حکومتی اتحاد کے لئے بڑا دھچکا

March 05, 2021

سینیٹ انتخابات میں حکومت کو جس بڑے دھچکے کا سامنا کرنا پڑا، اس کے منظرنامے میں وزیراعظم عمران خان کا اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کئی مبصرین کی رائے میں اصابت کا حامل ہے مگر یہ بات بہرطور ملحوظ رکھنے کی ہے کہ آنے والا وقت قدرے مشکل ہو سکتا ہے اور معاملات چلانے کے لئے ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی۔ 3؍مارچ کو منعقدہ الیکشن کے نتیجے میں اگرچہ پاکستان تحریک انصاف 26؍نشستیں لے کر ایوانِ بالا کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی تاہم مخالف پارٹیوں کی نشستوں کی تعداد 53ہونے کے باعث اپوزیشن کی برتری برقرار ہے جبکہ حکمراں اتحاد کے ارکان کی تعداد 47ہو گئی۔ نئی صورت حال میں تحریک انصاف ایوانِ بالا کی 26نشستوں، پیپلزپارٹی 21، مسلم لیگ (ن) 18، بلوچستان عوامی پارٹی 12، آزاد ارکان 5، جے یو آئی (ف) 5، ایم کیو ایم (پاکستان) 3، اے این پی2، نیشنل پارٹی2، پختونخوا میپ2، جماعت اسلامی1، بی این پی مینگل1، مسلم لیگ (ن)1اور مسلم لیگ فنکشنل ایک نشست کی حامل ہوگی۔ اسلام آباد کے الیکشن کو پوری قومی اسمبلی کے انتخابی کالج ہونے اور وزیر اعظم کا انتخابی حلقہ ہونے کی بنا پر خاص اہمیت دی جارہی تھی۔ اس لئے اس حلقے سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے مشترکہ امیدوار سید یوسف رضا گیلانی (169ووٹ) کی حکومتی امیدوار حفیظ شیخ (164ووٹ) کو پانچ کے فرق سے شکست دے کر کامیابی کی وجوہ مسترد ووٹوں کی تعداد سات ہونے سمیت جو بھی بیان کی جائیں یہ حقیقت ہے کہ اسی حلقے سے خاتون حکومتی امیدوار فوزیہ ارشد 174ووٹ لے کر کامیاب ہوگئیں جبکہ اپوزیشن امیدوار فرزانہ کوثر کو 161ووٹ ملے۔ اپوزیشن اسلام آباد کی سیٹ پر کامیابی کو اپنی علامتی بالادستی کے طور پر پیش کررہی ہے جبکہ سینیٹ کی نئی ہیئت ملکی سیاست کے مستقبل کا تعین کرنے میں یقینی کردار ادا کرے گی۔ آنے والے دنوں میں بہت سے امور کا انحصار ایک جانب اس بات پر ہوگا کہ عمران خان مذکورہ کیفیت کو کس حد تک ملحوظ رکھتے ہیں دوسری طرف یہ پہلو بھی خاص اہمیت کا حامل ہوگا کہ وہ اس غلطی کو تلاش اور دور کریں جو ان کے اندازوں کے برعکس نتیجے کا سبب بنی۔ ٹیم کے انتخاب سے لے کر پارٹی ارکان سے رابطہ کی کمی، قومی اسمبلی کے ارکان میں ناراضی سمیت تمام پہلوئوں کا جائزہ لیں اور سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ تحریک انصاف کے نعرے، وعدے اور اصول عمران خان سمیت بہت سے لوگوں کے لئے یقیناً اہم ہیں مگر سیاست مشکلات کے درمیان ہی آگے بڑھنے کا محفوظ راستہ تلاش کرنے کا نام ہے۔ پنجاب میں سینیٹ کے نئے اراکین کا اتفاق رائے سے انتخاب واضح کرتا ہے کہ دوسرے حلقوں میں بھی اسی طرح کے رابطے کئے جاتے تو شاید بعض شکایتوں کی گنجائش نہ ہوتی۔ احتساب کا قانونی عمل مختلف صورتوں میں پہلے بھی جاری رہا ہے مگر اسے محاذآرائی یا نعرے بازی کا ذریعہ بنانے کی بجائے اتفاق رائے سے قانون سازی کی صورت میں سفر آگے بڑھایا جائے تو زیادہ سودمند ہو پاکستان تحریک انصاف کو پارلیمان میں عددی اکثریت میں کمی کی مشکلات پہلے سے تھیں جو اب بڑھتی نظر آتی ہیں۔ اس صورت حال میں کئی پہلو ایسے نازک ہیں جن میں محاذ آرائی سے اجتناب برتنے اور اکٹھے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ بہتر ہے کہ سب پارٹیاں مل کر خامیوں، غلطیوں اور کمزوریوں پر قابو پائیں اور ملک کی کشتی کو چیلنجوں سے نکال کرمحفوظ راستوں کی طرف لے کر چلیں۔