اللہ اور اُس کے حبیب حضرت محمد مصطفٰیﷺ کے عاشقوں کا رمضان

April 13, 2021

ڈاکٹر محمد جاوید ایم۔ ڈی

’’رمضان المبارک ‘‘کا پورا مہینہ درحقیقت اللہ اور اس کے حبیب حضرت محمدﷺ کےعاشقوں کی معراج کا مہینہ ہے ۔ کہیں محبوب کے کلام کو پڑھ کر آنکھیں ٹھنڈی کی جاتی ہیں ، تو کہیں اس کی رضا ،قرب اور طلب میں راتوں کو آنسو بہائے جاتے ہیں اور کہیں دن کو روزے رکھ کر اپنے نفس کو محبوب کے وصال کےلیے تیار کیا جاتا ہے ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا کہ :

عاشقاں را سہ علامت اے پسر

آہ سرد ، چشم تر، رنگ زرد

یعنی اے بیٹے، عاشقوں کی تین علامات ہوتی ہیں ، ٹھنڈی آہیں بھرنا، آنکھوں کا ہر وقت آنسوؤں سے تر رہنا اور عشق کی آگ میں جلتے رہنا ۔ جیسے کسی نے کہا ہے :

پریت کی ریت انوکھی دیکھی

نین بھرے کے بھرے

پریمی کیسے بات کرے پریتم سے

جی ہی جی میں ڈرے

تصوف کی تعلیمات کا نچوڑ ہے کہ بندہ یا سالک، اللہ کی محبت میں فنا ہوجائے۔ رمضان المبارک درحقیقت اللہ کے قرب و رضا کی تلاش اور اس کے عشق میں مستغرق ہوجانے کا مہینہ ہے۔

ایسے ہی عاشقوں کے بارے میں حبیب خدا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے کیا خوب فرمایا، حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’روزہ اور قرآن دونوں بندے کی سفارش کریں گے،روزہ عرض کرے گا کہ اے میرے پروردگار، میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پورا کرنے سے روکے رکھا تھا،آج میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما اور قرآن کہے گا کہ میں نے اسے رات کے سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا، خداوندا، آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، چناںچہ روزے اور قرآن دونوں کی سفارش اُس(اللہ کے عاشق ) بندے کے حق میں قبول کی جائے گی اور اُس کے لیے مغفرت اور جنت کا فیصلہ فرما دیا جائے گا۔‘‘ (بیہقی / شعب الایمان)

صحابیِ رسولؐ حضرت سہل بن سعد ساعدیؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے، جسے’’باب الرّیّان‘‘ کہا جاتا ہے، اس دروازے سے قیامت کے روز صرف روزے داروں کا داخلہ ہوگا، اُن کے سِوا اس دروازے سے کوئی اور داخل نہیں ہوسکے گا، اُس دن پُکارا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ بندے جو اللہ کے لیے روزے رکھا کرتے تھے (اور بُھوک پیاس کی تکلیف اُٹھایا کرتے تھے) وہ اُس دن پکار پر چل پڑیں گے، اُن کے سِوا اس دروازے سے کسی اور کا داخلہ نہیں ہوسکے گا۔ جب وہ روزے دار اس دروازے سے جنت میں پہنچ جائیں گے تو یہ دروازہ بند کردیا جائے گا، پھر کسی کا اس سے داخلہ نہیں ہوسکے گا۔‘‘ (صحیح بخاری )

ایک بہت بڑے شیخ کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ اپنے مریدین کو دو برس کےلیے اپنے پاس روک کر اللہ کا ذکر سکھاتے اور اس حد تک پہنچادیتےکہ سالک میں اللہ سے انس اور ہیبت پیدا ہوجائے۔

کسی نےحضرت جنید بغدادیؒ سے پوچھا کہ حق تعالیٰ کی صفت بیان فرمایئے،تو آپ نے فرمایا:یعنی وہ ہے بغیر اس کے ( جہاں اشارے کو بھی دخل نہیں ) اور نہیں ہے مگر وہی ۔

