اقتدار کی رگوں میں دوڑتی تبدیلی

March 05, 2021

ہمارے ہاں ادب کی طرح سیاست کو بھی صحیح حیثیت نہیں دی گئی اور بدقسمتی سے سیاست دانوں کو بدترین مخلوق ثابت کرنے کا سلسلہ بہت پہلے شروع ہو گیا تھا۔ حال ہی میں عظیم روسی ادیب چیخوف (Chekhov)کی ایک تحریر میری نظر سے گزری ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’ادب پارٹی آفس ہے نہ کھلنڈروں کی تفریح گاہ ہے، نہ تھکے ماندوں کی پناہ گاہ۔ ادب ایک ایسا نگارخانہ ہے جس کی رونق اُن تصویروں سے ہے جو انسانی زندگی کے تجربات کا بیان ہوتی ہیں، اِس لئے فن کار کی دلچسپیاں جتنی رنگا رنگ اور ہمہ گیر ہوں گی، اتنا ہی اُس کا فن جاندار اور متنوع خصوصیات سے تابناک ہوگا‘‘۔

ریاستِ مدینہ میں اقتدار ایک مقدس امانت قرار پایا تھا جو عوام کی خدمت اور اُن کے حقوق کے تحفظ کا دوسرا نام تھا۔ حضرت عمرؓ رات کے وقت بھیس بدل کر شہر کا چکر لگاتے۔ ایک رات اُنہیں ایک مکان سے بچوں کے مسلسل رونے کی آواز سنائی دی۔ آپؓ رک گئے اور کچھ دیر بعد آہستہ سے دستک دی۔ خاتونِ خانہ باہر آئی، تو آپؓ نے بچوں کے مسلسل رونے کی وجہ معلوم کی۔ خاتون نے تند لہجے میں کہا کہ خلیفہ عمرؓ کے عہد میں میرے خاندان کی مالی حالت اِس قدر ابتر ہو گئی ہے کہ ہمارے لئے جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنا اور بچوں کو غذا فراہم کرنا محال ہو گیا ہے۔ یہ سن کر آپؓ کانپ اٹھے اور سخت پریشانی اور پشیمانی کی حالت میں بیت المال کا رخ کیا۔ وہاں سے کھانے کا سامان کندھوں پر اُٹھایا۔ آپؓ کے خدمت گار نے اصرار کیا کہ یہ سامان میرے کندھوں پر رکھ دیجئے۔ آپؓ نے پوچھا کیا قیامت کے روز تم میرا بوجھ اُٹھا سکو گے؟ کھانے کا سامان خاتونِ خانہ کے حوالے کرتے ہوئے ملتجیانہ لہجے میں کہا کہ میں خلیفہ عمرؓ ہوں اور حکومت کی کوتاہی پر تم سے معافی کا درخواست گزار ہوں۔ اُس نے شکریہ ادا کیا اور آپؓ نے اُس خاندان کا وظیفہ مقرر کر دیا۔ الحمدللہ پاکستان اِسی درخشندہ روایت کا امین ہے۔

یہ ایک دکھ بھری حقیقت ہے کہ ہماری سیاسی قیادتیں اور سیاسی جماعتیں اسلامی اور جمہوری اصولوں کی پوری پاسداری کر سکیں نہ عوام کی خدمت کو صحیح طور پر اپنا شعار بنا سکیں۔ ہمارا حددرجہ ناقص اور کمزور اِنتخابی نظام اِس کا سبب بنا رہا۔ غالباً 2008کے سوا باقی تمام انتخابات دھاندلی کی زد میں آئے۔ مختلف تجربات کے بعد 1973کے دستور میں طے کیا گیا کہ الیکشن کمیشن کا آئینی ادارہ صرف جج صاحبان پر مشتمل ہو گا۔ 1977کے انتخابات ہی میں یہ امر ثابت ہو گیا کہ فاضل جج صاحبان منظم دھاندلی کے سدِباب میں بری طرح ناکام رہے۔ پاکستان قومی اتحاد نے وزیرِاعظم بھٹو کے خلاف تحریکِ مزاحمت شروع کی جس کے نتیجے میں اُن کا اقتدار بھی ختم ہوا اور مارشل لا کے ہاتھوں وہ جان کی بازی بھی ہار گئے۔ اِس دردناک حادثے کے بعد ماہنامہ اُردو ڈائجسٹ کی طرف سے یہ مسلسل مطالبہ ہوتا رہا کہ بھارت کی طرح پاکستان کے الیکشن کمیشن میں وہ افراد لئے جائیں جو انتظامی صلاحیتوں اور تجربے کے حامل ہوں۔ ہم نے اُس وقت بھی یہ مطالبہ پوری قوت سے اُٹھایا جب 2010میں دستور کے اندر بنیادی ترامیم کی جا رہی تھیں، مگر ہماری سیاسی لیڈرشپ سب سے اہم ترمیم سے غافل رہی۔ اہلِ نظر کی جدوجہد جاری رہی اور آخرکار 2017میں جو انتخابی ایکٹ منظور ہوا، اُس میں یہ شق بھی شامل تھی کہ جج صاحبان کے علاوہ دُوسرے شعبوں سے اعلیٰ صلاحیت کی حامل شخصیتیں بھی الیکشن کمیشن کا حصہ بن سکتی ہیں۔

