...خواب کی تعبیر میں ہوتا

March 05, 2021

پاکستانی وزارتِ خارجہ میں بہت دوستیاں بھی رہیں، میل جول بھی رہا مگر حیرت ہر حال میں برقرار رہی۔ کئی مرتبہ دھیان اس طرف گیا کہ لوگوں کے ٹیکسوں کا کتنا پیسہ سفارت خانوں پر خرچ ہوتا ہے، ملکی دولت کا ایک بڑا حصہ سفیروں، سفارت خانوں اور سفارتی عملے پر صرف ہوتا ہے، کیا اس کے ثمرات اس کے مطابق آ رہے ہیں؟ بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے، ملکوں کے ساتھ تعلقات بنانے اور بگاڑنے میں اپنے سفیروں کا کردار بہت خال خال نظر آیا، ہمارے سفارتی عملے کی کارکردگی بھی کوئی اتنی قابلِ ذکر نہیں کہ اس پر فخر کیا جا سکے۔ اسلامی اور مغربی ملکوں میں سفارت خانوں کی کارکردگی کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ چند سطور لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ اکثر پاکستانی سفیر پاکستانی کمیونٹی سے دور رہنا ہی پسند کرتے ہیں۔ کمیونٹی کے دوچار امیر افراد سے تعلقات کو وہ پوری کمیونٹی سے منسوب کرتے ہیں، عام پاکستانیوں کو ملنا یا ان کے مسائل حل کرنا شاید ان کی شان میں کمی کا سبب بنتا ہے۔ پاکستانی سفیروں کی اکثریت میں سوچ کا مرکزی نقطہ ملک نہیں ان کا خاندان ہوتا ہے، وہ سوچتے رہتے ہیں کہ کس طرح ان کے بچے سیٹل ہو جائیں، کس طرح دولت کی دیوی ان پر مہربان ہو جائے۔ باقی سفارتی عملہ بھی اپنے سفیروں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پاکستان سے زیادہ اپنے بیوی بچوں کا سوچتا ہے۔ عملے کے اراکین اپنے پاکستانی بھائیوں کے لئے سہولیات فراہم نہیں کرتے بلکہ ان کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں۔ پچھلے دو ادوار میں تو امریکہ اور برطانیہ میں پاکستانی سفیر اپنی سیاسی پارٹیوں کو خوش کرنے میں لگے رہے، سیاسی لیڈروں کی سہولت کاری کرتے رہے۔ پاکستان کے کئی سفارتخانوں میں کمرشل قونصلر اور پریس قونصلر ہیں۔ بدقسمتی سے اکثر کمرشل قونصلرز اپنے ملک کے لئے نہیں بلکہ اپنی اقتصادیات بہتر کرنے کے چکروں میں رہتے ہیں۔ پاکستانی صدر، وزیراعظم یا وزیر خارجہ کا دورہ ہو تو پریس قونصلرز بھی جاگ جاتے ہیں، یہ عمومی رویہ ہے۔

