ٹوٹتے، بنتے سیاسی اتحاد

March 31, 2021

سیاسی معاشروں میں مختلف جماعتوں کے درمیان مختلف النوع مقاصد کے لیے اتحادوں کا بنایا جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ البتہ ان اتحادوں کے بنائے جانے کا پس منظر ، ان کی ضرورت،ان کے مقاصد، اہداف اور ان کی کامیابیاں یا ناکامیاں،یہ ایسے موضوعات ہیں جن پر سیاسی دانش ور غوروفکر کرتے اور اپنے نتائج فکر کو دوسروں کے غوروخوض کے لیے پیش کرتے رہتے ہیں۔علم ِ سیاست کا ایک معتدبہ حصہ اس قسم کے تجزیوں اور سیاسی ادب پر مشتمل ہے ۔

چونکہ ان دنوں پاکستان میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ( پی ڈی ایم) نامی حزب اختلاف کا اتحاد خبروںکا موضوع بنا ہوا ہے اورحالیہ دنوں میں اس کے باقی رہنے یا نہ رہنے کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہوچکی ہیں،لہذا شاید نامناسب نہ ہو کہ ہم ماضی میں اپنے ملک میں بننے والے سیاسی اتحادوں کی تاریخ کو ایک نظر دیکھ لیں۔

پہلی بات تو یہ کہ جس طرح کے اتحاد ہمارے برعظیم میں، اور خاص طور سے پاکستان میں بنتے رہے ہیں، مغربی ترقی یافتہ جمہوریتوں میں ایسے اتحاد نسبتاً کم دیکھنے میں آتے ہیں ۔مغربی جمہوریتیں جس ارتقائی عمل سے گزری ہیں اُن کا نمایاں پہلو یہ تھا کہ وہاں سماجی و اقتصادی مفادات کے زیر اثر نہ صرف ریاست سازی ہوئی بلکہ ریاستی اداروں تک رسائی اور معاشرے اور ریاست کے درمیان واسطے کا کام کرنے کی غرض سے تنظیم سازی بھی انہی مفادات کے زیر اثر ہوئی۔سیاسی جماعتیں ان اقتصادی و سماجی رجحانات کے ساتھ مضبوطی سے جڑی ہوئی تھیں۔چناں چہ جوں جوں تجارتی اور صنعتی معاشرت کو فروغ حاصل ہوا ،سرمایہ دارانہ نظام ترقی کرتا چلا گیا اور سماجی و اقتصادی مفادات اس نظا م کے زیر اثر مربوط ہوتے گئے، ویسے ویسے سیاسی جماعتیں بھی اپنی مخصوص شکل میں ڈھلتی چلی گئیں۔

یہی نہیں بلکہ سماجی و اقتصادی نظام کی فیصلہ کن حیثیت ہی کے زیر اثر سیاسی جمعیتوں کی تعداد کا بھی تعین ہوتا رہا۔یہاں تک کہ اب زیادہ تر ترقی یافتہ مغربی جمہوریتوں میں دو یا تین جماعتیں ، بڑی جماعتیں شمار ہوتی ہیں اور وہی پورے ملک کے مؤثر مفادات یا کم از کم بالادست طبقات کے مفادات کی نمائندگی کا دعویٰ کررہی ہوتی ہیں ۔یہی نہیں بلکہ جو سیاسی و سماجی حلقے پیچھے رہ جاتے ہیں یا اُن کااثر اور اُن کی حمایت علاقائی نوعیت کی ہوتی ہے، اُن کی نمائندہ جماعتیں بھی اپنا الگ وجود رکھتی ہیں مگر الیکشن سے قبل اُن کو آپس میں اتحاد کی ضرورت اس لیے پیش نہیں آتی کیونکہ ان کی نظر بالعموم حاصل ہونے والی حلقہ جاتی نشستوں سے زیادہ حاصل ہونے والے ووٹوں پر ہوتی ہے۔

1954میں مشرقی بنگال میں بننے والا جگتو فرنٹ ۔ محمود علی ، عطاالرحمٰن، مولوی فضل الحق اور شیخ مجیب الرحمٰن تصویر میں نمایاں ہیں

اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ کے تینتالیس میں سے چالیس ممالک میں متناسب نمائندگی کا نظام اختیار کرلیا گیاہے جس کی رو سے جماعت کو حاصل ہونے والے ووٹ ، قانون ساز ادارے میں اُس کی نشستوں کا فیصلہ کرتے ہیں۔ لہٰذا پارٹیاں ووٹوں کے حصول پر زور دیتی ہیں۔ درحقیقت یورپ میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد انتخابات کے بعد اسمبلیوں میں وجود میں آتے اور مخلوط حکومتوں کی شکل اختیار کرتے ہیں ۔

قیام پاکستان کے بعد منظر نامہ کچھ ایسا تھا کہ پاکستانی سماج اقتصادی اور سماجی لحاظ سے ایک منتشر معاشرے کی حیثیت رکھتا تھا۔شمال مغرب کے صوبوں میں جاگیرداری اور قبائلی نظام کا دور دور ہ تھاجبکہ مشرقی بنگال میں زمیں داریوں کے ساتھ ایک متوسط طبقہ بھی وجود رکھتا تھا۔1954ء کے صوبائی الیکشن کے بعد جب جگتو فرنٹ مشرقی بنگال میں برسرِ اقتدار آیا تو اُس نے متوسط طبقوں کے نمائندوں کے زیر اثر زرعی اصلاحات نافذ کرکے وہاں فیوڈل طبقے کی کمر توڑ ڈالی۔چناں چہ بعد کے برسوں میں مشرقی بنگال میں جو 1956 ء کے بعد مشرقی پاکستان قرارپایا،سیاست میں متوسط طبقے کی کار فرمائی نمایاں طور پر بڑھ گئی۔

دوسری اہم بات یہ کہ پاکستانی معاشرہ علاقائی اعتبار سے بھی منقسم تھا اور پورے ملک میں کسی ایک سیاسی جماعت کو ویسی حمایت اور تائید حاصل نہیں تھی جو ہندوستان میں کانگریس کو حاصل تھی ۔ مسلم لیگ مسلمانوں کا ایک وسیع تر پلیٹ فارم تو ضرور تھی جو ایک سحر آفریں لیڈر کے گرد استوار ہوا تھا، لیکن اس کی جڑیں مختلف خطوں میں یک ساں طور پر موجود نہیں تھیں ۔ تیسری اہم بات یہ کہ ہندوستان کے برعکس جہاں کانگریس اور وہاں کی بیوروکریسی کے ریاست اور سیاست و معیشت کے حوالے سے تصورات میں ہم آہنگی پائی جاتی تھی،پاکستان کی بیوروکریسی سیاسی عناصر کے مقابلے میں خود کو بہت برتر اور فائق تصور کرتی تھی۔

پاکستان کی منتشر سماجی ساخت ہی کا نتیجہ تھا کہ ہماری سیاست بھی روز اول سے انتشار کا شکار ہوئی اور 1950ء کے عشرے کے وسط میںپاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ سیاسی اقتدار سے بھی محروم ہوگئی۔پاکستان میں اصل اقتدار آزادی کے فوراً بعد ہی بیوروکریسی اور فوج کے حصے میں آچکاتھا۔جن کے اشتراک سے وہ مقتدرہ (یا اسٹیبلشمنٹ) وجود میں آئی تھی جو آج بھی پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا سوال اور سب سے اہم موضوع بنی ہوئی ہے ۔

پاکستانی سیاست کے پانچ بنیادی حقائق

پاکستان میں سیاسی اتحادوں کے بننے ،اُن کے کردار اور پھر اُن کے انجام کو سمجھنے کے لیے تہتّر برسوں کی پاکستانی سیاست کے پانچ بنیادی حقائق کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ۔یہ پانچ حقائق سات سے زیادہ عشروں کے سیاسی عمل پر مختلف درجوں میں اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔پہلی بات یہ کہ آزادی کے بعد پاکستان کی تاریخ کا ایک بڑا حصہ سیاسی عمل سے محرومی کا عرصہ رہا ہے۔ملک میں چار مرتبہ فوجی حکومتیں قائم ہوئیں جن کی کُل مدت تینتیس یا چونتیس سال بنتی ہے۔

آزادی کے بعد چھبیس سال تک ملک کسی متفقہ آئین سے بھی محروم رہا اور 1973ء میں جب آئین بنالیا گیا تو یہ اُس کے بعد دو مرتبہ 1977ء اور 1999ء میں معطل کیا گیا۔ملک میں جب سویلین حکومتیں قائم ہوئیں تب بھی یہ حقیقی اقتدار سے محروم تھیں۔ستّر سال سے زیادہ کے اس عرصے میں غیر سیاسی قوتیں،جو بیوروکریسی اور فوج پر مشتمل تھیں ریاستی اقتدار پر یا تو براہ راست طور پر یابالواسطہ قابض رہیں ۔اس صورت حال کا نتیجہ سیاسی جماعتوں کی کمزوری اور اُن کے ملکی سیاست میں کو ئی کلیدی کردار ادا نہ کرنے کی شکل میں نکلا۔