اخبار الاخیار جو شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کی مشہور کتاب ہے ،اس میں خواجہ معین الدین چشتیؒ کے وصال کا واقعہ لکھا ہے : آپ کی وفات کے بعد آپ کی پیشانی پہ یہ نقش ابھرا ہوا تھا ۔حبیب اللہ مات فی حب اللہ ( یعنی اللہ کا حبیب اللہ کی محبت میں چل بسا )

قطب الدین بختیار کاکیؒ جو خواجہ معین الدین ؒ کے خلیفہ ہیں جب ان کے سامنے یہ شعر پڑھا گیا :

کشتگان خنجر تسلیم را

ہر زماں ازغیب جان دیگر است

یعنی جو تسلیم و رضا کے خنجر سے مارا گیا ،اسے ہر وقت غیب سے ایک نئی جان عطا کی جاتی ہے۔آپ یہ شعر تین دن تک گنگناتے رہے اور اسی میں آپ کا انتقال ہوگیا ۔

تاریخ مشائیخ چشت میں ہے کہ شیخ بختیار کاکیؒ کے خلیفہ بابا فرید گنج شکر ؒ کو ان کے شیخ نے بہیمیت توڑنے کا حکم دیا تھا ۔ روزہ اور رمضان درحقیقت بہیمیت کے خاتمے ،اللہ اور اس کے حبیبﷺ کے عاشقوں کے لیےعبادت اور روحانیت کا موسم بہار ہے۔

حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے شیخ میاں جیو نور محمد جھنجھانویؒ کا انتقال کا وقت قریب آیا تو حاجی صاحبؒ آپ کی چارپائی کا پایا پکڑ کر رونے لگے، اس وقت میاں جیوؒ نے فرمایا کہ اللہ کا عاشق مرتا نہیں، ایک جہاں سے دوسرے جہاں میں منتقل ہو جاتا ہے ۔

کبھی کبھی اللہ کے عاشقوں کو دنیا کی ہر چیز میں اللہ کی کسی نہ کسی صفت کا مظہر نظر آتا ہے ۔ فضل الرٰحمان گنج مرادآبادی ؒ ایک شعر بار بار پڑھا کرتے تھے :

اپنے پیا پر تن ، من واروں

جو واروں سو تھوڑا رے

ندیا کنارے مورلا بولے

میں جانوں پیا مورا رے

اللہ کے ان عاشقوں نے اپنی زندگی کواللہ اور اس کے حبیب حضرت محمدﷺ کے عشق میں فنا کرلیاتھا ۔فنائیت کے اس جذبے اورعشق و اطاعت نے انہیں قیامت تک امر کردیا۔

آخر میں دل چاہتا ہے کہ حاجی امداداللہ مہاجر مکی ؒ کے کچھ اشعار پیش کروں:

دربدرکتنا پھرا دیکھا نہ کچھ مطلب حصول

ہر طرف سے ہو کے مایوس اب بہ امید وصول

آپڑا در پر ترے میں ہر طرف سے ہو ملول

کر تو ان ناموں کی برکت سے دعا میری قبول

حاجی صاحب نے فرمایا :

عشق اول ، عشق آخر ، عشق کل

عشق شاخ ، عشق نخل ، عشق گل

بلاشبہ، ماہِ مبارک رمضان کی ہر ہر ساعت عاشقوں کے لیے رب کی رضا کے حصول اور اس کے قرب کا عظیم موسم بہار ہے۔یہی وہ مبارک مہینہ ہے جس کی رحمت و مغفرت روزے دار کے رب سے عشق کو بڑھاتی اور روزہ درحقیقت اللہ اور اس کے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے عشق ،ان کے قرب و رضا اور اطاعت کا سرچشمہ بن جاتا ہے۔بنیادی طور پر رمضان اور روزہ رحمت و مغفرت کا سرچشمہ اور بندگانِ خدا کے لیے ایک نعمتِ غیرمترقبہ ہے۔