حُسنِ سلوک اور باہمی تعلقات کا تصور

March 05, 2021

مولانا نعمان نعیم

(مہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: دین کے بارے میں کوئی زبردستی اور جبر نہیں ۔(سورۃ البقرہ) قرآن پاک نبی کریم ﷺ کو خطاب کرکے ہر مسلمان کو تنبیہ کرتا ہے: ترجمہ:’’ اگر اللہ چاہے تو زمین کے تمام رہنے والے مومن ہوجائیں تو کیا تم لوگوں کو مومن بنانے میں جبر و اکراہ کرنا چاہتے ہو‘‘۔اسلام نے محض حریت عقیدہ کا نظریہ ہی نہیں پیش کیا ،بلکہ عملی و قانونی طور پر اس کی حفاظت بھی کی ہے ،اس سلسلے میں کسی پر کوئی جبر نہ کیا جائے، جیسا کہ آیات قرآنی سے معلوم ہوتا ہے دوسرے یہ کہ اگر کسی کو اپنے کسی عقیدے کی طرف دعوت دینا ہے یا کسی کے عقیدے پر تنقید کرنی ہے تو عمدہ پیرائے اور نرمی کے ساتھ کرنی چاہیے۔ارشادِ ربّانی ہے:اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھے پیرائے میں نصیحت کے ساتھ بلائو اور ان سے بحث و مباحثہ اور اختلاف بھی اچھے طریقے سے کرو۔(سورۃ النحل )

غیر مسلموں کے ساتھ ظاہری رواداری ، حسن اخلاق ، شیریں کلام وغیرہ درست ہے اور جب اسلام کی تعلیم اور مسلمانوں کے اخلاق پیش کرنا مقصد ہوتو بہتر اور مستحب ہے ، اس پرانہیں اجر بھی دیا جائے گا۔ سیرت نبویؐ سے اس بات کی تائید ہوتی ہے ، چنانچہ فتح مکہ کا وہ تاریخی دن بھی تاریخ میں محفوظ ہے ، جب مکہ فتح ہوچکا تھا ، دشمنانِ اسلام سہمے ہوئے تھے ، ہزاروں تلواریں اشارۂ نبوی ؐکے منتظر تھیں ، مشرکین صحن کعبہ میں موجود ہیں ، آپ چاہتے تو ان کے ایک ایک جرم کا بدلہ لے سکتے تھے ، مگر ان جانی دشمنوں کو معافی کا پروانہ دے دیا گیا ، ارشاد فرمایا : ’’جاؤ ! تم سب کے سب آزاد ہو‘‘ اسی طرح مکہ سے مایوس ہوکر طائف کی وادی میں اسلام کی دعوت دینے پہنچے، اوباش لڑکوں نےآپﷺ کو پتھر مار مار کر لہو لہان کردیا ، راستے میں اﷲ کی طرف سے دو فرشتے آئے اور کہا کہ آپﷺ کا حکم ہوتو اس بستی والوں کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے ، لیکن آپﷺ نے فرمایا نہیں ، ایسا نہ کریں، کیا پتا ان کی آئندہ نسلیں دعوت ِحق کے اس پیغام کو قبول کرلیں ۔

غزوۂ خندق کے موقع پر ایک مشرک فوجی خندق عبور کرکے مسلمانوں کی طرف آگیا اور حضرت علیؓ کے ہاتھوں مارا گیا ، کفارِ مکہ نے لاش کی قیمت ادا کرکے لاش حاصل کرنی چاہی، لیکن آپﷺ نے قیمت نہیں لی اور یوں ہی ان کی لاش ان کے حوالے کردی ، اس طرح کے بیشتر رواداری اور حسن اخلاق کے ایسے واقعات ہیں کہ تاریخ ان کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے ، حیرت اس لیے بھی ہے کہ یہ رواداری اس صورتِ حال میں تھی جب کہ آپﷺ ان کفار سے برسرپیکار تھے اور ہر وقت ان سے ضرر رسانی کا خطرہ رہتا تھا ، ایسے وقت لوگ جذبات میں حسن سلوک اور ظاہری خوش خلقی سے عموماً متصف نہیں رہ سکتے ،بلکہ ایسے حالات میں انسانیت کا بھی احترام ختم ہوجاتا ہے ۔