دوسری بات یہ کہ ملک میں موجود سول اور ملٹری بیوروکریسی جو مقتدرہ یا اسٹیبلشمنٹ کہلائی،بڑی حد تک سیاست اور سیاست دانوں سے بدظن رہی ۔اس بدظنی کا سبب کم از کم آزادی کے ابتدائی دس پندرہ برسوں میں تو یہ تھا کہ بیوروکریسی اور فوج کے اعلیٰ افسران یہ سمجھتے تھے کہ سیاست دان ملک کو چلانے کے اہل نہیں ہیں اور وہ پاکستان کی تباہی کا سبب بن جائیں گے۔جبکہ اپنے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہی پاکستان کو بچا سکتے ہیں اور اس کے لیے صحیح فیصلے کرسکتے ہیں۔

بعد کے برسوں میں مقتدرہ کی سوچ میں یہ فرق واقع ہوا کہ اب وہ صرف ’’پاکستان کو بچانے ‘‘کی غرض سے اہلِ سیاست کے خلاف نہیں تھے بلکہ 1960ء کے عشرے سے اس مقتدرہ کے اپنے مفادات ابھر کر سامنے آنے لگے تھے اور ان مفادات کے تحفظ کے لیے بھی اُس کو سیاسی جماعتوں کو اقتدار سے دور رکھنا تھا ۔چنانچہ اگر کبھی سویلین حکومتوں کو قبول کیا بھی گیا تو اصل فیصلہ سازی کا اختیار اور ریاستی اقتدار پر تفوق مقتدرہ ہی کو حاصل رہا ۔ پاکستان میں مقتدرہ کی یہ حیثیت وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی چلی گئی اور یہ اب ہماری ریاست کا سب سے بڑا چیلنج ہے کہ پاکستان میں حقیقی وفاقی اور پارلیمانی جمہوریت کے خواب کو کس طرح شرمندۂ تعبیر کیا جاسکتا ہے اور سیاسی و آئینی اداروں کو کس طرح ریاست کے اہم ترین اداروں کی حیثیت دی جاسکتی ہے۔

پاکستانی سیاست کی ایک تیسری حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے اور یہ حقیقت ملک کا سماجی ڈھانچاہے ۔ آزادی کے وقت پاکستان میںایک محدود متوسط طبقہ موجودتھا مگر سیاست پر غلبہ دیہی اشرافیہ،قبائلی سرداروں اور سرمایہ دار طبقے کو حاصل تھا۔یہ سب طبقات آپس میں بھی بہت سے تضادات کے حامل تھے اور ان میں سے کوئی ایک طبقہ بھی ریاستی اقتدار کو مکمل طور پر اپنے تصرف میںلانے کااہل نہیں تھاالبتہ ان سب طبقات کا دارو مدارانگریز کے زمانے ہی سے افسر شاہی کی خوش نودی پر تھا۔

معروف دانشور ڈاکٹر مبشر حسن نے ان طبقات کے لیے بہت مناسب ترکیب وضع کی تھی جو ان کی کتاب کا عنوان بھی ہے ،یعنی ’’پاکستان کے جعلی حکم راں طبقات ‘‘۔ان جعلی حکم راں طبقات کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ یہ علاقائی طو رپر بھی بکھرے ہوئے تھے اور کسی ایک خطے کی سماجی اشرافیہ اور دوسرے صوبے کی اشرافیہ میں بھی تقسیم موجود تھی۔اس صورت حال میں جب کبھی انتخابات کا مرحلہ آیا تو ان جماعتوں کو مزید وسیع تر اشتراک کی ضرورت پیش آئی ۔

1965ء کے صدارتی انتخاب میں محترمہ فاطمہ جناح جلسے سے خطاب کررہی ہیں، تصویر میں شیخ مجیب الرحمٰن بھی موجود ہیں