خواتین و حضرات! اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سب لوگ ایک جیسے ہیں، اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ سب لوگ پاکستان کے لئے کام نہیں کرتے۔ کئی سفیر ایسے بھی ہیں جن کی ہر سرگرمی کا محور و مرکز صرف پاکستان ہوتا ہے، سفارتی عملے میں بعض افراد ایسے بھی ہیں جو اپنے پاکستانیوں کے لئے بےتاب ہو جاتے ہیں، مثلاً اس وقت امریکہ، برطانیہ اور چین میں تعینات پاکستانی سفیر انتہائی پروفیشنل ہیں۔ تینوں پاکستان کے لئے بہت کام کر رہے ہیں۔ خاص طور پر امریکہ میں تعینات ڈاکٹر اسد مجید پاکستان کے لئے دن رات ایککئے ہوئے ہیں۔ جب وہ سفیر بنے تو پابندیوں کا یہ عالم تھا کہ پاکستانی سفارتخانے کا کوئی بھی اہلکار واشنگٹن سے تیس کلو میٹر کی حدود سے باہر نہیں جا سکتا تھا۔ پابندیوں کا یہ سلسلہ دانشور ڈاکٹر اسد مجید نے ختم کروایا۔ ڈاکٹر اسد مجید عالمی حالات، ملکوں کے تعلقات اور مستقبل کے خدشات کو مدِنظر رکھ کر لائحہ عمل تیار کرتے ہیں۔ کئی جگہوں پر سفارتی عملہ بھی اتنا تعاون کرتا ہے کہ اسے یادگار بنا دیتا ہے۔ ندیم ہوتیانہ اور عابد سعید کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ ایک زمانے میں عطاء الحق قاسمی کو ناروے میں پاکستان کا سفیر بنایا گیا تھا پھر انہوں نے ناروے کو کھاروے بنا دیا، قاسمی صاحب نے وہاں پاکستانی پھلوں، چاول اور دیگر مصنوعات کو متعارف کروایا۔ کچھ سفیروں کو تعلقات نہ ہونے کے باعث پسماندہ ملکوں میں سفیر بنایا جاتا ہے مگر وہ وہاں بھی اپنی قابلیت کا جادو جگا نے میں کامیاب رہے، وہ اپنے ملک کے لئے خدمات کو یادگار بنا دیتے ہیں، ایسے افراد میں احمد علی سروہی بھی شامل ہیں، وہ شاید آج کل نائیجریا میں پاکستان کے سفیر ہیں، کبھی وہ یمن میں تھے۔

کمرشل قونصلرز بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، پچھلے کچھ برسوں کا حساب کتاب سامنے رکھیں تو پتہ چلے گا کہ اگر پاکستان کے کمرشل قونصلرز درست کام کر رہے ہوتے تو پاکستانی برآمدات میں اضافہ ہوتا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے کمرشل قونصلرز اپنے لئے کام کرتے رہے لیکن اپنے ملک کو بھول گئے۔ کورونا کے موسم میں پاکستانی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق چین کے لئے پاکستان کی برآمدات 41فیصد بڑھیں، برطانیہ اور امریکہ کے لئے تقریباً گیارہ فیصد اضافہ ہوا، افغانستان کےلئے بھی برآمدات میں سترہ فیصد اضافہ ہوا مگر جاپان ایسا ملک ہے جس کے لئے اضافے کی بجائے کمی ہوئی۔ یہاں دس فیصد ریکارڈ کمی ہوئی ،اسٹیٹ بینک کے مطابق پچھلے سال جولائی سے دسمبر تک جاپان کےلئے پاکستانی برآمدات 89ملین ڈالر ریکارڈ کی گئیں جبکہ یہ برآمدات اس سے پہلے 99.64ملین ڈالر تھیں۔ ایسا کیوں ہوا اسے سمجھنے کےلئے بھارت اور بنگلہ دیش پر نظر دوڑائیں۔ جاپان کےلئے بھارت کی برآمدات پانچ ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکی ہیں جبکہ بنگلہ دیش کی برآمدات بھی ڈیڑھ ارب ڈالرز سے زیادہ ہیں۔ حکومت پاکستان کے کسی ذمہ دار نے ٹوکیو میں تعینات پاکستانی کمرشل قونصلر سے یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ ایسا کیوں ہوا ہے، کسی نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ پاک جاپان بزنس کونسل جو جاپان سے پاکستان کےلئے سرمایہ کاری کیلئے کام کر رہی ہے آخر اس کے خلاف جاپانی حکام کو کیوں خطوط لکھے، اپنے پاکستانی بھائیوں کے خلاف انتقام کی یہ آگ کیوں بھڑکائی ؟ پاکستانی سفیر تو پاک جاپان بزنس کونسل کے صدر کے معترف ہیں، کہیں یہ سب کچھ سفیر اور کمرشل قونصلر کی آپس کی جنگ کا شاخسانہ تو نہیں ، جس سے ملک کا نقصان ہو رہا ہے ۔بقول افتخار عارف:

وحشت کا اثر خواب کی تعبیر میں ہوتا

اک جاگنے والا میری تقدیر میں ہوتا

مہتاب میں اک چاند سی صورت نظر آتی

نسبت کا شرف سلسلۂ میر میں ہوتا