’’نمازِ تراویح‘‘ رمضان المبارک کی اہم عبادت

April 13, 2021

ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری

’’نمازِتراویح‘‘ نبی کریم ﷺ کی سنّت ہے اور احادیث مبارکہ میں اس کی فضیلت آئی ہے۔حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص صدق دل اور اعتقاد صحیح کے ساتھ رمضان میں قیام کرے یعنی (تراویح پڑھے) تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔(صحیح مسلم)

حضرت سلمان فارسیؓفرماتے ہیں کہ رسول پاکﷺ نے ماہ شعبان کے آخری دن بیان فرمایا : ’’اے لوگو! تمہارے پاس عظمت و برکت والا مہینہ آیاہے۔یہ وہ مہینہ ہے،جس میں ایک رات (ایسی بھی ہے جو) ہزار مہینوں سے افضل ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے کو فرض فرمایا ہے اور اس کی رات کے قیام یعنی تراویح کو بہت فضیلت دی ہے۔‘‘

تراویح رمضان المبارک کی ایک مسنون عبادت ہے،اس کا آغازآپ ﷺ کے زمانے میں ہی ہوا۔حضور ﷺ نے دو یا تین راتیں تراویح پڑھائیں،اس کے بعد صحابۂ کرامؓ آپﷺ کے منتظر رہے کہ آپﷺ تشریف لائیں،مگر رسول اللہ ﷺ کاشانۂ نبوت سے باہر تشریف نہیں لائے۔آپﷺ نے فرمایا: اگر میں باہر آجاتا تو تراویح تم پر فرض ہوجاتی۔

امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے۔وہ فرماتی ہیں کہ ماہ رمضان کی وسط رات میں ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے نماز تراویح پڑھی،لوگوں نے بھی آپﷺ کی اقتدا میں نماز ادا کی۔ دوسری رات نمازیوں کی اتنی کثرت ہوئی کہ مسجد تنگ ہوگئی،لیکن رسول اللہ ﷺ اپنے حجرۂ مبارک سے باہر تشریف نہیں لائے،بلکہ صبح فجر کی نماز کے لیے تشریف لائے۔ نماز فجر سے فارغ ہوکر آپﷺ نے لوگوں سے خطاب فرمایا ’’تمہاری رات کی حالت مجھ سے پوشیدہ نہیں تھی،لیکن اندیشہ یہ تھا کہ کہیں نماز تراویح تم پر فرض ہوجائے اور تم اس کے ادا کرنے سے عاجز ہوجائو۔‘‘

نبی اکرمﷺ کے وصال کے بعد صحابہؓ پہلے انفرادی طور پر قیام اللیل کرتے اور بعض نے اسے باجماعت پڑھنا شروع کیا۔حضرت عمرؓ کے دور میں حضرت ابی بن کعبؓ کو امام بنا کر باجماعت قیام اللیل یا تراویح پڑھنے کا اہتمام کیا گیا، تاکہ لوگوں کو آسانی ہو اور وہ جماعت کا ثواب بھی حاصل کرسکیں۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ ارشادفرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے مجھ سے جب نماز تراویح کی حدیث سنی تو آپ نے اس پر عمل فرمایا،لوگوں نے دریافت کیا،امیر المومنین، وہ حدیث کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا:میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:’’عرش الٰہی کے اردگرد ایک جگہ ہے جس کا نام ’’حفیرۃ القدس‘‘ ہے،وہ نور کی جگہ ہے،اس میں اتنے فرشتے ہیں کہ جن کی تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ وہ عبادت الٰہی میں مصروف رہتے ہیں اور اس میں ایک لمحہ بھی کوتاہی نہیں کرتے۔ جب ماہ رمضان کی راتیں آتی ہیں تو یہ اپنے رب سے زمین پر اترنے کی اجازت طلب کرتے ہیں اور وہ بنی آدم کے ساتھ مل کر نماز پڑھتے ہیں۔

امت محمدیہ میں سے جس نے انہیں چھوا یا انہوں نے کسی کو چھوا تو وہ ایسا نیک بخت و سعید بن جاتا ہے کہ پھر کبھی بدبخت و شقی نہیں بنتا۔ یہ سن کر حضرت عمر فاروقؓ نے ارشاد فرمایا،جب اس نماز تراویح کی یہ شان ہے تو ہم اس کے زیادہ حق دار ہیں، پھر آپ نے تراویح کی جماعت قائم کر کے اسے اجتماعی طورپر ادا کرنے کا اہتمام فرمایا۔ آپ کے زمانے میں تراویح کی نماز ہمیشہ پڑھی گئی،اسی وجہ سے اس کی نسبت آپ سے کی جاتی ہے۔درحقیقت تراویح کا خصوصی اہتمام اور اس کی باقاعدہ جماعت کرانے کا سہرا حضرت فاروق اعظمؓ کے سر ہے۔

امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ ماہ رمضان کی ابتدائی رات میں جب گھر سے باہر تشریف لاتے اور مسجدوں میں تلاوت قرآن سنتے تو فرماتے ’’اے اللہ! عمرؓ کی قبر کو روشن کردے کہ انہوں نے اللہ کی مسجدوں کو قرآن سے منور کیا۔حضور اکرم ﷺ کے جلیل القدر صحابی حضرت ابوذر غفاریؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی (تراویح) رمضان المبارک کی تیئسویں رات کو ایک تہائی تک حضور ﷺ نے کھڑے ہوکر نماز پڑھائی،چوبیسویں رات کو آپ ﷺ تشریف نہیں لائے، پچیسویں رات کو تشریف لائے تو نصف شب تک نماز پڑھائی۔ہم نے عرض کیا اگر حضورﷺ ہمیں آج پوری رات نفل پڑھاتے تو خوب ہوتا۔

حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص امام کے ساتھ نماز ختم ہونے تک باجماعت نماز میں کھڑا رہا،اسے پوری رات کا ثواب ملے گا۔ چھبیسویں شب حضور اکرم ﷺ تشریف نہ لائے،پھر ستائیسویں شب آئی تو رسول اللہ ﷺ نے اہل بیت اطہارؓ کو بھی جمع فرمایا اور ہم سب صحابہؓ کو ساتھ لے کر نماز پڑھائی،یہاں تک کہ ہمیں خوف ہوا کہ ہماری فلاح نہ فوت ہوجائے۔ لوگوں نے عرض کیا، فلاح کے کیا معنیٰ ہیں۔ آپ نے فرمایا: سحری۔رسول اکرم ﷺ نے باجماعت تراویح پڑھنے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:جوشخص امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے یہاں تک کہ وہ نماز سےفارغ ہوجاتا ہے تو اس کے لیے ساری رات کا قیام لکھ دیا جاتا ہے۔