یورپ میں بڑھتا اسلاموفوبیا

March 05, 2021

چند روز قبل فرانس کے تاریخی شہر سٹراس برگ میں زیرِ تعمیر مسجد کے ڈھانچے پر ایک اسلام مخالف اور نسل پرستانہ حملے میں ’’اپنے گاؤں واپس جاؤ‘‘ کے نعرے لکھے گئے۔ یہ مسجد استنبول میں دفن صحابی حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے منسوب ہے اور مکمل ہونے پر یورپ کی سب سے بڑی عبادت گاہ ہوگی۔ سٹراس برگ دنیا کے چند ایسے شہروں میں سے ایک ہے جو ملکی دارالحکومت نہ ہونے کے باوجود بین الاقوامی شان و شوکت اور اہمیت کا حامل ہے جہاں یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے علاوہ کئی انٹرنیشنل اداروں کے اہم دفاتر قائم ہیں جن میں یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس بھی شامل ہے۔ مسجد کی منتظم ملی گورش اسلامی کنفیڈریشن کے مطابق اگرچہ حملے میں کوئی مالی نقصان نہیں ہوا مگر اس کی بڑی علامتی اہمیت ہے جس سے دورِ حاضر میں فرانس میں رائج اسلام مخالف ماحول کی عکاسی ہوتی ہے۔ ملی گورش کے مطابق حالیہ ہفتوں میں انہیں کئی بار دھمکیاں دی گئیں مگر پولیس نے ابھی تک ان کے تحفظ کیلئے کوئی کارروائی نہیں کی۔ مسلمانوں کے تئیں فرانس کا معاندانہ رویہ ایک مسلمہ اور تاریخی حقیقت ہے اور انہیں مذہب یا رنگ یا دونوں کی بنیاد پر مسلسل تفریق وتنقید اور ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ الجزائری نژاد فرانسیسی فلم ڈائریکٹر رشید بوخاریب کی 2006 کی فلم 'اندی جینی جسے انگریزی میں 'ڈیز آف گلوری کے نام سے شہرت ملی، میں فرانس کی نازی جرمنی کے قبضے سے آزادی کی جنگ میں مسلمانوں کی قربانیوں کے باوجود ان سے امتیازی اور نفرت آمیز سلوک کو اچھی طرح دکھایا گیا ہے۔ اس فلم سے کچھ عرصے کیلئے فرانسیسی مسلمانوں کے بارے میں حکومت کے سلوک میں کچھ تبدیلی آئی مگر یہ زیادہ عرصے تک نہیں رہ سکی۔ اب صدر عمانویل میکرون نےاسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس قدر شرانگیز مہم شروع کی ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے ادارے بھی آواز اٹھانے لگے ہیں۔ گزشتہ سال جاری ہونے والی ایمنسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق فرانسیسی حکومت مسلمانوں کے بنیادی عقیدے مثلاً روزے اور نماز کو بھی شدت پسندی کی علامات میں شمار کرتی ہے۔ صدر میکرون سے شہ پاکر حکومت کے دیگر عہدیدار بھی اسلام کو نشانہ بنارہے ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف تعصب اور سرکاری تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ سال جنوری سے اب تک لگ بھگ سو کے قریب مساجد اور اسلامی اسکولوں کو بند کردیا گیا ہے۔ مزید برآں سینکڑوں مسلمان طلبا جن میں دس سال کی عمر کے بچے بھی شامل ہیں کو پولیس نے 'شدت پسندی کے الزام میں پکڑا۔ ایمنسٹی کے مطابق سرکاری سطح پر لگائے جانے والے بنیاد پرستی کے الزامات عموماً مذہب کی پیروی کرنے والے مسلمانوں پر لگائے جاتے ہیں۔ اسلاموفوبیا کی تاریخ سے پورا یورپ بھرا پڑا ہے جس کو نائن الیون کے بعد جواز بناکر پھر سے سرکاری سرپرستی میں زندہ کردیا گیا۔ پھر بظاہر آزاد میڈیا کے ذریعے اس کو اس قدر عام کردیا گیا کہ عام افراد کیلئے مسلمانوں کے خلاف ردعمل بظاہر ایک قدرتی فعل تصور ہونے لگا۔ اس کے نتیجے میں جمہوری حکومتوں اور پارٹیوں کیلئے اسلام اور مسلمان مخالف جذبات اور احساسات کی ترویج و اشاعت ایک نفع بخش کاروبار بن گیا جس کے ذریعے وہ لوگوں کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ فرانسیسی صدر میکرون کے کچھ ناقدین کے مطابق اسلام کے خلاف ان کا زہریلا پروپیگنڈا دراصل ان کی جانب سے اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت کو بحال کرنے کا ایک سستا طریقہ ہے۔

تازہ ترین واقعے میں اسلام مخالف شدت پسندوں نے اسپین کے مرسیہ علاقے کے گاؤں سان یاویر میں مسجد پر حملہ کرکے اسے آگ لگانے کی کوشش کی۔ مقامی لوگوں اور پولیس کی بروقت کارروائی سے نقصان بہت کم ہوا۔ اگرچہ حملہ آوروں نے مسجد کی دیواروں پر 'اسلام مخالف نعرے لکھے مگر مقامی لوگوں نے اس کی مذمت کرتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا۔ اس کے برعکس یونان میں حکومت نے تھیلیسونیکی نامی شہر، جو عثمانی دور میں سلونیکا کے نام سے مشہور تھا، میں مسلمانوں کیلئے مسجدبنانے کا دیرینہ مطالبہ رَد کردیا ہے۔ شہر میں 1829تک درجنوں مساجد تھیں جنہیں عثمانی سلطنت کے خاتمے کے بعد تباہ کردیا گیا۔ جو مساجد ابھی بچی ہیں انہیں یونانی حکومت کھولنے سے انکاری ہے۔ اسلام دشمنی کی اس بڑھتی ہوئی فضا میں بین المذہبی خلیج بڑھنے کے ساتھ ساتھ شدت پسندی بڑھنے کا بھی امکان ہے۔ مگر جرمن حکومت نے حال ہی میں ایک قابلِ داد پروجیکٹ تشکیل دیا ہے جس سے مستقبل میں ابراہیمی مذاہب کے درمیان دوریوں کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ برلن میں اس سال کے وسط میں قائم کئے جانے والے دی ہاؤس آف ون میں ایک ہی چھت تلے یہودیت، عیسائیت اور اسلام کی عبادت گاہوں کے علاوہ آپس میں میل جول کی مشترکہ جگہ بھی ہوگی۔