چمکتی، کچھ ڈھونڈتی آنکھیں

March 31, 2021

محمود شام

میر جاوید رحمٰن جنہیں مرحوم کہتے ہوئے دل کانپ جاتا ہے۔ ان کی برسی آگئی ہے۔ اتنے متحرک فعال اور مستعد احباب سے دنیا خالی ہوتی جارہی ہے۔ جنگ گروپ سے وابستگی کا آغاز تو برنس روڈ پر واقع دفتر سے کیا تھا۔ لیکن کچھ ہفتے بعد ہی آئی آئی چندریگر روڈ پر نو تعمیر شدہ بلڈنگ میں منتقل ہوگئے۔ اخبار جہاں کے لیے اس بلڈنگ کی تیسری منزل مخصوص کی گئی۔ یہیں ہماری جواں سال بلند قامت متجسس آنکھوں والے جاوید صاحب سے ملاقاتوں کے سلسلہ کا آغاز ہوتا ہے۔ ابھی پاکستان دو لخت نہیں ہوا ہے۔ یہ 1967 ہے۔ اخبار جہاں مشرقی پاکستان بھی جاتا ہے۔

موتی جھیل ڈھاکا کے پاس ’جنگ‘ کا دفتر ہے۔ ’جنگ‘ بھی روزانہ پی آئی اے سے ایک بازو سے دوسرے بازو جارہا ہے۔ ’جنگ‘ اپنے حلقۂ اثر اور قارئین کی تعداد کی بدولت نمبر ون ہے۔ ’جنگ‘ کراچی کے علاوہ پنڈی سے شائع ہورہا ہے کیونکہ دارُالحکومت منتقل ہونے کے باعث جنگ کراچی کے دلدادگان بڑی تعداد میں اسلام آباد ہجرت کرگئے ہیں۔ ان کا ناشتہ جنگ کے بغیر ادھورا رہ جاتا ہے۔ اس لیے جنگ پنڈی سے شروع کردیا گیا ہے۔

مجھے نہیں بھولتی ہیں۔ جاوید صاحب کی چمکتی کچھ ڈھونڈتی آنکھیں۔ اخبار جہاں اُردو صحافت میں ایک نیا تجربہ ہے۔ پہلے سےبہت سے ماہنامے ہفت روزے نکل رہے ہیں جو مذہبی ہیں۔ سیاسی ہیں۔ ادبی ہیں۔ فلمی ہیں۔ کھیل سے متعلق ہیں۔ لیکن اخبار جہاں ایک الگ نوعیت کا رسالہ ہے۔ جس میں نوجوان نسل کی دلچسپیاں اور مشغلے سامنے رکھے گئے ہیں۔ اس لیے ایک جواں سال میر جاوید رحمٰن کو اس کا مینجنگ ایڈیٹر مقرر کیا گیا ہے۔ شعبۂ ادارت میں بھی سب نوجوان ہیں۔ نذیر احمد ناجی۔ انچارج ایڈیٹر ہیں۔ عبدالکریم عابد۔ مجیب الرحمٰن شامی۔ احفاظ الرحمٰن۔ نعیم آروی۔ انور شعور۔ خالد خلد۔ سعیدہ افضل۔ رعنا فاروقی۔ نوشابہ صدیقی۔ ریحانہ حاتمی۔ سب نئے خیالات نئے عزائم کے ساتھ۔ اس وقت انٹرنیٹ تھا، نہ فیکس، نہ موبائل فون۔ حوالے اور مشاورت کے لیے کتابیں پڑھی جاتی تھیں۔ دنیا بھر کے اخبارات،رسائل دیکھے جاتے تھے۔

میر جاوید رحمٰن۔ یہ رسائل لے کر اخبار جہاں کے کھلے ہال میں آجاتے، جہاں ہم میز کرسیاں سجائے ایسے بیٹھے ہوتے تھے جیسے آج کل نمائشوں میں اسٹال لگتے ہیں۔ شعبۂ ادارت کے سب نوجوان آپس میں یہی بات کرتےتھےکہ جاویدصاحب کبھی اپنےکمرے میںنہیں بلاتے ہیں۔کارکنوں کے پاس خود چل کر آتے ہیں۔ سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھ جاتے ہیں اور بڑے ادب سے پیار سے مشورے لیتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ مجھے آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ مضامین کی سرخیوں پر بڑی توجہ دیتے تھے کہ سرخی چونکا دینے والی ہونی چاہئے۔ ان دنوں سیاسی انٹرویوز کے ساتھ میں فلمی ستاروں کے انٹرویو بھی کرتا تھا۔ پاکستانی فلمی صنعت عروج پر تھی۔

ہیرو ہیروئنیں سیاستدانوں سے زیادہ مقبول تھیں۔ میں نے دیبا خانم کے بارے میں مختصر سی تحریر پیش کی۔ داتا دربار میں ان کے رونے اور دعائیں کرنے کا ذکر کیا۔ سرخی نذیر ناجی نے یہ نکالی ۔’داتا دربار میں رونے والی لڑکی دیبا تھی‘۔ یہ سرخی جاوید صاحب کو بہت پسند آتی ہے۔ اور میری میز پر آکر بڑی تعریف کرتے ہیں اور کہتے ہیں ایسی سرخیاں ہونی چاہئیں جو پڑھنے والے کا ہاتھ پکڑ لیں۔اخبار جہاں کے سر ورق کا شروع سے بہت خیال رکھتے تھے۔