سیاسی جماعتوں کے اس منتشر منظر نامے کو جس چیز نے مزید گنجلک بنایا وہ مقتدرہ کا اپنا جماعت سازی کا کھیل تھا ۔پاکستان کی تاریخ میں کتنی ہی سیاسی جماعتیں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے تشکیل دیں۔یہ سلسلہ جس کا آغاز ریپبلکن پارٹی کے قیام سے ہوا، اس کے تسلسل میں ہم نےآئندہ برسوں میں ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ،جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں مسلم لیگ فنکشنل اور جونیجو لیگ،جنرل مشرف کے زمانے میں پیپلز پارٹی پیٹریاٹ اور مسلم لیگ (ق) بنتے دیکھی ۔

پاکستانی سیاست کی چوتھی اہم حقیقت یہ ہے کہ خود سیاسی جماعتیں بھی ان کم زوریوں کی حامل رہی ہیں جو ان کو اُن کی محدود حیثیت سے بلند نہیں ہونے دیتیں اور ان کے ملکی سطح کی جماعت بننے کی راہ میں مزاحم ہوتی ہیں ۔سیاسی جماعتوں میں انتخابات کا نہ ہونا،جماعت کی مرکزی قیادت کی طرف سے تما م جماعتی عہدوں پر نام زدگیاں کرنا ،عہدوں کو پُر کرنے کے لیے خاندانی اور کاروباری تعلقات کو مقدم تصور کرنااور اسمبلیوں میں خواتین کی نشستوں پر نام زدگیوں میں رشتوں ناتوں کو سب سے زیاد ہ اہمیت دینا۔ یہ او ر ایسے ہی دیگر اقدامات ہیں جو سیاسی جماعتوں کو اُن کے قائدین کے حلقہ بگوشوں کا ایک گروہ بنا کر رکھ دیتےہیں۔

پانچویں حقیقت ،جو اب پاکستانی سیاست کا اہم حصہ بن چکی ہے، نظریاتی اور اصولی سیاست کا خاتمہ ہے ۔سیاسی جماعتیں اب کم و بیش ایک ہی جیسے پروگرام کی حامل ہیں ۔ان کے سیاسی نعرے بھی ایک دوسرے سے زیادہ مختلف نہیں ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کے غیر نظریاتی بن جانے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ سیاست میں نئے خیالات اور نیا خون داخل ہونا بند ہوگیا۔پہلے جس طرح سے سیاسی جماعتوں میں سیاسی ریکروٹنگ ہوتی تھی اور نئے ارکان بنائے جاتے تھے وہ سلسلہ اب تقریباً ختم ہوچکا ہے ۔

سیاسی جماعتیں اس لحاظ سے جمود کا بھی شکار ہیں۔غور کیا جائے تو ا س رجحان کے ڈانڈے ملک میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات سے بھی ملتےہیں ۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات نے مختلف انتخابی حلقوں کے خاندانی دولت مندوں اورنودولتیوں کو ایک کھلا سیاسی میدان فراہم کیا جس پر قبضہ کرنے میں ان کو دیر نہیں لگی۔یہ تب ہی سے ہوا کہ حلقوں کی سطح پر جیت کے قابل (Electables)کا دور دورہ ہوا۔یہ وہ لوگ ہیں جو سیاسی جماعتوں کی ضرورت بن جاتے ہیں ۔ان کو سیاسی جماعت کا ٹھپہ لگوانا ہوتاہے اور اس ٹھپے سے جو فائدہ وہ اٹھا سکتے ہیں،اٹھاتے ہیں۔ لیکن ان کی جیت زیادہ تر ان کے پیسے اور حلقے میں ان کے اثرو رسوخ کی مرہونِ منت ہوتی ہے ۔سیاسی جماعتیں اپنی جملہ کم زوریوں کی وجہ سے خود بھی مجبور ہوتی ہیں کہ ان لوگوں پر انحصار کریں۔

سیاسی اتحادوں کی دو قسمیں

اوپر جو پانچ بنیادی حقائق پاکستانی سیاست کے حوالے سے بیان کیے گئے ہیں وہ کسی نہ کسی شکل میں سیاسی اتحادوں کے بننے کے عمل کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ہمارے ہاں اب تک جو سیاسی اتحاد بنے وہ بنیادی طور پر دو طرح کے رہے ہیں ۔ایک تو وہ اتحاد تھے جو کسی سیاسی پروگرام اور چند نکات کی بنیاد پر بنائے گئے تھے اور ان کا مقصد انتخاب میں حصہ لینا تھا۔ظاہر ہے کہ ان اتحادوں میں شامل جماعتیں انفرادی طور پر انتخابات میں کوئی قابل ذکر کام یابی حاصل نہیں کرسکتی تھیں چناں چہ انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد قائم کرکے ایک حلقے میں ایک ہی امیدوار پر اتفاق کا راستہ اختیار کیا۔