یہ اسلام کی تعلیم ہے کہ حسن اخلاق اور رواداری بہر حال پیش نظر رکھنی چاہیے ، اس سے صرف ِنظر مسلمانوں کا وصف نہیں ہوسکتا ، اس لیے صحابۂ کرامؒ بھی اسی تعلیم پر عمل پیرا تھے ، حضرت عمر فاروقؓ جو کفار کے حق میں نسبتاً سخت سمجھے جاتے ، ایک روز مسجد سے نکل رہے تھے کہ ایک غیرمسلم فقیر کو دیکھا ، بھیک مانگ رہا ہے ، فاروق اعظمؓ اس کے پاس گئے اور حال دریافت کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ تو کوئی انصاف نہ ہوا کہ تیری جوانی اور قوت کے زمانے میں ہم نے تجھ سے ٹیکس وصول کیا اور جب تو بوڑھا ہوگیا تو اب ہم تیری امداد نہ کریں ، اسی وقت حکم دیا کہ بیت المال سے اسے تاحیات گزارہ الاؤنس دیا جائے ۔

اسلام نے مسلمانوں کو باہمی اخلاقیات کی جو تعلیم اور ہدایات دی ہیں ، ان کا راست مصداق تو مسلمان ہیں ، تاہم غیر مسلم افراد بھی اس میں شامل ہیں ، جیسے اسلام میں پڑوسیوں کی بڑی اہمیت بتائی گئی ہے ، ان کے ساتھ حسن سلوک ، حسن اخلاق کی تعلیم دی ہے اور انہیں اپنے شر سے حفاظت کی ہدایت دی ہے ، رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : ﴾ ’’ جو شخص اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے ، اسے اپنے پڑوسی کو اذیت نہیں پہنچانی چاہیے ‘‘ ( صحیح مسلم) ایک موقع پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، اس وقت تک بندہ ،مؤمن نہیں ہوسکتا ، جب تک اپنے بھائی اورپڑوسی کے لیے وہی چیزیں پسند نہ کرے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔ (مسند احمد) آپﷺ نے یہ بھی تعلیم دی ہے کہ جب سالن پکایا جائے تو اس میں اتنا شوربا بڑھادیا جائے کہ پڑوسیوں میں تقسیم کیا جاسکے۔ (صحیح مسلم)

پڑوسیوں سے متعلق اس طرح کے جو بھی احکام ہیں ،ان میں مسلم اور غیر مسلم دونوں داخل ہیں ، یعنی جس طرح مسلمان پڑوسی کو تکلیف سے محفوظ رکھا جائے گا اور اسے خوشی و راحت میں شامل کیا جائے گا ، اسی طرح غیر مسلم پڑوسی کا بھی حق ہے کہ اسے امن فراہم کیا جائے اور حسن سلوک کا معاملہ کیا جائے ، صحابۂ کرامؓ نے اس پر سختی سے عمل کیا ، حضرت عبد اﷲ بن عمرؓ نے ایک بار ایک بکری ذبح کروائی ، غلام کو ہدایت کی کہ وہ سب سے پہلے پڑوسی کو گوشت پہنچائے ، ایک شخص نے کہا حضور ! وہ تو یہودی ہے ، آپ نے فرمایا یہودی ہے تو کیا ہوا ؟ یہ کہہ کر رسول اﷲ ﷺکا حوالہ دیا کہ جبرائیل ؑنے مجھے اس قدر اور مسلسل وصیت کی کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ وہ پڑوسیوں کو وراثت میں حصے دار بنادیں گے۔(سنن ابوداؤد ، کتاب الادب )

