عصرِ حاضر میں بلغاریہ کے معروف ادیب ’’انتون ڈونچیو‘‘

April 05, 2021

براعظم یورپ کے جنوب مشرقی خطہ میں واقع ملک’’بلغاریہ‘‘ اپنی تاریخ کے اعتبار سے بے حد دلچسپ خطہ ہے۔ اس ملک پر خلافت عثمانیہ کی حکومت رہی، مقامی بادشاہت نے راج کیا، کمیونسٹ پارٹی بھی شریک اقتدار رہی، پہلی جنگ عظیم میں بھی یہ ملک شامل رہا۔ موجودہ دور میں بھی اس ملک کی اپنی ایک کلیدی اہمیت ہے، اس سے جنم لینے والی ثقافت اور شعر و ادب میں بھی انفرادیت ہے۔ ایک سروے کے مطابق، بلغاریہ میں سب سے زیادہ پسند کیے گئے ناولوں میں، جس ناول کو دوسرا مقام حاصل ہوا، اس ناول کے تخلیق کار کا نام’’انتون ڈونچیو‘‘ ہے، وہ عالمی شہرت یافتہ ہیں اور اب بھی لکھتے پڑھتے ہیں۔

’’انتون ڈونچیو‘‘ موجودہ بلغاریہ میں پسند کیے جانے والے ایسے اہم ادیب ہیں، جنہوں نے اپنی دانشوری سے ملکی تاریخ اور رجحانات کو عوام الناس کے تفہیم کے لیے ادبی انداز میں لکھا۔ 1930 میں پیدا ہونے والے اس ادیب نے تاریخ کے کئی بڑے واقعات اپنے سامنے ہوتے دیکھے۔ 1948 میں اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ 1953میں بلغاریہ کے سب سے مشہور شہر’’صوفیہ‘‘ کی سرکاری یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے اور عدلیہ کی بجائے بطور ادیب اور قلم کار اپنا پیشہ منتخب کیا۔

مصنف کا بچپن حیرتوں کا جہان محسوس ہوتا ہے۔ ان کے والدین ڈاک خانے کے محکمے میں ملازم تھے۔ اس لیے ان کاتبادلہ بلغاریہ کے مختلف شہروں میں ہوتا رہا، یہی وجہ ہے کہ مصنف کے ذہن میں کسی ایک گھر کی یادیں یورش نہیں کرتیں، وہ ایک ایسے گھر میں بھی رہے، جو سو سال سے زیادہ قدیم تھا۔ بچپن سے ہی ذہین واقع ہونے والے اس مصنف نے 25 سال کی عمر میں پہلی کتاب لکھ ڈالی، جس میں وہ شریک مصنف تھے۔

حساس طبیعت ہونے کی وجہ سے ابتدائی زندگی میں شاعری سے رغبت ہوئی، آگے چل کر ناول اور افسانوی ادب کی طرف راغب ہوگئے۔ دو شادیاں کیں، ایک بیوی بلغاریہ میں شطرنج کی ملکی سطح کی فاتح تھی، دوسری بیوی کا تعلق ریڈیو بلغاریہ سے تھا۔ ان کے کئی ناولوں کی کہانی پر ان کی ذاتی زندگی کی پرچھائیاں بھی دکھائی دیتی ہیں، جس کامصنف نے خود بھی اعتراف کیا ہے۔

انہوں نے تاریخی ناولوں کو لکھنے کے ساتھ ساتھ بلغارین سینماکے لیے اسکرین رائٹنگ بھی کی، وہ بے حد کامیاب رہے۔ مزید آگے چل کر مدرس کی حیثیت سے بھی بلغارین اکادمی برائے سائنس سے وابستہ ہوگئے۔ ان کاشمار بلغاریہ میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیادرکھنے والوں میں ہوتا ہے، جس کے تحت آج کا بلغاریہ اپنی جداگانہ شناخت رکھتا ہے۔ انہوں نے تقریباً آٹھ ناول، سات فلموں کے اسکرین پلے لکھے، ایک مجموعہ ان کی کہانیوں اور مضامین کا بھی اشاعت پذیر ہوا۔

ان کا سب سے مشہور ناول’’ٹائم آف پارٹنگ‘‘ ہے، جس کو ہم’’جدا ہونے کا وقت‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ مصنف اپنی کتابوں کے بارے میں کہتے ہیں’’میں نے یہ کتابیں صرف لکھی ہی نہیں ہیں، بلکہ میں نے جونغمے گائے ہیں، ان کو قلم بند کیا ہے۔‘‘ مصنف نے اپنے اس مشہور ناول کو محض 41دن میں لکھا، یہ الگ بات ہے، پھر انہوں نے اس پر اگلے چار سال کام کیا اور حتمی شکل دی، جس کے بعد وہ شائع ہوا۔

’’انتون ڈونچیو‘‘ کا یہ دوسرا ناول تھا، جس کی اشاعت 1964 میں ہوئی۔ 2008 اور 2009 کے ایک سروے کے مطابق، بلغارین زبان کے ادب میں، یہ اب تک مقبولیت کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہے، اس پر بنائی جانے والی فلم’’ٹائم آف وائلنس‘‘ یعنی’’تشدد کا وقت‘‘ کے نام سے بنائی گئی۔ یہاں اسی ناول اور فلم کا انتخاب کیا گیا ہے۔

اس ناول کو بلغاریہ کے تاریخی نشیب وفراز کے تناظر میں لکھا گیا ہے اوراس میں متذکرہ وقت وہ ہے، جب بلغاریہ، خلافت عثمانیہ کا حصہ تھا اور ترک حکمران فضل احمد پاشا بطور خلیفہ متحرک تھے۔ ا س فلم کی کہانی کے مرکزی کردار بلغاریہ کے مسلمان ہیں، جنہیں بلغارین زبان میں ’’پوماک‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ناول تیس سے زیادہ زبانوں میں شائع ہوا،جبکہ اس کی دوملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔

متذکرہ ناول پر بنائی جانے والی فلم’’ٹائم آف وائلنس‘‘ کی آفیشل نمائش کا سال 1988 ہے۔’’انتون ڈونچیو‘‘ کے ناول پر مبنی اس فلم کے اسکرپٹ کو تین لکھاریوں نے مل کر لکھا۔ اس فلم کو دو حصوں میں تقسیم کرکے فلمایا گیا اور پھر جوڑ کر ایک فلم کی شکل دے دی گئی۔ اس کو فرانس کے مقبول فلمی میلے’’کانز فلم فیسٹیول‘‘ میںبھی نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ اس فلم کو آسکر ایوارڈز کے لیے’’بہترین غیر ملکی فلم‘‘ کے طور پر نامزد کیا گیا۔

اس فلم کے ہدایت کار’’لدمل اسٹیکوو‘‘ ہیں، جنہوں نے یہ تاریخی نوعیت کی حامل فلم بنائی۔ وہ مقامی تھیٹر میں بھی بہت فعال ہیں۔ مغربی سینما میں اس فلم کواتنی اہمیت ملی کہ کئی اداکاروں کے لیے ہالی ووڈ کے راستے کھل گئے اور ان کو وہاں بطور اداکار کام دیا گیا۔ اس ناول کو پڑھ کر اور فلم کو دیکھ کریہ احساس قوی ہوتا ہے، اگر آپ اپنے ملک کو جدید دنیا کے سامنے، اپنی مرضی کے پہلوئوں اور جہتوں کے ساتھ پیش کرنا چاہتے ہیں، تو ناول لکھیں ،فلمیں بنائیں۔