اس قسم کا پہلا اتحاد مشرقی پاکستان میں قائم ہونے والا جگتو فرنٹ تھا جس نے 1954ء کے صوبائی انتخابات میں کام یابی حاصل کی ۔جگتو فرنٹ میں بنیادی طور پر مشرقی پاکستان کی عوامی مسلم لیگ ، کرشک سرامک پارٹی ، نظام اسلام پارٹی اور گنا تنتری دَل شامل تھیں۔اس اتحاد کو خلافت ِ ربانی پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی کی حمایت بھی حاصل تھی ۔جگتو فرنٹ نے 21 نکاتی پروگرام کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا جن میں سے بیش تر صوبائی خود مختاری سے متعلق تھے ۔انتخابات میں جگتو فرنٹ نے غیر معمولی اکثریت حاصل کی اور برسر اقتدار مسلم لیگ کی دس نشستوں کے مقابلے میں میں 223 نشستیں حاصل کیں ۔

اسی طرح کا ایک اور انتخابی اتحاد کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز (COP) تھا جس نے 1965ء کے صدارتی انتخابات میں ایوب خان کے مقابل محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار کے طور پر کھڑا کیا۔یہ انتخابات بالواسطہ طریقہ انتخاب کے تحت ہوئے جس کی رو سے مشرقی اور مغربی پاکستان کے چالیس ، چالیس ہزار اراکینِ بنیادی جمہوریت ہی کو ووٹ ڈالنا تھا ۔یہ نظام ایوب خان کا متعارف کردہ تھا اور حزب اختلاف اس نظام کو ختم کرنے اوربلاواسطہ طریقہ انتخاب کو رائج کرنے کے وعدے کے ساتھ الیکشن میں حصہ لے رہی تھی۔

ایوب خان کے بالواسطہ انتخابی نظام کے تحت فاطمہ جناح کا جیتنا ویسے ہی ناممکن تھا، لیکن یہ بات قابل ذکر ہے اور بہت زیادہ توجہ طلب بھی ، کہ مشرقی پاکستان میں فاطمہ جناح کو چالیس ہزار بنیادی جمہوریتوں کے اراکین میں سے ساڑھے اٹھارہ ہزار سے زیادہ اراکین کے ووٹ حاصل ہوئے ۔ یہ ووٹ ایوب خا ن کے خلاف اور متحدہ پاکستان کے حق میں مشرقی پاکستان کی سوچ کا مظہر تھا۔

تیسرا بڑا انتخابی اتحاد پاکستان نیشنل الائنس (PNA)یا پاکستان قومی اتحاد تھا جو حزب اختلاف کی نو جماعتوں پر مشتمل تھا اور 1977ء کے عام انتخابات میں اس نے برسر اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کا مقابلہ کیا۔

ہماری تاریخ میں سیاسی اتحادوں کی دوسری قسم اُن اتحادوں پر مشتمل ہے جو انتخابات سے قبل،انتخابات میں کام یابی حاصل کرنے کے لیے نہیں بنائے گئے بلکہ یہ وہ اتحاد تھے جو کسی حکومت کی پالیسیوں کی مزاحمت کے لیے یا حکومت سے کچھ مطالبات منوانے کے لیےبنائے گئے ۔اگر انتخابی اتحادوں نے چند متعین مطالبات کو پیش نظر رکھا تو غیر انتخابی اتحادوں نے بھی اپنے مطالبات کو نکات کی شکل میں پیش کیا۔1962ء میں جب ایوب خان نے اپنا آئین نافذ کیا تو وہ سیاسی جماعتیں جن پر 1958ء میں مارشل لا کےتحت پابندی عائد کردی گئی تھی ،اُن میں سے چند جماعتوں کے لیڈروں نے پہل کرتے ہوئے’’نو لیڈروں کا بیان‘ ‘جاری کیا۔

