شہید ذوالفقار علی بھٹو کی یاد میں

April 04, 2021

تحریر : نتاشہ دولتانہ

جنرل سیکرٹری پاکستان پیپلز پارٹی ۔جنوبی پنجاب

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو شہید کی شخصیت پاکستان کی سیاسی تاریخ میں افسانوی کردار کی حامل ہے۔ کوئی بھی سیاسی بحث ذوالفقار علی بھٹو شہید کے تذکرے کے بغیر نامکمل محسوس ہوتی ہے۔ انہیں پاکستان کی کروڑوں عوام نے سیاسی شعور بیدار کرنے کی جرم میں پاداش میں تختہ دار پر لٹکایا گیا کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے سیاست کو محلات سے نکال کر گلی کوچوں کھیتوں کھلیانوں اور مزدوروں کی جھونپڑیوں تک پہنچا دیا تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے پاکستان نے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے اور عالم اسلام کو اس پلیٹ فارم پر متحد کرنے کیلئے جدوجہد کی اور عوام کو ظالمانہ نظام سے چھٹکارا دلانے اور انہیں اپنے حقوق حاصل کرنے کا حوصلہ دیا یہی وجہ ہے کہ عوام دشمن اور ملک دشمن قوتوں نے ان کے خلاف سازش کی اور انہیں ایک ڈکٹیٹر کو استعمال کرتے ہوئے انہیں جھوٹے مقدمے میں ملوث کر کے سزائے موت دی۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کو جسمانی طور پر مارنے والوں نے ذوالفقار علی بھٹو شہید کے افکار و نظریات کو ختم نہ کر سکے۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہیں اور پاکستان کے عوام ان کے افکار کو ہی اپنے لئے مشعل راہ سمجھتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو شہید کا دور حکومت 20 دسمبر 1971ء سے 4 جولائی 1977 تک محیط تھا انہوں نے اس قلیل عرصہ میں ملکی ترقی کا سفر پیچھے سے شروع کیا اور صرف 6 سال کی کم مدت میں اسے بام عروج تک پہنچایا۔ ملکی ترقی و خوشحالی کے بہت سے منصوبے شروع ہوئے اور پایہ تکمیل تک پہنچے۔ مملکت خداداد کے تمام اہم ادارے بھٹو کے عہد حکومت میں ہی تشکیل پائے۔

ان منصوبوں میں سر فہرست پاکستان کا ایٹمی پروگرم ، سٹیل ملز ، معیشت کی بحالی ، تعلیمی اداروں کا وسیع جال ، زرعی اصلاحات ، میڈیکل کالجز ، انگریزی خطابات کا خاتمہ ، محنت کشوں کا تحفظ ، عوامی سیاسی شعور کی بیداری اور افرادی قوت کی بیرون ملک برآمد شامل ہیں۔ انہی کے دور حکومت میں ہی ملک کو متفقہ آئین نصیب ہوا، ان کا ایک اور انمٹ کارنامہ مرزائیوں کو اقلیت قرار دینا ہے۔

سیاست کو عبادت کا درجہ دیتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو شہید نے صدرایوب کے دور حکومت میں وزارت خارجہ سے استعفی دیکر عوام سے رجوع کیا اور جلد ہی عوام کے دلوں میں بس گئے، ذوالفقار علی بھٹو شہید کی وزارت خارجہ سے استعفی کو امریکی ان بن ہی تناظر میں دیکھا گیا۔ تمام ترقی پذیر ممالک انہیں ایک سامراج دشمن رہنما کے طور پر جانتے اور مانتے تھے۔ کیونکہ؟ اس لئے کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے ہر موڑ پر ان کی جنگ بے باقی اور بے جگری سے لڑی۔ برٹرینڈرسل کا ایک اورخط بھی جو انہوں نے مصر کے صدر جمال عبدالناصر کو لکھا وہ بہت اہم ہے۔

میں نے امریکہ کی ان کوششوں کو بڑی تشویش کے ساتھ دیکھا ہے جو وہ ایسے رہنمائوں کو تباہ کرنے کیلئے کرتا ہے جو بیرونی لٹیروں اور مغربی ملکوں کے دباؤ کی مزاحمت کرتے ہوئے اپنی قوم کے مفادات کو آگے بڑھانے کی صحیح کرتے ہیں یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ آپ بخوبی واقف ہیں کہ گھانا اور انڈونیشیا میں بھی یہ سازشیں ہو چکی ہیں اور اگر آپ پوری طرح باخبر نہ ہوتے تو یہی کچھ متحدہ عرب جمہوریہ میں ہو سکتا تھا حال ہی میں امریکہ اور برطانیہ نے ذوالفقار علی بھٹو شہید کو وزارت خارجہ سے علیحدہ کرانے کیلئے زبردست دبائو سے کام لیا مسٹر بھٹو بلا شبہ پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کے معمار ہیں مسٹر بھٹو نے تن تنہا افریقی اور ایشیائی استحکام کیلئے جدوجہد کی اور متحدہ جمہوریہ کے ساتھ تعلقات میں اضافہ کیلئے کئی خطرات مول لئے۔

برٹرینڈ نسل کے یہ الفاظ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی آزادانہ پالیسی کی عکاسی کرتے ہیں ذوالفقار علی بھٹو شہید کا ایک اور عظیم کارنامہ شملہ معاہدہ ہے۔ شملہ معاہدہ جس پر جناب بھٹو نے برسر اقتدار آنے کے 6 ماہ بعد دستخط کئے برصغیر ہی نہیں جدید تاریخ عالم کا ایک اہم واقعہ ہے۔ عام طور پر آج کل کے دور میں مذاکرات کی میز پر کھوئے ہوئے علاقے لینے کی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ برصغیر کی تاریخ میں یہ معاہدہ اپنی مثال آپ تھا۔

اس سے قبل بھارت اور پاکستان کے مابین اہم مسائل پر دوطرفہ مذاکرات میں ایسے دور رس نتائج کی حامل مفاہمت کبھی نہیں ہوئی تھی، شملہ معاہدہ امر واقعی کے اعتبار سے بھارت کے سیاسی ماہرین کے پورے جتھے پر ذوالفقار علی بھٹو کی انفرادی سفارتی عظمت اور ذاتی صلاحیت کی برتری کا ثبوت ہے۔

آج ذوالفقار علی بھٹو شہید کی 42 ویں برسی منائی جارہی ہے آج کے دن پیپلز پارٹی کے کارکن انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ان کے مزار پر حاضری دیں گے اور یہ عہد کریں گے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے افکار اور نظریات کے مطابق پاکستان کو ایک حقیقی جمہوری ریاست بنانے کیلئے اپنی اصولی جنگ جاری رکھیں گے۔