اونٹ کے منہ میں زیرہ

March 27, 2021

اطہر اقبال

پیارے بچو! یہ بھی ایک مشہور کہاوت ہے، جو ایسے موقع پر استعمال ہوتی ہے جب کسی کو اس کی توقع سے کم معاوضہ یا فروخت کی گئی چیز کی انتہائی کم قیمت ملے۔ شوکت ایک محنتی لڑکا تھا، اس کی عمر تو صرف پندرہ سال تھی لیکن والد کے انتقال کے بعد ماں اور بہن، بھائیوں کی تمام ذمہ داری اس پر آگئی تھی ۔ پہلے وہ مختلف جگہوں پر محنت مزدوری کرتا رہا، پھر لیڈیز بیگ بنانے کا کام سیکھ کر اپنی محنت کی کمائی سے پس انداز کی ہوئی رقم سے گھر میں چھوٹا سا کارخانہ لگا لیا۔

وہ شب و روزمحنت کرکے بیگ تیار کرتا اور دکانداروں کو دے آتا۔ کوئی بھی دکاندار شوکت کو اس کے مال کی قیمت یک مشت نہیں دیتا تھا بلکہ دکانداروں نے یہ طریقہ بنایا ہوا تھا کہ وہ تمام دکانوں پر دس ہزار روپے مالیت کے بیگ سپلائی کرتا لیکن وہ اُسے ہر ہفتے ایک ہزار روپے کی ادائیگی کرتے۔ یہ ہزار روپے تو کاریگروں کی اجرت دینے کے لیے بھی کم ہوتے تھے،شوکت کو بینک سے مزید رقم نکلوا کر ان کی تنخوا پوری کرنا پڑتی۔

اس کے باوجود شوکت کو یہ تسلّی تھی کہ ’’میرے پیسے دکانداروں پر چڑھ ہی رہے ہیں، عید کے موقع پر تو تمام دکاندار حساب بے باق کردیتے ہیں، کم از کم میرا کاروبار تو چل ہی رہاہے‘‘۔ شوکت کا کام اسی طرح چلتا رہا، اور دکانداروں پر اس کے ہزاروں روپے واجب الادا ہوگئے جب کہ شوکت کو ان سے ایک ہزار روپے ہفتہ ہی ملتا تھا۔ ایک روز شوکت کا ایک دوست اس کے پاس آیا اور اس سے اس کے کاروبار کے بارے میں پوچھا۔ شوکت نے جواب دیا،’’بھائی میرا کاروبار بھی عجیب ہے، ہزاروں کا مال ادھار دیئے جاؤ، اور مجھے اس کے عوض ہر ہفتےصرف ایک ہزار روپے ملتا ہے‘‘۔

دوست نے کہا، ’’ تم ان سے کہو کہ وہ تمہیں کم سے کم آدھی رقم تو دیا کریں‘‘۔ شوکت نے جواب دیا، ’’ میں نے ان سے کئی بار کہا، لیکن تمام دکاندار کہتے ہیں کہ ہم تو اسی طرح کاروبار کرتے ہیں، اگر بیگ دینا ہے تو دو، ورنہ دوسرے بہت ہیں دینے والے‘‘۔

یہ سن کر اس کا دوست بے ساختہ بولا، بھئی واہ، دکاندار بھی خوب چالاکی دکھاتے ہیں، مال لیں ہزاروں کا اور دیں صرف ہزار روپے ہفتہ، اسے کہتے ہیں ’’اونٹ کے منہ میں زیرہ‘‘۔