یہ نو کے نو لیڈر مشرقی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے۔ان میں نورا لامین، حمید الحق چوہدری،عطاء الرحمن خان،محمود علی اور شیخ مجیب الرحمن شامل تھے ۔دیگر مطالبات کے علاوہ ان لیڈروں نے نئے آئین کا مطالبہ کیا۔بعد ازاں جب حسین شہید سہروردی رہا ہوئے تو ان کی کوششوں سے مغربی پاکستان کے لیڈروں کو بھی شامل کرکے ایک وسیع تر اتحاد’’نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ‘‘( NDF) بنایاگیاجس نے نئے آئین کے بجائے 1956ء کے آئین اوربنیادی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا ۔یہ اتحاد اُس وقت ایک بڑے اتحاد کا حصہ بن گیا جب 1965ء کے صدارتی انتخاب سے قبل کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز (COP)قائم ہوئی۔

غیر انتخابی اتحاد کی ایک اور شکل پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (PDM) تھی جو 1965ء کے الیکشن میں سی اوپی اور محترمہ فاطمہ جناح کی ناکامی کے بعد چار جماعتوں کونسل مسلم لیگ، عوامی لیگ، جماعت اسلامی اور نظام ِ اسلامی پارٹی کے اشتراک سے وجود میں آئی۔پی ڈی ایم نے پارلیمانی جمہوری وفاق کے قیام کے لیے آٹھ نکات پیش کیے جن میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان تفاوت کو ختم کرنے کےلیے بھی ٹھوس نکات شامل تھے۔ان میں سے چند نکات بعد ازاں شیخ مجیب الرحمن کے ’’چھ نکات‘‘ کا بھی حصہ بنے۔

ایک اور غیر انتخابی اتحاد جمہوری مجلس عمل یا ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی (DAC)تھا جو 1969ء میں ایوب خان کی دعوت پر گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے بنایا گیا تھا۔اس کمیٹی کے سربراہ نوابزادہ نصر اللہ خان تھے اور اس میں اُس وقت کی سب ہی اہم سیاسی جماعتیں، ماسوائے پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی (مولانا بھاشانی گروپ)، شامل تھیں۔گول میز کانفرنس کی ناکامی کے بعد ایوب خان کے زوال پر مہر تصدیق ثبت ہوگئی اور ملک ایک اور مارشل لا کی نذر ہوگیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں 1973ء میں حزب اختلاف کا ایک اتحاد، متحدہ جمہوری محاز یا یونائیٹڈڈیموکریٹک فرنٹ (یو ڈی ایف) کے نام سے وجود میں آیا جس میں پاکستان جمہوری پارٹی،کونسل مسلم لیگ،جمعیت علمائے پاکستان (شاہ احمد نورانی گروپ ) ، نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) ، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی شامل تھیں ۔نیپ کے سربراہ خان عبدالولی خان اس اتحاد کے سربراہ تھے مگر 1975ء میں نیپ پر پابندی لگنے اور ولی خان کے پابندِ سلاسل ہونے کے بعد پیر صاحب پگارا کو اس اتحاد کا سربراہ بنایا گیا۔

یہ اتحاد وقت گزرنے کے ساتھ غیر موثر ہوتا گیا اور بالآخر اس میں شامل جماعتیں 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کے نام سے بننے والے وسیع تر انتخابی اتحاد کا حصہ بن گئیں ۔ جنرل ضیاء الحق کی فوجی آمریت کے زمانے میں 1981ء میں تحریک بحالی جمہوریت یا موومنٹ فار دی ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی (ایم آر ڈی ) وجود میں آئی ۔ اس اتحاد میں پی این اے کی کئی سرکردہ جماعتیں اُس پیپلز پارٹی کی ہم رکاب ہوگئیں جس کی حکومت کے خلاف انہوں نےزوردار تحریک چلائی تھی جو انجامِ کار مارشل لا پر منتج ہوئی تھی۔

مذکورہ بالا مثالوں کے علاوہ اور بھی ایسے کئی سیاسی اتحاد پاکستان کی تاریخ میں بنتے رہے ہیں جو انتخابی مقاصدسے نہیں بلکہ بعض سیاسی مطالبات کو آگے بڑھانے ،حکومت ِ وقت کے جواز پر سوال اٹھانے اور حکومت کی پالیسیوں کی مزاحمت کی غرض سے بنائے گئے ۔

اتحادوں کے پسِ پردہ عوامل

ماضی کے سیاسی اتحاد تمام تر سیاسی جماعتوں کی اپنی کوششوں اور اپنے فیصلوں کے مظہر نہیں رہے بلکہ ان کے بنانے یا پھر ان کے آگے کی فیصلہ سازی میں اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔ جس مرحلے پر ایوب خان کے خلاف بننے والے اتحاد ، کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز نے صدارتی امیدوار کا فیصلہ کرنا تھا ، اُس موقعے پر اتحاد میں شامل مولانا بھاشانی نے ایک مجوزہ امیدوار جنرل اعظم خان کی مخالفت یہ کہہ کر کی کہ وہ مارشل لا لگوانے میں ایوب خان کے شریک رہے تھے اور پھر انہوں نے مارشل لا انتظامیہ میں مشرقی پاکستان کی گورنری قبول کی تھی۔

مولانا بھاشانی کا کہنا تھا کہ مارشل لا کے کسی شریک کار کو صدارتی امیدوار نہیں ہونا چاہیے۔اُن کی یہ بات مان لی گئی تھی، مگر کئی سیاسی لیڈروں کا خیال تھا کہ وہ ایوب حکومت کے ایما پر یہ موقف اختیار کیے ہوئے تھے کیونکہ ایوب خان کسی ریٹائرڈ جنرل کے مقابلے میں الیکشن نہیں لڑنا چاہتے تھے ۔

قومی اتحاد کے بارے میں بھٹو کا یہ کہنا تھا کہ اس کے پیچھے ملکی اور بیرونی اسٹیبلشمنٹ موجود تھی ۔آئی جے آئی کے حوالے سے تو یہ بات سپریم کورٹ تک پہنچی کہ اس کے بنانے میں اسٹیبلشمنٹ نے کلیدی کردار ادا کیاتھا۔خود جنرل حمید گل نے بارہااعتراف کیا کہ آئی جے آئی انہوں نے بنوائی تھی ۔انہوں نے اس کا مقصد یہ بتایا تھا کہ وہ ملک میں دو جماعتی نظام قائم کروانا چاہتے تھے۔

برسوں بعد آئی جے آئی کے سیکریٹری جنرل رہنے والے پروفیسر غفور احمد نے معروف اخبار نویس، ادریس بختیار کے پوچھنے پر کہا تھا کہ آئی جے آئی ہی کیا ہمیں تو بعد میں معلوم ہوا کہ قومی اتحاد بھی ’’انہوں‘‘ نے ہی بنوایا تھا۔

اتحادوں کا انجام

پاکستان کے سیاسی اتحاد اپنے مقاصد میں کس حد تک کام یاب ہوئے،یہ بھی ایک قابلِ مطالعہ موضوع ہے۔جگتو فرنٹ کو کام یابی حاصل ہوئی، مگر صوبائی اقتدار میں آنے کے بعد اس میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہوگئی ۔ فضل الحق نے مرکز میں وزارت حاصل کرلی تو سہروردی کے اور اُن کے اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔کوئی دو سال بعد خود سہروردی نے وزارت عظمیٰ حاصل کرلی ۔ ایوب خان کے خلاف سی او پی کو 1965ء کے صدارتی انتخاب میں ناکامی ہوئی اور اس کے بعد یہ اتحاد تحلیل ہوگیا ۔پی ڈی ایم کچھ عرصے بعد جمہوری مجلس عمل (DAC)کا حصہ بن گیا، مگر ایوب خان کے ساتھ گول میز کانفرنس کے دوران ہی حزب اختلاف کے اتحاد کے اختلافات اُس وقت کھل کر سامنے آگئے جب شیخ مجیب الرحمن نے مسلم لیگ ،جماعت اسلامی، نظام اسلام پارٹی اور نوابزادہ نصراللہ کی عوامی لیگ کی مخالفت کے باوجود اپنے چھ نکاتی پروگرام پر مشتمل مطالبات پیش کردیے۔

ایوب خان کے صاحب زادے، گوہر ایوب خان، جو بعد میں قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ملک کے وزیر خارجہ بھی رہے، نے اپنی کتاب’’ایوانِ اقتدار کے مشاہدات‘‘ میں لکھا ہے کہ جب شیخ مجیب الرحمن گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے پیرول پر رہا کیے گئے اور راول پنڈی پہنچے تو ’’ یوسف ہارون نے چک لالہ کے ہوائی اڈے پر شیخ مجیب الرحمن کا استقبال کیا اور انہیں ہوائی اڈے سے سیدھے جنرل ہیڈکوارٹر لایا گیا جہاں اُن کی جنرل یحییٰ خان سے ملاقات کرائی گئی۔ یوسف ہارون چاہتے تھے کہ یحییٰ خان شیخ مجیب پر دبائو ڈالیں کہ وہ اپنے مخالفانہ رویے پر نظر ثانی کریں اور یہ کہ فوج پوری طرح صدر (ایوب خان) کی مدد کرے گی۔

تاہم شیخ مجیب سے ملاقات کے دوران جنرل یحییٰ خان نے انہیں بتایا کہ وہ اپوزیشن اور صدر کے درمیان محاذ آرائی میںغیر جانب دار رہیں گے‘‘۔ ظاہر ہے کہ جنرل یحییٰ خان کا صدر ایوب سے لاتعلقی کا یہ اشارہ بہت بڑا پیغام تھا، شیخ مجیب الرحمن کے لیے جنہوں نے پھر کانفرنس کے اگلے اجلاس میں اپنے موقف پر کسی قسم کی ترمیم سے صاف انکار کردیا اور یہ کانفرنس کی ناکامی کا ایک بڑا سبب بنا۔

پاکستان نیشنل الائنس (PNA)نو جماعتوں پر مشتمل اتحاد تھا ۔1977کے انتخابات میں اس نے پیپلز پارٹی کا مقابلہ کیا تھا ۔انتخابات کے بعد پی این اے نے حکومت پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایااور ایک ملک گیر تحریک چلائی۔جولائی 1977ء میں اس سیاسی بحران کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔پی این اے کی زیادہ تر جماعتیں ضیاء الحق کی کابینہ میں شامل بھی ہوئیں لیکن پھر بھٹو کی پھانسی کے بعد، جس کی کابینہ نے منظوری دی،یہ جماعتیں کابینہ سے الگ ہوگئیں ۔کچھ ہی عرصے میں یہ تتر بتر ہوگئیں ۔

پاکستان میں زیادہ تر سیاسی اتحاد ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں ۔یاتو یہ اپنی منزل کے حصول سے پہلے ہی تتر بِتر ہوتے رہے یا اگر انہیں اپنا ہدف حاصل ہوبھی گیا تب بھی یہ بات فوراً ہی واضح ہوگئی کہ ان کی نظر آنے والی بہ ظاہر کام یابی دراصل ان کی اپنی کام یابی نہیں تھی۔اکثر صورتوں میں اتحادوں کی طرف سے چلائی گئی مہم پس پردہ قوتوں اور خاص طور سے اسٹیبلشمنٹ کے مقاصد کے حصول کا ذریعہ ثابت ہوئی۔ اس تلخ حقیقت کے چند بنیادی اسباب ہیں۔

ایک تو ہماری سیاسی جماعتیں بہ حیثیت مجموعی کسی نظریاتی یا اصولی موقف پر زیادہ عرصہ قائم رہنے کی صلاحیت سے عاری رہی ہیں ۔ان کی تنظیمی ساخت بھی ان کے اندر دڑاریں پیدا کرنے اور ان کے فیصلوں میں دوسروں کو مداخلت کرنے کا موقع فراہم کر دیتی ہیں۔پھر سیاسی جماعتیں کسی ایک واضح نکتے پر متفق ہونےکے بجائے ایک بڑاپھیلا ہواپروگرام لے کر سامنے آجاتی ہیں جس کے سب نکات پر سب جماعتوں کی یک سوئی کسی ایک درجے میں نہیں پائی جاتی۔

سیاسی اتحادوں کو مزید ناکام بنانے والی چیزان کی قیادتوں کی اپنی شخصیت اور مزاج ہوتے ہیں ۔کسی سیاسی پروگرام کو ایک خاص منزل تک پہنچانے کے لیے جس تدبر اور وضع داری کی ضرورت ہوتی ہے اس کا مظاہرہ ہماری قیادتیں کچھ زیادہ نہیں کرسکی ہیں۔اگر سیاسی اتحادوں نے کچھ جزوی کام یابیاں حاصل کیں اور سیاسی عمل کو کسی صورت میں بڑھاوا دیا بھی ہے تو یہ کم از کم اب تک کی تاریخ میں اتنا مؤثر ثابت نہیں ہوا ہے کہ ہم یہ فیصلہ صادرکرسکیں کہ سیاسی اتحادوں سے واقعی ملک میں جمہوریت کی منزل قریب آئی ہے۔