2020میں وزیرِاعظم عمران خان اور قائدِحزبِ اختلاف شہبازشریف کی منظوری سے نئے الیکشن کمیشن کا انتخاب عمل میں آیا اور پہلی بار اَعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز رہنے والے سکندر سلطان راجہ چیف الیکشن کمشنر تعینات کیے گئے۔ مَیں نے اخبار میں اُن کا نام پڑھا، تو بہت خوشی ہوئی۔ ہمارے محترم دوست ڈاکٹر شفیق چودھری، راجہ صاحب کی اصول پسندی اور دَیانت داری کی بڑی تعریف کیا کرتے تھے۔ وہ 2002میں پنجاب کے وزیرِآبکاری تھے جبکہ راجہ صاحب اُن کے محکمے میں ڈائریکٹر جنرل تعینات تھے۔ محکمے کے سیکرٹری ایک فوجی افسر تھے جنہوں نے راجہ صاحب کو پالیسی کے خلاف کوئی کام کرنے کے لئے کہا، تو اُنہوں نے صاف انکار کر دیا۔ یہ بڑے دل گردے کی بات تھی۔ آج حُسنِ اتفاق سے الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان بھی ایک درخشاں ماضی رکھتے ہیں۔ سکندر سلطان راجہ اور اُن کے رفقا نے اُس وقت غیرمعمولی جرأت اور بصیرت کا ثبوت دیا جب سپریم کورٹ کے فاضل بینچ نے اُنہیں صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران طلب کیا اور پے در پے سوالات کے ذریعے اِس طرف راغب کرنے کی کوشش کی کہ سینیٹ کے انتخابات میں اوپن بیلٹ کا نظام رائج کرنے کا کوئی راستہ دریافت کیا جائے۔ چیف الیکشن کمشنر نے دوٹوک الفاظ میں اپنا موقف بیان کیا کہ اوپن بیلٹ کے لئے آئین کی شق 226 میں ترمیم کرنا ہو گی۔ قومی حلقوں نے محسوس کیا کہ پہلی بار الیکشن کمیشن نے ایک آزاد اَور خودمختار اِدارے کی حیثیت سے ایک قابلِ فخر کردار اَدا کیا ہے۔

پھر ڈسکہ ٹریجڈی کا نزول ہوا۔ پنجاب میں تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہے، چنانچہ اِس نے ضمنی انتخاب میں نشست جیتنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ چیف الیکشن کمشنر نے انتخاب کالعدم قرار دَیتے ہوئے پورے حلقے میں ری پولنگ کے احکام جاری کر دیے۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب جنہوں نے عدم تعاون کی بدترین مثال قائم کی تھی، اُنہیں اپنی عدالت میں طلب کر لیا جن پر کڑے احتساب کا خوف طاری ہے۔ لاپتہ بیس پریذائیڈنگ آفیسرز کے خلاف ایف آئی آر درج کرا دی گئی ہے اور کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور پولیس کے اعلیٰ حکام تبدیل اور معطل کیے جا چکے ہیں۔ اِن اقدامات سے حکومت پر لرزہ طاری ہے، کیونکہ رگِ اقتدار میں تبدیلی دوڑتی پھر رہی ہے اور سینیٹ کے انتخابات کے جو نتائج برآمد ہوئے ہیں، وہ تبدیلی کی رفتار میں حیرت انگیز اضافہ کر دیں گے۔ ہم اِس عظیم تغیر پر اپنے الیکشن کمیشن کو سلام پیش کرتے ہیں اور ملک میں صحت مند انقلاب کی توقع رکھتے ہیں۔