پاکستان کی حسینائیں ٹائٹل پر جلوہ گر ہوتی تھیں۔ فلسفہ یہ تھا کہ اس حسن کی وجہ سے قاری اخبار جہاں اٹھاتا ہے۔ اس کے پیرہن میں ہم اسے سنجیدہ تحریریں پڑھنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ اندر پیر علی محمد راشدی۔ ابن انشا۔ جمیل الدین عالی اور اس پائے کے اخبار نویسوں، ادیبوں کی تحریریں ہوتی ہیں۔ جاوید صاحب کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کے بارے میں جاننے کا بہت شوق تھا۔ ان کی خوفناک کارروائیوں کے بارے میں تفصیلات اخبار جہاں میں سلسلہ وار شروع کیں، جو بہت دلچسپی سے پڑھی جاتیں۔

اس طرح ملکوں کے قومی دنوں پر بھی ان کی خواہش ہوتی تھی کہ اس ملک کے بارے میں قدیم و تازہ ترین معلومات اچھے پیرائے میں شائع کی جائیں۔جاوید صاحب کا یہ شوق تو دنیا بھر کو معلوم ہے کہ ستارے کیا کہتے ہیں۔ صرف مشہور اور عالمی شخصیت کا ہی نہیں دفتر کے اسٹاف کے ستاروں کے بارے میں بھی باتیں کرتے تھے۔ اور کارکن کے ستارے کے حوالے سے اس کی کارکردگی کا اندازہ لگاتے تھے ۔ کسی شخصیت کا انٹرویو ہوتا یا دفتر آنے والی ہوتی تو اس کے ستارے کے بارے میں پہلے سے معلومات حاصل کی جاتیں۔

سرورق کی تصاویر اس وقت کے اعلیٰ فوٹو گرافر محمد اسرار بناتے تھے۔رنگین تصاویر ان دنوں ٹرانسپیرنسی میں محفوظ ہوتی تھیں۔وہ جب ٹرانسپیرنسی لے کر آتے تو جاوید صاحب محدّب عدسے سے اسے دیکھتے۔وہ نئی نئی ایجادات اور جرنلزم کے نئے طریقوں سے بہت شغف رکھتے تھے۔ بھٹو صاحب کے دَور میں ملک میں بہت خطرناک سیلابی صورت حال ہوگئی تھی۔ جاوید صاحب نے مشورہ کیا کہ اس کا رنگین ٹائٹل بننا چاہئے۔ اسرار صاحب بھی تیار ہوگئے۔ میرے خیال میں پہلی بار کسی میڈیا کمپنی نے ایرو کلب سے ایک سیسنا طیارہ چارٹر کیا۔ اس کے پائلٹ راجپوت صاحب تھے۔ کراچی ایئرپورٹ سے اڑ کر ہم نے پورے سندھ پر پرواز کی۔ بہت سی تصویریں بنائیں جو اخبار جہاں کے سر ورق پر شائع ہوئیں۔

اس قسم کی مہمات کا ہمیں بھی لطف آتا تھا اور جاوید صاحب اس کی بخوشی منظوری دے دیتے تھے ۔ 1970 کے عشرے کا دَور اُردو صحافت اور خاص طور پر میگزین کی صحافت کے لیے عروج کا دَور تھا۔ نئے نئے تجربات ہورہے تھے۔ پرنٹنگ میں بھی نئی جہات تلاش کی جارہی تھیں۔ جنگ گروپ کی بانی میر خلیل الرحمٰن کی خواہش تھی کہ میر جاوید رحمٰن بین الاقوامی معیار کی پرنٹنگ اور پبلشنگ کی تکنیک سے آگاہ ہوں۔ وہ اسی لیے تربیت کی بعض پیشکشوں پر جاوید صاحب کو باہر بھیجتے تھے۔ اخبار جہاں کو صرف پاکستان کا ہی نہیں دنیا میں اُردو کا سب سے کثیر الاشاعت ہفت روزہ بنانے میں میر جاوید رحمٰن کی قیادت میں 1967 سے 1975تک کی ٹیم کا مرکزی کردار تھا۔

کام کے دوران جاوید صاحب سے تکرار بھی ہوجاتی تھی۔ وہ سخت برہم بھی ہوتے۔ لیکن کچھ دیر بعد ہی وہ پھر اسی طرح مہربان اور دوست ہوجاتے۔ ایسے کئی واقعات یاد آرہے ہیں۔ جن سے آنسو امڈ آتے ہیں۔ جب جب میں جنگ سے وابستہ بھی نہیں تھا، اس وقت بھی جاوید صاحب کا انس اور لگائو اسی طرح رہتا۔ان سے وابستہ تلخ و شیریں یادیں 1967سے 2019تک پھیلی ہوئی ہیں۔ کسی وقت تفصیل سے دہرانے کی کوشش کریں گے۔

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی