفائر پراتفاق کرلیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز نے ہاٹ لائن پر تبادلہ خیال کیاہے، ایسا ہی خوشگوار بیان بھارت کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے بھی جاری کیا گیا ہے،میڈیا رپورٹس کے مطابق دونوں فریقین نے اس پراتفاق کیا ہے کہ کسی بھی طرح کی غیر متوقع صورتحال اور غلط فہمی دور کرنے کے لئے موجودہ ہاٹ لائن اور بارڈر فلیگ میٹنگز کا استعمال کیا جائے گا۔میںقیام امن کیلئے اس اہم ترین پیش رفت پر بہادر افواج پاکستان کے مثبت کردار کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ چند برسوں سے سرحدی کشیدگی کے شکار دونوں ممالک کی جانب سے یہ پیش رفت علاقائی امن و استحکام کی جانب بہت بڑا قدم ہے، مجھے نہیں یاد کہ گزشتہ پانچ سال میں دونوں ممالک نے کسی بھی ایشو پر اس طرح مشترکہ بیان جاری کیا ہو، میری معلومات کے مطابق ایل او سی پر تناؤ دور کرنے کیلئے دونوں ہمسایہ ممالک کے ڈی جی ایم اوز نے آخری مرتبہ 2013ء میں ایسا ہی ایک مشترکہ بیان جار ی کیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کی جانب سے جنوبی ایشیا کی دو بڑی جوہری طاقتوں کے مابین حالیہ جنگ بندی پر اظہار مسرت کا سلسلہ جاری ہے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر وولکن بوزکر نے پاک بھارت جنگ بندی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کا دوطرفہ معاملات کا حل تلاش کرنے اورخطے میں امن برقرار رکھنے کا عزم دیگر ممالک کے لئے ایک شاندار مثال ہے۔ ایل او سی پر حالیہ سیز فائر کے اعلان کے بعد میرے ذہن میں دو سال قبل کے دورہ بھارت کی یادیں بھی تازہ ہوگئی ہیں جب میںاپنے مذہبی تہوار کمبھ میلے میں شرکت کیلئے وہاں گیا تھا۔مجھے بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر خارجہ سشما سوراج اور امور خارجہ کے وزیر مملکت سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ سمیت دیگر حکومتی، غیر سرکاری، میڈیا اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی مختلف شخصیات سے ملاقات کرنے کا موقع ملاتو میں نے اپنے موقف کا برملااظہار کیا کہ پاکستان کا کوئی ادارہ پلوامہ حملوں میں ملوث نہیں، ہم بھارت سمیت اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات کے خواہاں ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ کسی بھی ملک کی سرزمین دوسرے ملک کے خلاف استعمال کی جائے،بھارت کو سمجھنا چاہئے کہ کچھ شدت پسند عناصر دونوں ممالک میں روز اول سے سرگرم ہیں ، دہشت گردی کے عفریت سے سب سے زیادہ متاثر ملک پاکستان ہے جس کی بہادر افواج اور عوام آج بھی قربانیاں دے رہے ہیں، بھارت کو بے بنیاد الزام تراشی کرنے کی بجائے پاکستان سے تعاون کرنا چاہئے۔مجھے وہاں بھارتی میڈیا سمیت جس فورم پر اظہار خیال کرنے کا موقع ملا، میں نےسب پر واضح کردیا کہ میں پاکستان کی جانب سے امن کا پیغام لے کر بھارت آیا ہوں، پاکستان اور بھارت کے مابین سیزفائر دونوں ممالک میں بسنے والے عوام کے مفاد میں ہے، دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت کو ایک نہ ایک دن مذاکرات کی میز پر آنا ہی پڑے گا،اگر دونوں ممالک کی حکومتیں ٹھنڈے دل سے غور کریں تو ترقی و خوشحالی سے دوری کی بڑی وجہ عوام کی بنیادی سہولتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے علاقائی تنازعات میں الجھنا اوربے وجہ مخالفانہ رویہ ہے۔ قیام امن کیلئے میری کاوشوں کو خود بھارت کے لوگوں نے تسلیم کیا کہ ڈاکٹر رمیش کمارنے اپنے بھارت کے دورے کے دوران بھارتی حکمرانوں سے ملاقاتیں کر کے پاک بھارت کشیدگی کے ماحول کو ختم کرنے کیلئے امید کی کرن روشن کردی ہے۔ افسوس،بھارتی قیادت نے ہوش کے ناخن لینے کی بجائے طاقت کا راستہ اپنانے کی کوشش کی لیکن پھر ہماری بہادر افواج کے پیشہ ورانہ ردعمل نے جس موثر انداز میں بھارت سمیت ساری دنیا کو حیران کیا، وہ ہماری ملکی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔آج دو سال گزرنے کے بعد سیز فائر کے اعلان نے میرے اس دیرینہ موقف کو تقویت پہنچائی ہے کہ دنیا کا ہر مسئلہ مذاکرات کی میز پر ڈائیلاگ کے ذریعے حل ہوسکتا ہے، آج کی جدید دنیا میں ماضی کے دشمن تجارتی و اقتصادی طور پر مضبوط ہونے کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کررہے ہیں، میری نظر میں آج پاکستان اور بھارت کو بھی اپنے عوام کو غربت سے نکالنے کیلئے دشمنی کی بجائے دوطرفہ تعاون میں اضافہ کرنا چاہئے۔ میرا آج بھی یہی ماننا ہے کہ بھارت میں نریندر مودی کی متشدد پالیسیوںکو ناکام بنانے کیلئے گاندھی جی کے نظریہ اہنساکے پیروکارامن پسند ہندوؤں کو آگے آناہوگا۔ دنیا گواہ ہے کہ ایک طرف سیکولر ازم کے نام لیوا بھارت میں اقلیتوں اور پاکستانی تارکین وطن کیلئے زمین تنگ کی جارہی ہے تو پاکستان میں غیرمسلم اقلیتوں کے مقدس مذہبی مقامات بحال کرکے مذہبی ہم آہنگی کا پیغام عام کیا جارہا ہے۔اس حوالے سے میں اپنا یہ عزم ایک مرتبہ پھر دہرانا چاہتا ہوں کہ میں مستقبل میں بھی اپنے پیارے وطن پاکستان کی ترقی و سربلندی کیلئے دونوں ممالک کے امن پسند عوام کو قریب لانے کیلئےعملی کردارادا کرتا رہوں گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)