سورۂ نساء میں مختلف پڑوسیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ، اس میں ایک قسم ’’الجار الجنب‘‘ بھی ہے ، بعض لوگوں نے اس سے غیر مسلم پڑوسی مراد لیا ہے ، علامہ قرطبیؒ لکھتے ہیں:پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ، یہ مندوب اور پسندیدہ ہے ، پڑوسی مسلم ہو یا کافر ۔

علماء نے کہا ہے کہ پڑوسی کے اکرام و احترام میں جواحادیث آئی ہیں وہ مطلق ہیں ، اس میں کوئی قید نہیں ہے ، کافر کی بھی قید نہیں ۔

ایک پڑوسی پہلو کے ساتھی کو بھی بتایا گیا ہے ، جس کو ’’ الصاحب بالجنب‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے ، اس سے مراد ہم نشیں دوست بھی ہے ، اور ایسا شخص بھی جس سے کہیں کسی وقت ملاقات ہوجائے ، جیسے بازار جاتے آتے ہوئے کارخانہ یا دکان اور فیکٹری میں کام کرتے ہوئے یاکسی اور طرح ایک دوسرے کی صحبت حاصل ہو ،وہاں بھی حکم دیا گیا ہے کہ نیک برتاؤ کرے اور تکلیف نہ دے ، اس میں بھی مسلم اور غیر مسلم کی کوئی قید نہیں ہے ، ایسے ہی پڑوسی کی جتنی بھی صورتیں ہوسکتی ہیں ، سب میں مسلمان کے ساتھ غیر مسلم بھی داخل ہیں ۔

سماجی زندگی میں تحائف اور ہدایا کے لین دین کی بڑی اہمیت ہے ، اس سے دوستی بڑھتی ہے ، باہمی فاصلے کم ہوتے ہیں اور دلوں سے تکلیف و رنج کے آثار دور ہوتے ہیں ، اس راز کو بیان کرتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا :ہدایا (ایک دوسرے کو تحفے دینا) کا لین دین کرو، محبت میں اضافہ ہوگا۔یہ حکم بھی عام ہے ، اس سے غیر مسلم خارج نہیں ، بلکہ ان سے بھی ہدایا کا تبادلہ کیا جانا چاہیے ، احادیث میں غیر مسلموں کو تحفے دینے اور ان کے تحفے قبول کرنے کا ثبوت موجود ہے ۔

سماج میں خوشگوار زندگی گذارنے کے لیے مہمانوں کی آمد و رفت اور دعوت کھانے اور قبول کرنے کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے ، ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو دعوت دے تو اسے قبول کرنا پسندیدہ ہے ، بلا وجہ اسے رد کرنے سے شریعت نے منع کیا ہے ، اسی طرح غیر مسلم کے ساتھ بھی جائز مقاصد کے لیے کھانا پینا مباح ہے ، وقت ضرورت اسے دعوت دی جاسکتی ہے اور اس کی دعوت قبول کی جاسکتی ہے ، رسول اکر مﷺ نے غیر مسلموں کی دعوت قبول فرمائی ہے ، حضرت انسؓ فرماتے ہیں:ایک یہودی نے نبی اکرم ﷺکو دعوت دی، آپﷺ نےاس کی دعوت قبول فرمائی ۔( مسند احمد : ۳/۱۱۲)

اگر کوئی شخص بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت اور مزاج پرسی کی تعلیم دی گئی ہے ، اس سے ہمدردی کا اظہار اور مریض سے یگانگت ہوتی ہے ، اس کے بڑے فضائل آئے ہیں ، مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم کی عیادت کا بھی یہی حکم ہے ، حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا رسول اکرم ﷺکی خدمت کیا کرتا تھا ، وہ بیمار ہوا تو آپﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لےگئے ﴿۔ (صحیح بخاری) ﴾ اسی طرح آپ ﷺبنو نجار کے ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے جو غیر مسلم تھا ۔( مسند احمد : ۳/۱۵۲ )

(…جاری ہے…)